وقوف کے مسائل
مسئلہ ۱: وقوف کا وقت نویں ذی الحجہ کے آفتاب ڈھلنے سے دسویں کی طلوع فجر تک ہے ۔ اس وقت کے علاوہ کسی اور وقت وقوف کیا تو حج نہ ملا مگر ایک صورت میں وہ یہ کہ ذی الحجہ کا چاند دکھائی نہ دیا ، ذیقعدہ کے تیس دن پورے کرکے ذی الحجہ کا مہینہ شروع کیا اور اس حساب سے آج نویں ہے ، بعد کو ثابت ہو ا کہ انتیس(۲۹) کا چاند ہو ا تو اس حساب سے دسویں ہوگی اور وقوف دسویں تاریخ کو ہو ا مگر ضرورۃً یہ جائز مانا جائے گا اور اگر دھوکہ ہو اکہ آٹھویں کو نویں سمجھ کر وقوف کیا پھر معلوم ہوا تو یہ وقوف صحیح نہ ہوا(عالمگیری ص ۲۲۹ج۱، جوہرہ ص ۲۰۲ ، منسک ص ۱۳۷)
مسئلہ ۲: اگر گواہوں نے رات کے وقت گواہی دی کہ نویں تاریخ آج تھی اور یہ دسویں رات ہے تو اگر اس رات میں سب لوگوں یا اکثر کے ساتھ امام وقوف کرسکتا ہے تو وقوف لازم ہے وقوف نہ کریں تو حج فوت ہوجائے گا اور اتنا وقت باقی نہ ہوکہ اکثر لوگوں کے ساتھ امام وقوف کرے اگر چہ خود امام اور جو تھوڑے لوگ جلدی کرکے جائیں تو صبح سے پیشتر پہنچ جائیں گے مگر جو لوگ پیدل ہیں اور جن کے ساتھ بال بچے ہیں ، اور جن کے پاس اسباب زیادہ ہے ان کو وقوف نہ ملے گا تو اس شہادت کے موافق عمل نہ کرے بلکہ دوسرے دن بعد زوال تمام حجاج کے ساتھ وقوف کرے(منسک ص ۱۴۲)
مسئلہ۳: جن لوگو نے ذی الحجہ کے چاند کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہ ہوئی وہ لوگ اگر امام سے ایک دن پہلے وقوف کریں گے تو ان کا حج نہ ہوگا بلکہ ان پر بھی ضرووری ہے کہ اسی دن وقوف کریں جس دن امام وقوف کرے اگر چہ ان کے حساب سے اب دسویں تاریخ ہے( منسک ص ۱۴۲)
مسئلہ۴: تھوڑی دیرٹھہرنے سے بھی وقوف ہوجاتا ہے خواہ اسے معلوم ہو کہ یہ عرفات ہے یا معلوم نہ ہو ‘ با وضو ہو یا بے وضو ‘ جنب ہو یا حیض و نفاس والی عورت‘ سوتا ہو یا بیدار ‘ ہوش میں ہو یا جنوں و بے ہوشی میں ‘ یہاں تک کہ عرفات سے ہوکر جو گزرگیا اسے حج مل گیا یعنی اب اس کا حج فاسدنہ ہوگا جب کہ یہ سب احرام سے ہوں ۔ بے ہوشی میں احرام کی صورت یہ ہے کہ پہلے ہوش میں تھا اسی وقت احرام باندھ لیا تھا اور اگر احرام باندھنے سے پہلے بے ہوش ہوگیا اور اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے یا کسی اورنے اس کی طرف سے احرام باندھ دیا اگر چہ اس احرام باندھنے وا لے نے خود اپنی طرف سے بھی احرام باندھا ہو کہ اس کا احرام اس کے احرام کے منافی نہیں تو اس صورت میں بھی وہ محرم ہوگیا۔ دوسرے کے احرام باندھنے کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے کپڑے اتار کر تہبند باندھ دے بلکہ یہ کہ اس کی طرف سے نیت کرے اور لبیک کہے (عالمگیری ص ۲۲۹ج ا‘ منسک ص ۱۳۷، ۱۳۸)
مسئلہ ۵: جس کا حج فوت ہوگیا یعنی اسے وقوف نہ ملا تو اب حج کے باقی افعال ساقط ہوگئے اس کا احرام عمرہ کی طرف منتقل ہوگیا لہذا عمرہ کرکے احرام کھول ڈالے اور آئندہ سال قضا کرے(عالمگیر ی ص ۲۲۹ج ۱ ‘ بحر ص ۵۷ ج ۳‘تبیین ص ۸۲‘ درمختار )
مسئلہ۶: آفتاب ڈوبنے سے پہلے اژدہام کے خوف سے حدود عرفات سے باہر ہوگیا اس پر دم واجب ہے پھر اگر آفتاب ڈوبنے سے پہلے واپس آیا اور ٹھہر رہا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا تو دم معاف ہوگیا ، اور اگر ڈوبنے کے بعد واپس آیا تو ساقط نہ ہوا ، اور اگر سواری پر تھا اور جانور اسے لے کر بھاگ گیا جب بھی دم واجب ہے ۔ یونہی اگر اس کا اونٹ بھاگ گیا یہ اس کے پیچھے چل دیا(عالمگیر ی ص ۲۳۰ج۱‘ جوہر ہ ص ۲۰۲، منسک ص ۱۴۱ ، تبیین ص ۲۷ج ۲‘ بحر ص ۳۴۰ ج ۲)
مسئلہ۷: محرم نے نماز عشانہیں پڑھی ہے اور وقت صرف اتنا باقی ہے کہ چار رکعت پڑھے مگر پڑھتا ہے تو وقوف عرفہ جاتا رہے گا تو نمازچھوڑ دے اور عرفات کو جائے (جوہرہ ص ۲۰۳) اور بہتر یہ کہ چلتے میں پڑھ لے بعد اعادہ کرلے (منسک )
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