سوال :
حاجی محمد یوسف کے کل چھ لڑ کے ہیں جن میں دو لڑکوں کو انہوں نے کچھ حصہ دئیے بغیر الگ کر دیا باقی چار لڑکے ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ ہم لوگ جو کچھ مل کر کمائیں گے وہ سب ہم لوگوں کا ہو گا۔ اب چار لڑکوں میں سے ایک لڑکا غلام رسول کے نام کچھ زمین حاجی یوسف نے خریدا آرا مشین کا لائسنس بنوایا۔ اب وہ اپنی زندگی میں چاروں لڑکوں کو حصہ دے کر الگ کرنا چاہتے ہیں۔ اب غلام رسول کا کہنا ہے کہ مشین اور زمین جو میرے نام ہے وہ میری ملک ہے ۔ میں کھا تا آپ کا تھا مگر الگ سے میں نے اس کو کما کر حاصل کیا ہے ۔ایسی صورت میں حاجی محمد یوسف صاحب کس طرح اپنی جائیداد کو چار بچوں کو دیں ۔ کیا غلام رسول کے نام ہونے سے وہ مالک ہوئے یا نہیں؟
توضیحات سائل: (۱) غلام رسول زمین کی خریداری کے وقت نابالغ تھا۔ زمین حاجی محمد یوسف کے قبضہ میں تھی۔
(۲) باپ سے علیحدہ اس کا کوئی کاروبار نہیں تھا باپ کے ساتھ جو مل کر کرتا تھا اسی کو الگ سے کمانا کہتا ہے۔
(۳) زمین کی خریداری اور لائسنس حاجی یوسف کی رقم سے کی گئی ہے ۔ چونکہ غلام رسول کچھ پڑھا لکھا تھا اس لیے اس کے نام لائسنس اور زمین کی گئی تا کہ دست خط اور آنے جانے میں کچھ آسانی ہو غلام رسول کا الگ سے کوئی کاروبار نہ تھا اس لیے رقم کا سوال ہی نہیں ہے۔
(۴) جس وقت کار و بار مل کر شروع ہوا رقم سب حاجی محمد یوسف کی تھی ۔
جواب:
سوال اور اس پر تنقیح کے جواب سے ظاہر ہے کہ رقم حاجی محمد یوسف صاحب کی ہے اور جن چاروں لڑکوں کو انہوں نے ساتھ رکھ کر کاروبار میں شریک رکھا وہ چاروں لڑ کے محمد یوسف کی ہی کفالت میں تھے اور انہیں کے ساتھ مل کر کام کرتے رہے ایسی صورت میں وہ سب لڑ کے حاجی محمد یوسف صاحب کے معاون مانے جائیں گے اور جو کچھ کمائیں گے سب حاجی یوسف کا ہو گا۔ لڑکوں کا کچھ نہیں ہو گا۔
الحاج محمد یوسف صاحب یہ اقرار کرتے ہیں کہ زمین اور آرا مشین کی رجسٹری جب غلام رسول کے نام کی گئی اس وقت وہ نابالغ تھا۔ پس صورت مسئولہ میں ہر چند کہ کل مال اور پوری کمائی حاجی محمد یوسف کی تھی غلام رسول اس رجسٹری شدہ چیزوں کا مالک ہو گیا۔ لہذا وہ چیزیں نہ بطور کسب بلکہ بطور ہبہ غلام رسول کی ہو گئیں۔ ہاں ایسا ممکن ہے کہ مذہب اسلام میں باپ زندگی میں اپنی اولاد کو ہبہ کرے تو برابر کرے تو حاجی صاحب جب غلام رسول کو دے چکے تو اب اس کو اور کچھ نہ دیں اور بقیہ اولاد کو اپنی جائداد و مال اس حساب سے تقسیم کریں کہ غلام رسول کے حصے کے برابر ہو جائے۔
(فتاوی بحر العلوم، جلد4، صفحہ109، شبیر برادرز، لاہور)