سوال:
کیا انعامی بانڈز کا لین دین اور اس پر انعام کی رقم کا لینا جائز ہے؟
جواب:
انعامی بانڈز حکومت پاکستان جاری کرتی ہے ،شیڈ ولڈ کمرشل بینکوں یا قومی بچت کے مراکز کے ذریعے درج قیمت پر انہیں فروخت کرتی ہے اور اسی قیمت پر خریدتی ہے ،اس آزادانہ خرید و فروخت میں کسی مدت کی کوئی پابندی نہیں ہے ۔ خریدار کی نہ اس میں کوئی رقم ڈوبتی ہے نہ ایسا کوئی خطر ہ اس میں ہے اور نہ ہی اسے اس پر کوئی طے شد ہ زائد رقم ملتی ہے۔ ان بانڈز کا اس طرح لین دین بغیر کسی شرعی قباحت کے جائز ہے اور اب سپریم کورٹ آف پاکستان کی شریعت اپیلٹ بنچ بھی اسے جائز قرار دے چکی ہے ۔ جن علما نے اس کے عدم جواز کا فتوی دیا تھا ہمیں معلوم نہیں کہ وہ اب بھی اپنے فتوے پر قائم ہیں یا رجوع کر چکے ہیں ۔ تا ہم انہوں نے جو عدم جواز کی بنیاد قائم کی ،وہ ان مفروضوں پر تھی کہ یہ قرض ہے جو بینک عوام سے لیتے ہیں اور ان کا سود سب پر مساوی تقسیم کرنے کے بجائے چند افراد کو انعام کی شکل میں دے دیتے ہیں اور ان کے نزدیک چونکہ سود کی مجموعی رقم چند افراد کو مل جاتی ہے اور باقی محروم رہتے ہیں لہذا یہ قمار بھی ہے لیکن یہ سب مفروضے غلط ہیں ، کیونکہ یہ قرض نہیں ہے بلکہ خرید و فروخت ہے، قرض کی واپسی کے لئے مدت متعین ہوتی ہے، انعامی بانڈ میں کسی مدت کا تعین نہیں ہے بلکہ بانڈ ز کا حامل جب چاہے اسے حکومت کو فروخت کر کے اپنی پوری رقم لے سکتا ہے ۔ ان بانڈ ز کا اجرا حکومت پاکستان کرتی ہے، بینک نہیں کرتے ، وہ صرف ان کی خرید و فروخت کے لئے ایجنٹ کا کام کرتے ہیں ۔اس میں کوئی سودی معاہدہ بھی نہیں ہے۔
(تفہیم المسائل، جلد1،صفحہ 335،ضیا القرآن پبلی کیشنز، لاہور)