کس چیز کو رہن رکھ سکتے ہیں
مسئلہ ۱: مشاع کو مطلقاً رہن رکھنا ناجائز ہے۔ وہ چیز رہن رکھتے وقت ہی مشاع تھی یا بعد رہن شیوع آیا۔ وہ چیز قابل قسمت ہو یا ناقابل تقسیم ہو۔ اجنبی کے پاس رہن رکھے یا شریک کے پاس سب صورتیں ناجائز ہیں ۔ پہلے کی مثال یہ ہے کہ کسی نے اپنا نصف مکان رہن رکھ دیا اس نصف کو ممتاز نہیں کیا۔ بعد میں شیوع پیدا ہو اس کی مثال یہ ہے کہ پوری چیز رہن رکھی پھر دونوں نے نصف میں رہن کو فسخ کر دیا۔ مثلاً راہن نے کسی کو حکم کر دیا کہ وہ مرہون کو جس طرح چاہے بیع کر دے اس نے نصف کو بیع کر دیا ان صورتوں کی مثالیں ظاہر ہیں ۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۲: مشاع کو رہن رکھا فاسد ہے یا باطل۔ صحیح یہ ہے کہ باطل نہیں بلکہ فاسد ہے لہذا مرہون پر مرتہن کا اگر قبضہ ہو گیا تو قبضہ قبضۂ ضمان ہے کہ مرہون اگرہلاک ہو جائے تو وہی حکم ہے جو رہن فسخ کا تھا۔ (درمختار)
فائدہ: رہن فاسدو باطل میں فرق یہ ہے کہ باطل وہ ہے جس میں رہن کی حقیقت ہی نہ پائی جائے کہ جس چیز کو رہن رکھا وہ مال ہی نہ ہو یا جس کے ردد میں رکھا وہ مال ردد ہو اور فاسد وہ ہے کہ رہن کی حقیقت پائی جائے مکر جو زالی شرطوں میں سے کوئی شرط مفقود ہو جس طرح بیع فاسد و باطل کا فرق ہے یہاں بھی ہے ۔ (شرنبلالی)
مسئلہ۳: ایسی چیز رہن رکھی جو دوسری چیز کے ساتھ متصل ہے یعنی اس کی رہن ہے یہ رہن بھی ناجائز ہے جیسے درخت پر پھل ہیں اور صرف پھلوں کو رہن رکھایا صرف زراعت یا صرف د رخت کو رہن رکھازمین کو نہیں یا ان کا عکس یعنی درخت کو رہن رکھا پھل کو نہیں یازمین کو رہن رکھا زراعت اور درخت کو نہیں رکھا۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۴: درخت کو صرف اتنی زمین کے ساتھ رہن رکھا جتنی زمین میں درخت ہے۔ باقی آس پاس کی زمین نہیں رکھی یہ جائز ہے اور اس صورت میں درخت کے پھل بھی تبعاً رہن میں داخل ہو جائیں گے اسی طرح زمین رہن رکھی یا گائوں کو رہن رکھا تو جو کچھ درخت ہیں یہ بھی تبعاً رہن ہو جائیں گئے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۵: اس میں اور پہلی صورتوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی صورتوں میں متصل چیز کے رہن کرنے کی نفی کر دی لہذا صحیح نہیں اور یہاں توابع کے متعلق سکوت ہے لہذا یہ تبعاً داخل ہیں ۔
مسئلہ ۶: جو چیز کسی برتن یا مکان میں ہے فقط چیز کو رہن رکھا برتن یا مکان کو رہن نہیں رکھایہ جائز ہے کہ اس صورت میں اتصال نہیں ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۷: کاٹھی اور لگام رہن رکھی اور گھوڑا کسا کسا یا مرتہن کو دے دیا یہ رہن ناجائز ہے بلکہ اس صورت میں یہ ضروری ہے کہ ان چیزوں کو گھوڑے سے اتار کر مرتہن کو دے اور گھوڑا رہن رکھا اور کاٹھی لگام سمیت مرتہن کو دے دیا یہ جائز ہے یہ ساز بھی تبعاً رہن میں داخل ہو جائیں گے۔ (ہدایہ)
مسئلہ ۸: آزاد کو رہن نہیں رکھ سکتے کہ یہ مال نہیں اور شراب کو رہن رکھنا بھی جائز نہیں کہ اس کی بیع نہیں ہو سکتی۔ جائداد موقوفہ کو بھی رہن نہیں رکھا جا سکتا۔ (درمختار)
