بہار شریعت

وصی اور اس کے اختیارات کے متعلق مسائل

وصی اور اس کے اختیارات کے متعلق مسائل

آدمی کو وصیت قبول کرنا مناسب بات نہیں کیوں کہ یہ خطرات سے پر ہے۔ حضرت امام ابو یوسف رحمتہ اللہ تعالی علیہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں پہلی بار وصیت قبول کرنا غلطی ہے دوسری بار خیانت اور تیسری بار سرقہ ہے۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں ، وصیت میں نہیں داخل ہوتا ہے مگر بے وقوف اور چور (فتاوی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

وصی : اس شخص کو کہتے ہیں جس کو وصیت کرنے والا (موصی) اپنی وصیت پوری کرنے کے لئے مقرر کرے۔ وصی تین طرح کے ہوتے ہیں (۱)ایک وصی وہ ہے جو امانت دار ہو اور وصیت پوری کرنے پر قادر ہو، قاضی کے لئے اس کو معزول اور برطرف کرنا جائز نہیں (۲) دوسرا وصی وہ ہے جو امانت دار تو ہو مگر عاجز ہو یعنی وصیت کو پورا کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، قاضی اس کی مدد کے لئے کوئی مددگار مقرر کر دے گا۔ (۳) تیسرا وصی وہ ہے جو فاسق و بدعمل ہو یا کافر ہو یا غلام ہو، قاضی کے لئے ضروری ہے کہ اسے برطرف اور معزول کر دے اور اس کی جگہ کسی دوسرے امانت دار مسلمان کو مقرر کرے (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

