بہار شریعت

وکیل بالخصومۃ اور وکیل بالقبض کے متعلق مسائل

وکیل بالخصومۃ اور وکیل بالقبض کے متعلق مسائل

مسئلہ ۱ : جس شخص کو خدمت یعنی مقدمہ میں پیروی کرنے کے لئے وکیل کیا ہے وہ قبضہ کا اختیار نہیں رکھتا یعنی اس کے موافق فیصلہ ہوا اور چیز دلا دی گئی تو اس پر قبضہ کرنا اس وکیل کا کام نہیں ۔ یونہی تقاضا کرنے کا جس کو وکیل کیا ہے وہ بھی قبضہ نہیں کر سکتا۔ (درمختار) مگر جہاں عرف اس قسم کا ہو کہ جو تقاضے کو جاتا ہے وہی دین وصول بھی کرتا ہے جیسا کہ ہندوستان کا عموماً یہی عرف ہے کہ تجار کے یہاں سے جو تقاضے کو بھیجے جاتے ہیں وہی بقایا وصول کر کے لاتے بھی ہیں یہ نہیں ہے کہ تقاضا ایک کا کام ہو اور وصول کرنا دوسرے کا لہذا یہاں کے عرف کا لحاظ کرتے ہوئے تقاضا کرنے والا قبضہ کا اختیار رکھتا ہے۔ (بحر)

مسئلہ ۲ : خصومت یا تقاضے کے لئے جس کو وکیل کیا ہے یہ مصالحت نہیں کر سکتے کہ ان کا یہ کام نہیں ۔ تقاضے کے لئے جس کو قاصدہ بنایا ہے جس سے یہ کہہ دیا کہ فلاں شخص کو ہمارا یہ پیغام پہنچا دینا وہ قبضہ کر سکتا ہے اس مدیون پر دعوی نہیں کر سکتا۔ (درمختار)