مسئلہ ۹: تیس (۳۰) روپے قرض لئے اور دو بکریاں رہن رکھیں ایک کو دس (۱۰) کے مقابل دوسری کو بیس (۲۰) کے مقابل مگر یہ نہیں بیان کیا کہ کون سی دس (۱۰) کے مقابل ہے اور کون سی بیس (۲۰) کے مقابل یہ ناجائز ہے۔ کیونکہ اگر ایک ہلاک ہو گئی تو یہ جھگڑا ہو گا کہ یہ کس کے مقابل تھی تاکہ اس کے مقابل کا دین ساقط ہونا قرار پائے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۱۰: مکان کو رہن رکھا اور راہن و مرتہن دونوں اس مکان کے اندر ہیں راہن نے کہا میں نے یہ مکان تمہارے قبضہ میں دیا۔ اور مرتہن نے کہا کہ میں نے قبول کیا رہن تمام نہ ہوا جب تک راہن مکان سے باہر ہو کر مرتہن کو قبضہ نہ دے۔ (عالمگیری)
مسئلہ ۱۱: امانتوں کے مقابل میں کوئی چیز رہن نہیں رکھی جا سکتی ہے مثلاً وکیل یا مضارب کو جو مال دیا جاتا ہے وہ امانت ہے یا مودع کے پاس ودیعت امانت ہے ان لوگوں سے مال والا کوئی چیز رہن کے طور پر لے یہ نہیں ہو سکتا اگر لے گا تو یہ نہیں نہ اس پر رہن کے احکام جاری ہوں گے لہذا اگر کسی نے کتابیں وقف کی ہیں اور یہ شرط کر دی ہے کہ جو شخص کتب خانہ سے کوئی کتاب لے جائے تو اس کے مقابل میں کوئی چیز رہن رکھ جائے یہ شرط باطل ہے کہ مستعیر کے پاس عاریت امانت ہے اس کے تلف ہونے پر ضمان نہیں پھر اس کے مقابل میں رہن رکھنا کیونکر صحیح ہو گا۔ (درمختار ، ردالمحتار) وقفی کتابوں کا خاص کر اس لئے ذکر کیا گیا کہ یہاں واقف کی شرط کا بھی اعتبار نہیں ورنہ حکم یہ ہے کہ کوئی چیز عاریت دی جائے اس کے مقابل میں رہن نہیں ہو سکتا۔
مسئلہ ۱۲: شرکت کی چیز شریک کے پاس ہے دوسرا شریک اس سے کوئی چیز رہن رکھوائے صحیح نہیں کہ یہ بھی امانت ہے مبیع بائع کے پاس ہے ابھی اس نے مشتری کو دی نہیں مشتری اس سے رہن نہیں رکھوا سکتا کہ مبیع اگرچہ امانت نہیں مگر بائع کے پاس اگر ہلاک ہو جائے تو ثمن کے مقابل میں ہلاک ہو گئی یعنی بائع مشتری سے ثمن نہیں لے سکتا یا لے چکا ہے تو واپس کرے لہذا رہن کا حکم یہاں بھی جاری نہ ہوا۔ (ہدایہ)
مسئلہ۱۳: درک کے مقابل میں رہن نہیں ہو سکتا یعنی ایک چیز خریدی ثمن ادا کر دیا اور مبیع پر قبضہ کر لیا مگر مشتری کو ڈر ہے کہ یہ چیز اگر کسی دوسرے کی ہوئی اور اس نے مجھ سے لے لی تو بائع سے ثمن کی واپسی کیونکر ہو گی اس اطمینان کی خاطر بائع کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھنا چاہتا ہے یہ رہن صحیح نہیں مشتری کے پاس اگر یہ چیز ہلاک ہو گئی تو ضمان نہیں کہ یہ رہن نہیں ہے بلکہ امانت ہے اور مشتری کو اس کا روکنا جائز نہیں یعنی بائع اگر مشتری سے چیز مانگے تو منع نہیں کر سکتا دینا ہو گا۔ (درر ، غرر) اور چونکہ یہ چیز مشتری کے پاس امانت ہے اور اس کو روکنے کا حق نہیں ہے لہذا بائع کی طلب کے بعد اگر نہ دے گا اور ہلاک ہو گئی تو اب تاوان دینا ہو گا۔ اب وہ غاصب ہے۔
