وقف کے لئے وقف کرنے کے متعلق مسائل
مسئلہ۱: مدرسہ پر جائداد وقف کی تو مدرس کی تنخواہ طلبہ کی خوراک ۔ وظیفہ۔ کتاب ۔ لباس وغیرہامیں جائداد کی آمدنی صرف کی جاسکتی ہے ۔وقف کے نگران ۔ حساب کا دفتر اور محاسب کی تنخواہ یہ چیزیں بھی مصارف میں داخل ہیں ۔ بلکہ وقف کے متعلق جتنے کام کرنے والوں کی ضرورت ہو سب کو وقف سے تنخواہ دی جائے گی۔
مسئلہ۲: اوقاف سے جوماہوار وظائف مقرر ہوتے ہیں یہ من وجہ اجرت ہے اور من وجہ صلہ اجرت تو یوں ہے کہ امام و موذن کی اگر پیشگی تنخواہ ان کو دیجاچکی ہے بعد میں انتقال ہو گیا یا معزول کردیئے گئے توجوکچھ پہلے دے چکے ہیں وہ واپس نہیں ہوگا اورمحض اجرت ہوتی تو واپس ہوتی ۔( درمختار)
مسئلہ۳: مدرسہ میں تعطیل کے جو ایام ہیں مثلاً جمعہ ‘ منگل یا جمعرات ۔ جمعہ ماہ رمضان اور عید بقر عید کی تعطیلیں جو عام طور پر مسلمانوں میں رائج و معمول ہیں ان تعطیلات کی تنخواہ کا مدرس مستحق ہے۔ اور ان کے علاوہ اگر مدرسہ میں نہ آیا یا بلاوجہ تعلیم نہ دی تو اس روز کی تنخواہ کا مدرس مستحق نہیں ۔( درمختار ‘ ردالمحتار)
مسئلہ ۴: طالبعلم وظیفہ کا اس وقت مستحق ہے کہ تعلیم میں مشغول ہواور اگر دوسرا کام کرنے لگایا بیکار رہتا ہے تو وظیفہ کا مستحق نہیں اگر چہ اسکی سکونت مدرسہ ہی میں ہواور اگر اپنے پڑھنے کے لئے کتاب لکھنے میں مشغول ہوگیا جس کا لکھنا ضروری تھا اس وجہ سے پڑھنے نہیں آیا تو وظیفہ کا مستحق ہے اور اگر وہاں سے مسافت سفر پر چلا گیا تو واپسی پر وظیفہ کا مستحق نہیں اور مسافت سفر سے کم فاصلہ کی جگہ پر گیا ہے اور پندرہ دن وہاں رہے گا جب بھی مستحق نہیں اور اس سے کم ٹھہرا مگر جانا سیر و تفریح کے لئے تھا جب بھی مستحق نہیں اور اگر ضرورت کی وجہ سے گیا مثلاًکھانے کے لئے اسکے پاس کچھ نہیں تھا اس غرض سے گیا کہ وہاں سے کچھ چندہ وصول کر لائے تو وظیفہ کا مستحق ہے ۔(خانیہ )
مسئلہ۵: مدرس یا طالبعلم حج فرض کے لئے گیا تو اس غیر حاضری کی وجہ سے معزول کئے جانے کا مستحق نہیں بلکہ اپنا وظیفہ بھی پائے گا۔( درمختار)
مسئلہ۶: امام اپنے اعزہ کی ملاقات کو چلاگیا اور ایک ہفتہ یاکچھ کم وبیش امامت نہ کرسکا یاکسی مصیبت یا استراحت کی وجہ سے امامت نہ کرسکا تو حرج نہیں ان دنوں کا وظیفہ لینے کا مستحق ہے ۔( ردالمحتار)
مسئلہ۷: امام نے اگر چند روز کے لئے کسی کو اپنا قائم مقام مقرر کردیا ہے تویہ اس کا قائم مقام ہے مگر وقف کی آمدنی سے اسکو کچھ نہیں دیاجاسکتا کیونکہ امام کی جگہ اس کا تقرر نہیں ہے اور جوکچھ امام نے اسکے لئے مقرر کیا ہے وہ امام سے لیگااور خود امام نے اگر سال کے اکثر حصہ میں کام کیا ہے توکل وظیفہ پانے کا مستحق ہے ۔( ردالمحتار)
