سوال:
باغات کے پھلوں کو سال دو سال کے لیے خرید و فروخت کرنے کا چلن عام ہو گیا ہے اور اکثر مالکان و مشتری کا اس پر تعامل ہے کیا ایسی صورت میں تعامل الناس کا شرع شریف میں کوئی اعتبار نہیں؟ جبکہ عامۃ الناس حرام خوری کی مرتکب ہو رہی ہو۔
جواب:
جی ہاں ! تعامل و رواج کا شرع شریف میں قرار واقعی حیثیت موجود ہے اور اس کا اعتبار بھی کیا جاتا ہے لیکن نصوص شرعیہ اور صحیح روایات کے مقابل اسے نہیں لایا جا سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں صراحتاً ایسے پھولوں اور کاشت کے بیع کی ممانعت موجود ہے جس کا درختوں یا پودوں پر وجود ہی نہیں ہوا ہو۔ فقہا کرام نے اسی بیع معاوضہ اور بیع سنین کا نام دیا ہے ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو تعامل نصوص شرعیہ سے متصادم نہ ہوں ، علما کرام انہیں تعامل کے پیش نظر شریعت کی حد میں رہ کر ممکن حد تک آسانی کی راہیں ہموار کرتے ہیں، ہر تعامل کے اندر شریعت کی اساس بننے کی صلاحیت نہیں ہے۔ لہذا باغات کے معدوم پھلوں کی بیع و شرا کو تعامل و رواج کا نام دیکر جائز نہیں قرار دیا جا سکتا ۔ بیع و شرا کے اس طریقے کار کو چھوڑنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ (فتاوی یورپ، صفحۃ452،شبیر برادرز، لاہور)