پانی کا بیان
اللہ عزّوجل فرماتا ہے: وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمٓائٍ مَائً طَھُوْراً (یعنی آسمان سے ہم نے پاک کرنے والا پانی اُتارا)
اور فرماتا ہے : وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئٍ مَآئً لِّیُطَھِّرَکُمْ بِہٖ وَیُذْھِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ (یعنی آسمان سے تم پر پانی اُتارتا ہے کہ تمہیں اس سے پاک کرے اور شیطان کی پلیدی تم سے دور کرے)
حدیث ۱ : امام مسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص حالتِ جنابت میں رُکے ہوئے پانی میں نہ نہائے (یعنی تھوڑے پانی میں جو دَہ در دَہ نہ ہو کہ وہ دَہ در دَہ بہتے پانی کے حکم میں ہے) لوگوں نے کہا تو اے ابوہریرہ کیسے کرے ۔ کہا : اس میں سے لے لے ۔
حدیث ۲ : سنن ابو داؤد ترمذی و ابن ماجہ میں حکم بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا کہ عورت کی طہارت سے بچے ہوئے پانی سے مرد وضو کرے۔
حدیث ۳ : امام مالک و ابو داؤد ترمذی ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا ہم دریا کا سفر کرتے ہیں اور اپنے ساتھ تھوڑا سا پانی لے جاتے ہیں توا گر اس سے وضو کریں پیاسے رہ جائیں تو کیا سمندر کے پانی سے ہم وضو کریں۔ فرمایا : اس کا پانی پاک ہے اور اس کا جانور مرا ہوا حلال یعنی مچھلی۔
حدیث ۴ : امیر المومنین فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ دھوپ کے گرم پانی سے غسل نہ کرو کہ وہ برص پیدا کرتا ہے۔
کس پانی سے وضو جائز ہے اور کس سے نہیں
تنبیہ : جس پانی سے وضو جائز ہے اس سیغسل بھی جائز ہے اور جس سے وضو ناجائز غسل بھی ناجائز۔
مسئلہ ۱ : مینہ، ندی، نالے، چشمے، سمندر، دریا، کنوئیں اور برف اولے کے پانی سے وضو جائز ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۶۶)۔
مسئلہ ۲ : جس پانی میں کوئی چیز مل گئی کہ بول چال میں اسے پانی نہ کہیں بلکہ اس کا کوئی اور نام ہو گیا جیسے شربت یا پانی کوئی ایسی چیز ڈال کر پکائیں جس سے مقصود میل کاٹنا نہ ہو جیسے شوربا،چائے، گلاب یا عرق اس سے وضو و غسل جائز نہیں۔ (درمختار و شامی ج۱ ص ۱۶۷، ۱۶۸)۔
مسئلہ ۳ : اگر ایسی چیز ملائیں یا ملا کر پکائیںجس سے مقصود میل کاٹنا ہے جیسے صابون سے بیری کے پتے تو وضو جائزہے جب تک اس کی رقت زائل نہ کر دے اور اگر ستُّو کی مثل گاڑھا ہو گیا تو وضو جائز نہیں۔
