ARTICLES

پاؤں کٹا شخص حج کیسے کرے ؟

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علما ء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص حج کے ارادے سے پاکستان سے ایا ،عمرہ اداکیا پھر شیڈول کے مطابق مدینہ منورہ اگیاوہ شوگر کا مریض تھااوراس کے پاؤں میں زخم ہوا،اورورم بڑھ گیا،اسپتال میں داخل ہوا،اور ڈاکٹروں نے اس کا وہ پاؤں کاٹ دیااب مسئلہ یہ ہے کہ وہ حج کس طرح اداکرے گا،حکومت کی طرف سے اسے احرام کے ساتھ صرف عرفات کے میدان میں وقوف عرفہ کے وقت لے جایا جائے گا،توباقی مناسک کس طرح اداہوں گے ؟ (سائل : اصف مدنی،صالح الغفارحج گروپ،مدینہ منورہ)

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں وقوف عرفہ حج کا ایک عظیم رکن ہے وہ تواداہوجائے گا،اور وقوف مزدلفہ اگر چہ واجبات حج میں سے ہے ۔ چنانچہ امام شمس الدین ابو بکر محمدسرخسی حنفی متوفی٤٩٠ھ لکھتے ہیں : وھذا الوقوف واجب عندنا ولیس برکن۔( ) یعنی ،وقوف مزدلفہ ہمارے نزدیک رکن(فرض)نہیں ،واجب ہے ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی٩٩٣ھ لکھتے ہیں : الوقوف بھا واجب۔( ) یعنی،وقوف مزدلفہ واجب ہے ۔ لیکن عذر کے سبب چھوڑنے پر دم لازم نہیں ہوگا۔ چنانچہ ملاعلی بن سلطان قاری حنفی متوفی١٠١٤ھ لکھتے ہیں : ان ترکہ بعذرٍلایوجب الدم۔( ) یعنی، عذر کے سبب وقوف مزدلفہ چھوڑنے پر دم واجب نہیں ہوگا۔ اور رمی جمرات وہیل چیئر پر کرلے اوراگر پاوں کٹا ہے اورزخم درست نہیں ہوا اور وہیل چیئر پر رمی کے لئے جانا انتہائی تکلیف دہ ہے تو اس صورت میں وہ رمی کے لئے وکیل مقرر کرے ،اس طرح اس کا یہ واجب بھی اداہوجائے گا، اورعذر شرعی کی بناپر اس کے لئے وکیل مقرر کرناجائزہے ۔ چنانچہ مخدوم محمد ہاشم بن عبد الغفورسندھی حنفی متوفی١١٧٤ھ لکھتے ہیں : مگر انکہ عذرے داشتہ باشد کہ مانع گردداز رمی بنفس خودچنانکہ مرض ومانندان۔( ) یعنی،مگریہ کہ اسے کوئی عذرہو جو خود رمی کرنے سے مانع ہوجیساکہ مرض وغیرہ۔ اور قربانی اس کی طرف سے کردی جائے اور قربانی میں نیابت جاری ہوسکتی ہے کیونکہ یہ مالی عبادت ہے ۔ چنانچہ علامہ محمد بن عبداللہ حنفی تمرتاشی متوفی١٠٠٤ھ اورعلامہ علاء الدین محمد بن علی حنفی حصکفی متوفی١٠٨٨ھ لکھتے ہیں : (العبادۃ المالیۃ) کزکاۃٍ وکفارۃٍ (تقبل النیابۃ) عن المکلف (مطلقًا) عند القدرۃ والعجز ولو النائب ذمیا…(والبدنیۃ)کصلاۃٍ وصومٍ (لا) تقبلہا (مطلقًا، والمرکبۃ منہما)کحج الفرض (تقبل النیابۃ عند العجز فقط)۔ ( ) یعنی، مالی عبادت جیسے زکوۃ اور کفارہ(اور قربانی)میں مکلف (عاقل بالغ ) کی طرف سے نیابت (دوسرے کی طرف سے ادائیگی)مطلقا مقبول ہے خواہ وہ قدرت رکھتاہو یا عاجز ہو،اور اگر چہ نیابت کرنے والا ذمی(ذمی اس کافر کو کہتے ہیں جس کے جان ومال کی حفاظت کا بادشاہ اسلام نے جزیہ کے بدلے ذمہ لیاہو۔جیساکہ فتاوی فیض الرسول ،زکاۃ کا بیان،ص٥٠١میں ہے ) ہو….اوربدنی عبادت جیسے نمازاور روزہ ،اس میں نیابت مطلقًامقبول نہیں اور ان دونوں سے مرکب عبادت یعنی مالی وبدنی عبادت جیسے فرض حج،اس میں عاجز ہونے کے وقت نیابت مقبول ہے (لیکن شرائط کے ساتھ) ۔ علامہ نظام الدین حنفی متوفی١١٦١ھ اور علماء ہندکی جماعت نے لکھا ہے : (العبادات ثلاثۃ انواعٍ) : مالیۃ محضۃ کالزکاۃ وصدقۃ الفطر، وبدنیۃ محضۃ کالصلاۃ والصوم، ومرکبۃ منہما کالحج والانابۃ تجری فی النوع الاول فی حالتی الاختیار والاضطرار ولا تجری فی النوع الثانی وتجری فی النوع الثالث عند العجز، کذا فی”الکافی”۔( ) یعنی عبادات کی تین قسمیں ہیں ۔ (١)صرف مالی عبادت : جیسے زکوۃ اور صدقہ فطر۔ (٢)بدنی عبادت : جیسے نمازور وزہ۔ (٣)مالی وبدنی عبادت جیسے حج۔ اورمحض مالی عبادت میں نیابت جاری ہوسکتی ہے خواہ حالت اختیار ہو یا حالت