مسئلہ۱۴: کسی چیز کا نرخ چکا کر بائع کے یہاں سے لے گیا اور ابھی خریدی نہیں ہاں خریدنے کا ارادہ ہے اور بائع نے اس سے کوئی چیز رہن رکھوالی یہ جائز ہے اس بارے میں یہ چیز مبیع کے حکم میں نہیں ہے۔ (زیلعی)
مسئلہ۱۵: دین موعود کے مقابل میں رہن رکھنا جائز ہے جس کا ذکر پہلے ہو چکا کہ مثلاً کسی سے قرض مانگا اور اس نے دینے کا وعدہ کر لیا ہے مگر ابھی دیا نہیں قرض لینے والا اس کے پاس کوئی چیز رہن رکھ آیا یہ رہن صحیح ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ۱۶: جس صورت میں قصاص واجب ہے وہاں رہن صحیح نہیں اور خطا کے طور پرجنایت ہوئی کہ اس میں دیت واجب ہو گی یہاں رہن صحیح ہے کہ مرہون سے اپنا حق وصول کر سکتا ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۱۷: خریدار پر شفع ہوا اور شفیع کے حق میں فیصلہ ہوا کہ تسلیم مبیع مشتری پر واجب ہو گئی شفیع یہ چاہے کہ مشتری کی کوئی چیز رہن رکھ لوں یہ نہیں ہو سکتا جس طرح بائع سے مشتری مبیع کے مقابل میں رہن نہیں لے سکتا ۔ مشتری سے شفیع بھی نہیں لے سکتا۔ (درمختار)
مسئلہ۱۸: جن صورتوں میں اجارہ باطل ہے ایسے اجارہ میں اجرت کے مقابل میں کوئی چیز رہن نہیں ہو سکتی کہ شرعاً یہاں اجرت واجب ہی نہیں کہ رہن صحیح ہو مثلاً نوحہ کرنے والی کی اجرت یا گانے والے کی اجرت نہیں دی ہے۔ اس کے مقابل میں رہن نہیں ہو سکتا۔ (درمختار) جن صورتوں میں رہن صحیح نہ ہو ان میں مرہون امانت ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے سے ضمان نہیں اور راہن کے طلب کرنے پر مرہون کو دے دینا ہو گا۔ اگر روکے گا تو غاصب قرار پائے گا اور تاوان واجب ہو گا۔
مسئلہ۱۹: غاصب سے مغصوب کے مقابل میں کوئی چیز رہن لی جا سکتی ہے یہ رہن صحیح ہے اسی طرح بدل خلع اور بدل صلح کے مقابل میں رہن تو ہو سکتا ہے مثلاً عورت نے ہزار روپے پر خلع کرایا اور روپیہ اس وقت نہیں دیا روپے کے مقابل میں شوہر کے پاس کوئی چیز رہن رکھ دی یہ رہن صحیح ہے یا قصاص واجب تھا مگر کسی رقم پر صلح ہو گئی اس کے مقابل میں رہن رکھنا صحیح ہے۔ (درمختار)
مسئلہ۲۰: مکان یا کوئی چیز کرایہ پر لی تھی اور کرایہ کے مقابل میں مالک کے پاس کوئی چیز رہن رکھ دی یہ رہن جائز ہے پھر اگر مدت اجارہ پوری ہونے کے بعد وہ چیز ہلاک ہوئی تو گویا مالک نے کرایہ وصول پا لیا اب مطالبہ نہیں کر سکتا اور اگر مستاجر کے منفعت حاصل کرنے سے پہلے چیز ہلاک ہو گئی تو رہن باطل ہے مرتہن پر واجب ہے کہ مرہون کی قیمت راہن کو دے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۱: درزی کوسینے کے لئے کپڑا دیا اور سینے کے مقابل میں اس سے کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھوائی یہ جائز اور اگر اس کے مقابل میں رہن ہے کہ تم کو خود سینا ہو گا یہ رہن ناجائز ہے۔ یونہی کوئی چیز عاریت دی اور اس چیز کی واپسی میں باربرداری صرف ہو گی لہذا معیر نے مستعیر سے کوئی چیز واپسی کے مقابل میں رکھوائی یہ جائز ہے اور اگر یوں رہن رکھوائی کہ تم کو خود پہنچانی ہو گی توناجائز ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۲: بیع سلم کے راس المال کے مقابل میں رہن صحیح ہے اور مسلم فیہ کے مقابل میں بھی صحیح ہے۔ اسی طرح بیع صرف کے ثمن کے مقابل میں رہن صحیح ہے۔ پہلے کی صورت یہ ہے کہ کسی شخص سے مثلاً سو (۱۰۰) روپے میں سلم کیا اور ان روپوں کے مقابل میں کوئی چیز رہن رکھ دی۔ دوسرے کی یہ صورت ہے کہ دس (۱۰) من گیہوں میں سلم کیا اور روپے دے دیئے اور مسلم الیہ سے کوئی چیز رہن لے لی۔ تیسرے کی یہ صورت ہے کہ روپے سے سونا خریدا اور روپے کی جگہ پر کوئی چیز سونے والے کو دے دی۔ پہلی اور تیسری صورت میں اگر مرہون اسی مجلس میں ہلاک ہو جائے تو عقد سلم و صرف تمام ہو گئے اور مرتہن نے اپنا مال وصول پا لیا یعنی بیع سلم میں راس المال مسلم الیہ کو مل گیا اور بیع صرف میں زر ثمن وصول ہو گیا مگر یہ اس وقت ہے کہ مرہون کی قیمت راس المال اور ثمن صرف سے کم نہ ہو اور اگر قیمت کم ہے تو بقدر قیمت صحیح ہے مابقی کو اگر اسی مجلس میں نہ دیا تو اس کے مقابل میں صحیح نہ رہا اور اگر مرہون اس مجلس میں ہلاک نہ ہوا اور عاقدین جدا ہو گئے اور راس المال و ثمن صرف اسی مجلس میں نہ دیا تو عقد سلم و صرف باطل ہو گئے کہ ان دونوں عقدوں میں اسی مجلس میں دینا ضروری تھا جو پایا نہ گیا۔ اور اس صورت میں چونکہ عقد باطل ہو گئے لہذا مرتہن راہن کو مرہون واپس دے۔ اور فرض کرو مرتہن نے ابھی واپس نہیں دیا تھا اور مرہون ہلاک ہو گیا تو راس المال و ثمن صرف کے مقابل میں ہلاک ہونا مانا جائے گا یعنی وصول پانا قرار دیا جائے گا مگر وہ دونوں عقداب بھی باطل ہی رہیں گے اب جائز نہیں ہوں گے۔ دوسری صورت یعنی مسلم فیہ کے مقابل میں رب السلم نے اپنے پاس کوئی چیز رہن رکھی اس میں عقد سلم مطلقاً صحیح ہے مرہون اسی مجلس میں ہلاک ہو یا نہ ہو دونوں کے جدا ہونے کے بعد ہو یا نہ ہو کہ راس المال پر قبضہ جو مجلس عقد میں ضروری تھا وہ ہو چکا اور مسلم فیہ کے قبضہ کی ضرورت تھی ہی نہیں لہذا اس صورت میں اگر مرہون ہلاک ہو جائے تو مجلس میں یا بعد مجلس بہر صورت عقد سلم تمام ہے۔ اور رب السلم کو گویا مسلم فیہ وصول ہو گیا یعنی مرہون کے ہلاک ہونے کے بعد اب مسلم فیہ کا مطالبہ نہیں کر سکتا ہاں گر مرہون کی قیمت کم ہو تو بقدر قیمت وصول سمجھا جائے باقی باقی ہے۔ (ہدایہ ، درمختار ، ردالمحتار)
مسئلہ۲۳: رب السلم نے مسلم فیہ کے مقابل میں اپنے پاس چیز رہن رکھ لی تھی اور دونوں نے عقد سلم کو فسخ کر دیا تو جب تک راس المال وصول نہ ہو جائے یہ چیز راس المال کے مقابل میں ہے یعنی مسلم الیہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ سلم فسخ ہو گیا لہذا مرہون واپس دو۔ ہاں جب مسلم الیہ راس المال واپس کر دے تو مرہون کو واپس لے سکتا ہے اور فرض کرو کہ راس المال واپس نہیں دیا اور رب السلم کے پاس چیز ہلاک ہو گئی تو مسلم فیہ کے مقابل میں اس کا ہلاک ہونا سمجھا جائے گا یعنی رب المال مسلم فیہ کی مثل مسلم الیہ کو دے اور اپنا راس المال واپس لے یہ نہیں کہ اس کو راس المال کے قائم مقام فرض کر کے راس المال کی وصولی قرار دیں ۔ (ہدایہ)
