بہار شریعت

چہرے اور سر کے زخموں کی سزا کے متعلق مسائل

چہرے اور سر کے زخموں کی سزا کے متعلق مسائل

(چہرے اور سر کے زخموں کو شجاج کہتے ہیں )

مسئلہ ۲۹۱ : اس کی دس قسمیں بیان کی گئی ہیں ۔ (۱) حارصہ (۲) دامعہ (۳) دامیہ (۴) باضعہ (۵) متلاحمہ (۶) سمحاق (۷) موضحہ (۸) ہاشمہ (۹) منقلہ (۱۰) آمہ

متعلقہ مضامین

(۱) حارصہ :۔ جلد کے اس زخم کو کہتے ہیں جس میں جلد پر خراش پڑ جائے مگر خون نہ چھنکے۔

(۲) دامعہ :۔ سر کی جلد کے اس زخم کو کہتے ہیں جس میں خون چھنک آئے مگر بہے نہیں ۔

(۳) دامیہ :۔ سر کی جلد کے اس زخم کو کہتے ہیں جس میں خون بہہ جائے۔

(۴) باضعہ :۔ جس میں سر کی جلد کٹ جائے۔

(۵) متلاحمہ :۔ جس میں سر کا گوشت بھی پھٹ جائے۔

(۶) سمحاق :۔ جس میں سر کی ہڈی کے اوپر کی جھلی تک زخم پہنچ جائے۔

(۷) موضحہ :۔ جس میں سر کی ہڈی نظر آجائے۔

(۸) ہاشمہ :۔ جس میں سر کی ہڈی ٹوٹ جائے۔

(۹) منقلہ :۔ جس میں سر کی ہڈی ٹوٹ کر ہٹ جائے۔

(۱۰) امہ :۔ وہ زخم جو ام الدماغ، یعنی دماغ کی جھلی تک پہنچ جائے۔

ان کے علاوہ زخموں کی ایک قسم جائفہ بھی کی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ زخم جوف تک پہنچے اور یہ زخم پیٹھ، پیٹ اور سینے میں ہوتا ہے۔ اور اگر گلے کا زخم غذائی نالی تک پہنچ جائے تو وہ بھی جائفہ ہے۔ (عالمگیری ص ۲۸ ج ۶، شامی ص ۵۱۰ ج ۵، بحرالرائق ص ۳۳۳ ج ۸)

مسئلہ ۲۹۲ : موضحہ اور اس سے کم زخم اگر قصداً لگائے گئے ہوں تو ان میں قصاص ہے اور اگر خطاء ًہوں تو موضحہ سے کم زخموں میں حکومت عدل ہے اور موضحہ میں دیت نفس کا بیسواں حصہ ہے اور ہاشمہ میں دیت نفس کا دسواں حصہ ہے اور منقلہ مین دیت نفس کا پندرہ فیصد حصہ اور آمہ اور جائفہ میں دیت کا تہائی حصہ ہے۔ ہاں اگر جائفہ آرپار ہوگیا تو دو تہائی دیت ہے۔ (عالمگیری ص۲۹ ج ۶، بحرالرائق ص۳۳۴ ج ۸، ہدایہ و فتح القدیر ص ۳۱۲ ج ۸، بدائع صنائع ص ۳۱۶ ج ۷)

مسئلہ ۲۹۳ : ہاشمہ، منقلہ، آمہ اگر قصداً بھی لگائے تو قصاص نہیں ہے چوں کہ مساوات ممکن نہیں ہے اس لئے ان میں خطائً اور عمداً دونوں صورتوں میں دیت ہے۔ (عالمگیری ص ۲۹ ج ۶، شامی ص ۵۱۰ ج ۵، مبسوط ص ۷۴ ج ۲۶، بحرالرائق ص ۳۳۵ ج ۸)

مسئلہ ۲۹۴ : اگر کسی نے کسی کے چہرے یا سر کے کسی حصہ پر ایسا زخم لگایا کہ اچھا ہونے کے بعد اس کا اثر بھی زائل ہوگیا تو اس پر کچھ نہیں (عالمگیری ص ۲۹ ج ۶، تبیین الحقائق ص ۱۳ ج ۶، بدائع صنائع ص ۳۱۶ ج ۷، بحرالرائق ص ۳۴۰ ج ۸)

مسئلہ ۲۹۵ : چہرے اور سر کے علاوہ جسم کے کسی اور حصہ پر جو زخم لگایا جائے اس کو جراحت کہتے ہیں اور اس میں حکومت عدل ہے (شامی ص ۵۱۰ ج ۵، درمختار و فتح القدیر ص ۳۱۲ ج ۸ و ہدایہ)

مسئلہ ۲۹۶ : سر اور چہرے کے علاوہ جس کے دوسرے زخموں میں حکومت عدل اسی وقت ہے جب زخم اچھے ہونے کے بعد اس کے نشانات باقی رہ جائیں ورنہ کچھ نہیں ہے۔ (عالمگیری ص ۲۹ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۱۱ ج ۵)

مسئلہ ۲۹۷ : شجاج کی جن صورتوں میں قصاص واجب ہے ان میں زخم کی لمبائی چوڑائی میں مساوات کے ساتھ قصاص لیا جائے گا اور سر کے مقدم یا موخر حصہ یا وسط میں جس جگہ بھی زخم ہوگا زخمی کرنے والے کے اسی حصے میں مساوات کے ساتھ قصاص لیا جائے گا (عالمگیری ص ۲۹ ج ۶، صنائع بدائع ص ۳۰۹ ج ۷، قاضی خان ص ۳۸۶ ج ۴)

مسئلہ ۲۹۸ : اگر قرنین کے مابین پیشانی پر ایسا موضحہ لگایا کہ قرنین سے مل گیا اور زخم لگانے والے کی پیشانی بڑی ہونے کی وجہ سے اتنا لمبا زخم لگانے سے اس کے قرنین تک نہیں پہنچتا ہو تو زخمی کو اختیار دیا جائے گا کہ چاہے تو قصاص لے لے اور جس قرن سے چاہے شروع کر کے اتنا لمبا زخم اس کی پیشانی پر لگا دے اور اگر چاہے تو ارش لے لے۔ اور اگر زخمی کرنے والے کی پیشانی چھوٹی ہے کہ مساوات سے قصاص لینے کی صورت میں زخم قرنین سے تجاوز کر جاتا ہے، تب زخمی کو اختیار ہے کہ چاہے ارش لے لے اور چاہے تو صرف قرنین کے درمیان زخم لگا کر قصاص لے لے۔ قرنین سے زخم متجاوز نہیں ہونا چاہئے۔ (صنائع بدائع ص ۳۰۶ ج ۷، عالمگیری ص ۲۹ ج ۶، مبسوط ص ۱۴۵ ج ۲۶)

مسئلہ ۲۹۹ : اگر اتنا لمبا زخم لگایا کہ پیشانی سے گدی تک پہنچ گیا تو زخمی کو حق ہے کہ اسی جگہ پر اتنا ہی بڑا زخم لگا کر قصاص لے یا ارش لے، اگر زخمی کرنے والے کا سر بڑا ہے۔ لہذا اتنا بڑا زخم لگانے سے اس کی قفا یعنی گدی تک نہیں پہنچتا ہے۔ تو بھی زخمی کو اختیار ہے کہ چاہے ارش لے لے۔ اور چاہے اتنا لمبا زخم لگا کر قصاص لے لے۔ خواہ پیشانی کی طرف سے شروع کرے خواہ گدی کی طرف سے (عالمگیری ص ۲۹ ج ۶، از محیط و ذخیرہ، بدائع صنائع ص ۳۱۰ ج ۷، مبسوط ص ۱۴۶ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۰۰ : اگر بیس (۲۰) موضحہ زخم لگائے اور درمیان میں صحت نہ ہوئی تو پوری دیت نفس تین سال میں ادا کی جائے گی اور اگر درمیان میں صحت واقع ہوگئی تو ایک سال میں پوری دیت نفس ادا کرنا ہوگی۔ (عالمگیری از کافی ص ۲۹ ج ۶)

مسئلہ ۳۰۱ : کسی کے سر پر ایسا موضحہ لگایا کہ اس کی عقل جاتی رہی۔ یا پورے سر کے بال ایسے اڑے کہ پھر نہ اگے تو صرف دیت نفس واجب ہوگی اور اگر سر کے بال مختلف جگہوں سے اڑ گئے تو بالوں کی حکومت عدل اور موضحہ کی ارش میں سے جو زیادہ ہوگا وہ لازم آئے گا۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ بال پھر نہ اگیں ، لیکن اگر دوبارہ پہلے کی طرح بال اگ آئیں تو کچھ لازم نہیں ہے (شامی و درمختار ص ۵۱۳ ج ۵، عالمگیری ص ۲۹ ج ۷)

مسئلہ ۳۰۲ : کسی کی بھنوں پر خطائً ایسا موضحہ لگایا کہ بھنوں کے بال گر گئے اور پھر نہ اگے تو صرف نصف دیت لازم ہوگی۔ (عالمگیری ص ۳۰ ج ۶)

مسئلہ ۳۰۳ : کسی کے سر پر ایسا موضحہ لگایا کہ اس سے سننے یا دیکھنے یا بولنے کے قابل نہ رہا۔ تو اس پر نفس کی دیت کے ساتھ موضحہ کا ارش بھی واجب ہے۔ یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اس زخم سے موت نہ ہوئی ہو، اور اگر موت واقع ہوگئی تو ارش ساقط ہو جائے گا۔ اور عمد کی صورت میں جنایت کرنے والے کے مال سے تین سال میں دیت ادا کی جائے گی اور بصورت خطا عاقلہ پر تین سال میں دیت ہے (شامی و درمختار ص ۵۱۳ ج ۵)

مسئلہ ۳۰۴ : کسی نے کسی کے سر پر ایسا موضحہ عمدا لگایا کہ اس کی بینائی جاتی رہی۔ تو ذہاب بصر اور موضحہ دونوں کی دیتیں واجب ہوں گی۔ (عالمگیری ص ۳۰ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۱۳ ج ۵، تبیین ص ۱۳۶ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۳۹ ج ۸)

مسئلہ ۳۰۵ : کوئی شخص بڑھاپے کی وجہ سے چندلا ہویا تھا۔ اس کے سر پر کسی نے عمداً موضحہ لگایا تو قصاص نہیں لیا جائے گا دیت لازم ہوگی اور اگر زخم لگانے والا بھی چندلا ہے تو قصاص لیا جائے گا۔ (عالمگیری ص ۳۰ ج ۶)

مسئلہ ۳۰۶ : ہر وہ جنایت جو بالقصد ہو لیکن شبہ کی وجہ سے قصاص ساقط ہوگیا ہو اور دیت واجب ہوگئی ہو تو جنایت کرنے والے کے مال سے دیت ادا کی جائے گی اور عاقلہ سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔ اور یہی حکم ہر اس مال کا ہے جس پر بالقصد جنایت کی صورت میں صلح کی گئی ہو۔ (تبیین ص ۱۳۸ ج ۶، درمختار و شامی ص ۴۶۸ ج ۵، فتح القدیر ص ۳۲۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۰۷ : حکومت عدل سے جو مال لازم آتا ہے وہ جنایت کرنے والے کے مال سے ادا کیا جائے گا۔ عاقلہ سے اس کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا۔ (درمختار و شامی ص ۵۱۶ ج ۵)

فصل فی الجنین (حمل کے متعلق مسائل )

مسئلہ ۳۰۸ : کسی نے کسی حاملہ عورت کو ایسا ماررا یا ڈرایا یا ھمکایا یا کوئی ایسا فعل کیا جس کی وجہ سے ایسا مرا ہوا بچہ ساقط ہوا جو آزاد تھا۔ اگرچہ اس کے اعضاء کی خلقت مکمل نہیں ہوئی تھی بلکہ صرف بعض اعضاء ظاہر ہوئے تھے تو مارنے والے کے عاقلہ پر مرد کی دیت کا بیسواں حصہ یعنی پانچ سو درہم ایک سال میں واجب الادا ہوں گے۔ ساقط شدہ بچہ مذکر ہو یا مونث اوز ماں مسلمہ ہو یا کتابیہ یا مجوسیہ، سب کا ایک ہی حکم ہے۔ (شامی و درمختار ص ۵۱۶ جلد ۵، تبیین الحقائق ص۱۳۶ج ۶، عالمگیری ص ۳۴ جلد ۶، بحرالرائق ص ۳۴۱ جلد ۸، فتح القدیر ص ۳۲۴ جلد ۸، مبسوط ص ۸۷ جلد ۲۶)