متعلقہ مضامین

مسئلہ ۳ : جس کو صلح کیلئے وکیل بنایا ہے وہ دعوی نہیں کر سکتا اور دین پر قبضہ کیلئے جس کو وکیل کیا ہے وہ دعوی کر سکتا ہے۔ وکیل قسمۃ۔ وکیل شفعہ۔ ہبہ میں رجوع کا وکیل۔ عیب کی وجہ سے رد کا وکیل ان سب کو دعوی کرنے کا حق حاصل ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۴ : ایک شخص کے ذمہ میرا دین ہے تم اس پر قبضہ کرو اور سب ہی پر قبضہ کرنا وکیل نے تمام دین پر قبضہ کیا صرف ایک روپیہ باقی رہ گیا یہ قبضہ صحیح نہیں ہوا کہ مؤکل کی اس نے مخالفت کی یعنی اگر وہ دین جس پر قبضہ کیا ہے ہلاک ہو جائے تو مؤکل ذمہ دار نہیں مؤکل اس مدیون سے اپنا پورا دین وصول کرے گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۵ : یہ کہا کہ میں نے اپنے ہر دین کے تقاضا کا تجھے وکیل کیا یا میرے جتنے حقوق لوگوں پر ہیں ان کے لئے وکیل کیا یہ توکیل ان حقوق کے متعلق بھی ہے جو اس وقت موجود ہیں اور ان کے متعلق بھی جو اب ہوں گے اور اگر یہ کہا ہے کہ فلاں کے ذمہ جو میرا دین ہے اس کے قبض کا وکیل کیا تو صرف وہی دین مراد ہے جو اس وقت ہے جو بعدمیں ہوں گے ان کے متعلق وکیل نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۶ : جو شخص قبض دین کا وکیل ہے وہ نہ تو حوالہ قبول کر سکتا ہے نہ مدیون کو دین ہبہ کر سکتا ہ ے نہ دین معاف کر سکتا ہے نہ دین کو مؤخر کر سکتا ہے یعنی میعاد نہیں مقرر کر سکتا نہ دین کے مقابلے میں کوئی شے رہن رکھ سکتا ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۷ : ایک شخص کو وکیل کیا کہ فلاں کے ذمہ میرا دین ہے اسے وصول کر کے فلاں شخص کو ہبہ کر دے یہ جائز ہے اگر مدیون یہ کہتا ہے کہ میں نے دین دے دیا ہے اور موہوب لہ بھی تصدیق کرتا ہے تو ٹھیک ہے اور موہوب لہ انکار کرتاہے تو مدیون کی تصدیق نہیں کی جائے گی۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۸ : دین وصول کرنے کا وکیل آیا اس نے وصول کیا پھر دوسرا وکیل آیا کہ یہ بھی دین وصول کرنے کا وکیل ہے یہ چاہتا ہے کہ وکیل اول نے جو کچھ وصول کیا ہے اسے میں اپنے قبضہ میں رکھوں اسے اس کا اخیتار نہیں ہاں اگر وکیل دوم کو مؤکل نے یہ اختیارات دیئے ہیں کہ جو کچھ مؤکل کی چیز کسی کے پاس ہو اس پر قبضہ کرے تو وکیل اول سے لے سکتا ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۹ : محتال لہ نے محیل کووکیل کر دیا کہ محتال علیہ سے دین وصول کرے یہ توکیل صحیح نہیں ۔ یونہی دائن نے مدیون کو وکیل بنایا کہ وہ خود اپنے نفس سے دین وصول کرے یہ توکیل صحیح نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۰ : کفیل بالمال کو وکیل نہیں بنایاجا سکتا اس کو وکیل بنانا ویسا ہی ہے جیسے خود مدیون کو وکیل کیا جائے ہاں اگر مدیون کو وکیل کیا تم اپنے سے دین معاف کر دو یہ توکیل صحیح ہے اور معاف کرنے سے پہلے مؤکل نے معزول کر دیا یہ عز ل بھی صحیح ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۱۱ : زید کے دو شخصوں کے ذمہ ہزارروپے ہیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کا کفیل ہے زید نے عمرو کو وکیل کیا کہ ان میں سے فلاں سے دین وصول کرے عمرو نے بجائے اس کے دوسرے سے وصول کیا یہ اس کا قبضہ کرنا صحیح ہے۔ اسی طرح اگر ایک شخص پر ہزار روپے دین ہے اور دوسرا اس کا کفیل ہے دائن نے وکیل کیا تھا مدیون سے وصول کرنے کے لئے اس نے کفیل سے وصول کرلیا یہ بھی صحیح ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۲ : دین وصول کرنے کے لئے وکیل کیا تھا وکیل نے مدیون سے بجائے روپیہ کے سامان لیا اس چیز کو مؤکل پسند نہیں کرتا ہے وکیل یہ سامان پھیر دے اور دین کا مطالبہ کرے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۳ : مدیون نے دائن کو کوئی چیز دے دی کہ اسے بیچ کر اس میں سے اپنا حق لے لو اس نے بیع کی اور ثمن پر قبضہ کر لیا پھر یہ ثمن ہلاک ہو گیا تو مدیون کا نقصان ہوا جب تک دائن نے ثمن پر جدید قبضہ نہ کیا ہو اور اگر مدیون نے چیز دیتے وقت یہ کہا اسے اپنے حق کے بدلے میں بیع کر لو تو ثمن پر قبضہ ہوتے ہی دین وصول ہو گیا اگر ہلاک ہو گا دائن کا ہلاک ہو گا۔ (خانیہ)

