سوال:
زید ایک خطہ زمین کا مالک جس کی سرکاری مال گزاری براہ راست دفتر گورنمنٹ میں جمع کراتا ہے ۔اور عمرو نے ایک خطہ زمین کو مالک زمین سے دو چار سو روپے نقدی دیکر اور شرح مالگزاری پانچ یا سات روپے سالانہ مقرر کرا کر رجسٹری کرایا جس کو عرف عام میں کاشت کہتے ہیں۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ان دونوں قسم کی زمین کو بکر بطور رہن کے دو چار سو روپے دیگر اس شرط پر رجسٹری کراتا ہے کہ اس زمین کی جوشرع مالگزاری ہے اس کو میں ہی دوں گا اور جس وقت تم میرا روپیہ دیدو گے میں زمین چھوڑ دوں گاتو اس قسم کی رہن زمین لینا جائز ہے یا نہیں ؟ملخصاً
جواب:
کاشتکار جس کے قبضہ میں زمین ہے وہ نہ زمین کا مالک ہے نہ اس زمین کو بیچ سکتا ہے وہ حقیقتاً مستاجر اور کرایہ دار کی حیثیت رکھتا ہے کہ زمیندار کو اجرت یعنی لگان ادا کرے اور اس میں کاشت کر کے منفعت حاصل کرے ۔یہ حیثیت جو قانون انگریزی میں اس کو دی گئی ہے کہ زمیندار اس زمین کو نہ نکال سکے یہ شرع کی رو سے درست نہیں لہذا بغیر اجازت زمیندار اس زمین کو کاشتکار رہن نہیں رکھ سکتا۔ اگر اس نے کسی کے پاس بطور رہن یہ زمین رکھ دی تو حقیقتاً رہن نہیں کہ مرتہن کو اس سے انتفاع جائز نہ ہو اور سود ٹھہرے البتہ مرتہن کو مالک زمین یعنی زمیندار سے اجازت لینی چاہیے اور یہ کہہ دینا چاہیے کہ فلاں زمین کی کاشت میں کروں گا اور لگان ادا کرتا رہوں گا اگر زمیندار نے اجازت دیدی اگرچہ یہ اجازت زبانی ہو تو اب مرتہن شرعاً کاشتکار ہو گیا اور خود زمیندار نے کسی کے پاس زمین رہن رکھی تو یہ حقیقتاً اور شرعا رہن ہے اس سے مرتہن کو نفع اٹھانا درست نہیں۔ (فتاوی امجدیہ،جلد3،صفحہ 344تا 345،مکتبہ رضویہ، کراچی)