ARTICLESشرعی سوالات

وقوفِ عرفہ اور رؤیتِ ہلال

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ بسا اوقات حکومت ذوالحجہ کا چاند کا اعلان غلط کر دیتی ہے بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں نے دس(10) ذو الحجہ کو وقوف عرفہ کیا ہے حالانکہ وقوف عرفہ تو نو (9)ذو الحجہ کو ہوتا ہے ، اس صورت میں لوگوں کے حج کا کیا ہو گا جب کہ اب تدارک بھی ممکن نہیں ہوتا اور اگر اگلے سال حج کا حکم دیا جائے تو عظیم حرج واقع ہو جاتا ہے ۔ اور اگر لوگوں نے حکومت کے اعلان پر آٹھ (8)کو وقوفِ عرفہ کیا تو آٹھ (8)تاریخ کو یا نو کی دوپہر سے قبل شرعی طور پر روئیت کا ثبوت ملا جس کے مطابق عرفہ اگلا دن ہے اور جس دن لوگوں نے وقوف کیا تھا وہ آٹھ(8) تاریخ ہے تو اس صورت میں کیا حکم ہے ؟ اگر دوسرے دن عرفات کے وقوف کا حکم کیا جائے تو اس میں بھی بہت مشقّت ہے ، ظاہر ہے کہ سب کے سب تو دوسرے دن وقوف کے لئے جاتے نہیں اور حکومت کی طرف سے بھی دوسر ے دن احرام کے ساتھ عرفات جانے پر پکڑ ہوتی ہے تو ایسی صورت میں تو حاجی مجبور ہو کر رہ جاتے ہیں پھر اگر ان پر دوسرے سال قضاء کا حکم لگایا جائے تو اس میں اور بھی مشقّت ہے کہ کتنے حاجی تو دوسرے سال آنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور پھر حکومتِ پاکستان کی طرف سے ایک عام حاجی پر پانچ سال تک حج کی پابندی ہوتی ہے ۔

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : پہلی صورت میں سب کا حج ادا ہو جائے گا اور دوسری صورت میں دوسرے دن وقوف سب پر لازم ہو گا، چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان الکرمانی الحنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

قال : و إذا التبس علی الناس ہلال ذی الحجۃ، ووقف الناس بعد أن اکملوا عدۃ ذی القعدۃ ثلاثین یوماً، ثم تبیّن أن ذلک الیوم کان یوم النحر فوقوفہم صحیح و حجّہم صحیح استحساناً لقولہ علیہ الصلوٰۃ و السلام : ’’حَجُّکُمْ یَوْمَ تَحُجُّوْنَ‘‘ (85) جعل وقت الحج، الوقت الذی یقف فیہ الناس بالجماعۃ، لأن ہذا مما لا یمکن الاحتراز عنہ مع حصول المشقّۃ العظیمۃ من قطع السفر البعید و انفاق الأموال الکثیرۃ، فاللّٰہ رحم ہذہ الأمۃ، و جوّز ذلک صیانۃ لطاعتہم عن الإبطال، قال ولو وقفوا یوم الترویۃ لا یجزیہم، لأن ذلک ممّا یمکن التحفّظ و الاحتراز عنہ، وفیہ أداء الطاعۃ و الفریضۃ قبل دخول وقتہا، بخلاف المسألۃ الأولٰی (86)

