استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی شخص نے وقوف ِ عرفہ کا وقت مسجد نمرہ میں گزار دیا یا وہ وہیں سے مزدلفہ کو لوٹا جب کہ اس مسجد کا کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے تو اس کا یہ رکن ادا ہو گیا یا نہیں اور مسجد نمرہ کی حقیقت کیا ہے اور یہ دو حصوں میں کیوں ہے ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے کہ مسجد نمرہ کا کچھ حصہ عرفات سے خارج او رکچھ عرفات میں ہے ، تو ظاہر ہے کہ اگر وقوف کے وقت سے قبل اس حصے میں گیا جو عرفات سے خارج ہے ، اور وقوف کا وقت ختم ہونے کے بعد وہیں سے مزدلفہ لوٹا اور اس دوران حُدودِ عرفات میں بالکل داخل نہ ہوا تو اس کا وقوف نہ ہوا اور وقوفِ عرفات ہی حج کا وہ اعظم رُکن ہے کہ وہ فوت ہو جائے تو حج ہی فوت ہو جاتا ہے ، کیونکہ وہ حصہ جو عرفات سے خارج ہے وہ وقوف کی جگہ نہیں ، اگر کسی نے وہاں وقوف کیا تو باتفاق ائمہ اربعہ یہ وقوف صحیح نہ ہو گا۔ اور فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ’’ عرفات کی زمین کے علاوہ کہیں وقوف کیا تو وقوف صحیح نہ ہو گا، چاہے وہاں وقوف عمداً کیا ہو یا بھول کر، جگہ سے واقفیت کی بنا پر ہو یا ناواقفیت کی بنا پر‘‘ ۔(88) اور مسجد نمرہ کے عرفات سے خارج حصے میں بیٹھنے والے کی چند صورتیں ہیں اور وہ یہ ہیں کہ جو شخص وقوف عرفہ کے وقت میں اس حصے میں داخل ہوا اُسے بہر صورت عرفات کی حدود میں داخل ہو کر مسجد نمرہ میں داخل ہونا پڑے گا کہ اس مسجد کا دروازہ حُدودِ عرفات میں ہے ، تو جب وہ دروازے سے داخل ہو تو وقوف پایا گیا، یہاں تک کہ اس رات کے کسی بھی حصے میں نکلا تو اس کا وقوف ہو گیا کہ وہ وقت وقوف میں عرفات میں داخل ہوا، اگرچہ ایک لمحہ کے لئے تو وقوفِ عرفہ ہو گیا کیونکہ میدانِ عرفات کی حد کے اندر وقوف کے وقت ایک لحظہ کے لئے داخل ہو جانا وقوف کی فرض مقدار کو پورا کر دیتا ہے ۔ اور وقوف عرفہ کا وقت امام ابو حنیفہ ، امام مالک او رامام شافعی کے نزدیک 9 ذو الحجہ کے زوال شمس کے بعد شروع ہوتا ہے سوائے امام احمد کے ، ان کے نزدیک پورا دن وقوف کا وقت ہے اور اس کا آخری وقت چاروں ائمہ کے نزدیک دس ذو الحجہ کی صبح صادق تک ہے ۔ (89) پھر دیکھا جائے گا کہ وہ حُدودِ عرفات میں داخل ہونے کے بعد کب نکلا ، اگر وہ وقوف کے وقت سے قبل آیا تھا اور غروب آفتاب کے بعد وقوف کے وقت میں نکلا تو فبہا ورنہ اگر غروب آفتاب سے قبل نکلا تو اس پر دم واجب ہو گا۔ اور اگر وہ دس ذوالحجہ کی رات کے کسی بھی حصے میں نکلا تو بھی اس کا وقوف ہو گیا کیونکہ وقوفِ عرفہ کا آخری وقت دس ذوالحجہ کی فجر کا طلوع ہونا ہے چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :
و قولہ فی أوانہ : و ہو من زوال یوم عرفۃ إلی قبیل طلوع فجر النحر (90)
یعنی، وقوفِ عرفہ کا وقت یومِ عرفہ کے زوال سے لے کر یومِ نحر کے طلوع ہونے سے پہلے تک ہے ۔ اور ایک صورت ہے جو فی زمانہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتی وہ یہ کہ وہ 9 تاریخ کو زوال سے قبل داخل ہوا ہو اور دس تاریخ کی طلوعِ فجر یا اس کے بعد نکلا تو کہا جائے گا کہ اس کا وقوف فوت ہو گیا کیونکہ وقوف عرفہ حج کا رُکن ہے چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
و الوقوف فی أوانہ (91)
یعنی، وقوف کے وقت میں وقوف کرنا حج کا فرض ہے ۔اور اس رُکن کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے ۔ اورمسجد کا نام، مسجد نمرہ تو اس مغرب کی سمت ایک چھوٹی پہاڑی ہے جس کا نام نمرہ ہے ، اسی مناسبت سے اسے مسجد نمرہ کہا جاتا ہے ۔ عرفہ کے روز رسول اللہ ا نے یہیں ایک خیمہ قائم فرمایا تھا، زوال کے بعد آپ نے قریب ہی وادیٔ عُرنہ میں خطبہ ارشاد فرمایا، نماز کی امامت فرمائی، پھر جبلِ رحمت کے قریب چٹانوں کے پاس تشریف لائے ، غروبِ آفتاب تک یہیں دُعا میں مشغول رہے ، غروب کے بعد مزدلفہ کے لئے روانہ ہوئے ۔ حدیث شریف میں ہے :
وَ أَمَرَ بِقُبَّۃٍ مِنْ شَعْرٍ تُضْرَبُ بِنَمِرَۃَ فَسَارَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَ لَا تَشُکُّ قُرَیْشٌ إِٰلاَّ أَنَّہُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ کَمَا کَانَتْ قُرَیْشٌ تَصْنَعُ فِی