متعلقہ مضامین

مسئلہ ۱ : ایک شخص نے کسی کو اس کے سامنے اپنا وصی بنایا یا موصی الیہ یعنی وصی نے کہا کہ میں قبول نہیں کرتا تو اس کا انکار اور رد کرنا صحیح ہے اور وہ وصی نہیں ہوگا پھر اگر موصی نے موصی الیہ سے یہ کہا کہ میرے خیال تمہارے بارے میں ایسا نہ تھا کہ تم قبول نہ کرو گے اس کے بعد موصی الیہ نے کہا ” میں نے وصیت قبول کی ” تو یہ جائز ہے اور اگر وہ موصی کی حیات میں خاموش رہا، نہ قبول کیا نہ انکار پھر موصی کا انتقال ہوگیا تو اسے اختیار ہے چاہے تو اس کی وصیت قبول کرلے یا رد و انکار کر دے (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۲ : موصی نے کسی کو وصی بنایا، وہ غائب (موجود نہ) تھا اسے موصی کی موت کے بعد یہ خبر پہنچی، اس نے کہا مجھے قبول نہیں پھر کہا قبول کر لیا میں نے، اگر بادشاہ نے ابھی اسے وصی ہونے سے خارج نہیں کیا تھااور اس نے پہلے ہی قبول کر لیا تو جائز ہے (السراج الوہاج از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۳ : موصی نے کسی کو وصیت کی اس نے موصی کی زندگی میں قبول کر لیا تو اس کے لئے وصی ہونا لازم ہوگیا اب اگر وہ موصی کی موت کے بعد اس سے نکلنا چاہے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں اور اگر اس نے موصی کی زندگی میں اس کے علم میں لاکر قبول کرنے سے انکار کر دیا تو صحیح ہے اور اگر انکار کر دیا مگر موصی کو اس کا علم نہیں ہوا تو صحیح نہیں (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۴ : کسی کو وصیت کی اور یہ اختیار دیا کہ جب وہ چاہے وصی ہونے سے نکل جائے تو یہ جائز ہے اور وصی کو یہ حق ہے کہ جس وقت چاہے اور جب چاہے وصی ہونے سے نکل جائے (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۵ : ـ کسی کو وصیت کی، اس نے کہا میں قبول نہیں کرتا پھر موصی خاموش ہوگیا اور انتقال کر گیا پھر موصی الیہ یعنی اس شخص نے جس کو وصیت کی تھی کہا کہ میں نے قبول کیا تو صحیح نہیں ، اور اگر موصی الیہ نے سکوت اختیار کیا اور موصی کے سامنے یہ نہ کہا کہ میں قبول نہیں کرتا پھر اس کی پس پشت موصی کی زندگی میں یا اس کی موت کے بعد ایک جماعت کی موجودگی میں کہا کہ میں نے قبول کر لیا تو اس کا قبول کرنا جائز ہے اور یہ وصی بن جائے گا خواہ اس کا یہ قبول کرنا قاضی کے سامنے ہو یا اس کی عدم موجودگی میں ، اور اگر قاضی نے اسے اس کے یہ کہنے کے بعد کہ میں قبول نہیں کرتا، وصی ہونے سے خارج کر دیا پھر اس نے کہا میں قبول کرتا ہوں تو یہ قبول کرنا صحیح نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۶ : موصی نے کسی کو وصی بنایا اس نے موصی کی عدم موجودگی میں کہا کہ میں قبول نہیں کرتا اور اس انکار کی اطلاع کے لئے اس نے موصی کے پاس قاصد بھیجا یا خط بھیجا اور وہ موصی تک پہنچ گیا پھر اس نے کہا کہ میں قبول کرتا ہوں تو یہ قبول کرنا صحیح نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۷ : موصی الیہ (وصی) نے موصی کے سامنے وصیت کو قبول کر لیا پھر جب وصی چلا گیا، موصی نے کہا گواہ رہو میں نے اسے وصیت سے خارج کر دیا تو یہ اخراج صحیح ہے اور اگر وصی نے موصی کی عدم موجودگی میں وصی بننے کو رد کر دیا قبول نہیں کیا تو اس کا یہ رد کرنا باطل ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۸ : موصی نے کسی شخص کو اپنا وصی بنایا اور اسے اپنا وصی ہونا معلوم نہیں پھر اس وصی نے موصی کی موت کے بعد اس کے ترکہ سے کوئی چیز فروخت کی تو اس کا فروخت کرنا جائز ہے اور اسے وصی ہونا لازم ہوگیا (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۹ : موصی نے د وآدمیوں کو وصیت کی ایک نے قبول کر لیا، دوسرا خاموش رہا پھر موصی کی موت کے بعد قبول کرنے والے نے سکوت کرنے والے سے کہا کہ موصی کی میت کے لئے کفن خرید لے اس نے خرید لیا یا کہا "ہاں اچھا” تو یہ صورت وصیت قبول کرنے کی ہے (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۱۰ : وصی نے وصیت قبول کر ی پھر اس نے ارادہ کیا کہ وصیت سے نکل جائے، یہ بغیر حاکم کی اجازت کے جائز نہیں موصی الیہ یعنی وصی کو جب وصیت لازم ہوگئی پھر وہ حاکم کے پاس حاضر ہوا اور اس نے اپنے آپ کو وصی ہونے سے خارج کیا تو حاکم معاملہ پر غور کرے گا اگر وہ وصی امانت دار اور وصیت نافذ کرنے پر قادر ہے تو اسے وصی ہونے سے نہیں نکالے گا اور اگر وہ عاجز ہے اور اس کے مشاغل کثیر ہیں تو نکال دے گا (السراج الوہاج از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۱۱ : کسی فاسق کو وصی بنایا جس سے اس کے مال کو خطرہ ہے تو یہ وصیت یعنی اس کو وصی بنانا باطل ہے یعنی اسے قاضی وصی ہونے سے خارج کر دے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۱۲ : فاسق کو وصی بنایا تو قاضی کو چاہئے کہ اس کو وصی ہونے سے خارج کر دے اور اس کے غیر کو وصی بنا دے، اگر یہ قاضی وصی ہونے کے لائق نہیں ہے اور اگر قاضی نے وصیت کو نافذ کیا اور اس فاسق وصی نے اس سے پہلے کہ قاضی اسے وصی ہونے سے خارج کر دے، میت کے دین (ادھار) کو ادا کر دیا اور بیع و شری کی تو اس نے جو کچھ کر دیا جائز ہے اور اگر اسے قاضی نے نہیں نکالا تھا کہ اس فاسق نے توبہ کی اور صالح ہوگیا تو قاضی اسے بدستور وصی بنائے رکھے گا (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۷)