اضطرار،اوربدنی عبادت میں نیابت جاری نہیں ہوسکتی،اورمالی وبدنی عبادت میں نیابت عاجز ہونے کے وقت جاری ہوسکتی ہے ۔اسی طرح "کافی”میں ہے ۔ اور صدرالشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی١٣٦٧ھ لکھتے ہیں : عبادت تین قسم ہے : 1۔بدنی۔2مالی3۔مرکب۔ عبادت بدنی میں نیابت نہیں ہو سکتی یعنی ایک کی طرف سے دوسرا ادا نہیں کر سکتا۔ جیسے نماز، روزہ۔ مالی میں نیابت بہر حال جاری ہو سکتی ہے جیسے زکاۃ و صدقہ۔ مرکب میں اگر عاجز ہو تو دوسرا اس کی طرف سے کرسکتا ہے ورنہ نہیں جیسے حج۔( ) پھراس کاحلق کردیاجائے اورباقی رہاطواف زیارت،سعی،اور طواف وداع وہ اسے وہیل چیئر پر کروادیئے جائیں ،اور اس سبب سے اس پر کچھ لازم نہ ہوگا۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اورملاعلی قاری لکھتے ہیں : (وان کان)ای ترکہ
(بعذرٍ،لاشیء علیہ) ۔( ) یعنی،عذر کے سبب پیدل طواف نہ کرنے والے پرکچھ لازم نہیں ائے گا۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی لکھتے ہیں : ولو سعی کلہ او اکثرہ راکبا اومحمولًا بلا عذرٍ ، فعلیہ دم ، وان کان بعذر فلا شیء علیہ۔( ) یعنی،اگر کسی نے مکمل یااکثرسعی سوارہوکراداکی یااس حالت میں کہ اسے اٹھایا گیاہوتواس پردم لازم ہوگا،اور اگر ایساعذر کے سبب کیا ہو تو اس پر کچھ لازم نہیں ہوگا۔ اورطواف زیارت اس لئے کہ یہ حج کا دوسرارکن ہے ،اس کی ادائیگی کے بغیر حج مکمل ہی نہ ہوگا۔ چنانچہ علامہ ابومنصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : الرکن الاخر ھو : طواف الزیارۃ ؛ لقولہ تعالیٰ : (ثم لیقضوا تفثہم ولیوفوا نذورھم ولیطوفوا بالبیت العتیق)۔ ( ) یعنی،حج کا دوسرا فرض طواف زیارت ہے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : }پھر اپنا میل کچیل اتاریں اور اپنی منتیں پوری کریں اوراس ازاد گھر کاطواف کریں {(کنزالایمان)۔ اوراگے لکھتے ہیں : انہ فرض لا یتم الحج بدونہ۔( ) یعنی،طواف زیارت فرض ہے لہذا حج اس کے بغیر مکمل نہیں ہوگا اور سعی واجب ہے ۔ چنانچہ امام سرخسی حنفی لکھتے ہیں : لان السعی واجب، ولیس برکنٍ عندنا، الحج والعمرۃ فی ذلک سواء ۔( ) یعنی،بے شک سعی واجب ہے ،اور یہ ہمارے نزدیک رکن نہیں ہے ،(اور)حج اورعمرہ اس میں برابر ہیں ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی اور ملاعلی قاری لکھتے ہیں : (والسعی بین المروتین)ای بین الصفا والمروۃ۔( ) یعنی،صفا اور مروہ کے درمیان سعی حج کے واجبات سے ہے ۔ اور افاقی کے حق میں طواف وداع واجب ہے ۔ چنانچہ امام علاء الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی٥٨٧ھ لکھتے ہیں : فطواف الصدر : واجب عندنا۔( ) یعنی،طواف صدرہمارے نزدیک واجب ہے ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سند ھی اورملا علی قاری لکھتے ہیں : (فطواف الصدر)….ای الوداع (للافاقی)۔ ( ) یعنی،طواف صدریعنی طواف وداع افاقی کے لئے واجب ہے ۔ اس طرح ان کا حج مکمل ہوسکتا ہے ۔ واللہ تعالیٰ اعلم یوم السبت٢ذوالحجہ١٤٤٠ھ۔٣،اگست٢٠١٩م

حوالہ جات

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button