پاکی کا بیان
نماز کے لئے طہارت ایسی ضروری چیز ہے کہ بے اس کے نماز ہوتی ہی نہیں بلکہ جان بوجھ کر بے طہارت نماز ادا کرنے کو علماء کفر لکھتے ہیں اور کیوں نہ ہو کہ اس بے وضو یا بے غسل نماز پڑھنے والے نے عبادت کی بے ادبی اور توہین کی۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ جنت کی کنجی نماز ہے اور رماز کی کنجی طہارت۔ اس حدیث کو امام احمد نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا کہ ایک روز نبی ﷺ صبح کی نماز میں سورہ روم پڑھتے تھے اور متشا بہ لگا۔ بعد نماز ارشاد فرمایا کیا حال ہے۔ ان لوگوں کا جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے ہیں اور اچھی طرح طہارت نہیں کرتے انہیں وجہ سے امام کو قراء ت میں شبہ پڑتا ہے۔ اس حدیث کو نسائی نے شبیب بن ابی روح سے انہوں نے ایک صحابی سے روایت کیا جب بغیر کامل طہارت نماز پڑھنے کا یہ وبال ہے تو بے طہارت نماز پڑھنے کی نحوست کا کیا پوچھنا۔ ایک حدیث میں فرمایا۔ طہارت نصف ایمان ہے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا اور کہا کہ یہ حدیث حسن ہے۔ طہارت کی دو قسمیں ہیں۔
۱) صغریٰ ۲) کبریٰ
صغریٰ وضو ہے اور کبریٰ غسل۔ جن چیزوں سے صرف وضو لازم ہوتا ہے ان کو حدث ِاصغر کہتے ہیں اور جن سے غسل فرض ہو ان کو حدثِ اکبر۔ ان سب کا اور ان کے متعلقات کاتفصیلاً ذکر کیا جائے گا۔
تنبیہ : چند ضروری اصطلاحات قابل ذکر ہیں کہ ان سے ہر جگہ کام پڑتا ہے۔
فرض اعتقادی:
جودلیل قطعی سے ثابت ہو (یعنی ایسی دلیل ہے جس میں کوئی شبہہ نہ ہو) اس کا انکار کرنے والا ائمہ حنفیہ کے نزدیک مطلقاً کافر ہے اور اگر اسکی فرضیت دین ِ اسلام کا عام خاص پر روشن واضح مسئلہ ہو جب تو اس کے منکر کے کفر پر اجماع قطعی ہے ایسا کہ جو اس منکر کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے اور بہرحال جو کسی فرض اعتقادی کو بلا عذر صحیح شرعی قصداً ایک بار بھی چھوڑدے فاسق و مرتکب کبیرہ و مستحق ِ عذاب نار ہے جیسے نماز ، رکوع، سجود۔
فرض عملی:
وہ جس کا ثبوت تو ایسا قطعی نہ ہو مگر نظر مجتہد میں بحکمِ دلائل شرعیہ جزم ہے کہ بے اس کے لئے آدمی بری الذمہ نہ ہو گا یہاں تک کہ اگر وہ کسی عبادت کے اندر فرض ہے تو وہ عبادت بے اس کے باطل و کالعدم ہو گی اس کا بے وجہ انکار فسق و گمراہی ہے ہاں اگر کوئی شخص کہ دلائل شرعیہ میں نظرکا اہل ہے دلیل شرعی سے اس کا انکار کرے تو کر سکتا ہے۔ ائمہ مجتہدین کے اختلافات کہ ایک امام کسی چیز کو فرض کہتے ہیں اور دوسرے نہیں مثلاً حنفیہ کے نزدیک وضو میں بسم اللہ کہنا اور نیت سنت ہے اور حنبلیہ و شافعیہ کے نزدیک فرض اور اس کے سوا اور بہت سی مثالیں ہیں اس فرض علمی میں ہر شخص اس کی پیروی کرے جس کا مقلّد ہے اپنے امام کے خلاف بلا ضرورت ِ شرعی دوسروں کی پیروی جائز نہیں۔