مسئلہ۲۴: سونا چاندی روپیہ اشرفی اور مکیل و موزون کو رہن رکھنا جائز ہے پھر ان کو رہن رکھنے کی دو صورتیں ہیں ۔ دوسری جنس کے مقابل میں رہن رکھا یا خود اپنی ہی جنس کے مقابل میں رکھا۔پہلی صورت میں یعنی غیر جنس کے مقابل میں اگر ہو مثلاً کپڑ ے کے مقابل روپیہ اشرفی یا جو گیہوں کو رہن رکھا اور یہ مرہون ہلاک ہو جائے تو اس کی قیمت کا اعتبار ہو گا اور اس صورت میں کھرے کھوٹے کا لحاظ ہو گا یعنی اگر اس کی قیمت دین کی برابر یا زائد ہے تو دین وصول سمجھا جائے گا اور اگر کچھ کمی ہے تو جو کمی ہے اتنی راہن سے لے سکتا ہے۔ اور اگر دوسری صورت ہے یعنی اپنی ہم جنس کے مقابل میں رہن ہے مثلاً چاندی کو روپیہ کے مقابل میں یا سونے کو اشرفی کے مقابل میں یا گیہوں کو گیہوں کے مقابل رہن رکھا اور مرہون ہلاک ہو گیا تو وزن وکیل (ناپ) کا اعتبار ہو گا۔ اور اس صورت میں کھرے کھوٹے کا اعتبار نہیں ہو گامثلاً سو (۱۰۰) روپے قرض لئے اور چاندی رہن رکھی اور یہ ضائع ہو گئی اور یہ چاندی سو روپے بھر یا زائد تھی تو دین وصول سمجھا جائے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سو (۱۰۰) روپے بھر چاندی کی مالیت سو (۱۰۰) روپے سے کم ہے اور سو (۱۰۰) روپے بھر سے کچھ کمی ہے تو اتنی کمی وصول کر سکتا ہے۔ (ہدایہ ، درمختار)
مسئلہ۲۵: سونے چاندی کی کوئی چیز مثلاً برتن یا زیور کو اپنی ہم جنس کے مقابل میں رہن رکھا اور چیز ٹوٹ گئی اگر اس کی قیمت وزن کی بہ نسبت کم ہے تو خلاف جنس سے اس کی قیمت لگا کر اس قیمت کو رہن قرار دیا جائے اور ٹوٹی ہوئی چیز کا مرتہن مالک ہو گیا اور راہن کو اختیار ہے کہ دین ادا کر کے وہ چیز لے لے اور اگر اس کی قیمت وزن کی بہ نسبت زیادہ ہے تو دوسری جنس سے قیمت لگا ئی جائے گی اور مرتہن پوری قیمت کا ضامن ہے اور یہ قیمت اس کے پاس رہن ہو گئی اور مرتہن اس ٹوٹی ہوئی چیز کا مالک ہو جائے گا۔ مگر راہن کو یہ اختیار ہو گا کہ پورا دین ادا کر کے فک راہن کرا لے ۔ (تبیین)
مسئلہ۲۶: ایک شخص سے دس درہم قرض لئے اور انگوٹھی رہن رکھ دی جس میں ایک درہم چاندی ہے اور نو درہم کا نگینہ ہے اور مرتہن کے پاس سے انگوٹھی ضائع ہو گئی تو گویا دین وصول ہو گیا اور اگر نگینہ ٹوٹ گیا تو اس کی وجہ سے انگوٹھی کی قیمت میں جو کچھ کمی ہوئی اتنا دین ساقط اور اگر انگوٹھی ٹوٹ گئی اور اس کی قیمت ایک درہم سے زیادہ ہے تو پوری قیمت کا ضمان ہے مگر یہ ضمان دوسری جنس مثلاً سونے سے لیا جائے گا۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۷: پیسے رہن رکھے تھے اور ان کا چلن بند ہو گیا یہ بمنزلہ ہلاک ہے اورا گر پیسوں کا نرخ سستا ہو گیا اس کا اعتبار نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۸: طشت لوٹا یا کوئی اور برتن رہن رکھا اور وہ ٹوٹ گیا اگر وہ وزن سے بکنے کی چیز نہ ہو تو جو کچھ نقصان ہوا اتنا دین ساقط اور اگر وہ وزن سے بکے تو راہن کو اختیار ہے کہ دین ادا کر کے اپنی چیز واپس لے یا اس کی جو کچھ قیمت ہو اتنے میں مرتہن کے پاس چھوڑ دے۔ (عالمگیری)
