ARTICLES

چندپھیروں میں ترک اضطباع کاحکم

الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے عمرے کاطواف شروع کیااوروہ اضطباع کرنابھول گیاتین چکرطواف کے بعداب یادایاتواس نے اضطباع کیااورطواف عمرہ کوازسرنوشروع کیاتواب اس پرکیالازم ہوگا؟(سائل : علامہ خرم نوری،مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں اس پرکچھ لازم نہیں ہوگاکیونکہ ہروہ طواف جوحالت احرام میں کیاجائے اور اس کے بعدسعی بھی ہواس میں اضطباع سنت ہے ۔چنانچہ امام ابومحمدعبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی متوفی255ھ، امام ابوداود سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی275ھ،امام ابوعبداللہ محمدبن یزیدقزوینی متوفی275ھ اورامام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی متوفی279ھ اپنی سندکے ساتھ حضرت ابن یعلیٰ رضی اللہ عنہ سے اوروہ اپنے والدسے روایت کرتے ہیں : ان النبي صلى الله عليه وسلم طاف بالبيت مضطبعًا۔[واللفظ للترمذی] ( ) یعنی،نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خانہ کعبہ کاطواف حالت اضطباع میں فرمایاہے ۔ اسی لئے فقہائے کرام نے اسے طواف کی سنتوں میں شمارکیاہے ۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ لکھتے ہیں : والاضطباع والرمل فی الثلاثۃ الاول فی طواف الحج والعمرۃ۔( ) ملخصًا یعنی،حج و عمرہ کے طواف میں اضطباع اورپہلے تین پھیروں میں رمل سنت ہے ۔ اس کے تحت ملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : (فی طواف الحج والعمرۃ) قید للاضطباع والرمل، لکونھما من سنن طوافٍ بعدہ سعی۔( ) یعنی،اضطباع اوررمل حج و عمرہ کے طواف کے ساتھ مقیدہیں کیونکہ یہ دونوں اس طواف کی سنن سے ہے جس کے بعدسعی ہو۔ اوریہ طواف کے تمام چکروں میں سنت ہے ۔چنانچہ ملاعلی قاری اوران کے حوالے سے علامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں : (والاضطباع) ای فی جمیع اشواط الطواف الذی سن فیہ، کما صرح بہ ابن الضیاء۔[واللفظ للاول] ( ) یعنی،اضطباع اس طواف کے تمام چکروں میں سنت ہے جس میں اضطباع مسنون ہے جیساکہ علامہ ابن ضیاءحنفی نے اس کی تصریح فرمائی ہے ۔ ( ) اورشیخ الاسلام مخدوم محمدہاشم ٹھٹوی حنفی متوفی1174ھ لکھتے ہیں : اضطباع در جمیع اشواط طوافے کہ بعد از وی سعی است اگرچہ طواف حج باشد یا عمرہ باشد۔ ( ) یعنی،اس طواف کے تمام پھیروں میں اضطباع سنت ہے جس کے بعدسعی کرنی ہواگرچہ حج یاعمرے کاطواف ہو۔ اوراس کاترک مکروہ ہے ۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی مکروہات طواف کے بیان میں لکھتے ہیں : ترک الرمل و الاضطباع لمن علیہ۔( ) یعنی،جس کیلئے اضطباع اوررمل سنت ہے اس کیلئے ان دونوں کاترک مکروہ ہے ۔ اورمخدوم محمدہاشم ٹھٹوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اضطباع اگر ترک کردہ اورا در بعض اشواط مکروہ باشد۔( )ملخصًا یعنی،اگرکسی چکرمیں اضطباع ترک کردیاتویہ مکروہ ہے ۔ اورکراہت چونکہ سنت کے مقابلے میں ہے ،لہٰذااس سے مرادمکروہ تنزیہی ہے ۔چنانچہ علامہ علاءالدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ اورعلامہ سیداحمدطحطاوی حنفی متوفی1231ھ لکھتے ہیں : (یکرہ) ای تنزیھًا لانھا فی مقابلۃ السنۃ۔( ) یعنی،کراہت سے مرادکراہت تنزیہی ہے کیونکہ سنت کے مقابلے میں ہے ۔ لہٰذامعلوم ہواکہ تین پھیروں میں اضطباع ترک ہونے کی وجہ سے شخص مذکورکاطواف مکروہ طریقے پرہواجس کاازسرنو اعادہ مستحب ہے ۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اورملاعلی قاری’’مستحبات طواف‘‘کے بیان میں لکھتے ہیں : (واستئناف الطواف لو فعلہ) ای ولو بعضہ (علی وجہٍ مکروہٍ)۔ ( )ملخصًا یعنی،اگرمکمل یابعض طواف مکروہ طریقے پرکیاہو،تونئے سرے سے طواف کرنامستحب ہے ۔ اورمخدوم محمدہاشم ٹھٹوی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں : اگر ادا طواف را بتمامہ یا بعض ان را بروجہ مکروہ زیر انکہ مستحب است در ہر طوافے کہ ادا کردہ شود او را بروجہ مکروہ کہ اعادہ نماید ان را بروجہ غیر مکروہ۔ ( )ملخصًا یعنی،اگرمکمل یابعض طواف مکروہ طریقے پرکیاہوتواسے ازسرنوکرنامستحب ہے کیونکہ ہروہ طواف جومکروہ طریقہ پرکیاگیاہواس کا غیرمکروہ طریقے پراعادہ مستحب ہے ۔ اورازسرنواعادہ اس نے کرلیاہے لہٰذاکوئی کفارہ لازم نہیں ہے بلکہ اعادہ نہ کرتاجب بھی اس پرکچھ لازم نہیں ہوتا۔چنانچہ امام محمدبن حسن شیبانی حنفی متوفی189ھ لکھتے ہیں : وترک الرمل فی طواف الحج والعمرۃ لا یوجب شیئًا غیر انہ فیہ مسیء اذا کان لغیر عذرٍ۔( )ملخصًا یعنی،حج اورعمرہ کے طواف میں رمل ترک کرنے پرکچھ لازم نہیں ہوتاہے سوائے اس کے کہ وہ براکرنے والاہوگاجبکہ بلاعذرہو۔ اورعلامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی855ھ لکھتے ہیں : لو ترک الاضطباع والرمل لا شیء علیہ عند الجمھور، وعلیہ الاجماع۔( ) یعنی،اگرکسی نے اضطباع اوررمل ترک کیاتواس پرجمہورفقہائے کرام کے نزدیک کچھ لازم نہیں ہوگااوراسی پراجماع ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم السبت،23/محرم الحرام،1444ھ۔22/اگست،2022م

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button