مسئلہ ۳۰۹ : اگر مذکورۃ الصدر اسباب کے تحت زندہ بچہ ساقط ہوا، پھر مرگیا تو پوری دیت نفس عاقلہ پر واجب ہوگی اور کفارہ ضارب پر واجب ہے اور اگر مردہ ساقط ہوا اور اس کے بعد ماں بھی مرگئی تو ماں کی پوری دیت اور بچہ کی دیت غرۃ یعنی پانچ سو درہم عاقلہ پر واجب ہوں گے… (درمختار و شامی ص ۵۱۷ جلد ۶، مبسوط ص ۸۹ جلد ۲۶)

مسئلہ ۳۱۰ : اگر مذکورہ اسباب کے تحت حاملہ مر گئی پھر مرا ہوا بچہ خارج ہوا تو صرف عورت کی دیت نفس عاقلہ پر واجب ہے ے(درمختار و شامی ص ۵۱۷ جلد ۵، عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶، تبیین ص ۱۴۰ جلد ۶، بحرالرائق ص ۳۴۲ جلد ۸، فتح القدیر ص ۳۲۷ جلد ۸، مبسوط ص ۸۹ جلد ۲۶)

مسئلہ ۳۱۱ : اگر مذکورہ اسباب کی بناء پر دو مردہ بچے ساقط ہوئے تو دو غرے یعنی ایک ہزار درہم عاقلہ پر واجب ہوں گے۔ اور اگر ایک زندہ پیدا ہو کر مر گیا اور دوسرا مردہ پیدا ہوا تو زندہ پیدا ہونے والے کی دیت نفس اور مردہ پیدا ہونے والے کا غرہ یعنی پانچ سو درہم عاقلہ پر ہیں ۔ اور اگر ماں مر گئی پھر دو مردہ بچے پیدا ہوئے توصرف ماں کی دیت نفس عاقلہ پر واجب ہوگی اور اگر ماں کے مرنے کے بعد دو بچے زندہ پیدا ہو کر مر گئے تو عاقلہ پر تین دیتیں واجب ہوں گی اور اگر ایک مردہ بچہ ماں کی موت سے پہلے خارج ہوا اور دوسرا مردہ بچہ ماں کی موت کے بعد تو پہلے پیدا ہونے والے کا غرہ اور ماں کی دیت نفس عاقلہ پر ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے کا کچھ نہیں ۔ (شامی ص ۵۱۷ جلد ۵، عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶، مبسوط ص ۹۰ جلد ۲۶)

مسئلہ ۳۱۲ : اگر ماں کی موت کے بعد زندہ بچہ ساقط ہو کر مر گیا تو ماں اور بچہ دونوں کی دو دیتیں عاقلہ پر واجب ہیں ۔ (درمختار و شامی ص ۵۱۸ جلد ۵، مبسوط ص ۹۰ جلد ۲۶، عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶، قاضی خان ص ۳۹۳ جلد ۴)

مسئلہ ۳۱۳ : اسقاط کی ان سب صورتوں میں جن میں جنین کا غرہ یا دیت لازم ہوگی وہ جنین کے ورثاء میں تقسیم کی جائے گی۔ اور اس کی ماں بھی اس کی وارث ہوگی، ساقط کرنے والا وارث نہیں ہوگا۔ (درمختار و شامی ص ۵۱۸ جلد ۵، تبیین الحقائق ص ۱۴۱ جلد ۶، عالمگیری ص ۳۴ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۴۲ جلد ۸، فتح القدیر ص ۳۲۸ جلد ۸، بدائع صنائع ص ۳۲۶ جلد ۷، مبسوط ص ۹۰ جلد ۲۶)

مسئلہ ۳۱۴ : کسی نے حاملہ کے پیٹ پر تلوار ماری کہ رحم کو کاٹ کر دو جنینوں کو مجروح کر گئی اور ایک مجروح زندہ ساقط ہوا اور دوسرا مجروح مردہ ساقط ہوا، اور عورت بھی مر گئی تو عورت کا قصاص لیا جائے گا اور زندہ ساقط ہونے والے بچے کی دیت اور مردہ پیدا ہونے والے بچہ کا غرہ عاقلہ پر واجب ہوگا۔ (درمختار ص ۵۴۰ ج ۵)

مسئلہ ۳۱۵ : کسی نے حاملہ کے پیٹ پر چھری ماری جس کی وجہ سے رحم میں بچہ کا ہاتھ کٹ گیا اور وہ زندہ پیدا ہوا اور ماں بھی زندہ رہی تو بچے کے ہاتھ کی وجہ سے نصف دیت نفس عاقلہ پر واجب ہوگی۔ (عالمگیری ص ۳۶ جلد ۶)

مسئلہ ۳۱۶ : شوہر نے اپنی حاملہ بیوی کو ایسا ڈرایا دھمکایا یا مارا کہ مردہ بچہ ساقط ہوگیا تو شوہر کے عاقلہ پر غرہ لازم ہے اور یہ اس بچہ کا وارث نہیں ہوگا۔ (درمختار و شامی ص ۵۱۸ جلد ۵، بدائع صنائع ص ۳۲۶ جلد ۷، تبیین الحقائق ص ۱۲۶ جلد ۶، بحرالرائق ص ۳۴۲ جلد ۸، فتح القدیر ص ۳۲۸ جلد ۸)

مسئلہ ۳۱۷ : کسی نے اپنی حاملہ بیوی کو ڈرایا دھمکایا یا ایسا مارا کہ ایک بچہ زندہ ساقط ہو کر مر گیا۔ پھر دوسرا مردہ ساقط ہوا پھر وہ عورت بھی مرگئی تو اس شخص کے عاقلہ پر بیوی اور زندہ پیدا ہونے والے بچے کی دو دیتیں اور مردہ ساقط ہونے والے بچے کا غرہ واجب ہوگا اور اس شخص پر دو کفارے واجب ہوں گے۔ (عالمگیری ص ۳۵ ج ۶)

مسئلہ ۳۱۸ : بچہ کا سر ظاہر ہوا اور وہ چیخا کہ ایک شخص نے اس کو ذبح کر دیا تو اس پر غرہ ہے (عالمگیری از خزانتہ المفتین ص ۳۵ ج ۶)

مسئلہ ۳۱۹ : اگر حاملہ باندی کو ڈرایا دھمکایا یا ایسا مارا کہ اس کا ایسا حمل ساقط ہوگیا جو زندہ پیدا ہوتا تو غلام ہوتا تو اس کے زندہ رہنے کی صورت میں اس کی جو قیمت ہوتی مذکر میں اس کی قیمت کا بیسواں اور مونث میں قیمت کا دسواں مارنے والے کے مال میں نقد لازم آئے گا۔ (درمختار و شامی ص۵۱۸ ج ۵، عالمگیری ص ۳۵ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۴۲ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۱۴۰ جلد ۶، فتح القدیر ص ۳۲۸ جلد ۸)

مسئلہ ۳۲۰ : اگر مذکورہ بالا صورت میں مذکر و مونث ہونے کا پتہ نہ چلے تو جس کی قیمت کم ہوگی وہ لازم ہوگی اور اگر باندی کے مالک اور ضارب میں ساقط شدہ حمل کی قیمت کی تعین میں اختلاف ہو تو ضارب کی بات مانی جائے گی۔ (شامی ص ۵۱۸ جلد ۵، عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶، عنایہ ص ۳۲۸ جلد ۸)

مسئلہ ۳۲۱ : اگر مذکورہ بالا صورت میں زندہ بچہ پیدا ہوا جس سے باندی میں کوئی نقص پیدا ہو کر اس کی قیمت گھٹ گئی تو ضارب پر جنین کی قیمت لازم ہوگی اور یہ قیمت اگر باندی کی قیمت میں جو کمی واقع ہوئی اس سے کم ہو تو اس کمی کو جنین کی قیمت میں اضافہ کر کے پورا کر دیا جائے گا۔ (درمختار و شامی ص ۵۱۸ جلد ۵)

مسئلہ۳۲۲ : مذکورہ بالا صورت میں باندی کے مردہ حمل گرا پھر باندی بھی مرگئی تو ضارب پر باندی کی قیمت تین سال میں واجب الادا ہوگی۔ (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶)

مسئلہ ۳۲۳ : مذکورہ بالا صورت میں ضرب کے بعد مولی نے حمل کو آزاد کر دیا۔ اس کے بعد زندہ بچہ پیدا ہو کر مرگیا تو اس بچے کے زندہ ہونے کی صورت میں جو قیمت ہوتی وہ ضارب پر لازم ہوگی (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶، درمختار و شامی ص۵۱۸ جلد ۵، تبیین ص ۱۴۱ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۴۳ ج ۸، فتح القدیر ص ۳۲۹ ج ۸،)

مسئلہ۳۲۴ : کسی نے غیر کی باندی سے زنا کیا جس سے وہ حاملہ ہوگئی پھر زانی اور اس کی بیوی نے کوئی تدبیر کر کے حمل گرا دیا اس سے باندی مرگئی تو باندی کی قیمت، اور اگر حمل مردہ ساقط ہوا تھا تو غرہ اور اگر ساقط ہو کر مرا تو اس کی پوری قیمت واجب ہوگی اور اگر مضغہ تھا تو کچھ نہیں ۔ (بحرالرائق ص ۳۴۲ جلد ۸)

مسئلہ ۳۲۵ : ضرب واقع ہونے کے بعد باندی کے مالک نے باندی کو بیچ دیا اس کے بعد اسقاط ہوا تو غرہ بیچنے والے کو ملے گا اور اگر بچہ کا باپ ضرب کے وقت غلام تھا پھر آزاد ہوگیا اس کے بعد حمل ساقط ہوا تو باپ کو کچھ نہیں ملے گا۔ (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶)

مسئلہ ۳۲۶ : مولی نے باندی کے حمل کو آزاد کر دیا اس کے بعد کسی شخص نے باندی کے پیٹ پر ضرب لگائی کہ مردہ حمل ساقط ہوا اور اس بچے کا باپ آزاد تھا تو ضارب پر غرہ لازم ہے اور غرہ باپ کو ملے گا۔ (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶)

مسئلہ ۳۲۷ : حمل کے والدین میں سے جو ضرب سے پہلے آزاد ہوچکا ہوگا وہ حمل کے معاوضہ کا حق دار ہوگا، مولی نہیں ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶)

مسئلہ ۳۲۸ : کسی نے حاملہ باندی خریدی اور قبضہ نہیں کیا تھا کہ اس کے حمل کو آزاد کر دیا۔ پھر کسی نے اس کے پیٹ پر ضرب لگائی جس سے مردہ بچہ پیدا ہوا تو مشتری کو اختیار ہے کہ باندی کو پوری قیمت میں لے لے اور ضارب سے آزاد بچہ کا ارش وصول کرے اور اگر چاہے تو باندی کی بیع کو فسخ کر دے اور بچے کے حصہ کی قیمت اس پر لازم ہوگی۔ (عالمگیری ص ۳۶ جلد ۶، بحرالرائق ص ۳۴۲ ج ۶)

مسئلہ ۳۲۹ : کسی نے اپنی باندی سے کہا جو کسی اور سے حاملہ تھی، کہ تیرے پیٹ میں جو دو بچے ہیں ان میں سے ایک آزاد ہے اور یہ کہہ کر مولی مرگیا۔ پھر کسی نے اس حاملہ کو ایسی ضرب لگائی جس سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی مردہ پیدا ہوئے تو ضرب لگانے والے پر لڑکے کا نصف غرہ اور اس کو غلام مان کر اس کی قیمت کا چالیسواں حصہ اور لڑکی کا نصف غرہ اور اس کو باندی مان کر جو قیمت ہوگی اس کا بیسواں حصہ لازم ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶)

