بہار شریعت

کاروبار کے متعلق مسائل:

کاروبار کے متعلق مسائل:

اصطلاح شرع میں بیع کے معنی یہ ہیں کہ دو شخصوں کا باہم مال کو مال سے ایک مخصوص صورت کے ساتھ تبادلہ کرنا۔بیع کبھی قول سے ہوتی ہے تو کبھی فعل سے۔اگر قول سے ہو تو اس کے ارکان ایجاب و قبول ہیں یعنی ایک نے کہا میں نے بیچا دوسرے نے کہا میں نے خریدا۔ اور فعل سے ہو تو چیز کا لے لینا اور دے دینا اس کے ارکان ہیں اور یہ فعل ایجاب و قبول کے قائم مقام ہو جاتا ہے۔مثلًا ترکاری وغیرہ کی گڈی بنا کر اکثر بیچنے والے رکھ دیتے اور ظاہر کردیتے ہیں کہ پیسہ پیسہ کی گڈی ہے خریدار آتا ہے ایک پیسہ ڈال دیتا ہے اور ایک گڈی اٹھا لیتا ہے طرفین باہم کوئی بات نہیں کرتے مگر دونوں کے فعل ایجاب و قبول کے قائم مقام شمار کئے جاتے ہیں اور اس قسم کی بیع کو بیع تعاطی کہتے ہیں ۔بیع کے طرفین میں سے ایک کو بائع اور دوسرے کو مشتری کہتے ہیں ۔

بیع کے چند شرائط ہیں ۔

(۱)بائع ومشتری کا عاقل ہونا یعنی مجنون یا بالکل نا سمجھ بچہ کی بیع صحیح نہیں ۔

(۲)عاقد کا متعد و ہونا یعنی ایک ہی شخص بائع و مشتری دونوں ہو یہ نہیں ہوسکتا مگر باپ یا وصی کہ نابالغ بچہ کے مال کو بیع کریں اور خود ہی خریدیں یا اپنا مال ان سے بیع کریں ۔ یا قاضی کہ ایک یتیم کے مال کو دوسرے یتیم کے لئے بیع کرے تو اگرچہ ان صورتوں میں ایک ہی شخص بائع و مشتری دونوں ہے مگر بیع جائز ہے بشرطیکہ وصی کی بیع میں یتیم کا کھلاہوا نفع ہو۔ یونہی ایک ہی شخص دونوں طرف سے قاصد ہو تو اس صورت میں بھی بیع جائز ہے ۔( عالمگیری ، بحرالرائق، ردالمحتار)

(۳)ایجاب و قبول میں موافقت ہونا یعنی جس چیز کا ایجاب ہے اسی کا قبول ہو یا جس چیز کے ساتھ ایجاب کیا ہے اسی کے ساتھ قبول ہواگر قبول کسی دوسری چیز کو کیا یا جس کا ایجاب تھا اس کے ایک جز کو قبول کیا یا قبول میں ثمن دوسرا ذکرکیا یا ایجاب کے بعض ثمن کے ساتھ قبول کیا ان سب صورتوں میں بیع صحیح نہیں ۔ہاں اگر مشتری نے ایجاب کیا او ر بائع نے اس سے کم ثمن کے ساتھ قبول کیا تو بیع صحیح ہے ۔

(۴)ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا۔

(۵)ہرایک کا دوسرے کے کلام کو سننا۔ مشتری نے کہا میں نے خریدامگر بائع نے نہیں سنا تو بیع نہ ہوئی ہاں اگرمجلس والوں نے مشتری کا کلام سن لیا ہے اوربائع کہتا ہے میں نے نہیں سنا ہے تو قضائً بائع کا قول معتبر ہے ۔

(۶)مبیع کا موجود ہونا مال متقوم ہونا ۔ مملوک ہونا ۔ مقدورالتسلیم ہونا ضرورہے اور اگر بائع اس چیز کو اپنے لئے بیچتا ہو تو اس چیز کا ملک بائع میں ہونا ضرور ی ہے ۔جو چیز موجود ہی نہ ہو بلکہ اسکے موجودنہ ہونے کا اندیشہ ہو اس کی بیع نہیں مثلاًحمل یا تھن میں جو دودھ ہے اس کی بیع ناجائز ہے کہ ہوسکتا ہے جانور کا پیٹ پھولا ہے اور اس میں بچہ نہ ہواور تھن میں دودھ نہ ہو۔ پھل نمودار ہونے سے پہلے بیچ نہیں سکتے ۔یونہی خون اور مردار کی بیع نہیں ہوسکتی کہ یہ مال نہیں اور مسلمان کے حق میں شراب و خنزیر کی بیع نہیں ہوسکتی کہ مال متقوم نہیں ۔ زمین میں جوگھاس لگی ہوئی ہے اس کی بیع نہیں ہوسکتی اگرچہ زمین اپنی ملک ہو کہ وہ گھاس مملوک نہیں ۔یونہی نہر کو ئیں کا پانی جنگل کی لکڑی اور شکار کہ جب تک ان کو قبضہ میں نہ کیا جائے مملوک نہیں ۔

(۷) بیع موقت نہ ہواگر موقت ہے مثلاًاتنے دنوں کے لئے بیچا تو یہ بیع صحیح نہیں ۔

(۸)بیع و ثمن دونوں اس طرح معلوم ہوں کہ نزاع پیدا نہ ہوسکے ۔ اگر مجہول ہوں کہ نزاع ہوسکتی ہو تو بیع صحیح نہیں مثلاًاس ریوڑ میں سے ایک بکری بیچی یا اس چیز کو واجبی دام پر بیچا یا اس قیمت پر بیچا جو فلاں شخص بتائے ۔

مسئلہ ۱: بیع کا حکم یہ ہے کہ مشتری مبیع کا مالک ہو جائے اور بائع ثمن کا جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بائع پر واجب ہے کہ مبیع کو مشتری کے حوالہ کرے اور مشتری پر واجب ہے کہ بائع کو ثمن دیدے۔یہ اس وقت ہے کہ بیع بات(قطعی)ہو اور اگر بیع موقوف ہے کہ دوسرے کی اجازت پر موقوف ہے تو ثبوت ملک اس وقت ہوگا جب اجازت ہو جائے ۔(عالمگیری)

مسئلہ۲: ہزل ( مذاق) کے طور پر بیع کی کہ الفاظ بیع اپنی خوشی سے قصداًبول رہا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ چیز بک جائے ایسی بیع صحیح نہیں ۔اور ہزل کا حکم اس وقت دیا جائے گا کہ صراحۃًعقد میں ہزل کا لفظ موجود ہو یا پہلے سے ان دونوں نے باہم ٹھہرالیا ہے کہ لوگوں کے سامنے مذاق کے طور پر بیع کریں گے اور اس گفتگو پر دونوں اب بھی قائم ہیں اس سے رجوع نہیں کیا ہے تو اسے ہزل قرار دے کر نا درست کہیں گے اور اگر نہ عقد میں ہزل کا لفظ ہے اورنہ پیشتر ایسا ٹھہرالیا ہے تو قرائن کی بنا پر اسے ہزل نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ بیع صحیح مانی جائے گی۔ بیع ہزل اگرچہ بیع فاسد ہے مگر قبضہ کرنے سے بھی اس میں ملک حاصل نہیں ہوتی۔(ردالمحتار)

مسئلہ۳: کسی شخص کو بیع کرنے پر مجبور کیا گیا یعنی بیع نہ کرنے میں قتل یا قطع عضو کی دھمکی دی گئی اس نے ڈر کر بیع کردی تو یہ بیع فاسد اور موقوف ہے کہ اکراہ جاتے رہنے کے بعد اس نے اجازت دیدی تو جائز ہو جائے گی۔(ردالمحتار)

مسئلہ۴: ایسے دو (۲) لفظ جو تملیک و تملک کا افادہ کرتے ہوں یعنی جن کا یہ مطلب ہو کہ چیز کا مالک دوسرے کو کردیا یا دوسرے کی چیز کا مالک ہوگیا ان کو ایجاب و قبول کہتے ہیں ان میں سے پہلے کلام کو ایجاب کہتے ہیں اور اس کے مقابل میں بعد والے کلام کو قبول کہتے ہیں ۔مثلاًبائع نے کہا میں نے یہ چیز اتنے دام میں بیچی مشتری نے کہا میں نے خریدی تو بائع کا کلام ایجاب ہے اور مشتری کا قبول اور اگر مشتری پہلے کہتا کہ میں نے یہ چیز اتنے میں خریدی تو یہ ایجاب ہوتا اور بائع کالفظ قبول کہلاتا۔(درمختار)

مسئلہ۵: ایجاب وقبول کے الفاظ فارسی اردو وغیرہ ہر زبان کے ہوسکتے ہیں ۔دونوں کے الفاظ ماضی ہوں جیسے خریدا بیچایا دونوں حال ہوں جیسے خریدتا ہوں بیچتا ہوں یا ایک ماضی اور ایک حال ہو مثلاًایک نے کہا بیچتا ہوں دوسرے نے کہا خریدا مستقبل کے صیغہ سے بیع نہیں ہوسکتی دونوں کے لفظ مستقبل کے ہوں یا ایک کا مثلاًخریدونگابیچوں گا کہ مستقبل کالفظ آئندہ عقد صادر کرنے کے ارادہ پر دلالت کرتاہے فی الحال عقدکا اثبات نہیں کرتا۔(درمختار)

مسئلہ۶: ایک نے امر کا صیغہ استعمال کیا جو حال پر دلالت کرتا ہے دوسرے نے ماضی کا مثلاًاس نے کہا اس چیز کو اتنے پرلے دوسرے نے کہا میں نے لیا اقتضائً بیع صحیح ہوگئی کہ اب نہ بائع دینے سے انکار کرسکتا ے نہ مشتری لینے سے ۔(عالمگیری)

مسئلہ۷: یہ ضرور نہیں کہ خریدنا اور بیچنا ہی کہیں تو بیع ہو ورنہ نہ ہو بلکہ یہ مطلب اگر دوسرے لفظ سے ادا ہوتا ہو تو بھی عقدہوسکتا ہے مثلاًمشتری نے کہا یہ چیز میں نے تم سے اتنے میں خریدی بائع نے کہا ہاں ۔میں نے کیا ۔ دام لاؤ۔لے لو۔ تمھارے ہی لئے ہے ۔منظور ہے ۔میں راضی ہوں ۔میں نے جائز کیا ۔(درمختار، عالمگیری)

مسئلہ۸: بائع نے کہا میں نے یہ چیز بیچی مشتری نے کہا ہاں تو بیع نہ ہوئی اور اگر مشتری ایجاب کرتااور بائع جواب میں ہاں کہتا تو صحیح ہوجاتی ۔ استفہام کے جواب میں ہاں کہا تو بیع نہ ہوگی مگر جبکہ مشتری اسی وقت ثمن ادا کرے دے کہ یہ ثمن ادا کرنا قبول ہے ۔مثلاًکہاکیا تم نے یہ چیز میرے ہاتھ اتنے میں بیع کی اس نے کہا ہاں مشتری نے ثمن دیدیا بیع ہوگئی۔(درمختار)