الْجَاہِلِیَّۃِ، فَأَجَازَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ حَتّٰی أَتٰی عَرَفَۃَ، فَوَجَدَ الْقُبَّۃَ قَدْ ضُرِبَتْ لَہٗ بِنَمِرَۃَ فَنَزَلَ بِہَا، حَتّٰی إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ، أَمَرَ بِالْقُصْوَائِ، فَرُحِلَتْ لَہٗ، فَأَتٰی بَطْنَ الْوَادِیْ، فَخَطَبَ النَّاسَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّی الظُّہْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّی الْعَصْرَ، وَ لَمْ یُصَلِّ بَیْنَہُمَا شَیْئًا، ثُمَّ رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ حَتّٰی أَتَی الْمَوْقِفَ الخ ملخصًا (92)
یعنی، آپ نے بالوں سے بنے ہوئے ایک خیمہ کو مقام نمرہ میں نصب کرنے کا حکم فرمایا، پھر رسول اللہ ا روانہ ہوئے ، قریش کو یقین تھا کہ آپ مشعر الحرام (مزدلفہ) میں ٹھہر جائیں گے جیسا کہ زمانۂ جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے ۔ رسول اللہ ا وہاں سے گزر کر عرفات پہنچے ، وہاں مقام نمرہ میں اپنا خیمہ نصب کیا ہوا پایا، آپ اس خیمہ میں ٹھہرے حتی کہ سورج ڈھل گیا پھر آپ نے اپنی اونٹنی قصواء کو تیار کرنے کا حکم فرمایا، پھر آپ نے بطن وادی میں آکر لوگوں کو خطبہ دیا، پھر اذان و اقامت ہوئی اور آپ نے ظہر کی نماز پڑھائی پھر اقامت ہوئی اور آپ نے عصر کی نماز پڑھائی، ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی اور نماز نہ پڑھی ، پھر رسول اللہ ا سوار ہوئے یہاں تک کہ وقوف کی جگہ (جبل رحمت کے پاس) آئے الخ جس جگہ آنحضرت انے خطبہ ارشاد فرمایا تھا او رنماز پڑھائی تھی وہاں دوسری صدی ہجری میں یہ مسجد بنا دی گئی، اور رسول اللہ ا نے وادی عُرنہ میں حج کا خطبہ ارشاد فرمایا تھا اور یہ وادیٔ عرفات سے باہر ہے جیسا کہ فقہاء کرام کی تصریحات سے ثابت ہے ، بالآخر اس جگہ جو مسجد بنی وہ بھی عرفات سے باہر تھی۔ بعد میں اس میں توسیع ہوتی رہی ، یہی وجہ ہے کہ مسجد نمرہ دو حصوں میں تقسیم ہے ، اگلا حصہ عرفات سے باہر ہے اور یہ مسجد کا قدیم حصہ ہے او رپچھلا حصہ عرفات کے اندر ہے اور یہ بعد کی توسیعات ہیں اور یہ مسجد عرفات کی مغربی حُدود پر واقع ہے اور اس وقت مسجد کے اندر بھی عرفات کی حدّ کو واضح کرنے کے لئے بورڈ لگے ہوئے ہیں جس سے حاجی بآسانی جان سکتا ہے کہ یہ حصہ عرفات میں ہے یا نہیں ۔ اور یہ کہنا کہ حضور ا نے خطبہ جبلِ رحمت کے پاس دیا سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ مندرجہ سطور میں مذکور مسلم شریف کی حدیث سے واضح طور پر مذکور ہے کہ آپ نے خطبہ نمرہ کے مقام پر دیا اور نمرہ حدودِ عرفات سے باہر ہے اور فقہاء احناف نے لکھا ہے کہ عرفات آنے کے بعد امام نے پہلے خطبہ دینا ہے اور پھر ظہر و عصر کی نمازیں پڑھانی ہیں ۔ چنانچہ علامہ علاؤ الدین حصکفی متوفی 1088ھ لکھتے ہیں :
فبعد الزوال قبل صلاۃ الظہر خطب الإمام فی المسجد خطبتین کالجمعۃ الخ (93)
یعنی، (یومِ عرفہ) تو زوال کے بعد نمازِ ظہر سے قبل امام مسجد میں جمعہ کی مثل دو خطبے دے گا۔ اور مسجدسے مراد مسجد نمرہ ہے چنانچہ ’’در‘‘ کی اپنی عبارت کے تحت علامہ شامی لکھتے ہیں :
ثم سار إلیٰ المسجد أی مسجد نمرۃ (94)
یعنی، اس سے بھی ثابت ہے کہ خطبہ و نماز مسجد نمرہ میں ہے اور اس کا کچھ حصہ عرفات سے خارج ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأربعاء، 14ذی القعدۃ1427ھ، 6دیسمبر 2006 م ( 271-F)
حوالہ جات
88۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ششم در بیان وقوف بعرفات، فصل اول در بیان قدر مفروض، ص176
89۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، فصل ششم، ص176
90۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج، مطلب : فی فروض الحج وواجباتہ،3/537
91۔ الدر المختار، کتاب الحج، ص56
92۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجۃ النبی ﷺ ،برقم : 147/1218،2/889۔890
93۔ الدر المختار، کتاب الحج ،فصل فی الإحرام وصفۃ المفرد بالحج،ص161
94۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الحج، مطلب : الرواح إلی عرفات، 3/592