مسئلہ ۳۳۰ : کسی حاملہ عورت نے اپنے پیٹ پر ضرب لگا کر یا دوا پی کر، یا کوئی اور تدبیر کر کے عمداً اپنے حمل کو ساقط کر دیا تو اگر بغیر اجازت شوہر ایسا کیا تو اس عورت کے عاقلہ پر غرہ لازم ہوگا اور اگر عاقلہ نہ ہوں تو اس کے مال سے غرہ ایک سال میں ادا کیا جائے گا۔ اور شوہر کی اجازت سے ایسا کیا ہے تو کچھ لازم نہیں ہے۔ اسی طرح اس نے اگر کوئی دوا پی جس سے اسقاط مقصود نہ تھا مگر اسقاط ہوگیا تو بھی کچھ لازم نہ ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳۵ جلد ۶، شامی ص ۵۱۹ جلد ۵، تبیین ج ۶ ص ۱۴۲، بحرالرائق ص ۳۴۳ جلد ۸، قاضی خان ص ۳۹۲ جلد ۴)

مسئلہ ۳۳۱ : اگر شوہر نے بیوی کو اسقاط کی اجازت دی اور بیوی نے کسی دوسری عورت سے اسقاط کرا لیا تو یہ دوسری عورت بھی ضامن نہیں ہوگی (شامی و درمختار ص ۵۲۰ ج ۵)

مسئلہ ۳۳۲ : ام ولد نے خود اپنا حمل ساقط کر لیا تو اس پر کچھ لازم نہیں ہے (درمختار و شامی ص ۵۲۰ ج ۵، بحرالرائق ص ۳۴۳ ج ۸)

مسئلہ ۳۳۳ : کسی حاملہ نے عمداً اسقاط کی دوا پی اس سے زندہ بچہ پیدا ہو کر مر گیا، تو اس کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی اور اس پر کفارہ لازم ہے اور وہ وارث نہیں ہوگی اور اگر مردہ بچہ ساقط ہوا تو اس کے عاقلہ پر غرہ ہے اور اس پر کفارہ ہے اور یہ محروم الارث ہے۔ اور اگر مضغہ ساقط ہوا تو استغفار و توبہ کرے۔ (بحرالرائق ص ۳۴۴ جلد ۸)

مسئلہ ۳۳۴ : خلع کرنے والی حاملہ نے عدت ختم کرنے کے لئے اسقاط حمل کر لیا تو اس پر شوہر کے لئے غرہ واجب ہے۔ (بحرالرائق ص ۳۴۴ ج ۸، عالمگیری ص ۳۶ جلد ۶)

مسئلہ ۳۳۵ : اگر کسی نے کسی کے جانور کا حمل گرا دیا تو اگر مردہ بچہ پیدا ہوا ہے اور اس سے ماں کی قیمت میں نقصان آگیا تو یہ شخص اس نقصان کا ضامن ہوگا۔ اگر قیمت میں نقصان نہیں آیا تو اس پر کچھ نہیں ہے اور اگر زندہ بچہ پیدا ہو کر مرگیا تو مارنے والے کے مال میں سے بچے کی قیمت نقد ادا کی جائے گی۔ (درمختار و شامی ص ۵۲۰ جلد ۵، مبسوط ص ۸۷ جلد ۲۶)

مسئلہ ۳۳۶ : جنین کے اتلاف میں کفارہ نہیں ہے اور جس حمل میں بعض اعضاء بن چکے ہوں اس کا حکم تام الخلقت کی طرح ہے۔ (بحرالرائق ص ۳۴۳ جلد ۸، فتح القدیر ص ۳۲۹ جلد ۸، تبیین الحقائق ص ۱۴۱ جلد ۶)

مسئلہ ۳۳۷ : اگر ایسے مضغہ کا اسقاط کیا جس میں اعضاء نہیں بنے تھے اور معتبر دائیوں نے یہ شہادت دی کہ یہ مضغہ بچہ بننے کے قابل ہے اگر باقی رہتا تو انسانی صورت اختیار کر لیتا تو اس میں حکومت عدل ہے (شامی ص ۵۱۹ جلد ۵)

بچوں سے متعلق جنایات کے احکام

مسئلہ ۳۳۸ : کسی شخص نے کسی آزاد بچے کو اغوا کر لیا اور بچہ اس کے پاس سے غائب ہوگیا تو اس اغوا کرنے والے کو قید کیا جائے گا۔ تاوقت یہ کہ بچہ واپس آجائے یا اس کی موت کا علم ہو جائے (قاضی خان ص ۳۹۳ ج ۴، درمختار ص ۵۴۷ ج ۵، طحطاوی علی الدر ص ۳۰۳ جلد ۴)

مسئلہ ۳۳۹ : کسی نے کسی آزاد بچہ کو اغوا کیا اور وہ بچہ اس کے پاس اچانک یا کسی بیماری سے مر گیا تو اس پر ضمان نہیں ہے۔ اور اگر کسی سبب سے مثلاً سخت سردی یا بجلی گرنے، پانی میں ڈوبنے، چھت سے گرنے یا سانپ کے کاٹنے سے مرگیا تو اغوا کرنے والے کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی۔ (شامی و درمختار ص ۵۴۷ جلد ۵، فتح القدیر ص ۳۸۲ جلد ۸، تبیین الحقائق ص ۱۶۷ جلد ۶، بحرالرائق ص ۳۹۰ جلد ۸، مبسوط ص ۱۸۶ ج ۲۶، عالمگیری ص ۳۴ جلد ۶) اور اگر بچہ نے غاصب کے پاس خودکشی کر لی یا کسی کو قتل کر دیا تو غاصب پر ضمان نہیں ہے۔ (مبسوط ص ۱۸۶ جلد ۲۶، عالمگیری ص ۳۴ جلد ۶)

مسئلہ ۳۴۰ : اسی طرح اگر آزاد کو اغوا کر کے پابہ زنجیر کر دیا اور وہ مذکورہ بالا اسباب میں سے کسی سبب سے مر گیا تو بھی اغوا کرنے والے کے عاقلہ پر دیت ہے اور اگر اس کو پابہ زنجیر نہیں کیا تھا اور وہ ان اسباب مذکورہ سے خود کو بچا سکتا تھا مگر اس نے بچنے کی کوشش نہیں کی اور مر گیا تو اغوا کرنے والے پر نفس کا ضمان نہیں ہے۔ (عنایہ ص ۳۸۲ جلد ۸، درمختار و شامی ص ۵۴۷ جلد ۵، بحرالرائق ص ۳۹۰ جلد ۸)

مسئلہ ۳۴۱ : ختنہ کرنے والے سے کہا کہ بچے کی ختنہ کر دے۔ غلطی سے بچہ کا حشفہ کٹ گیا اور بچہ مر گیا تو ختنہ کرنے والے کے عاقلہ پر نصف دیت ہوگی اور اگر زندہ رہا تو پوری دیت لازم ہوگی۔ (درمختار و شامی ص ۵۴۸ جلد ۵، عالمگیری ص ۳۴ جلد ۶، طحطاوی علی الدر ص ۳۰۳ جلد ۴، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۷ جلد ۳)

مسئلہ ۳۴۲ : کسی نے بچے کو جانور پر سوار کر کے کہا کہ اس کو روکے رہنا اور بچہ نے جانور کو چلایا نہیں لیکن گر کر مرگیا تو اس سوار کرنے والے کے عاقلہ پر بچہ کی دیت لازم ہوگی۔ (درمختار و شامی ص ۵۴۸ ج ۵، طحطاوی علی الدر ص ۳۰۴ جلد ۴، عالمگیری ص ۳۳ جلد ۶، مبسوط ص ۱۸۶ جلد ۲۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۷ جلد ۳)

مسئلہ ۳۴۳ : کسی نے بچہ کو جانور پر سوار کر کے کہا کہ اس کو میرے لئے روکے رہو۔ اس بچہ نے جانور کو چلایا اور اس جانور نے کسی شخص کو کچل کر ہلاک کر دیا تو بچہ کے عاقلہ پر اس مرنے والے کی دیت لازم ہوگی اور سوار کرنے والے پر کچھ نہیں ہے اور اگر بچہ اتنا خوردسال ہے کہ جانور پر سواری نہیں کرسکتا ہے تو اس صورت میں مرنے والے کی دیت کسی پر لازم نہیں ہوگی۔ (درمختار و شامی ص ۵۴۸ ج ۵، عالمگیری ص ۳۳ جلد ۶، طحطاوی علی الدر ص ۳۰۴ جلد ۴، مبسوط ص ۱۸۶ جلد ۲۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۷ جلد ۳)

مسئلہ ۳۴۴ : کسی نے بچہ کو جانور پر سوار کر دیا اور اس سے کہا کہ اس کو روکے رہو۔ بچہ نے جانور کو چلا دیا اور گر کر مر گیا تو سوار کرنے والے کے عاقلہ پر بچہ کی دیت نہیں ہے۔ (شامی ص ۵۴۸ جلد ۵، طحطاوی علی الدر ص ۳۰۴ جلد ۴، عالمگیری ص ۳۳ جلد ۶، مبسوط ص ۱۸۷ جلد ۲۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۷ جلد ۳)

مسئلہ ۳۴۵ : بچہ کسی دیوار یا پیڑ پر چڑھا ہوا تھا، نیچے سے کسی نے چیخ کر کہا گر مت جانا جس سے بچہ گر کر مر گیا تو چیخنے والے پر کچھ نہیں ہے اور اگر اس نے کہا کہ کود جا اور بچہ کودا اور مر گیا تو اس کہنے والے پر بچہ کی دیت ہے (عالمگیری ص ۳۳ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳)

مسئلہ ۳۴۶ : اگر کسی نے اتنے چھوٹے بچے کو جانور پر اپنے ساتھ سوار کر لیا جو تنہا جانور پر سوار نہیں ہوسکتا اور چلا بھی نہیں سکتا، اس جانور نے کسی کو کچل کر ہلاک کر دیا تو مرنے والے کی دیت صرف اس سوار کے عاقلہ پر ہوگی اور سوار پر کفارہ بھی ہے۔ بچہ کے عاقلہ پر کچھ نہیں ہے اور اگر بچہ سواری کو چلا سکتا ہے تو دونوں کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۴۷ ج ۳، عالمگیری ص ۳۳ ج ۶، مبسوط ص ۱۸۷ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۴۷ : باپ اپنے بچہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا اس بچہ کو کسی شخص نے کھینچا اور باپ اس بچہ کا ہاتھ پکڑے رہا اور اس شخص کے کھینچنے کی وجہ سے بچہ مر گیا تو اس بچہ کی دیت کھینچنے والے پر ہے اور باپ بچہ کا وارث ہوگا اور اگر دونوں نے کھینچا اور بچہ مر گیا تو دونوں پر دیت لازم ہوگی اور باپ وارث نہیں ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳۳ ج ۶، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳)

مسئلہ ۳۴۸ : اتنا چھوٹا بچہ جو اپنے نفس کی حفاظت کرسکتا ہے اگر پانی میں ڈوب کر یا چھت سے گر کر مر جائے تو ماں باپ پر کچھ نہیں ہے اور اگر اپنے نفس کی حفاطت نہیں کرسکتا تھا تو جس کی نگرانی میں تھا اس پر توبہ و استغفار لازم ہے اور اگر اس کی گود سے گر کر مر گیا تو کفارہ بھی لازم ہے (عالمگیری ص ۳۳ ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۷ ج ۳، شامی ص ۵۲۹ جلد ۵)

مسئلہ ۳۴۹ : ماں شیرخوار بچہ کو باپ کے پاس چھوڑ کر چلی گئی اور بچہ دوسری عورتوں کا دودھ پی لیتا تھا۔ لیکن باپ نے کسی دودھ پلانے والی کا انتظام نہ کیااور بچہ بھوک سے مر گیا تو باپ پر کفارہ اور توبہ لازم ہے اور اگر بچہ دوسری عورت کا دودھ قبول نہیں کرتا تھا اور ماں یہ بات جانتی تھی تو گناہ ماں پر ہے ماں توبہ کرے اور کفارہ بھی دے (عالمگیری از محیط ص ۳۳ ج ۶، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۴۷ ج ۳)