یعنی، جب لوگوں پر ذوالحجہ کا چاند مشتبہ ہو گیا اور لوگوں نے ذو القعدہ کے تیس (30)دن پورے کر کے وقوف کر لیا پھر ظاہر ہوا کہ وہ دن تو یوم نحر تھا تو ان کا وقوف صحیح ہے اور ان کا حج استحساناً صحیح ہے کیونکہ نبی ا کا فرمان ہے : ’’تمہارا حج اس دن ہے جس دن تم حج کرتے ہو‘‘۔ نبی انے اس وقت کو حج قرار دیا جس میں لوگ جماعت کے ساتھ وقوف کرتے ہیں ،طویل سفر طے کرنے سے مشقتِ عظیمہ کے حصول، اور اموالِ کثیرہ خرچ کرنے کے باوجود جس سے احتراز ممکن نہیں ، تو اللہ تعالیٰ نے اس امت پر رحم فرمایااور بندوں کی طاعت کو ابطال سے بچانے کے لئے اسے جائز فرما دیا فرمایا اگر لوگوں نے یوم ترویہ (8 ذو الحجہ) کو وقوف کیا تو انہیں جائز نہ ہوگا کیونکہ یہ وہ ہے جس سے تحفّظ اور اس سے احتراز ممکن ہے اور اس میں طاعت و فریضہ کی ادائیگی ، اس فریضہ کا وقت داخل ہونے سے قبل ہے بخلاف پہلے مسئلے کے ۔ لہٰذا پہلی صورت میں حج درست ہو جائے گا اور دوسری صورت کہ وقوف آٹھ ذوالحجہ کو کیا بعد کو معلوم ہوا کہ یوم عرفہ کل ہے تو سب کو اس روز وقوف لازم ہو گا اگر چہ اس میں بھی بڑی مشقّت ہے لیکن یہ مشقّت اس مشقّت سے کم ہے کہ جہاں تدارک ممکن نہ تھا اس لئے شرع نے تدارک کے امکان اور عدم امکان کا اعتبار کیا جہاں تدارک ممکن نہ تھا وہاں جواز کا حکم دیا اور جہاں ممکن تھا وہاں تدارک کرنے کا حکم دیا اور تدارک یہ ہے کہ دوسرے روز عرفات جانا اور وقوف کرنا اور پھر یہ بات بھی یاد رہے کہ کسی آدمی نے بھی کہہ دیا کہ چاند فلاں تاریخ کو ہوا ہے تو اس کا اعتبار کیونکر ہو گا جب تک رؤیت اور شہادت کے تمام تقاضوں کو مدنظر نہ رکھا جائے ہر کسی کی بات معتبر نہ ہو گی کیونکہ ایک دو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پچیس تیس لاکھ عازمینِ حج کا مسئلہ ہے ، لہٰذا جب تک رؤیت اپنے تمام شرعی تقاضے پورے نہ کرتی ہو اس کا ہرگز اعتبار نہ کیا جائے اور اس وقت تک نبی اکے فرمان ’’حَجُّکُمْ یَوْمَ تَحُجُّوْنَ‘‘ ’’تمہارا حج اس دن ہے جس دن تم حج کرتے ہو‘‘ پر عمل کیا جائے ، ہاں اگر ایسی رؤیت کی ایسی شہادت آتی ہے کہ جس کا شرعاً اعتبار لازم ہے تو اس رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا اور عازمینِ حج کو دوسرے دن وقوف کرنا لازم ہو گا جیسا کہ مندرجہ بالا عبارات میں مذکور ہے اور اُن لوگوں پر اس حج کی قضاء بھی لازم رہے گی اگر اگلے سال نہیں آ سکتا تو اس سے اگلے سال آئے ، غرض یہ کہ زندگی میں اس کو آنا ہو گا نہ آ سکے تو مرنے سے قبل حج کی وصیت کرنی ہو گی یہ ایسے ہے جیسے کسی پر حج فرض ہو گیا پھر مالی طور پر کمزور ہو گیا تو فرض تو بہر حال اس پر باقی رہتا ہے چاہے قرض لے کر ادا کرے فرض تو اُسے ادا کرنا ہو گاورنہ مرنے سے قبل اُسے اس کے لئے وصیت تو کرنا ہو گی۔ یا یوں سمجھیں کہ بالفرض ایک لاکھ ایسے حاجی کسی ملک سے روانہ ہوں کہ جن پر حج فرض تھا میقات سے قبل کسی ملک میں روک لئے جائیں یہاں تک کہ ایام حج گزر جائیں تو فرض ان پر باقی رہے گا کوئی بھی فرض کے سقوط کا قائل نہیں اور پھر اگر کسی میقات سے احرام باندھ لیا ہو روکے جائیں تو دَم احصار بھی دیں گے اور فرض بھی ان پر باقی رہے گا، اگرچہ یہ لوگ زر کثیر خرچ کر کے مشقّت عظیمہ اُٹھا کر یہاں پہنچے مگر فرض ادا نہ کر سکے ، لہٰذا مشقّت کی وجہ سے فرض اگر باقی رہے یا قضاء لازم ہو تو اُسے ساقط نہیں کیا جا سکتا۔

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأربعاء، 8شوال المکرم 1427ھ، 1نوفمبر 2006 م (226-F)

حوالہ جات

85۔ کتاب المبسوط للسرخسی، کتاب المناسک، باب الخروج الی مضی، 2/51

86۔ المسالک المناسک، المجلد (1) فصل فی اشتباہ یوم عرفۃ، ص515،516

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button