مسئلہ ۴ : اور اگر کوئی پاک چیز نہ ملی جس سے رنگ و بو مزے میں فرق آگیا مگر اس کا پتلا پن نہ گیا جیسے ریتا، چونا یا تھوڑی، زعفران تو وضو جائز جہے اور جو زعفران کا رنگ اتنا آجائے کہ کپڑا رنگنے کے قابل ہو جائے تو وضو جائز نہیں۔ یونہی پڑیا کا رنگ اور اگر اتنا دودھ مل گیا کہ دودھ کا رنگ غالب نہ ہوا تو وضو جائز ہے ورنہ نہیں۔ غالب مغلوب کی پہچان یہ ہے کہ جب تک کہیں کہ پانی میں کچھ دودھ مل گیا تو وضو جائز ہے اور جب اسے لسّی کہیں تو وضو جائز نہیں اور اگر پتے گرنے یا پرانے ہونے کے سبب بدلے تو کچھ حرج نہیں مگر جب کہ پتے اسے گاڑھا کر دیں۔ (درمختار و شامی ج ۱ ص ۱۷۲)۔
مسئلہ ۵ : بہتا پانی کہ اس میں تنکا ڈال دیں توع بہالے جائے پاک اور پاک کرنے والا ہے نجاست پڑنے سے ناپاک نہ ہو گا جب تک ہو نجس اس کے رنگ یا بو یا مزہ کو نہ بدل دے اگر نجس چیز سے رنگ یا بو یا مزہ بدل گیا تو ناپاک ہو گیا اب یہ اس وقت پاک ہو گا کہ نجاست تر نشین ہو کر اس کے اوصاف ٹھیک ہو جائیں یا پاک پانی اتنا ملے کہ نجاست کو بہالے جائے یا پانی کے رنگ مزہ بُو ٹھیک ہو جائیں اور اگر پاک چیز نے رنگ بُو مزہ کو بدل دیا تو وضو غسل اس سے جائز ہے جب تک چیز دیگر نہ ہو جائے۔ (شا می ص ۱۶۸، ۱۶۹)۔
مسئلہ۶ : مردہ جانور نہر کی چوڑائی اس میں پڑا ہے اور اس کے اوپر سے پانی بہتا ہے تو عام ازیں کہ جتنا پانی اسے سے کل کر بہتا ہے اس سے کم ہے جو اس کے اوپر سے بہتا ہے یا زائد ہے یا برابر مطلقاً ہر جگہ سے وضو جائز ہے یہاں تک کہ موقع نجاست سے بھی جب تک نجاست کے سبب کسی وصف میں تغیر نہ آئے یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد ہے ۔ (درمختار ج ۱ ص ۱۷۳، ہندیہ ج ۱ ص ۱۷)۔
مسئلہ ۷ : چھت کے پرنالے سے پانی گرے وہ پاک ہے اگرچہ چھت پر جابجا نجاست پڑی ہو اگرچہ نجاست پرنالے کے منہ پر ہو اگرچہ نجاست سے مل کر جو پانی گرتا ہو وہ نصف سے کم یا برابر یا زیادہ ہو جب تک نجاست سے پانی کے کسی وصف میں تغیر نہ آئے یہی صحیح ہے اور اسی پر اعتماد ہے اور اگر مینہ رک گیا اور پانی کا بہنا موقوف ہو گیا تو اب ٹھرا پانی اور جو چھت سے ٹپکے نجس ہے ۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۷)۔
مسئلہ ۸ : یونہی نالیوں سے برسات کا بہتا ہوا پانی پاک ہے جب تک نجاست کا رنگ یا بو یا مزہ اس میں ظاہر نہ ہو رہا اس سے وضو کرنا اگر اس پانی میں نجاست مرئیہ کے اجزا ایسے بہتے جارہے ہوں کہ جو چُلّو لیا جائے گا اس میں ایک آدھ ذرّہ اس کا بھی ضرور ہو جب تو ہاتھ میں لیتے ہی ناپاک ہو گیا وضو اس سے حرام ورنہ جائز ہے اور بچنا بہتر۔