مسئلہ۹: میں نے اپنا گھوڑاتمھارے گھوڑے سے بدلا دوسرے نے کہا اور میں نے بھی کیا تو بیع ہوگئی ۔بائع نے کہا یہ چیز تم پر ایک ہزار کو ہے مشتری نے کہا میں نے قبول کی بیع ہوگئی۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۰: ایک شخص نے کہا یہ چیز تمھارے لئے ایک ہزار کو ہے اگرتم کو پسند ہو دوسرے نے کہ مجھے پسند ہے بیع ہوگئی ۔یونہی اگر یہ کہا کہ اگر تم کو موافق آئے یا تم ارادہ کرو یا تمہیں اس کی خواہش ہو اس نے جواب میں کہامجھے موافق ہے یا میں نے ارادہ کیا یا مجھے اس کی خواہش ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۱: ایک شخص نے کہا یہ سامان لے جاؤ اور اس کے متعلق آج غورکرلواگر تم کو پسند ہو تو ایک ہزار کوہے دوسرا اسے لے گیا بیع جائز ہوگئی ۔(خانیہ )

مسئلہ۱۲: ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھ ایک غلام ہزار روپے میں بیع کیا اور کہہ دیا کہ اگر آج دام نہ لاؤ گے تو میرے تمھارے درمیان بیع نہ رہے گی مشتری نے اسے منظور کیا مگر اس روزدام نہیں لایا دوسرے روز مشتری بائع سے ملا اور یہ کہاکہ تم نے یہ غلام میرے ہاتھ ایک ہزار میں بیچااس نے کہا ہاں مشتری نے کہامیں نے اسے لیا تو بیع اس وقت صحیح ہوگئی کہ کل جو بیع ہوئی تھی وہ ثمن نہ دینے کی وجہ سے جاتی رہی ۔( خانیہ)

مسئلہ ۱۳: ایک نے دوسرے کو دور سے پکار کر کہا میں نے یہ چیز تمھارے ہاتھ اتنے میں بیع کی اس نے کہا میں نے خریدی اگر اتنی دوری ہے کہ ان کی بات میں اشتباہ نہیں ہوتا تو بیع درست ہے ورنہ نادرست ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۴: بائع نے کہا اس کو میں نے تیرے ہاتھ بیچا مشتری نے اس کو کھانا شروع کردیا یا جانور تھا اس پر سوار ہوگیایا کپڑا تھا اسے پہن لیا تو بیع ہوگئی یعنی یہ تصرفات قبول کے قائم مقام ہیں ۔ یونہی ایک شخص نے دوسرے سے کہااس چیز کو کھالو او راس کے بدلے میں میرا ایک روپیہ تم پر لازم ہوگا اس نے کھالیا تو بیع درست ہوئی اور کھانا حلال ہوگیا ۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۵: دوشخصوں میں ایک تھا ن کے متعلق نرخ ہونے لگا بائع نے کہا پندرہ میں بیچتا ہوں مشتری نے کہا دس میں لیتا ہوں اس سے زیادہ نہیں دونگا اور مشتری اس تھان کولے کر چلاگیا اگر نرخ کرتے وقت تھان مشتری کے ہاتھ میں تھا جب تو پندرہ میں بیع ہوئی اور اگربائع کے ہاتھ میں تھا مشتری نے اس سے لیا اس نے منع نہ کیا تو دس روپے میں بیع ہوئی ۔اور اگر تھان مشتری کے پاس ہے اور مشتری نے کہا دس سے زیادہ نہیں دونگااور بائع نے کہا پندرہ سے کم میں نہیں بیچوں گامشتری نے تھان واپس کردیا اس کے بعد پھر بائع سے کہا لاؤ دو بائع نے دیدیا اور ثمن کے متعلق کچھ نہ کہا او رمشتری لے کر چلا گیا تو دس میں بیع ہوئی ۔(خانیہ )

مسئلہ ۱۶: ایک چیز کے متعلق بائع نے ثمن بدل کر دو(۲) ایجاب کئے مثلاًپندرہ روپیہ کہا دوسرے ایجاب میں ایک گنی ثمن بتایاان دونوں ایجابوں کے بعد مشتری نے قبول کیا تو دوسرے ثمن کے ساتھ بیع قرار پائے گی اور اگر مشتری نے پہلے ایجاب کے بعد بھی قبول کیا تھا پھر دوسرے ایجاب کے بعد بھی قبول کیا تو پہلی بیع فسخ ہوگئی دوسری صحیح ہوگئی اور اگر دونوں ایجابوں میں ایک ہی قسم کا ثمن ہے مگر مقدار میں کم و بیش ہے مثلاًپہلے پندرہ روپے کہا تھا پھر دس یا اس کا عکس جب بھی دوسری بیع معتبر ہے پہلی جاتی رہی اور اگر مقدار میں کمی بیشی نہ ہوتو پہلی ہی بیع درست ہے دوسری لغو۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۷: جس مجلس میں ایجاب ہو ااگر قبول کرنے والا اس مجلس سے غائب ہو تو ایجاب بالکل باطل ہوجاتا ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کے قبول کرنے پر موقوف ہو کہ اسے خبر پہنچے اور قبول کرے تو بیع درست ہوجائے ہاں اگر قبول کرنے والے کے پاس ایجاب کے الفاظ لکھ کر بھیجے ہیں تو جس مجلس میں تحریر پہنچی اسی مجلس میں قبول کیا تو بیع صحیح ہے اس مجلس میں قبول نہ کیا تو پھر قبول نہیں کرسکتا ۔ یونہی اگر ایجاب کے الفاظ کسی قاصد کے ہاتھ کہلاکر بھیجے تو جس مجلس میں یہ قاصد اسے خبر پہنچائے گا اسی میں قبول کرسکتا ہے اس کی صورت یہ ہے کہ بائع نے ایک شخص سے کہا میں نے یہ چیز فلاں شخص کے ہاتھ اتنے میں بیچی اے شخص تو اس کے پاس جا کر یہ خبر پہنچادے اگر غائب کی طرف سے کسی اور شخص نے جو مجلس میں موجود ہے قبول کرلیا تو ایجاب باطل نہ ہوا بلکہ یہ بیع اس غائب کی اجازت پر موقوف ہے ۔ اگر ایک شخص کو اس نے خبر پہنچانے پر مامور کیا تھا مگر دوسرے نے خبر پہنچادی اور اس نے قبول کرلیا تو بیع صحیح ہوگئی ۔ جس طرح ایجاب تحریری ہوتا ہے قبول بھی تحریری ہوسکتا ہے مثلاًایک نے دوسرے کے پاس ایجاب لکھ کر بھیجا دوسرے نے قبول کو لکھ کر بھیجدیا بیع ہوجائے گی مگر یہ ضرور ہے کہ جس مجلس میں ایجاب کی تحریر موصول ہوئی ہے قبول کی تحریر اسی مجلس میں لکھی جائے ورنہ ایجاب باطل ہوجائے گا۔( درمختار، ردالمحتار ، عالمگیری)

مسئلہ۱۸: عاقدین میں سے جب ایک نے ایجاب کیا تو دوسرے کو اختیار ہے کہ مجلس میں قبول کرے یا رد کردے اس کا نام خیار قبول ہے ۔ خیار قبول میں وراثت نہیں جاری ہوتی مثلاًیہ مرجائے تو اس کے وارث کو قبول کرنے کا حق حاصل نہ ہوگا۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۹: خیار قبول آخر مجلس تک رہتا ہے مجلس بدل جانے کے بعد جاتا رہتا ہے ۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایجاب کرنے والا زندہ ہویعنی اگر ایجاب کے بعد قبول سے پہلے مر گیا تو اب قبول کرنے کا حق نہ رہا کیونکہ ایجاب ہی باطل ہوگیا قبول کس چیز کو کرے گا۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۰: دونوں میں سے کوئی بھی اس مجلس سے اٹھ جائے یا بیع کے علاوہ کسی اور بات میں مشغول ہو جائے تو ایجاب باطل ہو جاتا ہے ۔قبول کرنے سے پہلے موجب کو اختیار ہے کہ ایجاب کو واپس کرلے قبول کے بعد واپس نہیں لے سکتا کہ دوسرے کا حق متعلق ہوچکا واپس لینے میں اس کا ابطال ہوتا ہے ۔( ہدیہ وغیرہ)

مسئلہ ۲۱: ایجاب کو واپس لینے میں یہ ضرور ہے کہ دوسرے نے اس کو سنا ہو مثلاًبائع نے کہا میں نے اس کو بیچا پھر اپنے ایجاب واپس لیا مگر اس کومشتری نے نہیں سنا اور قبول کر لیا تو بیع صحیح ہوگئی اور اگر موجب کا ایجاب واپس لینا اور دوسرے کا قبول کرنا یہ دونوں ایک ساتھ پائے جائیں تو واپسی درست ہے اور بیع نہیں ہوئی ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۲۲: ایجاب کو لکھ بھیجا ہے یا کسی قاصد کے ہاتھ کہلابھیجا ہے تو جب تک دوسرے کو تحریر یا پیغام نہ پہنچا ہو یا قبول نہ کیا ہو اس بھیجنے والے کو واپس لینے کا اختیار ہے یہاں اس کی ضرورت نہیں کی قاصد کو واپس لینے کا علم ہوگیا ہو یا خود مکتوب الیہ یا مرسل الیہ کو علم ہو بلکہ اگر ان میں کسی کو بھی علم نہ ہو جب بھی رجوع صحیح ہے اور رجوع کے بعد اگر قبول پایا جائے تو بیع نہیں ہوسکتی ۔(فتح القدیر)

مسئلہ۲۳: جب ایجاب وقبول دونوں ہوچکے تو بیع تمام ولازم ہوگئی اب کسی کو دوسرے کی رضا مندی کے بغیر رد کردینے کا اختیارنہ رہا البتہ اگر مبیع میں عیب ہو یا مبیع کو مشتری نے نہیں دیکھا ہے تو خیار عیب وخیار رویت حاصل ہوتا ہے ان کا ذکر بعد میں آئے گا۔(ہدایہ )

مسئلہ۲۴: بیع تعاطی جو بغیر لفظی ایجاب و قبول کے محض چیز لے لینے اور دیدینے سے ہو جاتی ہے یہ صرف معمولی اشیا ساگ ترکاری وغیرہ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ بیع ہر قسم کی چیزنفیس و خسیس سب میں ہوسکتی ہے اور جس طرح ایجاب و قبول سے بیع لازم ہو جاتی ہے یہاں بھی ثمن دیدینے او ر چیز لے لینے کے بعد بیع لازم ہو جائے گی کہ بغیر دوسرے کی رضا مندی کے ردکرنے کا کسی کو حق نہیں ۔( ہدایہ وغیرہ )

مسئلہ۲۵: اگر ایک جانب سے تعاطی ہو مثلاًچیز کا دام طے ہوگیا اور مشتری چیز کو بائع کی رضا مندی سے اٹھالے گیا اور دام نہ دیا یا مشتری نے بائع کو ثمن ادا کردیا اور چیز بغیر لئے چلا گیا تو اس صورت میں بھی بیع لازم ہوتی ہے کہ اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی رد کرنا چاہے تو رد نہیں کرسکتا قاضی بیع کو لازم کردیگا۔دام طے کرنے کی وہاں ضرورت ہے کہ دام معلوم نہ ہواور اگر معلوم ہو جیسے بازار میں روٹی بکتی ہے عام طور پر ہر شخص کو نرخ معلوم ہے یا گوشت وغیرہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا ثمن لوگوں کو معلوم ہوتا ہے ایسی چیزوں کے ثمن طے کرنے کی ضرورت نہیں ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۲۶: دوکاندار کو گیہوں کے لئے روپے دیدئے اور اس سے پوچھا روپے کے کتنے سیر اس نے کہادس سیر مشتری خاموش ہوگیا یعنی وہ نرخ منظور کرلیا پھر اس سے گیہوں طلب کئے بائع نے کہا کل دوں گا مشتری چلاگیا دوسرے دن گیہوں لینے آیاتو نرخ تیز ہوگیابائع کو اسی پہلے نرخ سے دینا ہوگا۔(ردالمحتار)