مسئلہ ۳۵۰ : چھ سال کی بچی کو بخار تھا اور آگ کے پاس بیٹھی تاپ رہی تھی۔ باپ گھر میں نہ تھا ماں اسی حالت میں بچی کو چھوڑ کر کہیں چلی گئی اور بچی جل کر مر گئی تو ماں پر دیت نہیں ہے لیکن توبہ و استغفار کرے اور مستحب یہ ہے کہ کفارہ بھی دے (عالمگیری از ظہیریہ ص ۳۳ ج ۶)

مسئلہ ۳۵۱ : کسی نے کسی بچہ سے کہا کہ درخت پر چڑھ کر میرے پھل توڑ دے بچہ درخت سے گر کر مر گیا تو چڑھانے والے کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی اسی طرح کوئی چیز اٹھانے کو کہا یا لکڑی توڑنے کو کہا اور بچہ اس چیز کو اٹھانے سے یا پیڑ سے گر کر مر گیا تو اس حکم دینے والے کے عاقلہ پر بچہ کی دیت لازم ہوگی (عالمگیری ص ۳۲ ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳)

مسئلہ ۳۵۲ : کسی نے بچہ کو حکم دیا کہ فلاں شخص کو قتل کر دے بچہ نے قتل کر دیا تو بچہ کے عاقلہ پر دیت لازم ہوگی پھر وہ عاقلہ اس دیت کو حکم دینے والے کے عاقلہ سے وصول کر یں گے۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳، عالمگیری از خزانتہ المفتین ص ۳۰ ج ۶، مبسوط ص ۱۸۵ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۵۳ : کسی بچہ نے دوسرے بچہ کو حکم دیا کہ فلاں شخص کو قتل کر دے اور اس نے قتل کر دیا تو قتل کرنے والے کے عاقلہ پر دیت لازم ہے اور یہ دیت حکم دینے والے کے عاقلہ سے وصول نہیں کریں گے۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳، عالمگیری ص ۳۰ ج ۶، مبسوط ص ۱۸۵ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۵۴ : بچے نے کسی بالغ کو حکم دیا کہ فلاں کو قتل کر دے اور اس نے قتل کر دیا، تو حکم دینے والا بچہ ضامن نہیں ہوگا۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳) اسی طرح بالغ نے اگر کسی دوسرے بالغ کو حکم دیا اور اس نے قتل کر دیا تو قاتل پر ضمان ہے حکم دینے والے پر نہیں ۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳، عالمگیری ص ۳۰ ج ۶)

مسئلہ ۳۵۵ : کسی شخص نے بچہ کو حکم دیا کہ فلاں شخص کا کھانا کھالے یا مال جلا دے یا اس کے جانور کو ہلاک کر دے تو اس مال کا ضمان اس بچے کے مال میں لازم ہے اور بچے کے اولیاء اس ضمان کو ادا کرنے کے بعد حکم دینے والے سے وصول کریں ۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳، عالمگیری ص ۳۰ ج ۶) اور اگر بچے نے بالغ کو ان کاموں کا حکم دیا اور اس نے عمل کر لیا تو بچے پر ضمان نہیں ہے (عالمگیری ص ۳۰ ج ۶)

مسئلہ ۳۵۶ : اگر کسی نابالغ نے نابالغہ سے زنا کیا اور اس کی بکارت زائل کر دی تو اس پر مہر مثل لازم آئے گا اور اگر بالغہ کی بکارت زبردستی زنا کر کے نابالغ نے زائل کر دی تو بھی اس پر مہر مثل لازم آئے گا اور اگر بالغہ سے نابالغ نے برضا زنا کیا تھا تو مہر لازم نہیں ہے۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۴۶ ج ۳)

مسئلہ ۳۵۷ :بچے تیر اندازی کا کھیل کھیل رہے تھے کسی نو برس تک کے بچے کا تیر کسی شخص کی آنکھ میں لگ گیا جس سے وہ شخص کانا ہوگیا تو اس کی آنکھ کا تاوان بچہ کے مال سے ادا کیا جائے گا اس کے باپ پر کچھ نہیں ہے اور اگر بچے کے پاس مال نہیں ہے تو جب مال ملے گا اس وقت تاوان ادا کر دے گا مگر شرط یہ ہے کہ یہ بات شہادت سے ثابت ہو کہ اسی بچے کا تیر اس شخص کی آنکھ میں لگا ہے صرف بچے کا اقرار یا اس کے تیر کا پایا جانا تاوان کے لئے کافی نہیں ہے (قاضی خاں علی الہندیہ ۴۴۷ ج ۳)

مسئلہ ۳۵۸ : کسی نے اپنے کسی کام کے لیئے کسی کے بچے کو ولی کی اجازت کے بغیر کہیں بھیجا۔ راستے میں بچہ دوسرے بچوں کے ساتھ چھت پر چڑھ گیا اور چھت پر سے گر کر مرگیا تو بھیجنے والے پر ضمان لازم ہوگا۔ (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۴۷ ج ۳)

مسئلہ ۳۵۹ : کسی نے بچے کو اغوا کر کے قتل کر دیا یا اس کے پاس درندہ نے پھاڑ کھایا یا دیوار سے گر کر مرگیا تو غاصب ضامن ہوگا۔ (قاضی خان ص ۴۴۷ علی الہندیہ، عالمگیری ص ۳۴ ج ۶، مبسوط ص ۱۸۶ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۶۰ : کسی غلام نے آزاد بچے کو سواری پر سوار کر دیا بچہ سواری سے گر کر مر گیا تو اس بچہ کی دیت غلام پر ہے۔ مولی غلام ہی کو اس کی دیت میں دے دے یا فدیہ دے دے۔ اور اگر سواری پر غلام بھی سوار ہوا اور سواری کو چلایا، سواری نے کسی کو کچل دیا اور وہ مرگیا تو نصف دیت بچے کے عاقلہ پر ہے اور نصف غلام پر۔ (عالمگیری ص ۳۳ ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ۴۴۸ ج ۳، مبسوط ص ۱۸۷ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۶۱ : کسی آزاد شخص نے ایسے نابالغ غلام بچے کو سواری پر سوار کر دیا جو سواری پر ٹھہر سکتا ہے اور اس کو چلا بھی سکتا ہے پھر اس کو حکم دیا کہ وہ جانور کو چلائے اس نے کسی آدمی کو کچل کر مار دیا تو اس کا تاوان غلام بچہ پر ہے اس کی دیت میں مولی یا تو غلام کو دے دے یا اس کا فدیہ دے دے پھر وہ مولی حکم دینے والے سے یہ رقم وصول کرے۔ (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۴۸ جلد ۳، مبسوط ص ۱۸۸ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۶۲ : کسی عبد ماذون نے کسی بچے کو حکم دیا کہ فلاں کے کپڑے پھاڑ دے یا بچہ کو اپنے کام کے لئے بھیجا اور بچہ ہلاک ہوگیا تو حکم دینے والا ضامن ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳۱ ج ۶)

مسئلہ ۳۶۳ : کسی بچے کے پاس غلام کو ودیعت رکھا اور اس بچے نے غلام کو قتل کر دیا تو بچے کے عاقلہ پر غلام کی قیمت ہے۔ (تبیین الحقائق ص ۱۶۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۹۰ ج ۸، عالمگیری ص ۳۴ ج ۶، شامی ص ۵۴۸ ج ۵) ۔ اور اگر ماذون النفس میں جنایت کی ہے تو اس کا ارش بچہ کے مال سے ادا کیا جائے گا۔ (شامی و درمختار ص ۵۴۸ ج ۵)

مسئلہ ۳۶۴ : اگر کسی بچہ کے پاس کھانا بلااجازت ولی امانت رکھا گیا اور بچہ نے اس کو کھا لیا تو اس پر ضمان نہیں ہے۔ (تبیین الحقائق ص ۱۶۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۹۰ ج ۸، عالمگیری ص ۳۴ ج ۶، شامی و درمختار ج ۵ ص ۵۶۸) اور اگر ولی کی اجازت سے رکھا تھا تو ضامن ہوگا جب کہ بچہ عاقل ہو ورنہ نہیں ہوگا۔ (ہدایہ و عنایہ ص ۳۸۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۶۵ : ماں یا باپ یا وصی نے بچے کو تعلیم قرآن کے لئے معتاد طریقے سے مارا جس سے بچہ مر گیا تو ان پر ضمان نہیں ہے اور یہی حکم معلم کا بھی ہے جب کہ اس نے ان کی اجازت سے مارا ہو اور اگر انھوں نے غیر معتاد طریقے سے مارا اور بچہ مر گیا تو یہ لوگ ضامن ہوں گے۔ (درمختار و شامی ص ۴۹۸ ج ۵)

مسئلہ ۳۶۶ : باپ یا وصی نے بچہ کو تادیبا ًمارا اور بچہ مر گیا تو ان پر ضمان نہیں ہے جب کہ معتاد طریقے پر مارا ہو اور اگر غیر معتاد طریقے سے مارا تو ضمان ہے (درمختار و شامی ص ۴۹۸ ج ۵)

مسئلہ ۳۶۷ : ماں نے اگر اپنے بچہ کو تادیبا ًمارا اور بچہ مر گیا تو بہرحال ماں ضامن ہوگی (درمختار و شامی ص ۴۹۸ ج ۵)

مسئلہ ۳۶۸ : کسی نے بچے کو ہتھیار دیئے بچہ اس کو اٹھانے سے تھک گیا اور ہتھیار اس کے ہاتھ سے اس پر گرا اور بچہ مر گیا تو اسلحہ دینے والے کے عاقلہ پر دیت واجب ہوگی اور اگر بچہ نے اس اسلحہ سے خودکشی کر لی یا کسی دوسرے کو قتل کر دیا تو دینے والے پر ضمان نہیں ہے۔ (عالمگیری ص ۳۲ ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۴ ج ۳، مبسوط ص ۱۸۵ ج ۲۶)

مسئلہ ۳۶۹ : کسی آزاد بچے کو ایسے غلام بچے نے جو محجور تھا حکم دیا کہ فلاں شخص کو قتل کر دے اور اس نے قتل کر دیا تو قاتل بچہ کا ضامن ہوگا اور حکم دینے والے غلام بچے سے اس کا تاوان اس کے آزاد ہونے کے بعد بھی واپس نہیں لے سکے گا۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۵ ج ۳)

مسئلہ ۳۷۰ : اور اگر بالغہ باندی نے نابالغ کو دعوت زنا دیا ا ور اس نے زنا کر کے اس کی بکارت زائل کر دی تو بچہ پر اس کا مہر لازم ہے۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۴۶ ج ۳)

دیوار وغیرہ گرنے سے حادثات کے متعلق مسائل

مسئلہ ۳۷۱ : یہ جاننا ضروری ہے کہ ایسی دیوار جو سلامی میں ہو یعنی ٹیڑھی ہو، اگر بناتے وقت اس کے بنانے والے نے ٹیڑھی بنائی۔ پھر وہ کسی انسان پر گر گئی اور وہ مر گیا یا کسی کے مال پر گر پڑی اور وہ مال تلف ہوگیا تو دیوار کے مالک کو ضمان دینا ہوگا۔ خواہ اس دیوار کو گرانے کے مطالبہ کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ اور اگر اس دیوار کو سیدھا بنایا تھا مگر بعد میں ٹیڑھی ہوگئی۔ مرور زمانہ کی وجہ سے پھر کسی انسان پر گر پڑی یا مال پر گر پڑی اور اس کو تلف کر گئی تو کیا دیوار کے مالک پر ضمان ہے؟ ہمارے علمائے ثلاثہ کے نزدیک اگر مطالبہ نقض سے پہلے گری ہے تو اس کا ضمان نہیں ہے۔ اور مطالبہ نقض سے اتنے بعد گری ہے جس میں اس کا گرانا ممکن تھا، مگر اس نے اس کو نہیں گرایا تو قیاس چاہتا ہے کہ ضمان نہ ہو۔ مگر استحساناً ضامن ہوگا۔ ھکذا فی الذخیرہ۔