مسئلہ ۹ : نالی کا پانی کہ بعد بارش کیٹھہر گیا اگر اس میں نجاست کے اجزا محسوس ہوں یا اس کا رنگ و بُو محسوس ہو تو ناپاک ہے ورنہ پاک۔ (ہندیہ ج ۱ ص ۱۷)۔
مسئلہ ۱۰ : دس ہاتھ لمبا دس ہاتھ چوڑا جو حوض ہو اسے دَہ در دَہ اور بڑا حوض کہتے ہیں۔ یونہی بیس ہاتھ لمبا یا پانچ یاتھ چوڑا یا پچیس ہاتھ لمبا ، چار ہاتھ چوڑا غرض کل لمبائی چوڑائی سو ہاتھ ہو اور اگر گولی ہو تا اس کی گولائی تقریباً ساڑھے پینتیس ہاتھ ہو اور سو ہاتھ لمبائی نہ ہو تو چھوٹا حوض ہے اور اس کے پانی کو تھوڑا کہیں گے اگرچہ کینا ہی گہرا ہو۔
تنبیہ : حوض کے بڑے چھوٹے ہونے میں خود اس حوض کی پیمائش کا اعتبار ہے نہیں بلکہ اس میں جو پانی ہے اس کی بالائی سطح دیکھی جائے گی تو اگر حوض بڑا ہے مگر اب پانی کم ہو کر دَہ در دَہ نہ رہا تو وہ اس حالت میں بڑ ا حوض نہیں کہا جائے گا۔ نیز حوض اسی کو نہیں کہیں گے جو مسجدوں ، عیدگاہوں میں بنائے جاتے ہیں بلکہ وہ ہر گڑھا جس کی پیمائش سو ہاتھ ہے بڑا حوض ہے اس سے کم ہے تو چھوٹا۔
مسئلہ ۱۱ : دَہ در دَہ حوض میں صرف اتنا دَل درکار ہے کہ اتنی ساحت میں زمین کہیں سے کھلی نہ ہو اور بہت کتابوں میں فرمایا ہے کہ لَپ یا چُلّو میں پانی لینے سے زمین نہ کُھلے اس کی حاجت اس کے کثیر رہنے کے لئے ہے کہ وقت استعمال اگر پانی اٹھانے سے زمین کھل گئی تو اس وقت پانی سے ناپاک نہ ہو گا جب تک نجاست سے رنگ یا بُو یا مزہ نہ بدلے اور ایسا حوض اگرچہ نجاست پڑنے سے نجس نہ ہو گا مگر قصداً اس میں نجاست ڈالنا منع ہے۔
مسئلہ ۱۲ : بڑے حوض کے نجس نہ ہونے کی یہ شرط ہے کہ اس کا پانی متصل ہو تا ایسے حوض میں اگر لٹھے یا کڑیاں گاڑی گئی ہوں تو اُن لٹھوں کڑیوں ے علاوہ باقی جگہ اگر سو ہاتھ ہے تو بڑا ہے ورنہ نہیں۔ البتہ پتلی پتلی چیزیں جیسے گھاس، نرکل کھیتی اس کے اتصال کو مانع نہیں۔
مسئلہ ۱۳ : بڑے حوض میںایسی نجاست پڑی کہ دکھائی نہ دے جیسے شراب، پیشاب تو اس کی ہر جانب سے وضو جائز ہے اور اگر دیکھنے میں آتی ہو جیسے پاخانہ، کوئی مرا ہوا جانور تو جس طرف سے وہ نجاست ہو اس طرف وضو نہ کرنا بہتر ہے ۔دوسری طرف وضو کرے۔
تنبیہ : جس نجاست دکھائی دیتی ہے اس کو مرئیہ اور جو نہیں دکھائی دیتی اسے غیر مرئیہ کہتے ہیں۔
مسئلہ ۱۴ : ایسے حوض پر اگر بہت سے لوگ جمع ہو کر وضو کریں تو بھی کچھ حرج نہیں اگرچہ وضو کا پانی اس میں گرتا ہو۔ ہاں اس میں کلی کرنا یا ناک سنکنا نہ چاہیئے کہ نظافت کے خلاف ہے۔