مسئلہ۲۷: بیع تعاطی میں یہ ضرور ہے کہ لین دین کے وقت اپنی ناراضی ظاہر نہ کرتا ہواور اگر ناراضی کا اظہار کرتا ہو تو بیع منعقد نہیں ہوگی مثلاًخربزہ ٗتربزلے رہا ہے بائع کے پیسے دیدئے مگر بائع کہتا ہے کہ اتنے میں نہیں دونگاتو بیع نہ ہوئی اگرچہ بازار والوں کی عادت معلوم ہے کہ ان کو دینا نہیں ہوتا تو پیسے پھینک دیتے ہیں یا چیز چھین لیتے ہیں ۔اور ایسا نہ کریں تو دل سے راضی ہیں خالی مونہہ سے مشتری کو خوش کرنے کے لئے کہتے جاتے ہیں کہ نہیں دوں گا نہیں دوں گااس عادت معلوم ہونے کی صورت میں بھی اگر صراحۃًناراضی موجود ہو تو بیع درست نہیں ۔( ردالمحتار)

مسئلہ۲۸: ایک بوجھ ایک روپیہ کو خریدا پھر بائع سے یہ کہا اسی دام کا ایک بوجھ یہاں اور لاکر ڈالدو اس نے لاکر ڈالدیا تو اس دوسرے کی بھی بیع ہوگئی مشتری لینے سے انکار نہیں کرسکتا ۔( عالمگیری)

مسئلہ۲۹: قصاب سے کہا روپیہ کے تین سیر کے حساب سے اتنے کا گوشت تول دو یا اس جگہ کا پہلو یاران یا سینہ کا گوشت دو اس نے تول دیا تو اب لینے سے انکار نہیں کرسکتا ۔(فتح القدیر)

مسئلہ۳۰: خربوزوں کا ٹوکرا لایا جس میں بڑے چھوٹے ہرقسم کے پھل ہیں مالک سے مشتری نے پوچھا کہ یہ خربزے کس حساب سے ہیں اس نے روپیہ کے دس بتائے مشتری نے دس پھل چھانٹ کر بائع کے سامنے نکال لئے یا بائع نے مشتری کے لئے نکال دیئے اور مشتری نے لے لئے بیع ہوگئی ۔( فتح القدیر)

مسئلہ ۳۱: دوکاندار وں کے یہاں سے خرچ کے لئے چیزیں منگالی جاتی ہیں اور خرچ کر ڈالنے کے بعد ثمن کا حساب ہوتا ہے ایسا کرنا استحسا ناً جائز ہے ۔( درمختار)

مسئلہ۳۲: عقد میں جو چیز معین ہوتی ہے کہ جس کو دینا کہا اسی کا دینا واجب ہے اس کو مبیع کہتے ہیں اور جو چیز معین نہ وہ ثمن ہے ۔اشیاء تین قسم پر ہیں ایک وہ کہ ہمیشہ ثمن ہو دوسرے وہ کہ ہمیشہ مبیع ہو تیسری وہ کہ کبھی ثمن ہو کبھی مبیع ۔ جو ہمیشہ ثمن ہے وہ روپیہ اور اشرفی ہے ان کے مقابلے میں کوئی چیز ہوان کے بیچنا کہا جائے یا ان سے بیچنا کہا جائے ہر حال میں یہی ثمن ہیں ۔پیسے بھی ثمن ہیں کہ معین کرنے سے معین نہیں ہوتے مگران کی ثمنیت باطل ہوسکتی ہے ۔ جو ہمیشہ مبیع ہو ایسی چیز ہے کہ ذوات الامثال سے نہ ہو یعنی ذوات القیم سے ہو اور عددی متفادت کہ یہ ہمیشہ مبیع ہونگی مگر کپڑے کے تھان کا وصف بیان کردیا جائے اور اس کے لئے کوئی معیاد مقرر کردی جائے تو ثمن بن سکتا ہے اس کے بدلے میں غلام وغیرہ کوئی معین چیز خریدسکتے ہیں ۔تیسری قسم کہ کبھی ثمن اور کبھی مبیع ہوـ‘ وہ کمیل ( ناپ کی چیز )وموزوں (جوچیز تول کر بکتی ہے )اور عددی متقارب ( جو چیز گنتی سے بکتیہے اور اس کے افراد کی قیمتوں میں تفاوت نہیں ہوتا) ان چیزوں کو اگر ثمن کے مقابل میں ذکر کیا تو مبیع ہیں اور اگر ان کے مقابل میں انہیں جیسی چیزیں ہیں یعنی کمیل و موزوں و عددی متقارب تو اگر دونوں جانب کی چیزیں معین ہوں بیع جائز ہے اور دونوں چیزیں مبیع قرار پائیں گی اور اگرایک جانب معین ہواور دوسری جانب غیر معین مگر اس غیر معین کا وصف بیان کردیا ہے کہ اس قسم کی ہوگی اس صورت میں اگر معین کو مبیع اور غیر معین کو ثمن قرار دیا ہے تو بیع جائز ہے اور غیر معین کو تفرق سے پہلے قبضہ کرنا ضروری ہے اور اگر غیر معین کو مبیع اور معین کو ثمن بنایا تو بیع ناجائز ہوگی اس صورت میں مبیع اور ثمن بنانے کا یہ مطلب ہے کہ جس کو بیچناکہاوہ مبیع ہے اور جس سے بیچنا کہا وہ ثمن ہے اور اگر دونوں غیر معین ہوں تو بیع ناجائز ہوگی۔( عالمگیری)

مسئلہ۳۳: مبیع اگر منقولات کی قسم سے ہے تو بائع کا اس پر قبضہ ہونا ضرور ہے قبل قبضہ کے چیز بیچ دی بیع ناجائز ہے ۔(ہدایہ وغیرہ)

مسئلہ۳۴: مبیع اور ثمن کی مقدار معلوم ہونا ضرور ہے اور ثمن کا وصف بھی معلوم ہونا ضرور ہے ہاں اگر ثمن کی طرف اشارہ کردیا جائے مثلاًاس روپیہ کے بدلے میں خریداتو نہ مقدار کے ذکر کی ضرورت ہے نہ وصف کے البتہ اگر وہ مال ربوی ہے اور مقابلہ جنس کے ساتھ ہو مثلاًگیہوں کی اس ڈھیری کو بدلے میں اس ڈھیری کے بیچا تو اگرچہ یہاں مبیع وثمن دونوں کی طرف اشارہ کیاجارہا ہے مگر پھر بھی مقدار کا معلوم ہونا ضرور ہے کیونکہ اگر دونوں مقداریں برابر نہ ہوں تو سود ہوگا۔( درمختار)

مسئلہ ۳۵: بیع میں کبھی ثمن حال ہوتا ہے یعنی فورا ً دینا اور کبھی مؤجل یعنی اس کی ادا کیلئے کوئی میعاد معین ذکر کردی جائے کیونکہ میعاد معین نہ ہوگی تو جھگڑا ہوگا۔ اصل یہ ہے کہ ثمن حال ہولہذا عقد میں اس کہنے کی ضرورت نہیں کہ ثمن حال ہے بلکہ عقد میں ثمن کے متعلق اگر کچھ نہ کہا جب بھی فوراً دینا واجب ہوگا اور ثمن مؤجل کے لئے یہ ضرور ہے کہ عقد ہی میں مؤجل ہونا ذکر کیاجائے ۔(درمختار)

مسئلہ۳۶: میعاد کے متعلق اختلاف ہوا بائع کہتا ے میعاد تھی ہی نہیں اور مشتری میعاد ہونا بتاتاہے تو گواہ مشتری کے معتبر ہیں اور قول بائع کا معتبر ہے اور اگر مقدار میعاد میں اختلاف ہواایک کم بتاتا ہے اور ایک زیادہ تو اس کی بات مانی جائے گی جو کم بتاتا ہے اور گواہ یہاں بھی مشتری کے معتبرہیں ۔اور اگر ایک کہتاہے میعا دگزر چکی ہے اور ایک بتاتا ہے باقی ہے تو قول بھی مشتری ہی کا معتبر ہے اور دونوں گواہ پیش کریں تو گواہ بھی اسی کے معتبر ہیں ۔(درمختار)

مسئلہ۳۷: مدیون کے مرنے سے میعاد باطل ہوجاتی ہے اوردائن کے مرنے سے باطل نہیں ہوتی کیونکہ میعاد کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ تجارت وغیرہ کرکے اس زمانہ میں دین کی مقدار فراہم کرے گااور ادا کرے گااور جب وہ خود ہی نہ رہا میعادہونا فضول ہے بلکہ جو کچھ ترکہ ہے وہ دین ادا کرنے کے لئے متعین ہے لہذا بیع موجل میں بائع کے مرنے سے اجل باطل نہ ہوگی۔(درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۳۸: عقد بیع میں ثمن ادا کرنے کی کوئی میعاد مذکور نہ تھی یعنی بیع حلال تھی بعد عقد بائع نے مشتری کو ادائے ثمن کے لئے ایک میعاد معلوم مقرر کردی مثلاًپندرہ دن یا ایک مہینہ یا ایسی میعاد مقرر کی جس میں تھوڑی سی جہالت ہے مثلاًجب کھیت کٹے گا اس وقت ثمن ادا کرنا تو اب ثمن مؤجل ہوگیا کہ جب تک میعاد پوری نہ وہ بائع کو ثمن کے مطالبہ کا حق نہیں اور اگر ایسی میعادمقرر کی ہوجس میں بہت زیادہ جہالت ہو مثلاًجب آندھی چلے گی اس وقت ثمن ادا کرنا تو یہ میعاد باطل ہے ثمن اب بھی غیر میعادی ہے ۔( درمختار، ہدایہ )

مسئلہ ۳۹: مبیع کا دام ایک ہزار مشتری پر ہے بائع نے کہدیا کہ ہر مہینے میں سور وپیہ دیدیا کرنا تو اس کی وجہ سے دین مؤجل نہ ہوگا ۔ کسی پر ہزار روپیہ دین ہے اوردائن نے ادا کے لئے قسطیں مقرر کردی ہیں اور یہ بھی شرط کردی ہے کہ ایک قسط بھی وقت پر وصول نہ ہوئی تو باقی کل دین حال ہوجائے گا یعنی فوراًوصول کیا جائے گا اس قسم کی شرط صحیح ہے ۔( درمختار)

مسئلہ۴۰: میعاد اس وقت سے شروع کی جائے گی جب کہ بائع نے مبیع مشتری کو دیدی اور اگر مثلاًایک سال کی میعاد تھی مگر سال گزر گیا اور ابھی تک مبیع ہی نہیں دی ہے تو دینے کے بعد ایک سال کی میعاد ملے گی۔(درمختار)