مسئلہ ۱۴: ایک شخص نے دوسرے سے یہ کہا کہ فلاں کا تمہارے ذمہ دین ہے اس نے مجھے لینے کے لئے وکیل کیا ہے اس کی تین صورتیں ہیں ۔ اس کی تصدیق کرتا ہے یا تکذیب کرتا ہے اگر تصدیق کرتا ہے دین ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا پھر واپس لینے کا اس کو اختیار نہیں ۔ باقی دو صورتوں میں مجبور نہیں کیا جائے گا مگر اس نے دے دیا تو واپس لینے کا اختیار نہیں ۔ پھر مؤکل آیا اس نے وکالت کا اقرار کر لیا تومعاملہ ختم ہے اور اگر وکالت سے انکار کرتا ہے اور مدیون سے دین لینا چاہتا ہے اگر مدیون نے دعوی کیا کہ تم نے فلاں کو وکیل کیا تھا میں نے اسے دے دیا اور اس کی توکیل کو گواہوں سے ثابت کر دیا یا گواہ نہ ہونے کی صورت میں دائن پر حلف دیا گیا اس نے حلف سے انکار کر دیا مدیون بری ہو گیا اور اگر اس نے حلف کر لیا کہ میں نے اسے وکیل نہیں کیا تھا تو مدیون سے اپنا دین وصول کرے گا۔ پھر اس وکیل کے پاس اگر وہ چیز موجود ہے تو مدیون اس سے وصول کرے اور ہلاک کر دی ہے تو تاوان لے سکتا ہے اور اگر ہلاک ہو گئی ہو اور مدیون نے اس کی تصدیق کی تھی تو کچھ نہیں لے سکتا اور تکذیب کی تھی یا سکوت کیا تھا یا تصدیق کی تھی مگر ضمان کی شرط کر لی تھی توجو کچھ دائن کو دیا ہے اس وکیل سے واپس لے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۵: ایک شخص نے کہا فلاں شخص کی امانت تمہارے پاس ہے اس نے مجھے وکیل بالقبض کیا ہے امین اگرچہ اس کی تصدیق کرتا ہو امانت دینے کا حکم نہیں دیا جائے گا اور اگر امین نے دے دی تو اب واپس لینے کا حق نہیں رکھتا اور اگر امین سے کوئی یہ کہتا ہے کہ میں نے امانت والی چیز خرید لی ہے اس کو دینے کا حکم نہیں دیا جائے گا اگرچہ امین اس کی تصدیق کرتا ہو اور اگر امین سے یہ کہتا ہے کہ جس نے امانت رکھی تھی اس کا انتقال ہو گیا اور یہ چیز بطور وصیت یا وراثت مجھے ملی ہے اگر امین اس کی بات کو سچ مانتا ہے حکم دیا جائے گا کہ اس کو دے دے بشرطیکہ میت پر دین مستغرق نہ ہو اور اگر امین اس کی بات سے منکر ہے یا کہتا ہے مجھے نہیں معلوم تو اس صورت میں جب تک ثابت نہ کردے دینے کا حکم دیا جائے گا۔ (ہدایہ ، درمختار)

مسئلہ ۱۶: دائن نے مدیون سے کہا تم فلاں شخص کو دے دینا پھر دوسرے موقع پر کہا اس کو مت دینا مدیون نے کہا میں تو اسے دے چکا اور وہ شخص اقرار کرتا ہے کہ مجھے دیا ہے مدیون دین سے بری ہو گیا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۷: دائن نے مدیون کے پاس کہلا بھیجا کہ میرا روپیہ بھیج دو مدیون نے اسی کے ہاتھ بھیج دیا تو دائن کا ہو گیا اگر ہلاک ہو گیا دائن کا ہو گا اور اگر دائن نے مدیون سے کہا کہ فلاں کے ہاتھ بھیج دینا یا میرے بیٹے یا اپنے بیٹے کے ہاتھ بھیج دینا مدیون نے بھیج دیا اور ضائع ہوا تو مدیون کا ضائع ہوا اور اگر دائن نے یہ کہا تھا کہ میرے بیٹے کو یا اپنے بیٹے کو دے دو وہ مجھے لا کے دے دیگا یہ توکیل ہے اگر ضائع ہو گا دائن کا نقصان ہو گا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۸ : مدیون نے کسی کو اپنا دین ادا کرنے کا وکیل کیا اس نے ادا کر دیا تو جو کچھ دیا ہے مدیون سے لے گا اور اگر یہ کہا ہے کہ میری زکوۃ ادا کر دینا یا میری قسم کے کفارہ میں کھانا کھلا دینا اور اس نے کر دیا تو کچھ نہیں لے سکتا ہاں اگر اس نے یہ بھی کہا تھا کہ میں ضامن ہوں تو وصول کر سکتا ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۱۹ : یہ کہا کہ فلاں کو اتنے روپے ادا کر دینا یہ نہیں کہا کہ میری طرف سے نہ یہ کہ میں ضامن ہوں نہ یہ کہ وہ میرے ذمہ ہوں گے اس نے دے دیئے اگر یہ اس کا شریک یا خلیط یا اس کے عیال میں ہے یا اس پر اسے اعتماد ہے تو رجوع کرے گا ورنہ نہیں خلیط کے معنی یہ ہیں کہ دونوں میں لین دین ہے یا آپس میں دونوں کے یہ طے ہے کہ اگر ایک کا دوسرے کے پاس قاصد یا وکیل آئے گا تو اس کے ہاتھ بیع کر دے گا اسے قرض دیدیگا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۰ : ایک ہی شخص دائن و مدیون دونوں کا وکیل ہو کہ ایک کی طرف سے خود ادا کرے اور دوسرے کی طرف سے خود ہی وصول کرے یہ نہیں ہو سکتا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۱ : مدیون نے ایک شخص کو روپے دیئے کہ میرے ذمہ فلاں کے اتنے روپے باقی ہیں یہ دے دینا اور رسید لکھوا لینا روپے اسے نے دے دیئے مگر رسید نہیں لکھوائی اس پر ضمان نہیں یعنی اگر دائن انکار کرے تو تاوان لازم ہو گا اور اگر مدیون نے یہ کہا تھا کہ جب تک رسید نہ لے لینا دینا مت اور اس نے بغیر رسید لئے دے دیئے تو ضامن ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۲ : جس کو دین ادا کرنے کو کہا ہے اس نے اس سے بہتر ادا کیا جو کہا تھا تو ویسا رجوع کرے گا جیسا ادا کرنے کو کہا تھا اور اس سے خراب ادا کیا تو جیسا دیا ہے ویسا ہی لے گا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۳ : ایک شخص کو اپنے حقوق وصول کرنے اور مقدمات کی پیروی کرنے کے لئے وکیل کیا ہے اور یہ کہہ دیا ہے کہ مؤکل پر (یعنی مجھ پر) جو دعوی ہو اس میں تو وکیل نہیں یہ صورت توکیل کی جائز ہے نتیجہ یہ ہوا کہ وکیل نے ایک شخص پر مال کا دعوی کیا اور گواہوں سے ثابت کر دیا مدعی علیہ اپنے اوپر سے اس کو دفع کرنا چاہتا ہے مثلاً کہتا ہے میں نے ادا کر دیا ہے یا دائن نے معاف کر دیا ہے یہ جوابدہی وکیل کے مقابل میں مسموع نہیں کہ وہ اس بات میں وکیل ہی نہیں ۔ (درمختار)

