سوال:
اگر کوئی شخص دوائیوں کے اسٹور پر کام کرتا ہے اور اس کا مالک اس شخص کو مقر رہ مدت پر تنخواہ دیتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ملازم دوائیاں چرا کر کسی اور کو فروخت کرتا ہے اور اس سے آدھی یا کم قیمت لیتا ہے ۔مثلاً مندرجہ بالا کام زید نے کیا اب زید دوائی چرا کر بکر کو دیتا ہے اور پیسے لیتا ہے اور بکر وہ دوائی علاقہ میں کسی اور کے ہاتھ بیچتا ہے اس طرح بکر کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ملتا ہے حالانکہ بکر کو معلوم ہے کہ یہ چوری کا مال ہے ۔ اس صورت میں زید و بکر کی اس خرید و فروخت کا کیا حکم ہے نیز بکر کا ان دوائیوں کو آ گے فروخت کرنا چوری پر اعانت ہے یا نہیں ؟
جواب:
خرید و فروخت کے جائز ہونے کے لیے فقہائے کرام نے مختلف شرائط بیان فرمائی ہیں ۔ایک شرط یہ بھی بیان فرمائی کہ مبیع بائع کی مملوک ہو یعنی جس چیز کو فروخت کیا جا رہا ہے۔ وہ بیچنے والے کی ملکیت میں ہو۔ سوال مذکور میں یہ بات وضاحت سے موجود ہے کہ زید دوائیاں چوری کرتا ہے اور بکر کو فروخت کر تا ہے اسی طرح بکر کو بھی معلوم ہے کہ یہ دوائیاں چوری کردہ ہیں اس کے باوجود زید سے خرید تا ہے ۔لہذا صورت مسئولہ میں زید کا بکر کو دوائیاں فروخت کرنا جائز نہ ہوا کہ وہ خود ان کا مالک نہیں اور چونکہ بکر کو چوری کا بخوبی علم ہے لہذا اس کا خریدنا اور مزید آگے فروخت کرنا بھی ناجائز ہوا۔ کیونکہ یہ چوری پر اعانت اور مدد د ینا ہے جو کہ قرآن حکیم کی رو سے ممنوع ہے ۔
(انوار الفتاوی، صفحہ435،فرید بک سٹال لاہور)