مسئلہ۴۱: کسی جگہ مختلف قسم کے روپے چلتے ہوں اور عاقد نے مطلق روپیہ کہا تووہ روپیہ مراد لیا جائے گاجو پیشتر اس شہر میں چلتا ہے یعنی جس کا رواج زیادہ ہے چاہے ان سکوں کی مالیت مختلف ہویا ایک ہو اور اگر ایک ہی قسم کا روپیہ چلتا ہے جب تو ظاہر ہے کہ وہی متعین ہے اور اگر چلن یکساں ہے کسی کاکم اور اورکسی کا زیادہ نہیں اورمالیت برابر ہوتو بیع صحیح ہے اورمشتری کو اختیار ہے کہ جو چاہے دیدے مثلاًایک روپیہ کی کوئی چیز خریدی تو ایک روپیہ یا دو اٹھنیاں یا چار چونیاں یا آٹھ دوانیاں جو چاہے دیدے ۔ اور مالیت میں اختلاف ہے جسیے حیدرآبادی روپے اور چہرہ دار کہ دونوں کی مالیت میں اختلاف رہتا ہے اگر کسی جگہ دونوں کا یکساں چلن ہوتو بیع فاسد ہوجائیگی۔(درمختار، ہدایہ ، فتح)

مسئلہ ۴۲: اگرسکی مختلف مالیت کے ہوں اور چلن یکساں ہے اور مطلق روپیہ عقد میں بولا مگر ابھی مجلس باقی ہے کہ ایک نے متعین کردیا کہ فلاں روپیہ اور دسرے نے منظور کرلیا تو عقد صحیح ہے ۔(فتح القدیر)

مسئلہ۴۳: گیہوں اورجو اور ہرقسم کے غلہ کی بیع تو ل سے بھی ہوسکتی ہے اورماپ کے ساتھ بھی مثلاًایک روپیہ کا اتنے صاع اور اٹکل اور تخمینہ سے بھی خریدے جاسکتے ہیں مثلاًیہ ڈھیر ی ایک روپیہ کو اگر چہ یہ معلوم نہیں کہ اس ڈھیری میں کتنے سیر ہیں مگر تخمینہ سے اسی وقت خریدے جاسکتے ہیں جبکہ غیر جنس کے ساتھ بیع ہو مثلاًروپیہ سے یا گیہوں کو جوسے یاکسی اور دوسرے غلہ سے اور اگر اسی جنس سے بیع کریں مثلاًگیہوں کو گیہوں سے خریدیں تو تخمینہ سے بیع نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر کم وبیش ہوئے تو سود ہوگا۔(ہدایہ )

مسئلہ۴۴: جنس کو جنس کے ساتھ تخمیناً بیع کیا اگر اسی مجلس میں معلوم ہوگیا کہ دونوں برابر ہیں تو بیع جائز ہوگئی ۔ یونہی اگر دونوں میں کمی بیشی کا احتمال نہیں مگر یہ معلوم نہیں کہ ان کی مقدار کیا ہے جب بھی بیع جائز ہے اس صورت میں تخمینہ کا صرف اتنا مطلب ہے کہ دونوں کا وزن معلوم نہیں ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۴۵: جنس کے ساتھ تخمیناًبیع کی گئی مگر نصف صاع سے کم کی کمی بیشی سے تو بیع جائز ہے کی نصف صاع سے کم میں سود نہیں ہوتا۔( درمختار)

مسئلہ۴۶: ایک برتن ہے جس کی مقدار معلوم نہیں کہ اس میں کتنا غلہ آتاہے یا پتھر ہے معلوم نہیں کہ اس کا وزن کیاہے ان کے ساتھ بیع کرنا جائز ہے مثلاًاس برتن سے چار برتن گیہوں ایک روپیہ میں یا اس پتھر سے فلاں چیز ایک روپیہ کی اتنی مرتبہ تولی جائے گی مگر شرط یہ ہے کہ ناپ تول میں زیادہ زمانہ گزرنے نہ دیں کیونکہ زیادہ زمانہ گزرنے میں ممکن ہے کہ برتن جاتا رہے پتھر گم جائے پھر کس چیز سے ناپیں تولیں گے اور یہ برتن سمٹنے اور پھیلنے والا نہ ہولکڑی یا لوہے یا پتھر کا ہواور گر سمٹنے پھیلنے والا ہوتو بیع جائز نہیں جیسے زنبیل ۔البتہ پانی کی مشک اگرچہ سمٹنے پھیلنے والی چیز ہے مگر عرف و تعامل اس کی بیع پر جاری ہے یہ بیع جائز ہے ۔(ہدایہ ، درمختار،فتح القدیر)

مسئلہ۴۷: غلہ کی ایک ڈھیری اس طرح بیع کی کہ اس میں کا ہر ایک صاع ایک روپیہ کوتو صرف ایک صاع کی بیع درست ہوگی اور اس میں بھی مشتری کو اختیار ہوگا کہ لے یانہ لے ہاں اگر اسی مجلس میں وہ ساری ڈھیری ناپ دی یا بائع نے ظاہر کردیا اور بتادیا کہ اس ڈھیری میں اتنے صاع ہیں تو پوری ڈھیری کی بیع درست ہوجائے گی اور عقد سے پہلے یا عقدمیں صاع کی تعداد بتادی ہے تو مشتری کو اختیار نہیں اور بعد میں ظاہر کی ہے تو ہے یہ قول امام اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کاہے اور صاحبین کا قول یہ ہے کہ مجلس کے بعد بھی اگر صاع کی تعداد معلوم ہوگئی بیع صحیح ہے اور اسی قول صاحبین پر آسانی کے لئے فتوی دیاجاتا ہے ۔(ہدایہ ،فتح ، درمختار)

مسئلہ۴۸: بکریوں کاگلہ خریدا کہ اس میں کی ہر بکری ایک روپیہ کو یا کپڑے کا تھان خریدا کہ ہر ایک گز ایک روپیہ کو یا اسی طرح کوئی اور عددی متفاوت خریدااور معلوم نہیں کہ گلہ میں کتنی بکریاں ہیں اور تھان میں کتنے گز کپڑا ہے مگر بعد مین معلوم ہوگیا تو صاحبین کے نزدیک بیع جائز ہے اور اسی پر فتوی ہے ۔( درمختار)

مسئلہ۴۹: غلہ کی ڈھیری خریدی کہ مثلاًیہ سو(۱۰۰)من ہے اور اس کی قیمت سو روپیہ بعد میں اسے تولا اگر پورا (۱۰۰)سومن ہے جب تو بالکل ٹھیک ہے اور اگر سومن سے زیادہ ہے تو جتنا زیادہ ہے بائع کاہے اور اگر سومن سے کم ہے تو مشتری کو اختیار ہے کہ جتنا کم ہے اس کی قیمت کم کرکے باقی لے لے یا کچھ نہ لے ۔ یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جوماپ اورتول سے بکتی ہے۔ البتہ اگروہ اس قسم کی چیز ہو کہ اس کے ٹکڑے کرنے میں نقصان ہوتا ہواورجو وزن بتایاہے اس سے زیادہ نکلی تو کل مشتری ہی کو ملے گی اور اس زیادتی کے مقابل میں مشتری کو کچھ دینا نہیں پڑے گاکہ وزن ایسی چیزوں میں وصف ہوتا ہے اور وصف کے مقابل میں ثمن کا حصہ نہیں ہوتا مثلاًایک موتی یاقوت خریدا کہ یہ ایک ماشہ ہے اور نکلا ایک ماشہ سے کچھ زیادہ تو جو ثمن مقرر ہوا ہے وہ دے کرمشتری لے لے ۔( درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۵۰: تھان خریدا کہ مثلاًیہ دس گز ہے اور اس کی قیمت دس روپیہ ہے اگر یہ تھان اس سے کم نکلا جتنا بائع نے بتایا ہے تومشتری کو اختیار ہے کہ پورے دام میں لے یا بالکل نہ لے یہ نہیں ہوسکتا کہ جتنا کم ہے اس کی قیمت کم کردی جائے اور اگر تھان اس سے زیادہ نکلا جتنا بتایاہے تو یہ زیادتی بلاقیمت مشتری کی ہے بائع کو کچھ اختیار نہیں نہ وہ زیادتی لے سکتا ہے نہ اس کی قیمت لے سکتا ہے نہ بیع کو فسخ کرسکتا ہے یونہی اگر زمین خریدی کہ یہ سو(۱۰۰)گز ہے اور اس کی قیمت سو (۱۰۰)روپے ہے اورکم یا زیادہ نکلی توبیع صحیح ہے اور سو(۱۰۰)ہی دینے ہونگے مگر کمی کی صورت میں مشتری کو اختیار حاصل ہے کہ لے یا چھوڑدے ۔( ہدایہ وغیرہ)

مسئلہ۵۱: یہ کہ کر تھان خریدا کہ دس(۱۰) گز کا ہے دس روپے میں اور یہ کہدیا کہ فی گز ایک روپیہ اب نکلاکم تو جتناکم ہے اسکی قیمت کم کردے اور مشتری کو یہ اختیار ہے کہ نہ لے اور اگرزیادہ نکلا مثلاًگیارہ یا بارہ گز ہے تواس زیادہ کا روپیہ دے یا بیع کو فسخ کردے ۔( ہدایہ وغیرہ) یہ حکم اس تھان کا ہے جو پورا ایک طرح کانہیں ہوتا جیسے گلبدن ۔چکن۔اور اگرایک طرح کا ہوتو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بائع اس زیادتی کو پھاڑکر دس(۱۰) گز مشتری کو دیدے ۔

مسئلہ۵۲: کسی مکان یا حمام کے سوگز میں سے دس گز خریدے تو بیع فاسد ہے اور اگر یوں کہتا کہ سوسہام میں سے دس سہام خریدے تو بیع صحیح ہوتی اور پہلی صورت میں اگر اسی مجلس میں وہ دس گز زمین معین کردی جائے کہ مثلاًیہ دس گز تو بیع صحیح ہو جائے گی۔( ہدایہ ، درمختار)

مسئلہ ۵۳: کپڑے کی ایک گٹھری خریدی اس شرط پر کہ اس میں دس تھان ہیں مگر نکلے نو تھان یا گیارہ تو بیع فاسد ہوگئی کہ کمی کی صورت میں ثمن مجہول ہے اور زیادتی کی صورت میں مبیع مجہول ہے اور اگر ہرایک تھان کا ثمن بیان کردیا تھا تو کمی کی صورت میں بیع جائز ہوگی کہ نوتھان کی قیمت دے کر لے لے مگر مشتری کو اختیار ہوگا کہ بیع کو فسخ کردے اور اگر گیارہ تھان نکلے تو بیع ناجائز ہے کہ مبیع مجہول ہے ان میں سے ایک تھان کونسا کم کیاجائیگا۔(ہدایہ )

مسئلہ۵۴: تھانوں کی ایک گٹھری خریدی اور ایک غیر معین تھان کا استثنا کردیا یا بکریوں کو ایک ریوڑخریدااور ایک بکری غیرمعین کااستثنا کیا تو بیع فاسد ہوگئی کہ معلوم نہیں کہ وہ مستثنے کون ہے اور اس سے لازم آیا کہ مبیع مجہول ہوجائے اور اگر معین تھان یا بکری کا استثنا ہوتا تو بیع جائز ہوتی کہ مبیع میں کسی قسم کی جہالت پیدا نہ ہوتی۔(درمختار)

مسئلہ ۵۵: تھان خریدا کہ دس گز ہے فی گز ایک روپیہ اور وہ ساڑھے دس گز نکلا تو دس روپے میں لینا پڑیگا اور ساڑھے نو گز نکلا تو مشتری کو اختیار ہے کہ نو روپے میں لے یا نہ لے۔(ہدایہ)

مسئلہ ۵۶: ایک زمین خریدی کہ اس میں اتنے پھل دار درخت ہیں مگر ایک درخت ایسا نکلا جس میں پھل نہیں آتے تو بیع فاسد ہو ئی اور اگر زمین خریدی کہ اس میں اتنے درخت ہیں اور کم نکلے تو بیع جائز ہے مگر مشتری کو یہ اختیار ہے کہ چاہے پورے ثمن پر لے لے اور چاہے نہ لے یوں ہی اگر مکان خریدا کہ اس میں اتنے کمرے یا کوٹھریاں ہیں اور کم نکلیں تو بیع جائز ہے مگر مشتری کو اختیار ہے۔(درمختار۔ردالمحتار)