مسئلہ۲۴ : وکیل بالخصومۃ کو اختیار ہے کہ خصم کے حق سے انکار کر دے یا اس کے حق کا اقرار کرے مگر قاضی کے پاس اقرار کر سکتا ہے غیر قاضی کے پاس نہیں یعنی مجلس قضا کے علاوہ دوسری جگہ اس نے اقرار کیا اس کو اگر قاضی کے پاس خصم نے گواہوں سے ثابت کیاتو وکیل کا اقرار نہیں قرار پائے گا یہ البتہ ہو گا کہ گواہوں سے غیر مجلس قضا میں اقرار ثابت ہونے پر یہ وکیل ہی وکالت سے معزول ہو جائے گا اور اس کو مال نہیں دیا جائے گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۵ : وکیل بالخصومۃ اقرار اس وقت کر سکتا ہے جب اس کی توکیل مطلق ہو اقرار کی مؤکل نے ممانعت نہ کی ہو اور اگر مؤکل نے اس کو غیر جائز الاقرار قرار دیا ہے تو وکیل ہے مگر اقرار نہیں کر سکتا اگر قاضی کے پاس یہ اقرار کرے گا اقرار صحیح نہیں ہو گا اور وکالت سے خارج ہو جائے گا اور اگر وکیل کیا ہے مگر انکار کی اجازت نہیں دی ہے تو انکار نہیں کر سکتا۔ (عالمگیری ، درمختار)

مسئلہ ۲۶ : توکیل بالاقرار صحیح ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ اقرار کا وکیل ہے یا کچہری میں جاتے ہی اقرار کر لے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وکیل سے کہہ دیا ہے کہ اولاً تم جھگڑا کرنا جو کچھ کہے اس سے انکار کرنا مگر جب دیکھنا کہ کام نہیں چلتا اور انکار میں میری بدنامی ہوتی ہے تو اقرار کر لینا اس وکیل کا اقرار صحیح ہے وہ مؤکل پر اقرار ہے۔ (درمختار ، عالمگیری)

مسئلہ ۲۷ : جو شخص دائن کا وکیل ہے مدیون نے بھی اسی کو قبضہ کا وکیل کر دیا تو یہ توکیل درست نہیں مثلاً وہ مدیون کے پاس آکر مطالبہ کرتاہے مدیون نے اسے کوئی چیز دے دی کہ اسے بیچ کر ثمن سے دین ادا کر دینا اگر فرض کرو اس نے بیچی مگر ثمن ہلاک ہو گیا تو مدیون کا ہلاک ہوا۔ (درمختار ، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۸ : کفیل بالنفس قبض دین کا وکیل ہو سکتا ہے۔ یونہی قاصد اور وکیل بالنکاح ان کو وکیل بالقبض کیا جا سکتا ہے وکیل بالنکاح مہر کا ضامن ہو سکتا ہے ۔ (درمختار)

