سوال:
ایک قاری صاحب کہتے ہیں کہ میں جو مسجد اور مدرسہ کے لئے چند ہ وغیرہ کرتا ہوں اس صورت میں چندہ کروں گا کہ اس چندے میں سے کمیشن لوں گا، کیا ان کو کمیشن دینا صحیح ہے،جبکہ وہ قاری صاحب اس ادارے کے با قاعد تنخواہ دار ملازم ہیں
جواب:
قرآن مجید میں ہے:زکوۃ کے مصارف صرف فقراء اور مساکین ہیں اور وہ لوگ جوز کو ۃ وصول کرنے پر مامور ہیں‘‘ (التوبہ:60)۔ والعٰملين علیھا کے تحت علامہ محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ: یہ وہ لوگ ہیں جنہیں امام (یعنی حاکم ) صدقات کی وصول کرنے کے لئے مقرر کرتا ہے اور البحر الرائق میں ہے کہ’’ عامل‘‘ عشر جمع کرنے والے اور وصول کرنے کے لئے کوشش کرنے والے کو بھی شامل ہے، اور ”عاشر“ سے مراد وہ شخص ہے جسے امام (حاکم ) تجارتی گزر گاہوں پر وہاں سے گزرنے والے تاجروں کے مال سے صدقہ لینے کے لئے مقرر کرتا ہے۔ ”ساعی‘‘ سے مراد وہ شخص ہے کہ جو مختلف علاقوں میں لوگوں کے پاس جا کر ان سے جنگل میں چرنے والے مویشیوں کی زکوۃ وصول کرے اور (عامل کو) وصول کردہ زکوۃ و صدقات میں سے اتنا دیا جائے کہ آنے اور جانے کے زمانے میں ان کے اور ان کے کارکنوں کی ضرورت کے لئے کافی ہو مگرا سے اتنا نہ دیا جائے کہ اس کی وصول کر دہ ز کو ۃ و صدقات کے نصف سے زائد ہو جائے
والعملين علیھا کا معنی اور اس کے شرعی احکام :
یعنی جو لوگ زکوۃ اور صدقات کو وصول کر کے لاتے ہیں، ان کو ان کی محنت اور مشقت کے مطابق مال زکوۃ سے اجرت دی جائے لیکن یہ اجرت اتنی نہیں ہونی چاہیے کہ وہ زکوۃ کی وصول کردہ تمام رقم یا اس کے نصف پر محیط ہو( عنایت القاضی، ج ،۴ ص ۵۸۷)اگر عامل کو اس مہم کے دوران کوئی شخص ذاتی طور پر کچھ ہدیہ اور تحفہ دے تو وہ اس کے لیے جائز نہیں ہے، وہ اس کو بھی وصول شدہ زکوۃ کی مد میں شامل کر دے۔
خلاصہ کلام یہ کہ عاملین زکوۃ و عشر (یعنی زکوۃ ،صدقات اور عشر کی وصولیابی پر مامور افراد ) کے لئے شریعت نے حق الحذمت کو جائز رکھا ہے اور یہ حق الخدمت اسے اس کی وصول شدہ زکوۃ و عشر میں سے دیا جا سکتا ہے اور قرآن مجید کی سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 60 میں جہاں مصارف زکوۃ و صدقات کی آٹھ مدات ( Categories) کو بیان کیا گیا ہے ، ان میں تیسری مد’’ عاملین زکوۃ‘‘ کی ہے، بشرطیکہ وہ عامل غیر سید ہو، فقہا کرام نے مزید تصریح کی ہے کہ عامل زکوۃ خواہ غنی ہو، اسے اس کی وصول شدہ زکوۃ ہی سے حق الحذمت دیا جائے گا۔ لیکن فقہائے کرام نے اس کی شرح متعین نہیں کی بلکہ حکومت اسلامیہ یا متعلقہ ادارے کی صوابدید پر چھوڑا ہے کہ اس کی محنت کے مطابق اسے حق الخدمت عطا کر دیں، لیکن یہ اجرت اس کی وصول شدہ زکوۃ کے نصف سے زائد نہ ہو، اور جب زکوۃ و عشر (یعنی صدقات واجبہ میں سے عامل یعنی کارکن کو اجرت دی جا سکتی ہے تو مسجد کے چندے میں سے ( جو نفلی صدقہ یا عطیہ ہے ) بطریق اولی دی جا سکتی ہے ۔ اب صورت مسئولہ میں اگر مسجد و مدرسہ کے لئے چندہ جمع کرنا قاری صاحب کے فرائض منصبی و شرائط ملازمت میں شامل ہے ، تو ان کے لئے علیحدہ اجرت کا مطالبہ جائز نہیں ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے یعنی ان کی منصبی ذمہ داری صرف تدریس ، امامت و خطابت یا بطور مؤذن خدمات انجام دینا ہے ، تو ان کے لئے اپنی اضافی خدمات (یعنی چندہ جمع کرنے ) کا معاوضہ لینا جائز ہے، اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے حق الخدمت یا اجرت کار کی شرح کا تعین انتظامیہ کا اختیار ہے اور جو معاملہ فریقین کی رضامندی سے طے پائے ، وہ جائز ہے ۔ سلف صالحین و فقہا کرام نے صرف یہ شرط عائد کی ہے کہ عامل کو اس کی جمع کردہ رقم کے نصف سے زائد اجرت نہ دی جائے ۔
(تفہیم المسائل، جلد3،صفحہ 416،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)
Leave a Reply