مسئلہ۲۹: پرائی چیز بیچ دی اور ثمن کے مقابل میں مشتری سے کوئی چیز رہن رکھوا لی مالک نے دونوں باتوں کو جائز کر دیا یہ بیع جائز ہے مگر رہن جائز نہیں ۔ (عالمگیری)
مسئلہ۳۰: کوئی چیز بیع کی اور مشتری سے یہ شرط کر لی کہ فلاں معین چیز ثمن کے مقابل میں رہن رکھے یہ جائز ہے اور اگر بائع نے یہ شرط کی کہ فلاں شخص کا کفیل ہو جائے اور وہ شخص وہاں حاضر ہے اس نے قبول کر لیا یہ بھی جائز ہے اور اگر بائع نے کفیل کو معین نہیں کیا ہے یا معین کر دیا ہے مگر وہ وہاں موجود نہیں ہے اوراس کے آنے اور قبول کرنے سے پہلے بائع و مشتری جدا ہو گئے تو بیع فاسد ہو گئی اسی طرح اگر رہن کے لئے کوئی چیز معین نہیں کی ہے تو بیع فاسد ہو گئی مگر جب کہ اسی مجلس میں دونوں نے رہن کو معین کر لیا یا اسی مجلس میں مشتری نے ثمن ادا کر دیا تو بیع صحیح ہو گئی مجلس بدل جانے کے بعد معین رہن یا ادائے ثمن سے بیع کا فساد دفع نہیں ہو گا۔ (ہدایہ ،د رمختار)
مسئلہ۳۱: بائع نے معین چیز رہن رکھنے کی شرط کی تھی اور مشتری نے یہ شرط منظور کر لی تھی اس صورت میں مشتری مجبور نہیں ہے کہ اس شرط کو پورا ہی کر دے کہ محض ایجاب و قبول سے عقد رہن لازم نہیں ہوتا۔ مگر مشتری نے اگر وہ چیزیں رہن رکھی تو بائع کو اختیار ہے کہ بیع کو فسخ کر دے مگر جب کہ مشتری ثمن ادا کر دے یا جو چیز رہن رکھنے کے لئے معین ہوئی تھی اسی قیمت کی دوسری چیز رہن رکھ دے تو اب بیع کو فسخ نہیں کر سکتا۔ (درمختار)
مسئلہ۳۲: کوئی چیز خریدی اور مشتری نے بائع کو کوئی چیز دے دی کہ اسے رکھے جب تک دام نہ دوں تو یہ چیز رہن ہو گئی اورا گر جو چیز خریدی ہے اسی کے متعلق کہا کہ اسے رکھے رہو جب تک دام نہ دوں تو اس میں دو صورتیں ہیں اگر مشتری نے اس پر قبضہ کر لیا تھا پھر بائع کو یہ کہہ کر دے دی کہ اسے رکھو رہو تو یہ رہن بھی صحیح ہے اور اگر مشتری نے قبضہ نہیں کیا تھا اور مبیع کے متعلق وہ الفاظ کہے تو رہن صحیح نہیں کہ وہ تو بغیر کہے بھی ثمن کے مقابل میں محبوس ہے۔ بائع بغیر ثمن لئے دینے سے انکار کر سکتا ہے۔ (ہدایہ)
مسئلہ۳۳: مشتری نے چیز خرید کر بائع کے پاس چھوڑ دی کہ اسے رکھے رہو دام دے کر لے جائوں گا اور مشتری چیز لینے نہیں آیا اور چیز ایسی ہے کہ خراب ہو جائے گی مثلاً گوشت ہے کہ رکھا رہنے سے سڑ جائے گا یا برف ہے جو گھل جائے گی بائع کو ایسی چیز کا دوسرے کے ہاتھ بیع کر دینا جائز ہے اور جسے معلوم ہے کہ یہ چیز دوسرے کی خریدی ہوئی ہے اس کو خریدنا بھی جائز ہے مگر بائع نے اگر زائد داموں سے بیچا تو جو کچھ پہلے ثمن سے زائد ہے اسے صدقہ کر دے۔ (درمختار)
مسئلہ۳۴: دائن نے مدیون کی پگڑی لے لی کہ میرا دین دو گے اس وقت پگڑی دوں گا اگر مدیون بھی راضی ہو گیا اور چھوڑ آیا تو رہن ہے ضائع ہو گئی تو رہن کے احکام جاری ہوں گے اور اگر راضی نہیں ہے مثلاً یہ کمزور ہے اس سے چھین نہیں سکتا تو رہن نہیں بلکہ غصب ہے۔ (درمختار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