مسئلہ ۲۹ : دین قبضہ کرنے کا وکیل تھا اس نے کفالت کر لی یہ صحیح ہے مگر وکالت باطل ہو گئی۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۰ : وکیل بیع نے مشتری کی طرف سے بائع کے لئے ثمن کی ضمانت کر لی یہ جائز نہیں پھر اگر اس ضمانت باطلہ کی بنا پر وکیل نے بائع کو ثمن اپنے پاس سے دے دیا تو بائع سے واپس لے سکتا ہے اور اگر ادا کیا مگر ضمانت کی وجہ سے نہیں تو واپس نہیں لے سکتا کہ متبرع ہے۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۱ : وکیل بالقبض نے مال طلب کیا مدیون نے جواب میں یہ کہا کہ مؤکل کو دے چکا ہوں یا اس نے معاف کر دیا یا تمہارے مؤکل نے خود میری ملک کا اقرار کیا ہے اس کا حاصل یہ ہوا کہ اس نے ملک مؤکل کا اقرار کر لیا اور اس کی وکالت کو بھی تسلیم کیا مگر ایک عذر ایساپیش کرتا ہے جس سے مطالبہ ساقط ہو جائے اوراس پر گواہ پیش نہیں کئے اب دوسری صورت منکر پر حلف کی ہے مگر حلف اگر ہو گا تو مؤکل پر نہ کہ وکیل پر لہذا اس صورت میں اس شخص کو مال دینا ہو گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۲ : مشتری نے عیب کی وجہ سے مبیع کو واپس کرنے کے لئے کسی کو وکیل کیا وکیل جب بائع کے پاس جاتا ہے بائع یہ کہتا ہے کہ مشتری اس عیب پر راضی ہو گیا تھا لہذا واپسی نہیں ہو سکتی اس صورت میں جب تک مشتری حلف نہ اٹھائے بائع پر رد نہیں کر سکتا اور اگر وکیل نے بائع پر رد کر دی پھر مؤکل آیا اس نے بائع کی تصدیق کی تو چیز اسی کی ہو گئی بائع کی نہ ہو گی۔ (بحر)

مسئلہ ۳۳: زید نے عمرو کودس روپے دیئے کہ یہ میرے بال بچوں پر خرچ کرنا عمرو نے دس روپے اپنے پاس کے خرچ کئے وہ روپے جو دیئے گئے تھے رکھ لئے تو یہ دس ان دس کے بدلے میں ہو گئے اسی طرح اگر دین ادا کرنے کے لئے روپے دیئے تھے یا صدقہ کرنے کے لئے دیئے تھے اس نے یہ روپے رکھ لئے اور اپنے پاس سے دین ادا کر دیا یا صدقہ کر دیا تو ان صورتوں میں بھی ادلا بدلا ہو گیا۔ جو روپے زید نے دیئے ہیں ان کے رہتے ہوئے یہ حکم ہے اور اگر عمرو نے زید کے روپے خرچ کر ڈالے اس کے بعد بال بچوں کے لئے چیزیں خریدیں وہ سب عمرو کی ملک ہیں اور بچوں پر خرچ کرنا تبرع ہے اور زید کے روپے جو خرچ کئے ہیں ان کا تاوان دینا ہو گا اور یہ بھی ضرور ہے کہ خرچ کے لئے عمرو جو چیزیں خرید لایا ان کی بیع کو زید کے روپے کی طرف نسبت کرے یا عقد کو مطلق رکھے اور اگر عمرو نے عقد کو اپنے روپے کی طرف نسبت کیا تو یہ چیزیں عمرو کی ہوں گی اور زید کے بال بچوں پر خرچ کرنے میں متبرع ہو گا اور زید کے روپے اس کے ذمہ باقی رہیں گے یہی حکم دین ادا کرنے اور صدقہ کرنے کا ہے۔ (بحرالرائق)

مسئلہ ۳۴ : زید نے عمرو سے کہا فلاں شخص پر میرے اتنے روپے باقی ہیں ان کو وصول کر کے خیرات کر دو عمرو نے اپنے پاس سے یہ نیت کرتے ہوئے خرچ کر دیئے کہ جب مدیون سے وصول ہوں گے تو انھیں رکھ لوں گا یہ جائز ہے یعنی عمرو پر تاوان نہیں اور اگر زید نے روپے دے دیئے تھے اس نے وہ روپے رکھ لئے اور اپنے پاس کے خیرات کر دیئے تو تاوان نہیں ۔ (بحر)