پھر جو جان تلف ہوئی اس کی دیت صاحب دیوار کے عاقلہ پر ہے۔ اور جو مال تلف ہوا اس کا ضمان دیوار کے مالک پر ہے۔ (عالمگیری ص ۳۶ اج ۶، مبسوط ص ۹ ج ۲۷، تبیین الحقائق ص ۱۴۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۶ ج ۵، مجمع الانہر ص ۶۵۷ ج ۲، فتح القدیر وعنایتہ ص ۳۴۱ ج ۸، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۷۲ : تقدم کی تفسیر یہ ہے کہ صاحب حق دیوار کے مالک سے کہے کہ تیری دیوار خطرناک ہے۔ یا کہے کہ سلامی میں ہے۔ یعنی ٹیڑھی ہے، تو اس کو گرا دے۔ تاکہ کسی پر گر نہ پڑے اور اس کو تلف نہ کر دے اور اگر یہ کہا کہ تجھ کو چاہئے کہ تو اس کو گرا دے، تو یہ مشورہ ہوگا مطالبہ نہ ہوگا۔ بحوالہ قاضی خان۔ تقدم میں مطالبہ شرط ہے۔ اشہاد شرط نہیں ہے۔ یہاں تک کہ اگر اس کے گرانے کا مطالبہ کیا۔ بغیر اشہاد کے، اور مالک دیوار نے امکان کے باوجود دیوار نہیں گرائی۔ یہاں تک کہ وہ خود گر گئی اور اس سے کوئی چیز تلف ہوگئی اور وہ تلف کا اقرار کرتا ہے تو ضمان دے گا۔ گواہ بنانے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر مالک دیوار انکار طلب کرے تو گواہوں کے ذریعے سے طلب کو ثابت کیا جاسکے۔ (عالمگیری از کافی ص ۳۶ ج ۶، مجمع الانہر ص ۶۵۶ ج ۲، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، قاضی خاں علی الہندیہ ص ۳۵۴ ج ۳، مبسوط ص ۹ ج ۲۷، شامی ص ۵۲۶ ج ۵، تبیین ص ۱۴۷ ج ۶)

مسئلہ ۳۷۳ :دیوار کے متعلق دیوار گرانے کا مطالبہ کرنا دیوار کے مالک سے یہی ملبہ ہٹانے کا مطالبہ ہے یہاں تک کہ اگر تقدم کے بعد دیوار گر پڑے اور اس کے ملبے سے ٹکرا کر کوئی مر جائے تو دیوار کے مالک پر اس کی دیت لازم ہوگی۔ (عالمگیری از ذخیرہ ص ۳۶ ج ۶، تبیین الحقائق ص ۱۴۷ ج ۶، فتح القدیر ص ۳۴۱ ج ۸، فتح القدیر درمختار و شامی ص ۵۲۸، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳)

مسئلہ ۳۷۴ : مکان کی زیریں منزل ایک شخص کی ہے اور بالائی دوسرے کی اور پورا مکان گرائو ہے اور دونوں سے گرانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پھر بالائی حصہ گرا اور اس سے کوئی آدمی ہلاک ہوگیا تو اس کا ضمان بالائی حصہ کے مالک پر ہے۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۶۷ ج ۳)

مسئلہ ۳۷۵ : مالک دیوار سے گرائو دیوار کے انہدام کا مطالبہ کیا گیا اس نے نہیں گرائی اور مکان بیچ دیا تو مشتری ضامن نہیں ہوگا۔ ہاں اگر خریدنے کے بعد اس سے مطالبہ نقض کر لیا گیا تھا اور اس پر گواہ بنا لئے گئے تھے تو یہ ضامن ہوگا۔ (عالمگیری ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۵ ج ۸، ہدایہ فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۷۶ : لقیط (لاوارث، ملا ہوا بچہ) کی گرائو دیوار کے انہدام کا مطالبہ کیا گیا تھا اور اس نے نہیں گرائی تھی پھر وہ دیوار گری جس سے کوئی آدمی مر گیا تو اس کی دیت بیت المال دے گا۔ اسی طرح وہ کافر جو مسلمان ہوگیا تھا۔ اس نے کسی سے عقد موالاۃ نہیں کیا تھا۔ اس کی دیوار کے گرنے سے ہلاک ہونے والے کی دیت بھی بیت المال ہی دے گا۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۶۶ ج ۳، بحر الرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۷۷ :کسی کی گرائو دیوار مطالبہ انہدام سے پہلے گر پڑی پھر اس سے راستہ پر سے ملبہ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا اور اس نے نہ اٹھایا یہاں تک کہ اس سے ٹکرا کر کوئی آدمی یا جانور ہلاک ہوگیا تو یہ ضامن ہوگا۔ (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۶۷ ج ۳، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۷۸ : مطالبہ نقض کی صحت کے لئے یہ شرط ہے کہ یہ اس سے کیا جائے جس کو گرانے کا حق حاصل ہے یہاں تک اگر کرایہ دار یا عاریت کے طور پر اس میں رہنے والے سے مطالبہ کیا اور اس نے دیوار کو نہیں گرایا، حتی کہ وہ دیوار کسی انسان پر گر پڑی تو اس صورت میں کسی پر ضمان نہیں ہے۔ (ہندیہ از ذخیرہ ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۳ ج ۸، درمختار ص ۵۲۷ ج ۵، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۷۹ : دیوار گرنے کے وقت تک اس شخص کا مالک رہنا بھی شرط ہے جس پر مطالبہ کے وقت گواہ بنائے گئے تھے۔ یہاں تک کہ اگر اس کی ملک سے وہ دیوار بیع کے ذریعہ خارج ہوگئی اور دوسرے کی ملک میں آنے کے بعد گر پڑی تو اس پر کچھ نہیں ہے۔ (تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، عالمگیری ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، درمختار ص ۵۲۷ ج ۵، فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۸۰ : دیوار کے گرائو ہونے سے قبل اشہاد صحیح نہیں ہے، چونکہ تعدی معدوم ہے۔ (عالمگیری از خزانتہ المفتین ص ۳۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۹ ج ۵، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶)

مسئلہ ۳۸۱ : اگر گرائو دیوار کے مالک سے اس کے گرانے کا مطالبہ کیا گیا۔ درآں حالیکہ وہ عاقل بالغ مسلمان تھا اور اس مطالبہ نقض پر گواہ بھی بنا لئے گئے۔ پھر اس مالک دیوار کو طویل المیعاد شدید قسم کا جنون ہوگیا۔ یا معاذ اللہ وہ مرتد ہوگیا اور دارالحرب میں چلا گیا اور قاضی نے اس کے دارالحرب میں چلے جانے کی تصدیق کر دی اور پھر وہ مسلمان ہو کر واپس آگیا اور وہ گھر جس کی دیوار گرائو تھی اس کو واپس مل گیا۔ اس کے بعد وہ گرائو دیوار کسی انسان پر گر پڑی جس سے وہ مرگیا تو اس کا خون ہدر ہے۔ یعنی اس کا ضمان کسی پر نہیں ہے۔ اسی طرح جنون سے صحت کے بعد کی صورت کا حکم ہے۔ ہاں اگر مرتد کے مسلمان ہونے یا مجنون کے افاقہ کے بعد ان پر اشہاد کر لیا ہے تو یہ ضامن ہوں گے۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳، عالمگیری ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۸۲ : اسی طرح اگر گھر کو بیچ دیا بعد اس کے کہ اس سے گرائو دیوار کے گرانے کا مطالبہ کیا جاچکا تھا اور اس پر گواہ بھی قائم کر لئے گئے تھے۔ پھر وہ مکان کسی عیب کی وجہ سے قضائے قاضی یا بلاقضائے قاضی سے اس کی ملک میں لوٹ آیا یا خیار رویت یا خیار شرط کی وجہ سے جو مشتری کو تھا۔ پھر وہ دیوار گر پڑی اور کوئی چیز تلف ہوگئی تو مالک دیوار پر ضمان نہیں ہے۔ ہاں اگر ردکے بعد دوبارہ اس سے دیوار کے گرانے کا مطالبہ کیا گیا اور اس پر گواہ بھی پیش کئے گئے تو ضامن ہوگا۔ یا بائع کو اختیار تھا اور اس نے بیع کو فسخ کر دیا اور اس کے بعد دیوار گر پڑی اور اس سے کوئی چیز تلف ہوگئی تو بائع ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از ظہیریہ ص ۳۷ ج ۶، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، شامی ص ۵۲۸ ج ۵)

مسئلہ ۳۸۳ : اگر بائع نے اپنا خیار ساقط کر دیا اور بیع کو واجب کر دیا تو اشہاد باطل ہوجائے گا۔ چونکہ اس نے دیوار کو اپنی ملک سے نکال دیا۔ (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳، بحرالرائق ص ۳۵۵ ج ۸، عالمگیری ص ۳۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۲۷ ج ۵)

مسئلہ ۳۸۴ : کسی دیوار کا بعض حصہ گرائو اور بعض صحیح تھا۔ صحیح حصہ گر پڑا جس سے کوئی مر گیا اور گرائو حصہ نہیں گراخواہ اس پر اشہاد کر لیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو۔ یہ خون رائیگاں جائے گا۔ (بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۸۵ : مطالبہ نقض کے بعد اگر کسی شخص پر دیوار گر پڑے اور وہ مر جائے یا دیوار گرنے کے بعد اس کے ملبے سے ٹکرا کر کوئی گر پڑے اور مر جائے تو اس کی دیت مالک دیوار کے عاقلہ پر ہے اور اگر اس میت سے ٹکرا کر کوئی گرے اور مر جائے تو اس کی دیت نہ مالک دیوار پر ہے نہ اس کے عاقلہ پر ہے۔ اگر کسی نے راستے کی طرف چھجہ نکالا اور وہ راستے میں گر پڑا۔ اس کے گرنے سے کوئی مر گیا یا اس کے ملبہ سے ٹکرا کر مر گیا یا اس مردے کی لاش سے ٹکرا کر کوئی گر پڑا اور مر گیا تو ہر صورت میں چھجہ کے مالک پر دیت واجب ہوگی۔ (عالمگیری ص ۳۶ ج ۶، عنایہ علی الھدایہ و فتح القدیر ص ۳۴۳ ج ۸، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۸۶ : مطالبہ ثابت کرنے کے لئے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی چاہئے۔ اگر ایسے گواہ بنائے گئے جن میں شہادت کی اہلیت نہیں ، مثلاً دو غلام یا دو کافر یا دو بچے۔ اس کے بعد یہ دیوار گر گئی اور کوئی آدمی دب کر مر گیا اور جب شہادت کا وقت آیا تو یہ کافر، مسلمان یا غلام، آزاد یا بچے، بالغ ہوچکے ہیں ۔ ان کی شہادت قبول ہوگی اور دیوار کا مالک ضامن ہوگا۔ خواہ ان کی گواہی کی اہلیت دیوار گرنے سے پہلے پائی گئی ہو یا دیوار گرنے کے بعد (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳، عالمگیری ص ۳۶ ج ۶، مبسوط ص ۱۲ ج ۲۷، درمختار و شامی ص ۵۲۹ ج ۵)

مسئلہ ۳۸۷ : اور اگر اس گھر کے مشتری سے جس کی دیوار گرائو تھی، دیوار گرانے کا مطالبہ کیا اور اس کو تین دن کا خیار تھا پھر اس نے اس گھر کو خیار کی وجہ سے بائع کو لوٹا دیا تو اشہاد باطل ہوگیا اور اگر اس نے بیع کو واجب کر لیا تو اشہاد صحیح ہے باطل نہیں ہوا، اور اگر اس حالت میں بائع پر اشہاد کیا تو بائع ضامن نہیں ہوگا اور اگر بائع کو خیار تھا اور اس سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا اور اس نے بیع کو فسخ کر دیا تو اشہاد صحیح ہے۔ اور اگر بیع کو لازم کر دیا تو اشہاد باطل ہے اور اگر اس حالت میں مشتری سے مطالبہ کیا گیا تو مطالبہ صحیح نہیں ہے۔ (عالمگیری از مبسوط ص ۳۷ ج ۶ )