واجب اعتقادی:
وہ کہ دلیل ظنی سے اس کی ضرورت ثابت ہو۔ فرض عملی و واجب عملی اسی کی دو قسمیں ہیں اور وہ انہیں دو میں منحصر۔
واجب عملی:
وہ واجب اعتقادی کہ بے اس کے کئے بھی بری الذمہ ہونے کا احتمال ہو مگر غالب ظن اس ضرورت پر ہے اور اگر کسی عبادت میں اس کا بجا لانا درکار ہو تو عبادت بے اس کے ناقص رہے مگر ادا ہو جائے تو مجتہد شرعی سے واجب کا انکار کر سکتا ہے اور کسی واجب کا ایک با بھی قصداً چھوڑنا گناہ صغیرہ ہے اور چند بار ترک کرنا کبیرہ۔
سنت موکدہ:
وہ کہ جس کو حضور اقدس ﷺ نے ہمیشہ کیا ہو البتہ بیان جواز کے واسطے بھی ترک بھی فرمایا ہو یا وہ کہ اس کے کرنے کی تاکید فرمائی مگر جانب ترک بالکل مسدود نہ فرمائی ہو اس کا ترک اساء ت اور کرنا ثواب اور نادراً ترک پر عتاب اور اس کی عادت پر استحقاق عذاب ہو ۔
سنت غیرموکدہ:
وہ کہ نظرِ شرعی میں ایسی مطلوب ہو کہ اس کے ترک کو ناپسند رکھے مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعید عذاب فرمائے عام ازیں کہ حضور سیّد عالم ﷺ نے اس پر مداومت فرمائی یا نہیں اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنا اگرچہ عادۃً ہو مو جب عتاب نہیں۔
مستحب:
وہ کہ نظر شرع میں پسند ہو مگر ترک پر کچھ ناپسندی نہ ہو خواہ خود حضور اقدس ﷺ نے اسے کیا یا اس کی ترغیب دی یا علمائے کرام نے پسند فرمایا اگرچہ احادیث میں اس کا ذکر نہ آیا۔ اس کا کرنا ثواب اور نہ کرنے پر مطلقاً کچھ نہیں۔
مباح:
وہ جس کا کرنا اور نہ کرنا یکساں ہو۔
حرامِ قطعی:
یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصداً کرنا گناہ کبیرہ و فسق ہے اور بچنا فرض و ثواب۔
مکروہ تحریمی:
یہ واجب کا مقابل ہے اس کے کرنے سے عبادت ناقص ہو جاتی ہے اور کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے اگرچہ اس کا کرنا گناہ حرام سے کم ہے اور چند بار اس کا ارتکاب کبیرہ ہے۔
اساءت:
جس کا کرنا برا ہو اور نادراً کرنا والا مستحق عتاب اور التزام فعل پر استحقاق عذاب یہ سنت موکدہ کے مقابل ہے۔
مکروہ تنزیہی:
جس کا کرنا شرع کو پسند نہیں مگر نہ اس حد تک کہ اس پر وعید عذاب فرمائے یہ سنت غیر موکدہ کے مقابل ہے۔
خلاف اولی:
وہ کہ نہ کرنا بہتر تھا ۔ کیا کچھ مضائقہ و عتاب نہیں یہ مستحب کا مقابل ہے۔ ان کے بیان میں عبارتیں مختلف ملیں گی مگر یہی عطر تحقیق ہے ۔
وللّٰہ الحمدًاکثیراً مبارکًا فیہ مبارکًا علیہ کما یحب ربنا و یرضٰی (اور اللہ کے لئے حمد ہے بہت حمد جس میں برکت ہے جس پر برکت ہے جیسا کہ ہمارا رب پسند فرمائے اور خوش ہو۔)