مسئلہ ۳۵ : وصی یا باپ نے بچہ پر اپنا مال خرچ کیا کیونکہ اس کا مال ابھی آیا نہیں ہے تو اس کا معاوضہ نہیں ملے گا ہاں اگر اس نے اس پر گواہ بنا لئے ہیں کہ یہ قرض دیتا ہوں یا میں خرچ کرتا ہوں اس کا معاوضہ لوں گا تو بدلا لے سکتا ہے۔ (درمختار)

وکیل بالخصومۃ اور وکیل بالقبض کے متعلق مسائل

مسئلہ ۳۶ : جو شخص قبض عین (شے معین) کا وکیل ہو وہ وکیل بالخصومۃ نہیں ہے مثلاً کسی نے یہ کہہ دیا کہ میری فلاں چیز فلاں شخص سے وصول کرو جس کے ہاتھ میں چیز ہے اس نے کہا کہ مؤکل نے یہ چیز میرے ہاتھ بیع کی ہے اور اس کو گواہوں سے ثابت کر دیا معاملہ ملتوی ہو جائے گا جب مؤکل آجائے گا اس کی موجودگی میں بیع کے گواہ پیش کئے جائیں گے۔ اسی طرح ایک شخص نے کسی کو بھیجا کہ میری زوجہ کو رخصت کرا لائو عورت نے کہا شوہر نے مجھے طلاق دے دی ہے اور گواہوں سے طلاق ثابت کر دی اس کا اثر صرف اتنا ہو گا کہ رخصت کو ملتوی کر دیا جائے گا طلاق کا حکم نہیں دیا جائے گا جب شوہر آئے گا اس کی موجودگی میں عورت کو طلاق کے گواہ پھر پیش کرنے ہوں گے۔ (عالمگیری ، ہدایہ)

مسئلہ ۳۷ : ایک شخص قبض عین کا وکیل تھا اس کے قبضہ سے پہلے کسی نے وہ چیز ہلاک کر دی یہ اس پر تاوان کا دعوی نہیں کر سکتا اور قبضہ کے بعد ہلاک کی ہے تو دعوی کر سکتا ہے ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۳۸ : کسی سے کہا میری بکری فلاں کے یہاں ہے اس پر قبضہ کرو اس کہنے کے بعد بکری کے بچہ پیدا ہوا تو وکیل بکری اور بچہ دونوں پر قبضہ کرے گا اور اگر وکیل کرنے سے پہلے بچہ پیدا ہو چکا ہے تو بچہ پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ باغ کے پھل کا وہی حکم ہے جو بچہ کا ہے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۳۹ : وکیل کیا کہ میری امانت فلاں کے پاس ہے اس پر قبضہ کرو اور وکیل کے قبضہ سے پہلے خود مؤکل نے قبضہ کر لیا اور پھر دوبارہ اس کو امانت رکھ دیا اب وکیل نہ رہا یعنی قبضہ نہیں کر سکتا مؤکل کے قبضہ کرنے کا چاہے اس کو علم ہو یا نہ ہو۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۴۰ : مالک نے حکم دیا تھا کہ فلاں کے پاس میری امانت ہے اس پر آج قبضہ کرو تو اسی دن قبضہ کرنا ضرور نہیں دوسرے دن بھی قبضہ کر سکتا ہے اور اگر کہا تھا کہ کل قبضہ کرنا تو آج نہیں قبضہ کر سکتا اور اگر کہا تھا کہ فلاں کی موجودگی میں قبضہ کرانا تو بغیر اس کی موجودگی کے قبضہ کر سکتا ہے۔ یونہی اگر کہا تھا کہ گواہوں کے سامنے قبضہ کرنا تو بغیر گواہوں کے قبضہ کر سکتا ہے اور اگر کہا بغیر فلاں کی موجودگی کے قبضہ نہ کرنا تو غیبت میں قبضہ نہیں کر سکتا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۴۱ : ایک شخص نے گھوڑا عاریت لیا اور کسی کو بھیجا کہ اسے لائو یہ اس پر سوار ہو کر لے گیا اگر گھوڑا ایسا ہے کہ بغیر سوار ہوئے قابو میں آسکتا ہے تو یہ ضامن ہے اور قابو میں نہیں آسکتا ہے تو ضامن نہیں ۔ (عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button