مسئلہ ۳۸۸ : ضمان کے لئے یہ شرط ہے کہ مالک دیوار کو اشہاد کے بعد اتنا وقت مل جائے کہ وہ اسکو گرا سکے۔ ورنہ اگر مطالبہ انہدام کے فوراً بعد دیوار گر پڑے اور مالک کو اتنا وقت نہ ملے جس میں گرانا ممکن تھا اور اس سے کوئی چیز تلف ہو جائے تو ضمان واجب نہیں ہوگا۔ (تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، عالمگیری ص ۳۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۷ ج۵، فتح القدیر ص ۳۴۱ ج ۸، مبسوط ص ۹ ج ۲۷)

مسئلہ ۳۸۹ : تقدم اور طلب کے لئے یہ بھی شرط ہے کہ یہ صاحب حق کی طرف سے ہو اور عام راستہ میں عوام کا حق ہے۔ لہذا کسی ایک کا تقدم اور مطالبہ صحیح ہے۔ (عالمگیری از ذخیرہ ص ۳۷ ج ۶، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۶ ج ۳)

مسئلہ ۳۹۰ : گرائو دیوار کے گرانے کا مطالبہ کرنے میں مسلمان اور ذمی دونوں برابر ہیں ۔ اگر دیوار عام راستے کی طرف جھک گئی ہو تو ہر گزرنے والے کو تقدم کا حق ہے۔ مسلمان ہو یا ذمی۔ بشرط یہ کہ آزاد، عاقل، بالغ ہو۔ یا اگر بچہ ہو تو اس کے ولی نے اس کو اس مطالبے کی اجازت دی ہو۔ اسی طرح اگر غلام ہو تو اس کے مولی نے اس کو مطالبے کی اجازت دی ہو (عالمگیری از کفایہ ص ۳۷ ج ۶، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، درمختار و شامی ص ۷ ۵۲ ج ۵، مبسوط ص ۹ ج ۲۷، عنایہ علی الھدایہ ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۹۱ : خاص گلی میں اس گلی والوں کو مطالبہ کا حق ہے۔ ان میں سے کسی ایک کا مطالبہ کرنا بھی کافی ہے اور جس گھر کی طرف دیوار گرائو ہے تو اس گھر کے مالک کا یا اس میں رہنے والے کا مطالبہ کرنا شرط ہے۔ (عالمگیری از ذخیرہ ص ۳۷ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۸ ج ۵، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۵ ج ۸، فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۹۲ : کسی کے گھر کی طرف کسی شخص کی دیوار جھک گئی۔ اس گھر والے نے اس سے دیوار کے گرانے کا مطالبہ کیا اس نے قاضی سے دو تین دن یا اس کے مثل مہلت مانگی۔ قاضی نے مہلت دے دی پھر وہ دیوار گر پڑی او ر اس سے کوئی چیز تلف ہوگئی تو دیوار کے مالک پر ضمان واجب ہے (عالمگیری از محیط ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۹۳ : اور اگر گھر کے مالک نے دیوار والے کو مہلت دے دی تھی یا مطالبہ سے اس کو بری کر دیا تھا یا یہ مہلت و برات گھر کے رہنے والوں کی طرف سے تھی اور دیوار گر پڑی جس سے کوئی چیز تلف ہوگئی تو دیوار کے مالک پر ضمان نہیں ۔ (عالمگیری و کافی از ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، در مختار و شامی ص ۵۲۸ ج ۵، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۹۴ : اور اگر مہلت کی مدت گزرنے کے بعد دیوار گری تو اس سے جو نقصان ہوا اس کا ضمان دیوار والے پر واجب ہے (عالمگیری از محیط ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۳۹۵ : اگر راستے کی طرف دیوار گرائو تھی اور اس سے انہدام کا مطالبہ ہوچکا تھا، مگر قاضی نے اس کو مہلت دے دی تو یہ باطل ہے (عالمگیری از خزانتہ المفتین ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۸ ج ۵، مجمع الانہر ص ۶۵۹ ج ۲، فتح القدیر ص ۳۴۲ جلد ۸)

مسئلہ ۳۹۶ : اور اگر قاضی نے تو اس کو مہلت نہیں دی، مگر مطالبہ کرنے والے نے مہلت دے دی تو یہ صحیح نہیں ہے۔ نہ اس کے اپنے حق میں نہ کسی دوسرے کے حق میں (عالمگیری از محیط ص ۳۷ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، درمختار ص ۵۲۸ ج ۵، تبیین الحقائق ص ۱۴۸ ج ۶، مجمع الانہر ص ۶۵۹ ج ۲)

مسئلہ ۳۹۷ : اگر دیوار رہن تھی اور گرانے کا مطالبہ مرتہن سے کیا گیا تو نہ راہن ضامن ہوگا نہ مرتہن۔ اور اگر مطالبہ راہن سے کیا گیا ہے تو راہن ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از شرح مبسوط ص ۳۷ ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۶۴ جلد ۳، مبسوط ص ۱۰ ج ۲۷، درمختار و شامی ص ۵۲۶ ج ۵، بحرالرائق ص ۳۵۳ ج ۸، فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸)

مسئلہ ۳۹۸ : اور اگر گھر کسی نابالغ کا ہو تو اس کے ماں باپ یا وصی سے گرانے کا مطالبہ کرنا اور اس پر گواہ بنانا صحیح ہے۔ اگر مطالبہ کے بعد دیوار گر پڑی جس سے کسی کی کوئی چیز تلف ہوگئی تو ضمان نابالغ پر واجب ہوگا۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۴ ج ۳، عالمگیری ص ۳۷ ج ۸، عنایہ علی الھدایہ ص ۳۴۳ ج ۸، درمختار و شامی ص ۵۲۶ ج ۵، مبسوط ص ۱۰ ج ۲۷، فتح القدیر ص ۳۴۲ ج ۸، بحرالرائق ص ۳۵۳ جلد ۸، تبیین الحقائق ص ۱۴۷ ج ۶)

مسئلہ ۳۹۹ : اگر اشہاد کے بعد نابالغ بچہ کے قبل بلوغ باپ یا وصی مر جائے تو اشہاد باطل ہو جائے گا۔ یہاں تک کہ اگر ان کی موت کے بعد دیوار گر پڑے جس سے کوئی چیز تلف ہو جائے تو کسی پر کچھ نہیں ہے۔ چوں کہ موت نے ان کی ولایت کو منقطع کر دیا۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۵ ج ۳، عالمگیری ص ۳۷ ج ۶، شامی ص ۵۲۶ ج ۵)

مسئلہ ۴۰۰ : اور اگر نابالغ کے بالغ ہونے تک دیوار نہیں گری اس کے بالغ ہونے کے بعد گری جس سے کوئی آدمی مر گیا تو اس کا خون رائیگاں گیا۔ (عالمگیری از محیط ص ۳۸ ج ۶، شامی ص ۵۲۶ ج ۵) اور اگر نابالغ کے بلوغ کے بعد اس سے نئے سرے سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا گیا اس کے بعد دیوار گر پڑی جس سے کوئی آدمی مر گیا تو اس کی دیت مالک دیوار کے عاقلہ پر ہوگی (عالمگیری از محیط ص ۳۸ ج ۶)

مسئلہ ۴۰۱ : مسجد کی دیوار اگر گرائو ہو جائے تو اس کے انہدام کا مطالبہ اس کے بنانے والے سے کرنا چاہئے۔ (عالمگیری از خزانتہ المفتین ص ۳۸ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۹ ج ۵)

مسئلہ ۴۰۲ : کسی نے مساکین پر گھر وقف کیا جس کی دیوار گرائو تھی اور اس کا قبضہ ایک شخص کو دے دیا۔ جو اس کی آمدنی مساکین پر خرچ کرتا تھا۔ اس وکیل سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا گیا اور اس پر اشہاد کیا گیا اور وہ دیوار کسی پر گر پڑی جس سے وہ مرگیا تو اس کی دیت واقف کے عاقلہ پر ہے اور اگر مساکین سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا تو کسی پر کچھ نہیں (عالمگیری از محیط بحوالہ منتقی ص ۳۸ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۹ ج ۵)

مسئلہ ۴۰۳ : گرائو دیوار کا مالک تاجر غلام تھا اس سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا گیا وہ دیوار کسی پر گر پڑی جس سے وہ مرگیا تو اس کی دیت غلام تاجر کے مولا کے عاقلہ پر واجب ہوگی۔ غلام مقروض ہو یا نہ ہو، اور اگر دیوار گرنے سے کسی کا مال تلف ہوگیا تو اس مال کا ضمان غلام پر واجب ہے اس میں اس کو بیچا جائے گا اور اگر اس کے مولا سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا گیا تب بھی صحیح ہے۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۶ ج ۳، عالمگیری ص ۳۸ ج ۶، درمختار ص ۵۲۹ ج ۵، مبسوط ص ۱۰ ج ۲۷، تبیین ص ۱۴۷ ج ۶، فتح القدیر ص ۳۴۳ ج ۸)

مسئلہ ۴۰۴ : اگر کسی مکان کی گرائو دیوار کے گرانے کا مطالبہ اس شخص سے کیا جس کے قبضہ میں وہ گھر ہے جس کی دیوار گرائو تھی اور اس نے مطالبے کے باوجود دیوار نہیں گرائی۔ یہاں تک کہ وہ خود کسی پر گر پڑی جس سے وہ مرگیا اور اس کے عاقلہ کہتے ہیں کہ، یہ گھر جس کی دیوار گری ہے اس کا ہے ہی نہیں ۔ یا عاقلہ کہتے ہیں کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہ گھر اس کا ہے یا کسی اور کاہے تو مرنے والے کی دیت اس کے عاقلہ پر نہیں ہوگی۔ ہاں اگر اس پر گواہ پیش کر دیئے جائیں کہ یہ گھر اسی کا ہے تو اس کے عاقلہ پر دیت واجب ہوگی۔ اس لئے کہ اگرچہ مکان پر قابض ہونا بظاہر مالک ہونے کی دلیل ہے مگر یہ عاقلہ پر وجوب مال کے لئے حجت نہیں ہوسکتی۔ عاقلہ پر مال واجب ہونے کے لئے تین چیزوں کا ہونا ضروری ہے۔ اول اس بات کا ثبوت کہ یہ گھر اسی کا ہے۔ دوم یہ کہ دیوار گرانے کا مطالبہ کرنے کے وقت اس پر گواہ بھی بنا لے۔ تیسرے یہ کہ مقتول پر یہ دیوار گری تھی جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۵ ج ۳، مبسوط ص ۱۱ ج ۲۷)

مسئلہ ۴۰۵ : اگر قبضہ کرنے والا اقرار کرے کہ یہ گھر اسی کا ہے تو عاقلہ پر دیت کے لزوم کے لئے اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی اور ان پر ضمان نہیں ہے۔ جیسے کہ کوئی شخص اس مکان میں جس میں وہ رہتا ہے۔ چھجہ نکالے اور وہ چھجہ کسی آدمی پر گر پڑے جس سے وہ آدمی مر جائے اور اس کے عاقلہ کہیں کہ یہ اس گھر کا مالک نہیں ہے۔ اس نے چھجہ گھر کے مالک کے کہنے سے نکالا تھا اور قبضہ والا اس بات کا اقرار کرے کہ وہ اس گھر کا مالک ہے تو یہ اپنے مال سے دیت دے گا۔ اسی طرح یہاں بھی اس پر دیت واجب ہوگی۔ (خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۵ جلد ۳، عالمگیری ص ۳۹ ج ۶، مبسوط ص ۱۱ ج ۲۷)