مسئلہ ۵۷: کوئی مکان خریدا تو جتنے کمرے کو ٹھریاں ہیں سب بیع میں داخل ہیں یوں ہی جو چیز مبیع کے ساتھ متصل ہو اور اس کا اتصال اتصال قرار ہو یعنی اس کی وضع اس لئے نہیں کہ جدا کر لی جائے گی تو یہ بھی بیع میں داخل ہوگی مثلًا مکان کا زینہ یا لکڑی کا زینہ جو مکان کے ساتھ متصل ہو کیواڑ اور چوکھٹ اور کنڈی اور وہ قفل جو کیواڑ میں متصل ہوتا ہے اور اس کی کنجی۔دوکان کے سامنے جو تختے لگے ہوتے ہیں یہ سب بیع میں داخل ہیں اور وہ قفل جو کیواڑ سے متصل نہیں بلکہ الگ رہتا ہے جیسے عام طور پر تالے ہوتے ہیں یہ بیع میں داخل نہیں بلکہ بائع لے لیگا۔(درمختار۔فتح القدیر)

مسئلہ۵۷: زمین بیچڈالی تو اس میں چھوٹے بڑے پھلدار اور بے پھل جتنے درخت ہیں سب بیع میں داخل ہیں مگر سوکھادرخت جو ابھی تک زمین سے اکھڑا نہیں ہے وہ داخل نہیں کہ یہ گویالکڑی ہے جو زمین پر رکھی ہے ۔لہذا آم وغیرہ کے پودے جو زمین میں ہوتے ہیں کہ برسات میں یہاں سے کھود کر دوسری جگہ لگائے جاتے ہیں یہ بھی داخل ہیں ۔( فتح القدیر)

مسئلہ۵۸: مکان بیچا تو چکی بیع میں داخل نہ ہوگی اگرچہ نیچے کا پاٹ زمین میں جڑا ہواور ڈول رسی بھی داخل نہیں اور کوئیں پر پانی بھرنے کی چرخی اگر متصل ہو تو داخل ہے اور اگر رسی سے بندھی ہو یا دونوں بازئوں میں حلقہ بنا ہے کہ پانی بھرنے کے وقت چرخی لگادیتے ہیں پھر الگ کر دیتے ہیں تو ان دونوں صورتوں میں داخل نہیں ۔(درمختار۔ردالمحتار۔فتح القدیر)

مسئلہ ۵۹ : حمام بیچا تو پانی گرم کرنے کی دیگ جو زمین سے متصل ہے یا اتنی بڑی اور بھاری ہے جو ادھر ادھر منتقل نہیں ہو سکتی بیع میں داخل ہے اور چھوٹی دیگ جو متصل نہیں بیع میں داخل نہیں ۔دھوبی کی دیگ جس میں بھٹی چڑھاتا ہے اور رنگریز کے مٹکے وغیرہ جس میں رنگ تیار کرتا ہے یہ سب اگر متصل ہوں تو داخل ہیں ورنہ نہیں یوں ہی دھوبی کا پاٹا۔(ردالمحتار)

مسئلہ ۶۰ : گدھے والے سے اگر گدھا خریدا تو اس کا پالان بیع میں داخل ہے اور اگر تاجر سے خریدا تو نہیں اور اس کے گلے میں ہار وغیر ہ پڑا ہے تو وہ بیع میں مطلقًا داخل ہے۔(درمختار ۔ردالمحتار)

مسئلہ ۶۱ : گائے یا بھینس خریدی تو اس کا چھوٹا بچہ جو دودھ پیتا ہے بیع میں داخل ہے اگر چہ ذکر نہ کیا ہو اور گدھی خریدی تو اس کا دودھ پیتا بچہ بیع میں داخل نہیں ۔(درمختار)

مسئلہ ۶۲ : لونڈی غلام بیچے تو جو کپڑے عرف کے موافق پہنے ہوئے ہیں بیع میں داخل ہیں اور اگر ان کپڑوں کو نہ دینا چاہے تو ان کے مثل دوسرے کپڑے دے یہ بھی ہو سکتا ہے اور اگر کپڑے نہ پہنے ہوں تو بائع پر بقدر ستر عورت کپڑا دینا لازم ہو گااور لونڈی زیور پہنے ہوئے ہو تو یہ بیع میں داخل نہیں ہاں اگر بائع نے زیور سمیت مشتری کو دی یا مشتری نے زیور کے ساتھ قبضہ کیااور بائع چپ رہا کچھ نہ بولا تو زیور بھی بیع میں داخل ہوگئے۔(درمختار)

مسئلہ ۶۳ : گھوڑا یا اونٹ بیچا تو لگام اور نکیل بیع میں داخل ہے یعنی اگر چہ بیع میں مذکور نہ ہوں بائع ا ن کو دینے سے انکار نہیں کر سکتااور زین یا کاٹھی بیع میں داخل نہیں ۔(عالمگیری)

مسئلہ ۶۴ : گھوڑی ،گدھی،گائے یا بکری کے ساتھ بچہ بھی ہے اگر بچہ کو بازار میں لے گیاہے جبکہ اس کی ماں کو بیچنے کے لئے لے گیا ہے تو بچہ بھی عرفًابیع میں داخل ہے۔(عالمگیری)

مسئلہ ۶۵ : مچھلی خریدی اور اس کے شکم میں موتی نکلا اگر یہ موتی سیپ میں ہے تو مشتری کا ہے اور اگر بغیر سیپ کے خالی موتی ہے تو بائع نے اگر اس مچھلی کا شکار کیا ہے تو اسے واپس کرے اور بائع کے پاس یہ موتی بطور لقطہ امانت رہے گا کہ تشہیر کرے اگر مالک کا پتہ نہ چلے خیرات کردے اور مرغی کے پیٹ میں موتی ملا تو بائع کو واپس کرے۔(خانیہ۔عالمگیری)

مسئلہ ۶۶ : جو چیز بیع میں تبعاً داخل ہو جاتی ہے اس کے مقابل میں ثمن کا کوئی حصہ نہیں ہوتایعنی وہ چیز ضائع ہو جائے تو ثمن میں کمی نہیں ہوگی مشتری کو پورے ثمن کے ساتھ لینا ہوگا۔

مسئلہ ۶۷ : زمین بیع کی اور اس میں کھیتی ہے تو زراعت بائع کی ہے البتہ اگر مشتری شرط کرلے یعنی مع زراعت کے لے تو مشتری کی ہے اسی طرح اگر درخت بیچا جس میں پھل مو جود ہیں تو یہ پھل بائع کے ہیں مگر جبکہ مشتری اپنے لئے شرط کرلے یوں ہی چمبیلی،گلاب،جوہی وغیرہ کے درخت خریدے تو پھول بائع کے ہیں مگر جبکہ مشتری شرط کرلے۔(ہدایہ۔فتح القدیر)

مسئلہ ۶۸: زراعت والی زمین یا پھل والا درخت خریدا تو بائع کو یہ حق حاصل نہیں کہ جب تک چاہے زراعت رہنے دے یا پھل نہ توڑے بلکہ اس سے کہا جائے گا کہ زراعت کاٹ لے اور پھل توڑلے اور زمین یا درخت مشتری کو سپرد کردے کیونکہ اب وہ مشتری کی ملک ہے اور دوسرے کی ملک کو مشغول رکھنے کا اسے حق نہیں البتہ مشتری نے اگر ثمن ادا نہ کیا ہوتو بائع پر تسلیم مبیع واجب نہیں ۔(ہدایہ ۔درمختار)

مسئلہ ۶۹: کھیت کی زمین بیع کی جس میں زراعت ہے اور بائع یہ چاہتا ہے کہ جب تک زراعت تیار نہ ہوکھیت ہی میں رہے تیارہونے پر کاٹی جائے اور اتنے زمانے تک کی اجرت دینے کوکہتاہے اگر مشتری راضی ہو جائے تو ایسا بھی کرسکتا ہے بغیر رضامندی نہیں کرسکتا۔(درمختار)

مسئلہ ۷۰: کاٹنے کے لئے درخت خریدا ہے تو عادۃً درخت خریدنے والے جہاں تک جڑ کھود کر نکالا کرتے ہیں یہ بھی جڑ کھود کر نکالے مگر جبکہ بائع نے یہ شرط کردی ہوکہ زمین کے اوپر سے کاٹنا ہوگا جڑ کھودنے کی اجازت نہیں تو اس صورت میں اوپر ہی سے درخت کاٹ سکتا ہے یا شرط نہیں کی ہے مگر جڑ کھودنے میں بائع کا نقصان ہے مثلًا وہ درخت دیوار یاکنویں کے قرب میں ہے جڑ کھودنے میں دیوار یا کنویں منہدم ہوجا نے کا اندیشہ ہے تو اس حالت میں بھی زمین کے اوپر سے ہی کاٹ سکتا ہے ۔پھر اگر اس جڑ میں دوسرا درخت پیدا ہو تو یہ درخت بائع کا ہوگا ہاں اگر درخت کا کچھ حصہ زمین کے اوپر چھوڑ دیا ۔اور اس میں مزید شاخیں نکلیں تو یہ شاخیں مشتری کی ہیں ۔(ردالمحتار)

مسئلہ ۷۱: کاٹنے کے لئے درخت خریدا ہے اس کے نیچے کی زمین بیع میں داخل نہیں اور باقی رکھنے کے لئے خریدا ہے تو زمین بیع میں داخل ہے اور اگر بیع کے وقت نہ یہ ظاہر کیا کہ کاٹنے کے لئے خریدتا ہے نہ یہ کہ باقی رکھنے کے لئے خریدتا ہے تو بھی(۱)نیچے کی زمین بیع میں داخل ہے۔(ردالمحتار)

(۱) حاشیہ: اس سے یہ مراد نہیں کہ جہاں تک درخت کی شاخیں پھیلی ہوں اور نہ یہ کہ جہاں تک جڑ میں پہنچی ہوں بلکہ بیع کے وقت درخت کی جتنی موٹائی ہے اتنی زمین بیع میں داخل ہے یہاں تک کہ بیع کے بعد درخت جتنا تھا اس سے ذیادہ موٹا ہوگیا تو بائع کو اختیار ہے کہ درخت چھیل کر اتنا ہی کردے جتنا بیع کے وقت تھا۔ (عالمگیری)

مسئلہ۷۲: درخت اگر کاٹنے کی غرض سے خریدا ہے تو مشتری کو حکم دیا جائے گا کہ کاٹ لے جائے چھوڑرکھنے کی اجازت نہیں اور اگر باقی رکھنے کے لئے خریدا ہے تو کاٹنے کا حکم نہیں دیا جاسکتا اور کاٹ بھی لے تو اس کی جگہ پر دوسرا درخت لگاسکتا ے بائع کو روکنے کا حق حاصل نہیں کیونکہ زمین کا اتنا حصہ اس صورت میں مشتری کا ہوچکا۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۷۳: جڑ سمیت درخت خریدا اور اس کی جڑمیں سے اور درخت اگے اگر ایسا ہے کہ پہلا درخت کاٹ لیا جائے تو یہ درخت سوکھ جائیں گے تو یہ بھی مشتری کے ہیں کہ اسی کے درخت سے اگے ہیں ورنہ بائع کے ہیں مشتری کو ان سے تعلق نہیں ۔( عالمگیری)