مسئلہ ۸: امام و موذن کا سالانہ مقرر تھا اور اثنا ء سال میں انتقال ہو گیا تو جتنے دنوں کام کیا ہے اتنے دنوں کی تنخواہ کے مستحق ہیں انکے ورثہ کو دی جائے ۔ اگر چہ اوقاف کی آمدنی آنے سے پہلے انتقال ہوگیا ہو۔ اور مدرس کا انتقال ہوگیا تو جتنے دنوں کام کیا ہے یہ بھی اتنے دنوں کی تنخواہ کا مستحق ہے اور دوسرے لوگ جن کو وقف سے وظیفہ ملتا ہے وہ اثنا ء سال میں فوت ہو جائیں اور وقف کی آمدنی ابھی نہیں آئی ہے تو وظیفہ کے مستحق نہیں اور فقرا پر جائداد وقف تھی اور جن فقیروں کو دیناہے ان کے نام لکھ لئے گئے اور رقم بھی برآمد کرلی گئی تو یہ لوگ جنکے نام پر رقم برآمد ہوئی مستحق ہوگئے لہذا دینے سے پہلے ان میں سے کسی کا انتقال ہوگیا تو اسکے وارث کو دیا جائے ۔ یونہی مکۂ معظمہ یا مدینہ ٔ طیبہ کو یا کسی دوسری جگہ کسی معین شخص کے نام جو رقم بھیجی گئی اگر وہاں پہنچنے سے پہلے اس کاانتقال ہوگیاتو اسکے ورثہ اس رقم کے مستحق ہیں ۔جو شخص اس رقم کو لے گیا وہ انہیں ورثہ کو دے دوسرے لوگوں کو نہ دے ۔( ردالمحتار) امام و مؤذن میں سالانہ کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ ششماہی یا ماہوار تنخواہ ہو ( جیسا کہ ہندوستان میں عموماً ماہوار تنخواہ ہوتی ہے سالانہ یا ششماہی اتفاقاًہوتی ہے اور درمیان میں انتقال ہوجائے تو اتنے دنوں کی تنخواہ کا مستحق ہے ۔
مسئلہ ۹ : وقف تین طرح ہوتا ہے صرف فقرأ کے لئے وقف ہو مثلاًاس جائداد کی آمدنی خیرات کی جاتی رہے یا اغنیاء کے لئے پھر فقرا کے لئے ۔مثلاًنسلاً بعد نسل اپنی اولاد پر وقف کیا اور یہ ذکر کردیا کہ اگر میری اولاد میں کوئی نہ رہے تو اسکی آمدنی فقرا پر صرف کی جائے یا اغنیأو فقرأ دونوں کے لئے جیسے کنواں ۔ سرائے ۔ مسافر خانہ ۔ قبرستان ۔ پانی پلانے کی سبیل ۔ پل ۔ مسجد ۔کہ ان چیزوں میں عرفاً فقرا کی تخصیص نہیں ہوتی لہذا اگر اغنیا کی تصریح نہ کرے جب بھی ان چیزوں سے اغنیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور ہسپتال پر جائداد وقف کی کہ اسکی آمدنی سے مریضوں کو دوائیں دی جائیں تو اس دوا کو اغنیأ اس وقت استعمال کرسکتے ہیں جب واقف نے تعمیم کردی ہو کہ جو بیمار آئے اسے دوا دی جائے یا اغنیأ کی تصریح کردی ہو کہ امیر و غریب دونوں کو دوائیں دی جائیں ۔
( درمختار)
مسئلہ۱۰: صرف اغنیأ پر وقف جائز نہیں ہاں اگر اغنیا پر ہو انکے بعدفقرا پر اور جن اغنیا پر وقف کیا جائے ان کی تعداد معلوم ہو تو جائز ہے ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۱: مسافروں پر وقف کیا یعنی وقف کی آمدنی مسافروں پر صرف ہو یہ وقف جائز ہے اور اسکے مستحق وہی مسافر ہیں جو فقیر ہوں جو مسافر مالدار ہوں وہ حقدار نہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۲: فقیروں یا مسکینوں پر وقف کیا تو یہ وقف مطلقاً صحیح ہے چاہے موقوف علیہ محصور ہوں یا غیر محصور اور اگر ایسا مصرف ذکر کیا جس میں فقیرو غنی دونوں پائے جاتے ہوں مثلاًقرابت والے پر وقف کیا تو اگر معین ہوں وقف صحیح ہے ورنہ نہیں ۔ ہاں اگر وہ لفظ استعمال کے لحاظ سے حاجت پر دلالت کرتا ہوتو وقف صحیح ہے مثلاًتیامی پر یا طلبہ پر وقف کیا کہ فقیروغنی دونوں یتیم ہوتے ہیں اور دونوں طالبعلم ہوتے ہیں مگر عرف میں یہ دونو ں لفظ حاجت مندوں پر بولے جاتے ہیں تو ان سے بھی وقف صحیح ہے اور وقف کی آمدنی صرف حاجت مند یتیم اور طلبہ کو دی جائے گی مالدار کو نہیں ۔یونہی اپاہچ اور اندھوں پر وقف بھی صحیح ہے اور صرف محتاجوں کو دیا جائے گا ۔یونہی بیوہ گان پر بھی وقف صحیح ہے اگر چہ یہ لفظ فقروغنی دونوں کو شامل ہے مگر استعمال میں اس سے عموماًاحتیاج سمجھ آتی ہے ۔ یو نہی فقہ و حدیث کے شغل رکھنے والوں پر بھی وقف صحیح ہے کہ یہ لوگ علمی شغل کی وجہ سے کسب میں مشغول نہیں ہوتے اور عموماًصاحب حاجت ہوتے ہیں ۔( فتح القدیر)