مسئلہ ۴۰۶ : کسی کی دیوار گرائو تھی، اس سے انہدام کا مطالبہ کیا گیا مگر اس نے دیوار نہیں گرائی پھر وہ دیوار خودبخود پڑوس کی دیوار پر گر پڑی جس سے پڑوسی کی دیوار بھی گر پڑی تو اس پر پڑوسی کی دیوار کا ضمان واجب ہے اور پڑوسی کو اختیار ہے کہ چاہے تو وہ اپنی دیوار کی قیمت اس سے بطور ضمان وصول کرے اور ملبہ ضامن کو دے دے اور چاہے تو ملبہ اپنے پاس رکھے اور نقصان پڑوسی سے وصول کرے اور اگر وہ ضامن سے یہ مطالبہ کرے کہ اس کی دیوار جیسی تھی ویسی ہی نئی بنا کر دے، تو یہ اس کے لئے جائز نہیں ہے۔ اور اگر پہلی گری ہوئی دیوار سے ٹکرا کر کوئی شخص گر پڑا تو اس کا ضمان پہلی دیوار کے مالک کے عاقلہ پر ہے۔ اور اگر دوسری دیوار کے ملبہ سے ٹکرا کر کوئی شخص گر پڑا تو اس کا ضمان کسی پر نہیں ہے۔ اگر دوسری دیوار کا مالک بھی وہی ہے جو پہلی دیوار کا مالک ہے تو دوسری دیوار سے مرنے والے کا ضامن بھی وہی ہوگا۔ (عالمگیری از محیط ص ۳۹ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۵ جلد ۸)

مسئلہ ۴۰۷ : اگر پہلی دیوار کے مالک نے چھجہ نکالا اور وہ دوسری دیوار پر گرا جس سے دوسری دیوار گر گئی اور اس سے ٹکرا کر کوئی شخص گرا اور کچلا گیا تو اس کا ضمان پہلی دیوار کے مالک پر ہے اور اگر دوسری دیوار بھی اس کی ملک ہے تب بھی اس پر ضمان واجب ہے (قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۶۷ ج ۳، عالمگیری ص ۳۹ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۹ ج ۵)

مسئلہ ۴۰۸ : اگر دیوار گرانے کا مطالبہ بعض ورثا سے کیا تو حکم یہ ہے کہ جس وارث سے مطالبہ ہوا ہے۔ وہ بقدر اپنے حصہ کے ضامن ہوگا (مبسوط ص ۱۰ ج ۲۷، عالمگیری ص ۳۸ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۷، عنایہ ص ۳۴۳ ج ۸)

مسئلہ ۴۰۹ : کسی گرائو دیوار کے پانچ مالک تھے۔ ان میں سے کسی ایک سے دیوار گرانے کا مطالبہ ہوا تھا اور وہ دیوار کسی آدمی پر گر پڑی جس سے وہ مرگیا تو جس سے مطالبہ ہوا تھا وہ دیت کے پانچویں حصے کا ضامن ہوگا۔ اور یہ پانچواں حصہ بھی اس کے عاقلہ سے لیا جائے گا اسی طرح کسی گھر میں اگر تین آدمی شریک ہیں ان میں سے ایک نے اس گھر میں اپنے دوسرے دونوں شریکوں کی اجازت کے بغیر کنواں کھودا یا دیوار بنائی اور اس سے کوئی شخص ہلاک ہوگیا تو اس کے عاقلہ پر دو تہائی دیت واجب ہوگی۔ (عالمگیری ص ۳۸ ج ۶، فتح القدیر و عنایہ ص ۳۴۴ ج ۸، درمختار و شامی ص ۵۲۸ ج ۵، بحرالرائق ص ۳۵۵ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۴۴۸ ج ۶، مجمع الانہر ص ۶۵۹ ج ۲)

مسئلہ ۴۱۰ : اور اگر کنواں یا دیوار اپنے شریکوں کے مشورے سے بنائی گئی تھی تو یہ جنایت متصور نہیں ہوگی۔ (عالمگیری از سراج الوہاج ص ۳۸ ج ۶)

مسئلہ ۴۱۱ : کسی شخص نے صرف ایک بیٹا اور ایک مکان چھوڑا اور اس پر اتنا قرض تھا جو مکان کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ تھا اور اس مکان کی دیوار راستہ کی طرف گرائو تھی۔ اس کے انہدام کا مطالبہ اس کے بیٹے سے کیا جائے گا۔ اگرچہ وہ اس کا مالک نہیں ہے، اور اگر اس کی طرف تقدم کے بعد دیوار گر پڑے تو باپ کے عاقلہ پر دیت ہوگی۔ بیٹے کے عاقلہ پر دیت واجب نہیں ہوگی۔ (عالمگیری از محیط ص ۳۸ ج ۶، بحرالرائق ص۳۵۶ ج ۸، درمختار و شامی ص ۵۲۷ جلد۵)

مسئلہ ۴۱۲ : غلام مکاتب گرائو دیوار کا مالک تھا۔ اس سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا گیا اور اس پر گواہ بھی بنا لئے گئے۔تو اگر غلام کے لئے دیوار کے انہدام کے امکان سے پہلے ہی دیوار گر پڑی تو غلام ضامن نہیں ہوگا۔ اور اگر تمکن کے بعد گری ہے تو ضامن ہوگا۔ اور یہ استحسانا ہے اور قتیل کے ولی کے لئے اپنی قیمت اور قتیل کی دیت سے کم کا ضامن ہوگا۔ اور اگر دیوار اس کے آزاد ہونے کے بعد گری ہے تو اس کے عاقلہ پر دیت واجب ہوگی۔ اور اگر وہ غلام مکاتب زر کتابت ادا نہ کرسکا اور پھر غلامی میں لوٹ آیا، پھر دیوار گری تو دیت نہ اس پر واجب ہے نہ اس کے مولا پر۔ اور اسی طرح اگر دیوار بیچ دی پھر گر پڑی تو کسی پر کچھ نہیں ہے۔ اور اگر بیچی نہ تھی کہ گر پڑی اور اس سے ٹکرا کر کوئی آدمی گر پڑا اور مر گیا تو یہ غلام ضامن ہوگا۔ اور اگر زر کتابت ادا کرنے سے عاجز رہا اور غلامی میں لوٹ آیا تو مولا کو اختیار ہے چاہے غلام اس کو دے دے چاہے فدیہ دے دے۔ اور اگر کوئی آدمی اس قتیل سے ٹکرا کر گرپڑا اور مر گیا تو صاحب دیوار پر ضمان نہیں ہے۔ (فتاوی عالمگیری از شرح زیادات للعتابی ص ۳۸ ج ۶، درمختار و شامی ص ۵۲۶ ج ۵)

مسئلہ ۴۱۳ : اور اگر غلام مکاتب نے راستے کی طرف کوئی بیت الخلاء وغیرہ نکالا اور پھر اس کے مولا نے اس کو بیچ دیا یا آزاد ہوگیا۔ پھر وہ دیوار گر پڑی تو اپنی قیمت اور ارش سے کم کا ضامن ہوگا۔ اور اگر زر کتابت ادا کرنے سے عاجز رہا اور غلامی میں لوٹ آیا تو مولا کو اختیار ہے چاہے غلام کو دے دے اور چاہے اس کا فدیہ دے دے اور اگر کوئی آدمی بیت الخلاء کے ملبہ سے ٹکرا کر ہلاک ہوگیا ہو تو بیت الخلاء کا نکالنے والا غلام ضامن ہوگا۔ اور اسی طرح اگر اس قتیل سے ٹکرا کر کوئی دوسرا آدمی گرا اور مر گیا تو بھی یہی ضامن ہوگا (عالمگیری از کافی ص ۳۸ ج ۶)

مسئلہ ۴۱۴ : اگر کسی ایسے شخص کی دیوار گرائو تھی جس کی ماں کسی کی مولاۃ عتاقہ (آزاد کردہ باندی) تھی اور اس کا باپ غلام۔ اس سے کسی نے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا اور اس نے نہیں گرائی۔ یہاں تک کہ اس کا باپ آزاد ہوگیا پھر وہ دیوار گر پڑی جس سے کوئی آدمی مر گیا تو اس کی دیت باپ کے عاقلہ پر ہے اور اگر باپ کے آزاد ہونے سے قبل دیوار گر پڑی تو ماں کے عاقلہ پر دیت واجب ہے اسی طرح اگر راستے کی طرف بیت الخلاء نکالا پھر اس کا باپ آزاد ہوگیا پھر بیت الخلاء کسی پر گر پڑا اور وہ مر گیا تو اس کی دیت ماں کے عاقلہ پر ہے چونکہ راستے کی طرف بیت الخلاء نکالنا ہی جنایت ہے اور اس وقت عاقلہ موالی ام تھے۔ (عالمگیری از محیط ص ۳۸ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)۔

مسئلہ ۴۱۵ : کوئی شخص اپنی دیوار پر چڑھا ہوا تھا۔ قطع نظر اس سے کہ دیوار گرائو تھی یا نہ تھی پھر یہ دیوار گر پڑی جس سے ایک آدمی مرگیا۔ اور دیوار گرنے میں دیوار کے مالک کا کوئی عمل نہ تھا، تو اگر وہ دیوار گرائو تھی اور اس کے گرانے کا مطالبہ بھی اس سے کیا جاچکا تھا تو وہ ضامن ہوگا۔ اور اس کے سوا کسی صورت میں ضامن نہیں ہوگا اور اگر وہ خود دیوار پر سے کسی آدمی پر گر پڑا اور دیوار نہیں گری اور وہ آدمی مر گیا تو بھی ضامن ہوگا۔ اور اگر دیوار سے گرنے والا مر گیا تو نیچے والے کو دیکھیں گے، اگر وہ چل رہا تھا تو یہ ضامن نہیں ہوگا۔ (بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸) اور اگر وہ ٹھہرا ہوا تھا راستے میں ، یا بیٹھا ہوا تھا یا کھڑا ہوا تھا یا سویا ہوا تھا تو یہ گرنے والے کی دیت کا ضامن ہوگا۔ اور اگر نیچے والا اپنی ملک میں تھا تو یہ ضامن نہیں ہوگا اور ان حالات میں اوپر سے گرنے والے پر نیچے والے کا ضمان واجب ہوگا۔ اگر نیچے والا مر جائے۔ اور اسی طرح اگر وہ غافل تھا کہ گر پڑا یا سوگیا تھا اور کروٹ بدلی اور گر پڑا تو یہ نیچے والے کے نقصان کا ضامن ہوگا اور اس صورت میں اس پر کفارہ بھی واجب ہوگا۔ اور اسی طرح اگر پہاڑ پر سے پھسل پڑا کسی شخص پر جس سے وہ شخص ہلاک ہوگیا تو اس کا ضمان پھسلنے والے پر ہوگا اور اس صورت میں مرنے والے کا اپنی ملک میں ہونا نہ ہونا برابر ہے اور اسی طرح اگر کنوئیں میں جو اپنی ملک میں کھودا تھا، گر پڑا، اس میں کوئی آدمی تھا، یہ اس پر گر پڑا اور وہ مر گیا تو اس کی دیت کا ضامن ہوگا۔ اور اگر کنواں راستے میں تھا تو کنویں کا مالک دیت کا ضامن ہوگا۔ ساقط اور مسقوط علیہ دونوں کا نقصان اس پر واجب ہوگا۔ (مبسوط ص ۱۲ ج ۲۷، عالمگیری ص ۳۸ ج ۶، قاضی خان علی الہندیہ ص ۴۶۵ ج ۳)

مسئلہ ۴۱۶ : کسی نے دیوار پر مٹکا رکھا، وہ کسی شخص پر گر پڑا جس سے وہ مر گیا تو اس پر اس کا ضمان نہیں ہے۔ عالمگیری از فصول عمادیہ ص ۳۹ ج ۶، عنایہ علی الفتح ص ۳۴۴ ج ۸، تبیین الحقائق ص ۱۴۹ ج ۶)

مسئلہ ۴۱۷ : اگر کسی شخص نے دیوار کے اوپر کوئی چیز اس کے طول میں رکھی اور وہ کسی آدمی پر گر پڑی تو اس پر اس کا ضمان نہیں ہے۔ اور اگر عرض میں رکھی کہ اس کا ایک سرا راستے کی طرف نکلا ہوا تھا اور وہ کسی چیز پر نکلی ہوئی طرف سے گری تو رکھنے والا ضامن ہوگا۔ اور اگر دوسری طرف سے کسی چیز پر گری تو وہ ضامن نہیں ہوگا۔ اور اسی طرح اگر دیوار گرائو تھی اور اس پر کسی نے شہتیر رکھا، لمبائی میں اس طرح کہ اس کا کوئی حصہ راستے کی طرف نکلا ہوا نہیں تھا، پھر وہ شہتیر کسی پر گر پڑا اور اس کو قتل کر دیا تو اس پر ضمان نہیں ہے۔ (عالمگیری ص ۳۹ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۶ ج ۸)