مسئلہ۷۴: زراعت تیارہونے سے قبل بیچ دی اس شرط پر کہ جب تک تیار نہ ہوگی کھیت میں رہے گی یاکھیت کی زمین بیچ ڈالی اور اس میں زراعت موجود ہے اور شرط یہ کی کہ جب تک تیار نہ ہوگی کھیت میں رہے گی یہ دونوں صورتیں ناجائز ہیں ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۷۵: زمین بیع کی تو وہ چیزیں جو زمین میں باقی رکھنے کی غرض سے ہیں جیسے درخت اور مکانات یہ بیع میں داخل ہیں اگرچہ ان کو بیع میں ذکر نہ کیا ہواور یہ بھی نہ کہا ہوکہ جمیع حقوق ومرافق کے ساتھ خریدتا ہوں البتہ اس زمین میں سوکھا ہو ا درخت ہے تو اس طرح کی بیع میں داخل نہیں اورجو چیزیں باقی رکھنے کے لئے نہ ہوں جیسے بانس، نرکل ،گھاس یہ بیع میں داخل نہیں مگر جبکہ بیع میں ان کا ذکر کردیا جائے ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۷۶: چھوٹا سا درخت خریدا تھا اور بائع کی اجازت سے زمین میں لگا رہاکاٹانہ گیا اب وہ بڑاہوگیا تووہ پورا درخت مشتری کا ہے اوربائع اگرچہ اجازت دے چکا ہے مگر اس کو یہ اختیار ہے کہ مشتری سے جب چاہے کہہ سکتا ہے کہ اسے کاٹ لے جائے اور اب مشتری کو رکھنا جائز نہ ہوگاس اوراگر بغیر اجازت بائع مشتری نے چھوڑرکھا ہے اور اب اس میں پھل آگئے تو پھلوں کے صدقہ کردینا واجب ہے ۔( خانیہ)

مسئلہ۷۷: زمین ایک شخص کی ہے جس میں دوسرے شخص کے درخت ہیں مالک زمین نے باجازت مالک درخت زمین و درخت بیچ ڈالے اب اگر کسی آفت سماوی سے درخت ضائع ہوگئے تو مشتری کو اختیار ہے کہ زمین نہ لے اور بیع فسخ کردی جائے اور لے گا تو پوری قیمت جو زمین ودرخت دونوں کی تھی دینی ہوگی اور یہ پورا ثمن اس صورت میں مالک زمین ہی کو ملے گامالک درخت کو کچھ نہ ملے گا۔(عالمگیری)

مسئلہ۷۸: باغ کی بہار پھل آنے سے پہلے بیچ ڈالی یہ ناجائز ہے یونہی اگر کچھ پھل آچکے ہیں کچھ باقی ہیں جب بھی نا جائز ہے جبکہ موجود ہ دونوں کی بیع مقصود ہواور اگر سب پھول آچکے ہیں تو یہ بیع درست ہے مگر مشتری کو یہ حکم ہوگا کہ ابھی پھل توڑ کر درخت خالی کردے اور اگر یہ شرط ہے کہ جب تک پھل تیار نہ ہوں گے درخت پر رہیں گے تیار ہوجانے کے بعد توڑے جائیں گے تو یہ شرط فاسد ہے اور بیع ناجائز۔ اور اگر پھل آجانے کے بعد بیع ہوئی مگر ہنوز مشتری کا قبضہ نہ ہواتھاکہ اور پھل پیدا ہوگئے بیع فاسد ہوگئی کہ اب مبیع وغیرمبیع میں امتیاز باقی نہ رہا اور قبضہ کے بعد دوسرے پھل پیدا ہوئے تو بیع پر اس کا کوئی اثر نہیں مگر چونکہ یہ جدید پھل بائع کے ہیں اور امتیاز ہے نہیں لہذا بائع ومشتری دونوں شریک ہیں رہا یہ کہ کتنے پھل بائع کے ہیں اور کتنے مشتری کے اس میں مشتری حلف سے جوکچھ کہدے ا س کا قول معتبر ہے ۔(فتح القدیر، ردالمحتار)

مسئلہ۷۹: پھل خریدے نہ یہ شرط کی کہ ابھی توڑ لے گا اور نہ یہ کہ پکنے تک درخت پر رہیں گے اور بعد عقد بائع نے درخت پر چھوڑنے کی اجازت دیدی تو یہ جائز ہے ۔اور اب پھلوں میں جو کچھ زیادتی ہوگی وہ مشتری کے لئے حلال ہے بشرطیکہ درخت پر پھل چھوڑے رہنے کا عرف نہ ہو کیونکہ اگر عرف ہوچکا ہو جیسا کہ اس زمانہ میں عموماًہندوستان میں یہی ہوتا ہے کہ یہاں شرط نہ ہو جب بھی شرط ہی کا حکم ہوگا اور بیع فاسد ہوگی البتہ اگر تصریح کردی جائے کہ فی الحال توڑلینا ہوگا اور بعد میں مشتری کے لئے بائع نے اجازت دیدی تو یہ بیع فاسد نہ ہوگی۔ اور اگر بیع میں شرط ذکر نہ کی اور بائع نے درخت پر رہنے کی اجازت بھی نہ دی مگر مشتری نے پھل نہیں توڑے تو اگر بہ نسبت سابق پھل بڑے ہوگئے توجو کچھ زیادتی ہوئی اسے صدقہ کرے یعنی بیع کے دن پھلوں کو جو قیمت تھی اس قیمت پر آج کی قیمت میں جو کچھ اضافہ ہواوہ خیرات کرے مثلاًاس روز دس روپے قیمت تھی اور آج کی قیمت بارہ روپے ہے تو دو (۲) روپے خیرات کردے اور اگر بیع ہی کے دن پھل اپنی پوری مقدار کو پہنچ چکے تھے اب پک گئے تو اس صورت میں صدقہ کرنے کی ضرورت نہیں البتہ اتنے دنوں بغیر اجازت ا س کے درخت پر چھوڑے رہنے کا گناہ ہوا۔(درمختار، ردا لمحتار)

مسئلہ۸۰: پھل خریدے اور یہ خیال ہے کہ بیع کے بعد اور پھل پیدا ہوجائیں گے یا درخت پر پھل رہنے میں پھلوں میں زیادتی ہوگی جو بغیر اجازت بائع ناجائز ہوگی اور چاہتا ہے کہ کسی صورت سے جائز ہو جائے تو اس کا یہ حیلہ ہوسکتا ہے کہ مشتری ثمن ادا کرنے کے بعد بائع سے باغ یا درخت بٹائی پر لے لے اگرچہ بائع کا حصہ بہت قلیل قرار دے مثلاًجو کچھ اس میں ہوگا اس میں نو سو ننانوے حصے مشتری کے اور ایک حصہ بائع کا تو اب جو نئے پھل پیدا ہوں گے یا جوکچھ زیادتی ہوگی بائع کا وہ ہزارواں حصہدے کر مشتری کے لئے جائز ہوجائے گی مگر یہ حیلہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ درخت یا باغ کسی یتیم کا نہ ہو نہ وقف ہو۔اور اگر بیگن، مرچیں ،کھیرے ،ککڑی وغیرہ خریدے ہوں اور ان کے درختوں یا بیلوں میں آئے دن نئے پھل پیدا ہوں گے تو یہ کرے کہ وہ درخت یا بیلیں بھی مشتری خریدلے کہ اب جو نئے پھل پیدا ہوں گے مشتری کے ہونگے ۔اور زراعت پکنے سے قبل خریدی ہے تو یہ کرے کہ جتنے دنوں میں وہ تیار ہوگی اس کی مدت مقرر کرکے زمین اجارہ پر لے لے ۔(درمختار)

مسئلہ۸۱ : جس چیز پر مستقلاًعقدوارد ہوسکتا ہے اس کا عقد سے استثناء صحیح ہے اور اگروہ چیز ایسی ہے کہ تنہا ا س پر عقدوارد نہ ہوتو استثناء صحیح نہیں یہ ایک قاعدہ ہے اس کی مثال سنیئے۔ غلہ کی ایک ڈھیری ہے اس میں سے دس سیر یاکم وبیش خریدسکتے ہیں اسی طرح علاوہ دس سیر کے پوری ڈھیری بھی خریدسکتے ہیں ۔ بکریوں کے ریوڑمیں سے ایک بکری خرید سکتے ہیں اسی طرح ایک معین بکری کو مستثنی کر کے سارا ریوڑ بھی خریدسکتے ہیں اورغیر معین بکری کو نہ خریدسکتے ہیں نہ اس کا استثنا ء کرسکتے ہیں ۔ درخت پر پھل لگے ہوں ان میں کا ایک محدودحصہ خریدسکتے ہیں اسی طرح اس حصہ کا استثنا ء بھی ہوسکتا ہے مگر یہ ضرور ہے کہ جس کا استثنا ٔکیاجائے وہ اتنا نہ ہوکہ اس کے نکالنے کے بعدمبیع ہی ختم ہوجائے یعنی یہ یقینا معلوم ہوکہ استثنا ء کے بعدمبیع باقی رہے گی اور اگر شبہہ ہوتو درست نہیں ۔باغ خریدا اس میں سے ایک معین درخت کا استثناء کیا صحیح ہے ۔بکری کو بیچا اور اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کا استثنا ء کیا یہ صحیح نہیں کہ اس کو تنہا خریدنہیں سکتے ۔ جانور کے سری پائے دنبہ کی چکی کا استثنأ نہیں کیا جاسکتا ۔ نہ ان کو تنہا خریدا جاسکتا یعنی جانور کے جزو معین کا استثناء نہیں ہوسکتا اور استثنا ٔکیا تو بیع فاسد ہے اور جزو شائع مثلاًنصف یا چوتھائی کو خریدبھی سکتے ہیں اور اس کا استثنا ء بھی کرسکتے ہیں اور اس تقدیر پروہ جانور دونوں میں مشترک ہوگا۔( عالمگیری، ردالمحتار،درمختار)

مسئلہ۸۲: مکان توڑنے کے لئے خریدا تو اس کی لکڑیوں یا اینٹوں کا استثناء صحیح ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ۸۳: کنیز کی کسی شخص کے لئے وصیت کی اور اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کا استثناء کیا یا پیٹ میں جو بچہ ہے اس کی وصیت کی اور لونڈی کا استثنا ء کیا یہ استثنا ء صحیح ہے ۔ لونڈی کو بیع کیا یا اس کو مکاتبہ کیا یا اجرت پر دیا یا مالک پر دین تھا دین کے بدلے میں لونڈی دیدی اورن سب صورتوں میں اس کے پیٹ میں جو بچہ ہے اس کا استثناء کیا تو یہ سب عقودفاسد ہوگئے اوراگر لونڈی کوہبہ کیا یا صدقہ کیااور قبضہ دلادیا اس کو مہر میں دیا یا قتل عمدکیا تھا لونڈی دے کر صلح کرلی یا اس کے بدلے میں خلع کیا یا آزادکیا اور ان سب صورتوں میں پیٹ کے بچہ کا استثناء کیا تویہ سب عقد جائز ہیں اور استثناء باطل ۔جانور کے پیٹ میں بچہ ہے اسکا استثنا کیا جب بھی یہی احکام ہیں ۔(عالمگیری)