مسئلہ ۱۵ : تالاب یا بڑا حوض اوپر سے جم گیا مگر برف کے نیچے پانی کی لمبائی یا چوڑائی متصل بقدر دہ در دہ ہے اگر سوراخ کرکے اس سے وضو کیا جائز ہے اگرچہ اس میں نجاست پڑ جائے اور اگر متصل دہ در دہ نہیں اور اس میں نجاست پڑی تو ناپاک ہے پھر نجاست پڑنے سے پہلے اس میں سوراخ کر دیا اور اس سے پانی اُبل پڑا تو اگر بقدر دہ در دہ پھیل گیا تو اب نجاست پڑنے سے بھی پاک رہے گا اور اس میں دَل کا وہی حکم ہے جو اوپر گزرا۔
مسئلہ ۱۶ : اگر تالاب خشک میں نجاست پڑی ہو اور مینہ برسا اور اس میں بہتا ہوا پانی پاک اس قدر آیا کہ بہاؤ رکنے سے پہلے ہی وہ دہ در دہ ہو گیا تو وہ پانی پاک ہے اوراگر اس مینہ سے وہ در دہ دہ سے کم رہا، دوبارہ بارش سے وہ در دہ دہ ہوا تو سب پانی نجس ہے ۔ ہاں اگر وہ بھر کہ بہ جائے تو پاک ہو گیا اگرچہ ہاتھ دو ہاتھ ہو۔
مسئلہ ۱۷ : وہ دہ در دہ پانی میں نجاست اب بھی اس میں باقی ہو اور دکھائی دیتی ہو تو اب ناپاک ہو گیا اب جب تک بھر کر نہ رہ جائے پاک نہ ہو گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۷)۔
مسئلہ ۱۸ : چھوٹا حوض ناپاک ہو گیا پھر اس کا پانی پھیل کر دہ در دہ ہو گیا تو اب بھی ناپاک ہے مگر پاک پانی اسے بہا دے تو پاک ہو جائے گا۔
مسئلہ ۱۹ : کوئی حوض ایسا کہ اوپر سے تنگ اور نیچے کشادہ ہے یعنی ناپاک ہے پھر اس کا پانی گھٹ گیا اور وہ دہ در دہ ہو گیا تو پاک ہو گیا۔ (عالمگیری ص ۱۹)۔
مسئلہ ۲۰ : حقہ کا پانی پاک ہے اگرچہ اس کے رنگ و بو و مزے میں تغیر آجائے اس سے وضو جائز ہے ۔ بقدر کفایت اس کے ہوتے ہوئے تیمم جائز نہیں۔
مسئلہ ۲۱ : جو پانی وضو یاغسل کرنے میں بدن سے گرا وہ پاک ہے مگر اس سے وضو اور غسل جائز نہیں۔ یونہی اگر بے وضو شخص کا ہاتھ یا انگلی یا پورا ناخن یا بدن کا کوئی ٹکڑا جو وضو میں دھویا جاتا ہو بقصد یا بلا قصد دہ در دہ سے کم پانی میں بے دھوئے ہوئے پڑ جائے تو وہ پانی وضو اور غسل کے لائق نہ رہا۔ اسی طرح جس شخص پر نہانا فرض ہے اس کے جسم کا کوئی بے دُھلا حصہ پانی سے چھو جائے تو وہ پانی وضو اور غسل کے کام نہ رہا۔ اگر دھلا ہوا ہاتھ یا بدن کا کوئی حصہ پڑ جائے تو حرج نہیں۔
مسئلہ ۲۲ : اگر ہاتھ دھلا ہوا ہے مگر پھر دھونے کی نیت سے ڈالا اور یہ دھونا ثواب کا کام ہوجیسے کھانے کے لئے یا و ضو کے لئے تو یہ پانی مستعمل ہو گیا یعنی وضو کے کام کا نہ رہا اور اس کا پینا بھی مکروہ ہے۔