مسئلہ۱۳: اوقاف میں نیا وظیفہ مقرر کرنے کا قاضی کو بھی اختیار نہیں یعنی ایسا وظیفہ جو واقف کے شرائط میں نہیں ہے تو شرائط کے خلاف مقرر کرنا بدرجۂ اولی ناجائز ہوگا اور جسکے لئے مقرر کیا گیا اسکو لینا بھی نا جائز ہے ۔( درمختار)
مسئلہ۱۴: قاضی اگر کسی شخص کے لئے تعلیقی وظیفہ جاری کرے تو ہوسکتا ہے مثلاًیہ کہا کہ اگر فلاں مرجائے یا کوئی جگہ خالی ہو تو میں نے اس کی جگہ تجھ کو مقرر کردیا تو مرنے پر اسکا تقرر اسکی جگہ پر ہوگیا۔( درمختار)
مسئلہ۱۵: اگر امور خیر کے لئے وقف کیا اور یہ کہا کہ آمدنی سے پانی کی سبیل لگائی جائے یا لڑکیوں اور یتامی کی شادی کا سامان کردیا جائے یا کپڑے خریدکر فقیروں کو دیئے جائیں یا ہرسال آمدنی صدقہ کردی جائے یا زمین وقف کی کہ اسکی آمدنی جہاد میں صرف کی جائے یا مجاہدین کا سامان کردیا جائے یا مردوں کے کفن دفن میں صرف کی جائے یہ سب صورتیں جائز ہیں ۔( عالمگیری)
مسئلہ۱۶: ایک وقف کی آمدنی کم ہے کہ جس مقصد سے جائداد وقف کی ہے وہ مقصد پورا نہیں ہوتا مثلاًجائداد وقف کی کہ اس کے کرایہ سے امام و موذٔن کی تنخواہ دی جائے مگر جتنا کرایہ آتا ہے اس سے امامو موذٔن کی نہیں دی جاسکتی کہ اتنی کم تنخواہ پر کوئی رہتا ہی نہیں تو دوسرے وقف کی آمدنی اس پر صرف کی جاسکتی ہے جبکہ دوسرا وقف بھی اسی شخص کا ہو اور اسی چیز پر وقف ہو مثلاًایک مسجد کے متعلق اس شخص نے دو وقف کئے ایک کی آمدنی عمارت کے لئے اور دوسرے کی امام و موذٔن کی تنخواہ کے لئے اوراسکی آمدنی کم ہے تو پہلے وقف کی فاضل آمدنی امام ومؤذن پر صرف کی جاسکتی ہے ۔ اور اگر واقف دونوں وقفوں کے دو ہوں مثلاًدو شخصوں نے ایک مسجد پر وقف کیا یا واقف ایک ہی ہو مگر جہت وقف مختلف ہو مثلاًایک شخص نے مسجد و مدرسہ بنایا اور دونوں پر الگ الگ وقف کیا تو ایک کی آمدنی دوسرے پر صرف نہیں کرسکتے ۔( درمختار)
مسئلہ۱۷: دو مکان وقف کیئے ایک اپنی اولاد کے رہنے کے لئے اور دوسرا اس لئے کہ اس کا کرایہ میری اولاد پر صرف ہوگا تو ایک کو دوسرے پر صرف نہیں کرسکتے ۔( ردالمحتار)
مسئلہ۱۸: وقف سے امام کی جو کچھ تنخواہ مقرر ہے اگر وہ ناکافی ہے تو قاضی اس میں اضافہ کرسکتا ہے اور اگر اتنی تنخواہ پر دوسرا امام مل رہا ہے مگر یہ امام عالم پر ہیز گار ہے اس سے بہتر ہے جب بھی اضافہ جائز ہے اور اگر ایک امام کی تنخواہ میں اضافہ ہوااسکے بعد دوسرا مام مقرر ہوا تو اگر امام اول کی تنخواہ کا اضافہ اسکی ذاتی بزرگی کی وجہ سے تھا جو دوسرے میں نہیں تو دوسرے کے لئے اضافہ جائز نہیں اور اگر وہ اضافہ کسی بزرگی و فضیلت کی وجہ سے نہ تھابلکہ ضرورت وحاجت کی وجہ سے تھا تو دوسرے کے لئے بھی تنخواہ میں وہی اضافہ ہوگا یہی حکم دوسرے وظیفہ پانے والوں کا بھی ہے کہ ضرورت کی وجہ سے انکی تنخواہوں میں اضافہ کیا جاسکتا ہے ۔( درمختار ‘ ردالمحتار)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