مسئلہ۸۴: مبیع کے ماپ یا تول یا گنتی کی اجرت دینی پڑے تو وہ بائع کے ذمہ ہوگی کہ مانپنا تولنا گننا اسکا کام ہے کہ مبیع کی تسلیم اسی طرح ہوتی ہے کہ مانپ تول کر مشتری کو دیتے ہیں اور ثمن کے تولنے یا گننے یا پرکھنے کی اجرت دینی پڑے تویہ مشتری کے ذمہ ہے کہ پورا ثمن اور کھرے دام دینا اسی کاکام ہے ہاں اگر بائع نے بغیر پرکھے ہوئے ثمن پر قبضہ کرلیا اور کہتا ہے کہ روپے اچھے نہیں ہیں واپس کرناچاہتا ہے تو بغیر پرکھے کیسے کہاجاسکتا ہے کہ کھوٹے ہیں واپس کئے جائیں اس صورت میں پرکھنے کی اجرت بائع کو دینی ہوگی۔ دین کے روپے پرکھنے کی اجرت مدیون کے ذمہ ہے ۔( درمختار)

مسئلہ۸۵: درخت کے کل پھل ایک ثمن معین کے ساتھ تخمیناًخرید لئے یوہیں کھیت میں کے لہسن پیاز تخمینہ سے خریدے یا کشتی میں کا ساراغلہ وغیرہ تخمینہ سے خریدا تو پھل توڑنے لہسن پیاز نکلوانے یا کشتی سے مبیع باہر لانے کی اجرت مشتری کے ذمہ ہے یعنی جب کہ مشتری کو بائع نے کہہ دیاکہ تم پھل توڑلے جاؤاور یہ چیزیں نکلوالو۔(درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۸۶: دلال کی اجرت یعنی دلالی بائع کے ذمہ ہے جب کہ اس نے سامان مالک کی اجازت سے بیع کیا ہواور اگر دلال نے طرفین میں بیع کی کوشش کی ہواور بیع اس نے نہ کی ہوبلکہ مالک نے کی ہوتو جیساوہاں کا عرف ہو یعنی اس صورت میں بھی اگر عرفاًبائع کے ذمہ دلالی ہوتو بائع دے اور مشتری کے ذمہ ہوتو مشتری دے اور دونوں کے ذمہ ہوتو دونوں دیں ۔(درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۸۷: ر وپیہ اشرفی پیسہ سے بیع ہوئی اور مبیع وہاں حاضر ہے اور ثمن فوراًدینا ہو اور مشتری کو خیار شرط نہ ہوتو مشتری کو پہلے ثمن ادا کرنا ہوگا اس کے بعد مبیع پرقبضہ کرسکتا ہے یعنی بائع کو یہ حق ہوگا کہ ثمن وصول کرنے کے لئے مبیع کوروک لے اور اس پر قبضہ نہ دلائے بلکہ جب تک پورا ثمن وصول نہ کیا ہو مبیع کو روک سکتا ہے او راگر مبیع غائب ہوتو بائع جب تک مبیع کو حاضرنہ کردے ثمن کا مطالبہ نہیں کرسکتا ۔ اور اگر بیع میں دونوں جانب سامان ہوں مثلاً کتاب کو کپڑے کے بدلے میں خریدا یا دونوں طرف ثمن ہوں مثلاًروپیہ یا اشرفی سے سونا چاندی خریداتو دونوں کو اسی مجلس میں ایک ساتھ ادا کرنا ہوگا۔( ہدایہ ، درمختار)

مسئلہ ۸۸: مشتری نے ابھی مبیع پر قبضہ نہیں کیا ہے کہ وہ مبیع بائع کے فعل سے ہلاک ہوگئی یا اس مبیع نے خوداپنے کو ہلاک کردیا یاآفت سماوی سے ہلاک ہوگئی تو بیع باطل ہوگئی بائع نے ثمن پر قبضہ کرلیا ہے تو واپس کرے اور اگر مشتری کے فعل سے ہلاک ہوئی اور بیع مطلق ہویا مشتری کے لئے شرط خیار ہو تو مشتری پر ثمن دینا واجب ہے ۔اور اگر اس صورت میں بائع کے لئے شرط خیار ہو یا بیع فاسد ہوتو مشتری کے ذمہ ثمن نہیں بلکہ تاوان ہے یعنی اگروہ چیز مثلی ہے تو اس کی مثل دے اورقیمی ہے تو قیمت دے اور اگر کسی اجنبی نے ہلاک کردی ہو تو مشتری کو اختیار ہے چاہے بیع کو فسخ کردے اور اس صورت میں ہلاک کرنے والا بائع کو تاوان دے اور مشتری چاہے تو بیع باقی رکھے اور بائع کو ثمن ادا کرے اور ہلاک کرنے والے سے تاوان لے اور وہ تاوان اگر جنس ثمن سے نہ ہوتو اگرچہ ثمن سے زیادہ بھی ہو حلا ل ہے اور جنس ثمن سے ہوتو زیادتی حلال نہیں مثلاًثمن دس روپیہ ہے اورتاوان پندرہ روپے لیا تو یہ پانچ ناجائز ہیں اور اشرفی تاوان میں لی تو جائز ہے اگرچہ یہ پندرہ روپے یا زیادہ کی ہو۔(فتح)

مسئلہ ۸۹: دوچیزیں ایک عقد میں بیع کی ہیں اگرہر ایک کا ثمن علیحدہ علیحدہ بیان کردیامثلاًدوگھوڑے ایک ساتھ ملا کر بیچے ایک کا ثمن پانچ سو ہے اور دوسرے کا چار سو جب بھی بائع کو حق ہے کہ جب تک پورا ثمن وصول نہ کرلے مبیع پر قبضہ نہ دلائے مشتری یہ نہیں کرسکتا کہ دونوں میں سے ایک کا ثمن ادا کرکے اس کے قبضہ کا مطالبہ کرے اور اگر مشتری نے بائع کے پاس کوئی چیز رہن رکھ دی یا ضامن پیش کردیا جب بھی مبیع کے روکنے کاحق بائع کے لئے باقی ہے اور اگر بائع نے ثمن کا کچھ حصہ معاف کردیا ہے تو جو کچھ باقی ہے اسے جب تک وصول نہ کرے مبیع کو روک سکتا ہے ۔( ردالمحتار)

مسئلہ۹۰: بیع کے بعد بائع نے ادائے ثمن کے لئے کوئی مدت مقرر کردی اب مبیع کے روکنے کا حق نہ رہا یا بغیر وصولی ثمن مبیع پر قبضہ دلایا تو اب مبیع کو واپس نہیں لے سکتا اور اگر بلااجازت بائع مشتری نے قبضہ کرلیا تو واپس لے سکتا ہے اور مشتری نے بلااجازت قبضہ کیا مگر بائع نے قبضہ کرتے دیکھا اور منع نہ کیا تو اجازت ہوگئی اور اب واپس نہیں لے سکتا۔( ردالمحتار)

مسئلہ۹۱: مشتری نے کوئی ایسا تصرف کیا جس کے لئے قبضہ ضروری نہیں ہے وہ ناجائز ہے اور ایسا تصرف کیاجس کے لئے قبضہ ضرور ہے وہ جائز ہے۔ مثلاًمشتری نے مبیع کو ہبہ کیا اور موہوب لہ نے قبضہ کرلیا تو اس کا قبضہ قبضۂ مشتری کے قائم مقام ہے اور مبیع کو بیع کردیا یہ ناجائز ہے ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۹۲: مشتری نے مبیع کسی کے پاس امانت رکھدی یا عاریت دیدی یا بائع سے کہہ دیا کہ فلاں کو سپرد کردے اس نے سپردکردی ان سب صورتوں میں مشتری کا قبضہ ہوگیا اور اگرخود بائع کے پاس امانت رکھی یا عاریت دیدی یا کرایہ پر دیدی یا بائع کو کچھ ثمن دیدیااور کہد یا کہ باقی ثمن کے مقابلہ میں مبیع کو تیرے پاس رہن رکھا تو ان سب صورتوں میں قبضہ نہ ہوا۔(ردالمحتار)

مسئلہ۹۳: غلہ خریدا اور مشتری نے اپنی بوری بائع کودیدی اور کہہ دیا کہ اس میں ناپ یا تول کر بھر دے تو ایسا کردینے سے مشتری کا قبضہ ہوگیا بائع نے مشتری کے سامنے اس میں بھرا ہو یا غیبت میں دونوں صورتوں میں قبضہ ہوگیا اور اگر مشتری نے اپنی بوری نہیں دی بلکہ بائع سے کہا کہ تم اپنی بوری عاریت مجھے دو اور اس میں ناپ یا تول کر بھر دو تو اگر مشتری کے سامنے بھر دیا قبضہ ہوگیا ورنہ نہیں ۔یونہی تیل خریدا اور اپنی بوتل یا برتن دیکر کہا کہ اس میں تول دے اس نے تول کر ڈال دیا قبضہ ہوگیا۔ یہی حکم ناپ اور تول کی ہر چیز کا ہے کہ مشتری کے برتن میں جب اس کے حکم سے رکھدی جائے گی قبضہ ہوجائے گا۔( ہدایہ وغیرہ)

مسئلہ۹۴: بائع نے مبیع اور مشتری کے درمیان تخلیہ کردیا کہ اگر وہ قبضہ کرنا چاہے کرسکے اور قبضہ سے کوئی چیز مانع نہ ہواور مبیع و مشتری کے درمیان کوئی شے حائل بھی نہ ہوتو مبیع پرقبضہ ہوگیا اسی طرح مشتری نے اگر ثمن وبائع میں تخلیہ کردیا تو بائع کو ثمن کی تسلیم کردی۔( درمختار)

مسئلہ۹۵: اگر تخلیہ کردیا مگر قبضہ سے مانع ہے مثلاًمبیع دوسرے کے حق میں مشغول ہے جیسے مکان بیچا اور اس میں بائع کا سامان موجود ہے اگرچہ قلیل ہو یا زمین بیع کی اور اس میں بائع کی زراعت ہے تو ان صورتوں میں مشتری کا قبضہ نہیں ہواہاں بائع نے مکان وسامان دونوں پر قبضہ کرنے کو کہد یا اور اس نے کرلیا تو قبضہ ہوگیااور اس صورت میں سامان مشتری کے پاس امانت ہوگا اور اگر خود مبیع نے دوسری چیز کو مشغول کررکھا ہو مثلاًغلہ خریداجو بائع کی بوریوں میں ہے یا پھل خریدے جو درخت میں لگے ہیں تو تخلیہ کردینے سے قبضہ ہوجائے گا۔(عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ۹۶: مکان خریدا جو کسی کے کرایہ میں ہے اورمشتری راضی ہوگیا کہ جب تک اجارہ کی مدت پوری نہ ہوعقد فسخ نہ کیاجائے جب اجارہ کی مدت پوری ہوگی اس وقت قبضہ کرے گا تو اب مشتری قبضہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا جب تک اجارہ کی میعاد باقی ہے اور بائع بھی مشتری سے ثمن کا مطالبہ نہیں کرسکتا جب تک مکان کو قابل قبضہ نہ کردے ۔(ردالمحتار)

مسئلہ۹۷: سرکہ یا عرق وغیرہ خردااور بائع نے تخلیہ کردیا مشتری نے بوتلوں پر مہر لگا کر بائع ہی کے یہاں چھوڑدیا تو قبضہ ہوگیا کہ وہ اگر ہلاک ہوگا مشتری کا نقصان ہوگا بائع کو اس سے تعلق نہ ہوگا اور اگر مبیع بائع کے مکان میں ہے بائع نے اسے کنجی دیدی اور کہہ دیا کہ میں نے تخلیہ کردیا تو قبضہ ہوگیا اور کنجی دیکر کچھ نہ کہا تو قبضہ نہ ہوا۔(عالمگیری)