مسئلہ ۴۱۸ : گرائو دیوار جس کے گرانے کا مطالبہ اس کے مالک سے کیا جاچکا تھا اس پر دیوار کے مالک یا کسی اور نے مٹکا رکھا اور دیوار گر پڑی اور مٹکا کسی آدمی کے لگا جس سے وہ مر گیا تو دیوار کے مالک پر ضمان ہے اور اگر مٹکے سے ٹکرا کر کوئی شخص گر پڑا یا اس کے ملبے سے ٹکرا کر گر پڑا تو اگر مٹکا کسی اور کا تھا تو کسی پر کچھ نہیں ہے (بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸) اور اگر مٹکا دیوار کے مالک کا تھا تو وہ ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از کافی ص ۳۹ ج ۶)

مسئلہ ۴۱۹ : گرائو دیوار جس کے گرانے کا مطالبہ کیا جاچکا تھا مگر دیوار کے مالک نے اس کو نہیں گرایا۔ پھر ہوا سے گر پڑی تو دیوار کا مالک نقصان کا ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از محیط ص ۳۹ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۵ ج ۸)

مسئلہ ۴۲۰ : دو گرائو دیواریں تھیں جن کے گرانے کا مطالبہ کیا جاچکا تھا ان میں سے ایک دوسری پر گر پڑی جس سے وہ بھی ڈھے گئی تو پہلی یا دوسری دیوار کے گرنے سے جو اتلاف ہوا یا پہلی کے ملبے سے جو اتلاف ہوا اس کا ضامن پہلی دیوار کا مالک ہوگا اور دوسری کے گرنے سے اور اس کے ملبے سے جو اتلاف ہوا اس کا ضمان کسی پر نہیں ہوگا۔ (عالمگیری از کافی ص ۳۹ ج ۶)

مسئلہ ۴۲۱ : ایسا چھجہ جو کسی شخص نے نکالا تھا وہ چھجہ کسی ایسی گرائو دیوار پر گر پڑا جس کے گرانے کا مطالبہ اس کے مالک سے کیا جاچکا تھا اور وہ دیوار کسی شخص پر گر پڑی جس سے وہ مر گیا یا اس دیوار کے زمین پر گرنے کے بعد کوئی شخص اس سے ٹکرا کر گر پڑا تو ان سب صورتوں میں چھجہ نکالنے والے پر ضمان واجب ہے (عالمگیری از محیط ص ۳۹ ج ۶)

مسئلہ ۴۲۲ : کسی کی دیوار کا کچھ حصہ راستے کی طرف اور کچھ حصہ لوگوں کے مکان کی طرف جھکا ہوا تھا اور دیوار کے مالک سے دیوار گرانے کا مطالبہ گھر والوں نے کر دیا تھا، مگر دیوار راستہ کی طرف گر پڑی، یا مطالبہ راستہ والوں نے کیا تھا، مگر دیوار گھر والوں پر گر پڑی تو دیوار کا مالک ضامن ہوگا۔ (مبسوط ص ۱۳ ج ۲۷، ہندیہ ص ۳۹ ج ۶، قاضی خاں علی الہندیہ ص ۳۶۶ ج ۳، درمختار و شامی ص ۵۲۸ ج ۵)

مسئلہ ۴۲۳ : کسی شخص کی لانبی دیوار تھی جس کا بعض حصہ گرائو تھا اور بعض گرائو نہیں تھا اور اس سے مطالبہ نقض کیا گیا تھا۔ پھر پوری دیوار کسی پر گر پڑی جس سے وہ مر گیا تو دیوار کا مالک گرائو حصے کے نقصان کا ضامن ہوگا۔ اور جو حصہ دیوار کا گرائو نہیں تھا اس کے حصے کے نقصان کا ضامن نہیں ہوگا۔ اور اگر دیوار چھوٹی تھی تو پوری دیوار کے نقصان کا ضامن ہوگا۔ (عالمگیری از ظہیریہ ص ۳۹ ج ۶، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، مبسوط ص ۱۳ ج ۲۷، قاضی خاں علی الہندیہ ص ۳۶۶ ج ۳، شامی و درمختار ص ۵۲۹ ج ۵)

مسئلہ ۴۲۴ : کسی شخص کی دیوار گرائو تھی، قاضی نے اس کو گرانے کے مطالبے میں پکڑا کسی دوسرے نے اس کی ضمانت دی کہ اس کے حکم سے یہ دیوار گرا دے گا تو یہ ضمانت جائز ہے۔ اور جس نے یہ ضمانت دی ہے اس کو حق ہے کہ وہ اس کی اجازت کے بغیر گرا دے۔ (عالمگیری بحوالہ منتقی از محیط ص ۳۹ ج ۶، مبسوط ص ۱۳ ج ۲۷)

مسئلہ ۴۲۵ : کسی کی گرائو دیوار پر دو گواہ بنائے کہ اس کی دیوار گرائو ہے پھر وہ دیوار کسی ایک گواہ پر یا اس کے باپ یا اس کے غلام یا اس کے مکاتب پر گر پڑی اور دیوار کے مالک کے خلاف ان دو گواہوں کے سوا اور کوئی گواہ نہیں ہے تو اس صورت میں اس ایک کی گواہی معتبر نہیں ہے جو اس گواہی سے خود یا اس کا متعلق فائدہ اٹھائے۔ (مبسوط ص ۱۲ ج ۲۷، عالمگیری ص ۳۹ ج ۶)

مسئلہ ۴۲۶ : لقیط کی دیوار جھکی ہوئی تھی اور اس سے دیوار گرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ وہ دیوار کسی پر گر پڑی جس سے وہ مر گیا تو قتیل کی دیت بیت المال سے ادا کی جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی کافر مسلمان ہوا اور اس نے کسی سے موالاۃ نہیں کی ہے تو وہ بھی لقیط کے حکم میں ہے (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۶۶ ج ۳، عالمگیری ص ۴۰ ج ۶، مبسوط ص ۱۲ ج ۲۷، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۴۲۷ : ایک گرائو دیوار کے دو مالک تھے ایک اوپری حصے کا، دوسرا نیچے کے حصے کا ان میں سے کسی ایک سے دیوار گرانے کا مطالبہ کیا گیا پھر پوری دیوار گر پڑی تو جس سے مطالبہ کیا گیا تھا۔ وہ نصف دیت کا ضامن ہوگا اور اگر اوپر والی دیوار گری اور اسی کے مالک سے مطالبہ بھی کیا گیا تھا تو یہ ضامن ہوگا، نیچے والی کا مالک ضامن نہیں ہوگا۔ (عالمگیری از محیط سرخسی ص ۴۰ ج ۶، مبسوط ص ۱۳ ج ۲۷، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۶ جلد ۳)

مسئلہ ۴۲۸ : کسی شخص نے دیوار گرانے کے لئے کچھ مزدور مقرر کئے ان کے دیوار گرانے سے ایک شخص ان ہی میں سے مر گیا یا کوئی غیر شخص مر گیا تو کفارہ و ضمان ان ہی پر ہوگا دیوار کے مالک پر کچھ نہیں (مبسوط ص ۱۴ ج ۲۷، عالمگیری ص ۴۰ ج ۶)

مسئلہ ۴۲۹ : کسی کی دیوار اشہاد سے پہلے گر پڑی پھر اس سے مطالبہ کیا گیا کہ اس کا ملبہ راستے سے اٹھائے مگر اس نے نہیں اٹھایا۔ یہاں تک کہ کوئی آدمی یا جانور اس کے ساتھ ٹکرا کر گر پڑا اور ہلاک ہوگیا تو دیوار کا مالک ضامن ہوگا۔ (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۶۷ ج ۳، عالمگیری ص ۴۱ ج ۶)

مسئلہ ۴۳۰ : کسی نے اپنی دیوار سے باہر کی طرف بیت الخلاء وغیرہ بنایا اگر وہ بڑا تھا اور اس سے کسی کو نقصان پہنچا تو ضامن ہوگا اور اگر چھوٹا تھا تو ضامن نہیں ہوا۔ (عالمگیری از محیط ص ۴۰ ج ۶)

مسئلہ ۴۳۱ : کسی کی دو دیواریں تھیں ۔ ایک گرائو ایک صحیح گرائو کے انہدام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ وہ نہ گری لیکن صحیح گر گئی جس سے کوئی چیز تلف ہوگئی تو اس کا ضمان کسی پر نہیں ہے۔ (درمختار ص ۴۲۹ ج ۵، خانیہ علی الہندیہ ص ۴۶۶ ج ۳، بحرالرائق ص ۳۵۴ ج ۸)

مسئلہ ۴۳۲ : کسی شخص کی ایسی جھکی ہوئی دیوار گرانے کا اس سے مطالبہ کیا گیا جس میں راستہ کی طرف چھجہ نکلا ہوا تھا اور اس کو اس نے نکالا تھا جس نے یہ گھر بیچا تھا پھر وہ دیوار اور چھجہ گر پڑے اور صورت یہ ہوئی کہ دیوار کے گرنے کی وجہ سے چھجہ گرا تو دیوار کے مالک پر نقصان کا ضمان ہے اور اگر فقط چھجہ گرا ہے تو بیچنے والا نقصان کا ضامن ہوا جس نے راستہ کی طرف اس کو نکالا تھا (مبسوط ص ۱۴ ج ۲۷، ہندیہ ص ۴۰ ج ۶)

مسئلہ ۴۳۳ : ایک شخص ایک مکان کے زیریں حصہ کا مالک تھا اور اس کے بالائی حصہ کا دوسرا شخص مالک تھا اور دونوں حصے گرائو تھے اور دونوں کے مالکوں سے ان کے گرانے کا مطالبہ بھی کیا جاچکا تھا مگر انھوں نے نہیں گرایا۔اس کے بعد زیریں حصہ گر پڑا اور اس کے گرنے سے اوپر کا حصہ بھی کسی پر گر پڑا جس سے وہ مر گیا تو اس مقتول کی دیت زیرین حصے کے مالک کے عاقلہ پر ہے اور جو شخص نیچے کے ملبے سے ٹکرا کر گرے اس کا ضمان بھی اور اگر بالائی حصے کے گرے ہوئے ملبے سے ٹکرا کر کوئی شخص ہلاک ہوگیا تو کسی پر کچھ نہیں ہے۔ (عالمگیری از محیط ص ۴۰ ج ۶)

مسئلہ ۴۳۴ : ایک مکان کا بالائی حصہ ایک شخص کا ہے اور زیریں حصہ دوسرے کا اور کل مکان کمزور ہے۔ بالائی حصہ کسی پر گر پڑا اور وہ مر گیا اور اس مکان کے گرانے کا مطالبہ دونوں سے کیا جاچکا تھا تو بالائی حصہ کا مالک ضامن ہوگا۔ (قاضی خاں علی الہندیہ ص ۴۶۷ ج ۳، عالمگیری ص ۴۰ ج ۶)

مسئلہ ۴۳۵ : کسی شخص سے اس کی ایسی گرائو دیوار کے گرانے کا مطالبہ کیا گیا جس کا راستہ کی طرف گرنے کا خطرہ نہیں تھا۔ لیکن یہ اندیشہ تھا کہ یہ دیوار اسی شخص کی ایسی صحیح دیوار پر گر سکتی ہے، جس کے گرنے کا اندیشہ نہیں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اگر گرائو دیوار صحیح دیوار پر گر پڑی تو صحیح دیوار بھی راستے میں گر پڑے گی۔ لیکن وہ گرائو دیوار جس کے گرانے کا مطالبہ کیا گیا تھا نہ گری اور صحیح دیوار خود بخود راستے میں گر پڑی جس سے کوئی انسان ہلاک ہوگیا یا اس کے ملبے سے ٹکرا کر کوئی آدمی مر گیا تو اس کا خون رائیگاں جائے گا (عالمگیری ص ۴۰ ج ۶)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button