مسئلہ ۲۳ : اگر بضرورت ہاتھ پانی میں ڈالا جیسے بڑے برتن میں ہے کہ اسے جھکا نہیں سکتا نہ کوئی چھوٹا برتن ہے کہ اس کے نکالے تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت ہاتھ پانی میں ڈال کر اس سے پانی دھو کر گُھسے تو اس صورت میں اگر پاؤں ڈال کر ڈول رسّی نکالے سکتا اور پانی بھی نہیں کہ ہاتھ پاؤں سے دھو کر گُھسے تو اس صورت میں اگرپاؤں ڈال کر ڈول رسّی نکالے گا مستعمل نہ ہو گا ان مسئلوں سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ خیال رکھنا چاہیے۔
مسئلہ ۲۴ : مستعمل پانی اگر اچھے پانی میں مل جائے مثلاً وضو یا غسل کرتے وقت قطرے یا لوٹے یا گھڑے میں ٹپکتے تو اگر اچھا پانی زیادہ ہے تو یہ وضو اورغسل کے کام کا ہے ورنہ سب بے کا ر ہے۔
مسئلہ ۲۵ : پانی میں ہاتھ پڑگیا اور کسی طرح مستعمل ہو گیا اور یہ چاہیں کہ یہ کام کا ہو جائے تو اچھا پانی اس سے زیادہ اس میں کلا دیں۔ نیز اس کا یہ طریقہ بھی ہے کہ اس میں ایک طرف سے پانی ڈالیں کہ دوسری طرف بہہ جائے سب کام کا ہو جائے گا۔ یونہی ناپاک پانی کو بھی پاک کر سکتے ہیں۔ یونہی ہر بہتي ہوئی چیز اپنی جنس یا پانی سے اُبال دینے سے پاک ہو جائے گی۔
مسئلہ ۲۶ : کسی درخت یا پھل کے نچوڑے ہوئے پانی سے وضو جائز نہیں جیسے کیلے کا پانی یا انگور اور انار اور تربوز کا پانی اور گنّے کا رس۔
مسئلہ ۲۷ : جو پانی گرم ملک میں گرم موسم میں سونے چاندی کے سوا کسی اور دھات کے برتن میں دھوپ میں گرم ہو گیا تو جب تک گرم ہے اس سے وضو اور غسل نہ چاہیے نہ اس کو پینا چاہیے بلکہ بدن کو کسی طرح پہنچنا نہ چاہیئے۔ یہاں تک کہ اگر اس سے کپڑ ا بھیگ جائے تو جب تک ٹھنڈا نہ ہو لے اس کے پہننے سے بچیں کہ اس پانی کے استعمال میں اندیشہ برص ہے پھر بھی اگر وضو یا غسل کر لیا تو ہو جائے گا۔
مسئلہ ۲۸ : چھوٹے چھوٹے گھڑوں میں پانی ہے اور اس میں نجاست پڑنا معلوم نہیں تو اس سے وضو جائز ہے۔
مسئلہ ۲۹ : کافر کی خبر کہ یہ پانی پاک ہے، ناپاک مانی نہ جائے گی۔ دونوں صورتوں میں پاک رہے گا کہ یہ اس کی اصل حالت ہے۔
مسئلہ ۳۰ : نابالغ کا بھرا ہوا پانی کہ شرعاً اس کی ملک ہو جائے اسے پینا یا وضو یا غسل یا کسی اور کام میں لانا اس کے ماں باپ یا جس کا وہ نوکر ہے اس کے سوا کسی کو جائز نہیں اگرچہ وہ اجازت بھی دے دے اگر وضو بھی کر لیا تو وضو ہو جائے گا اور گناہگار ہو گا یہاں سے معلمین کو سبق لینا چاہیے کہ اکثر وہ نابالغ بچوں سے پانی بھروا کر اپنے کام میں لایا کرتے ہیں ۔ اسی طرح بالغ کا بھرا ہوا بغیر اجازت کرنا بھی حرام ہے۔
مسئلہ ۳۱ : نجاست نے پانی کا مزہ بُو رنگ بدل دیا تو اس کو اپنے استعمال میں بھی لانا ناجائز اور جانوروں کو پلانا بھی گارے وغیرہ کے کام میں لاسکتے ہیں مگر اس گارے مٹی کو مسجد کی دیوار وغیرہ میں صرف کرنا جائز نہیں۔