استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کوئی شخص طلوع فجر سے قبل مزدلفہ چھوڑ کر چلا جائے اور وہ پھر طلوع افتاب سے قبل واپس مزدلفہ ا جائے تو کیا اس سے دم ساقط ہو جائے گا؟
(السائل : اقبال صوفی، مدینہ منورہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : وقوف مزدلفہ واجب ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
الوقوف بہا واجب (116)
یعنی، وقوف مزدلفہ واجب ہے ۔ اور وقوف کا وقت صبح صادق سے طلوع افتاب تک ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
اول وقتہ طلوع الفجر الثانی من یوم النحر و اخرہ طلوع الشمس (117)
یعنی، اس کا اول وقت یوم نحر کے طلوع صبح صادق سے ہے اور اخری وقت اس روز کے طلوع افتاب تک ہے ۔ اور اگر اسے بلا عذر ترک کرتا ہے تو دم لازم اتا ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :
ولو ترک الوقوف بھا فدفع لیلا فعلیہ دم (118)
یعنی، اگر (بلاعذر شرعی) مزدلفہ کے وقوف کو ترک کر دیا اور رات کو چلا گیا تو اس پر دم لازم ہے ۔ اس کے تحت ملا علی قاری حنفی متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :
ای محتم لترکہ الواجب (119)
یعنی، اس پر واجب ترک کرنے کی وجہ سے دم لازم ہے ۔ امام شمس الدین محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی حنفی متوفی 490 ھ لکھتے ہیں :
و ان کان لغیر عذرٍ فعلیہ دم لترکہ واجبا من واجبات الحج (120)
یعنی، اگر بلا عذر ہو تو اس پر واجبات حج میں سے ایک واجب کو چھوڑنے کی سبب دم لازم ہے ۔ اور اگر وقوف کے وقت یعنی یوم نحر سے قبل مزدلفہ سے نکل گیا اور طلوع افتاب سے قبل لوٹ ایا تو اس پر لازم انے والا دم ساقط ہو جائے گا جیسے کوئی شخص یوم عرفہ کو غروب افتاب سے قبل عرفات سے نکل گیا اور ابھی غروب نہیں ہوا تھا تو واپس لوٹ ایا تو اس پر لازم انے والا دم بھی ساقط ہو جاتا ہے ، چنانچہ علام رحمت اللہ سندھی حنفی لکھتے ہیں :
و ان عاد قبلہ فدفع بعد الغروب سقط علی الصحیح (121)
یعنی، اگر غروب سے قبل لوٹ ایا پھر غروب کے بعد نکلا تو صحیح قول کے مطابق (لازم انے والا دم) ساقط ہو جائے گا۔ اور اس قول کی صحت کی تصریح ’’صاحب فتح القدیر‘‘ نے کی ہے چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
ای علی القول الصحییح کما فی ’’الفتح‘‘ (122)
یعنی، صحیح قول کے مطابق جیسا کہ ’’ فتح القدیر‘‘ ہے ۔ اور اگر طلوع افتاب کے بعد مزدلفہ کو لوٹتا تو لازم ہونے والا دم ساقط نہ ہوتا جیسا کہ عرفات میں غروب افتاب کے بعد لوٹنے سے دم ساقط نہیں ہوتا چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :
و ان جاوزہ قبلہ فعلیہ دم فان لم یعد اصلا او عاد بعد الغروب لم یسقط الدم (123)
یعنی، اور غروب سے قبل عرفات سے نکل گیا تو اس پر دم لازم ہے پھر اگر اصلا نہ لوٹا یا غروب کے بعد لوٹا تو دم ساقط نہ ہو گا۔ یاد رہے اگر جان بوجھ کر اس طرح کا فعل کیا تو ایسے شخص پر توبہ لازم ہے ۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
ذو الحجۃ 1436ھـ، ستمبر 2015 م 987-F
حوالہ جات
116۔ لباب المناسک، باب احکام المزدلفۃ، فصل : فی الوقوف بہا، ص147
117۔ لباب المناسک، باب احکام المزدلفۃ، فصل : فی الوقوف بہا، ص147
118۔ لباب المناسک، باب احکام المزدلفۃ مع ترجمہ، ص147
119۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب احکام المزدلفہ، تحت قولہ : لیلا فعلیہ دمؐ، ص310
120۔ المبسوط للسرخسی، کتاب المناسک، باب الخروج الی منی 2/4/57
121۔ لباب المناسک ، باب الوقوف بعرفۃ و احکامہ العرفۃ، فصل : فی الدفع قبل الغروب، ص142
122۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب العرفۃ، فصل فی الدفع قبل الغروب، ص : 297
123۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب العرفۃ، فصل فی الدفع قبل الغروب، ص297