مسئلہ۹۸: مکان خریدا اور اس کی کنجی بائع نے دے کر کہہ دیا کہ تخلیہ کردیا اگر وہ مکان وہیں ہے کہ آسانی کے ساتھ اس مکان میں تالا لگا سکتا ہے تو قبضہ ہوگیا۔اور مکان مبیع دور ہے تو قبضہ نہ ہوااگرچہ بائع نے کہدیا ہوکہ میں نے تمہیں سپرد کردیا اور مشتری نے کہا میں نے قبضہ کرلیا۔(عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ۹۹: بیل خریدا جو چررہا ہے بائع نے کہدیا جاؤ قبضہ کرلواگر بیل سامنے ہے کہ اس کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے تو قبضہ ہوا ورنہ نہیں ۔کپڑاخریدااور بائع نے کہہ دیا کہ قبضہ کرلو اگر اتنا نزدیک ہے کہ ہاتھ بڑھا کر لے سکتے ہے قبضہ ہوگیااور اگر قبضہ کے لئے اٹھنا پڑے گا تو فقط تخلیہ سے قبضہ نہ ہوگا۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۰۰: گھوڑا خریدا جس پر بائع سوار ہے مشتری نے کہا مجھے سوار کرلے اس نے سوار کرلیا اگر اس پر زین نہیں ہے تو مشتری کا قبضہ ہوگیا اور زین ہے اورمشتری زین پر سوار ہواجب بھی قبضہ ہوگیا اور زین پر سوار نہ ہوا تو قبضہ نہ ہوا۔ اور اگردونوں بیع سے پہلے اس گھوڑے پر سورا تھے اور اسی حالت میں عقد بیع ہوا تو مشتری کا یہ سوار ہونا قبضہ نہیں جس طرح مکان میں بائع ومشتری دونوں ہیں اور مالک نے وہ مکان بیع کیا تو مشتری کا اس مکان میں ہونا قبضہ نہیں ۔(فتح القدیر)

مسئلہ ۱۰۱: نگینہ جو انگوٹھی میں ہے اسے خریدابائع نے انگشتری مشتری کو دیدی کہ اس میں سے نگینہ نکال لے انگشتری مشتری کے پاس سے ضائع ہوگئی اگر مشتری آسانی سے نگینہ نکال سکتا ہے تو قبضہ صحیح ہوگیا صرف نگینہ کا ثمن دینا ہوگا اور اگر بلا ضرر اس میں سے نگینہ نہ نکال سکتا ہوتو تسلیم صحیح نہیں اورمشتری کو کچھ نہیں دینا پڑے گااور اگر انگوٹھی ضائع نہ ہوئی اور بلاضرر مشتری نکال نہیں سکتا اور ضرر برداشت کرنا نہیں چاہتا تو اسے اختیار ہے کہ بائع کا انتظار کرے کہ وہ جدا کرکے دے یا بیع فسخ کردے ۔(خانیہ )

مسئلہ۱۰۲: بڑے مٹکے یا گولی بیع کی جو بغیر دروازہ کھودے گھر میں سے نہیں نکل سکتی اس کے قبضہ کے لئے بائع پر لازم ہوگاکہ گھر سے باہر نکال کر قبضہ دلائے اوربائع اس میں اپنا نقصان سمجھتا ہے تو بیع کو فسخ کرسکتا ہے ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۱۰۳: تیل خریدا اور برتن بائع کو دیدیا کہ اس میں تول کر ڈال دے ایک سیر اس میں ڈالا تھا کہ برتن ٹوٹ گیا اور تیل بہہ گیا جس کی خبر بائع مشتری کسی کو نہ ہوئی بائع نے اس میں پھر اور تیل ڈالا اب حکم یہ ہے کہ ٹوٹنے سے پہلے جتنا ڈالا اور بہہ گیا وہ مشتری کا نقصان ہوااورٹوٹنے کے بعد جو تیل ڈالا اور بہایہ بائع کاہے اور اگر ٹوٹنے کے پہلے جتنا تیل ڈالا تھا وہ سب نہیں بہا اس میں کا کچھ بچ رہاتھا کہ بائع نے دوسرا اسپر ڈال دیا تو وہ پہلے کا بقیہ بائع کی ملک قرار دیا جائے اور اس کی قیمت کا تاوان مشتری کو دے ۔ اور اگرمشتری نے ٹوٹا ہو ابرتن بائع کو دیا تھا جس کی دونوں کو خبر نہ تھی توجو کچھ تیل بہہ جائے گا سارا نقصان مشتری کے ذمہ ہے ۔ اور اگر مشتری نے برتن بائع کو نہیں دیا بلکہ خود لئے رہااور بائع اس میں تول کر ڈالتا رہا تو ہر صورت مین کل نقصان مشتری ہی کے ذمہ ہے ۔( عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۴: روغن خریدا اور بائع کو برتن دے دیا اور کہہ دیا کہ اس میں تول کر ڈالدے اور برتن ٹوٹاہواتھا جس کی بائع کو خبر تھی اور مشتری کو علم نہ تھا تو نقصان بائع کے ذمہ ہے اور اگر مشتری کو معلوم تھا بائع کو معلوم نہ تھا یا دونوں کو معلوم تھا تو سارا نقصان دونوں صورتوں میں مشتری کو ہوگا۔(عالمگیری)

مسئلہ ۱۰۵: تیل خریدا اور بائع کو بوتل دے کرکہا کہ میرے آدمی کے ہاتھ میرے یہاں بھیجدینا اگر راستہ میں بوتل ٹوٹ گئی اور تیل ضائع ہوگیا تو مشتری کا نقصان ہوااور اگریہ کہا تھاکہ اپنے آدمی کے ہاتھ میرے مکان پر بھیجدینا تو بائع کا نقصان ہوگا۔( عالمگیری)

مسئلہ۱۰۶: کوئی چیز خرید کر بائع کے یہاں چھوڑدی اور کہد یا کہ کل لے جاؤں گااگر نقصان ہوتو میرا ہوگا اورفرض کرووہ جانور تھا جو رات میں مرگیا تو بائع کا نقصان ہو امشتری کاوہ کہنا بیکار ہے اس لئے کہ جب تک مشتری کا قبضہ نہ ہو مشتری کو نقصان سے تعلق نہیں ۔(خانیہ )

مسئلہ ۱۰۷: کوئی چیز بیچی جس کا ثمن ابھی وصول نہیں ہوا ہے و ہ چیز کسی ثالث کے پاس رکھدی کہ مشتری ثمن دیکر مبیع وصول کرلے گا اور وہاں وہ چیز ضائع ہوگئی تو نقصان بائع کا ہوا اور اگر ثالث نے تھوڑا ثمن وصول کرکے وہ چیز مشتری کو دیدی جس کی بائع کو خبر نہ ہوئی تو بائع وہ چیز مشتری سے واپس لے سکتا ہے ۔ ( عالمگیری)

مسئلہ۱۰۸: کپڑا خریدا ہے جس کا ثمن ادا نہیں کیا کہ قبضہ کرتا اس نے بائع سے کہا کہ ثالث کے پاس اسے رکھ دو میں دام دے کرلے لونگا بائع نے رکھدیا اور وہاں وہ کپڑا ضائع ہوگیا تو نقصان بائع کاہوا کہ ثالث کا قبضہ بائع کے لئے ہے لہذا نقصان بھی بائع ہی کا ہوگا ۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۰۹: مبیع بائع کے ہاتھ میں تھی اورمشتری نے اسے ہلاک کردیایا اس میں عیب پیداکردیا یا بائع نے مشتری کے حکم سے عیب پیدا کردیا تومشتری کا قبضہ ہوگیا ۔گیہوں خریدے اور بائع سے کہا کہ انہیں پیس دے اس نے پیس دیئے تو مشتری کا قبضہ ہوگیا اور آٹامشتری کا ہے ۔(عالمگیری)

مسئلہ ۱۱۰: مشتری نے قبضہ سے پہلے بائع سے کہہ دیا کہ مبیع فلاں شخص کہ ہبہ کردے اس نے ہبہ کردیا اور موہوب لہ کو قبضہ بھی دلادیا تو ہبہ جائز اورمشتری کا قبضہ ہوگیایوہیں اگر بائع سے کہدیا کہ اسے کرایہ پر دیدے اس نے دیدیاتو جائز ہے اور مستاجر کا قبضہ پہلے مشتری کے لئے ہوگا پھر اپنے لئے ۔(عالمگیری)

مسئلہ ۱۱۱: مشتری نے بائع سے مبیع میں ایسا کام کرنے کوکہا جس سے مبیع میں کوئی کمی پیدا نہ ہوجیسے کوراکپڑا تھا اسے دھلوایا تو مشتری کا قبضہ نہ ہوا پھر اگر اجرت پر دھلوایا ہے تو اجرت مشتری کے ذمہ ہے ورنہ نہیں اور اگر وہ کام ایسا ہے جس سے کمی پیدا ہوجاتی ہے تومشتری کا قبضہ ہوگیا۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۱۲: مشتری نے ثمن اداکرنے سے پہلے بغیر اجازت بائع مبیع پر قبضہ کرلیا تو بائع کو اختیار ہے اس کا قبضہ باطل کرکے مبیع واپس لے لے اور اس صورت میں مشتری کا تخلیہ کردینا قبضۂ بائع کے لئے کافی نہ ہوگا بلکہ حقیقتہً قبضہ کرنا ہوگا اورمشتری نے قبضہ کرکے کوئی ایسا تصرف کردیا جس کو توڑسکتے ہوں تو بائع اس تصرف کو بھی باطل کرسکتا ہے مثلاًمبیع کو ہبہ کردیا یا بیع کردیا یارہن رکھ دیا یا اجارہ پر دیدیا یا صدقہ کردیا اور اگر وہ تصرف ایسا ہے جوٹوٹ نہیں سکتا تو مجبوری ہے مثلاًغلام تھا جس کو مشتری آزاد کرچکا ہے ۔(عالمگیری)

مسئلہ ۱۱۳: مبیع پر مشتری کا قبضہ عقد بیع سے پہلے ہی ہوچکا ہے ۔ اگر وہ قبضہ ایسا ہے کہ تلف ہونے کی صورت میں تاوان دینا پڑتا ہے تو بیع کے بعد جدید قبضہ کی ضرورت نہیں مثلاًوہ چیز مشتری نے غصب کررکھی ہے یا بیع فاسد کے ذریعہ خرید کر قبضہ کرلیا اب اسے عقد صحیح کے ساتھ خریدا تو وہی پہلا قبضہ کافی ہے کہ عقد کے بعد ابھی گھر پہنچا بھی نہ تھا کہ وہ شے ہلاک ہوگئی تو مشتری کی ہلاک ہوئی اور اگر وہ قبضہ ایسا نہ ہو جس سے ضمان لازم آئے مثلاًمشتری کے پاس وہ چیز امانت کے طورپر تھی تو جدید قبضہ کی ضرورت ہے یہی حکم سب جگہ ہے دونوں قبضے ایک قسم کے ہوں یعنی دونوں قبضہ ٔ ضمان یا دونوں قبضہ ٔ امانت ہوں تو ایک دوسرے کے قائم مقام ہوگا اور اگر مختلف ہوں تو قبضہ ٔ ضمان قبضۂ امانت کے قائم مقام ہوگا مگر قبضہ ٔ امانت قبضہ ٔ ضمان کے قائم مقام نہیں ہوگا۔(عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button