مسئلہ ۱۳ : اگر قاضی کو معلوم نہ تھا کہ میت کا کوئی وصی ہے اور پہلے وصی کی موجودگی میں اس نے ایک دوسرے شخص کو وصی مقرر کر دیا پھر پہلے وصی نے وصیت میں داخل ہونا چاہا یعنی وصیت کو نافذ کرنا چاہا تو اسے اس کا حق ہے اور قاضی کا یہ فعل اسے وصی ہونے سے خارج نہیں کرتا ہے (فتاوی خلاصہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۱۴ : قاضی کو علم نہ تھا کہ میت کا وصی ہے اور وصی غائب ہے قاضی نے کسی اور شخص کو وصی بنا دیا تو قاضی کا بنایا ہوا یہ وصی میت ہی کا وصی ہوگا قاضی کا نہیں (محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۱۵ : مسلمان نے حربی کافر کو خواہ وہ مستامن ہے یا غیر مستامن اپنا وصی بنایا تو یہ باطل ہے یہی حکم مسلمان کا ذمی کو وصی بنانے کا ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۱۶ : حربی کافر امان لے کر دارالاسلام میں داخل ہوا اس نے کسی مسلمان کو اپنا وصی بنایا تو یہ جائز ہے (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۱۷ : مسلم نے حربی کو وصی بنایا پھر حربی اسلام لے آیا تو وہ بدستور وصی رہے گا اور یہی حکم مرتد کا بھی ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸ )

مسئلہ ۱۸ : عاقل کو وصی بنایا پھر اس عاقل کو جنون مطبق (جنون مطبق یہ ہے کہ وہ کم از کم ایک ماہ تک مسلسل پاگل رہے) تو قاضی کو چاہئے کہ اس کی جگہ کسی اور کو وصی مقرر کر دے اگر قاضی نے بھی کسی دوسرے کو وصی مقرر نہیں کیا تھا کہ اس کا پاگل پن جاتا رہا اور صحیح ہوگیا تو یہ بدستور وصی بنا رہے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۱۹ : اگر کسی نے بچے کو یہ معتوہ (پاگل) کو وصی بنایا تو یہ جائز نہیں خواہ بعد میں وہ اچھا ہو جائے یا نہ ہو (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۲۰ : کسی شخص نے عورت کو یا اندھے کو وصی بنایا تو یہ جائز ہے، اسی طرح تہمت زنا میں سزا یافتہ کو بھی وصی بنانا جائز ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۲۱ : نابالغ بچہ کو وصی بنایا تو قاضی اس کو وصی ہونے سے خارج کر دے گا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا وصی بنا دے گا اگر قاضی کے اس کو وصی ہونے سے خارج کرنے سے قبل اس نے تصرف کر دیا تو نافذ نہ ہوگا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۲۲ : کسی شخص کو وصی بنایا اور کہا کہ اگر تو مر جائے تو تیرے بعد فلاں شخص وصی ہے پھر پہلا وصی جنون مطبق (لمبا پاگل پن) میں مبتلا ہوگیا تو قاضی اس کی جگہ دوسرا وصی مقرر کر دے گا اور جب یہ پاگل مرجائے تب وہ فلاں شخص وصی بنے گا جس کو موصی نے پہلے کے بعد نامزد کیا تھا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۲۳ : کسی شخص نے اپنے نابالغ بیٹے کو وصی بنایا تو قاضی اس کے لئے دوسرے کو وصی مقرر کرے گا، جب یہ نابالغ لڑکا بالغ ہو جائے تو اسے وصی بنا دے گا اور اگر چاہے تو اس کو خارج کر دے جسے لڑکے کی نابالغی کی وجہ سے وصی بنا دیا تھا لیکن وہ بغیر قاضی کے نکالے ہوئے نکل نہیں سکتا (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۲۴: وصی ۱مین ہے اور تصرف کرنے پر قادر ہے تو قاضی اسے معزول نہیں کرسکتا اور اگر سب وارثوں نے یا بعض نے قاضی سے وصی کی شکایت کی تو قاضی کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اسے معزول کر دے جب تک قاضی پر اس کی خیانت ظاہر نہ ہو جائے اگر خیانت ظاہر ہو جائے تو معزول کر دے (کافی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۸)

مسئلہ ۲۵ : اگر قاضی کے نزدیک وصی متہم ہو جائے تو قاضی اس کے ساتھ دوسرے کو مقرر کر دے گا یہ امام اعظم کے نزدیک ہے لیکن امام ابو یوسف کے نزدیک قاضی اس متہم کو وصیت سے نکال دے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۲۶ :ـ وقف کے لئے وصی تھا یا میت کے ترکہ کے لئے وصی تھا وہ ترکہ میں میت کی وصیت پوری کرنے میں یا و قف کا انتظام قائم رکھنے میں عاجز رہا تو حاکم ایک اور قیم مقرر کرے گا پھر وصی نے کچھ دنوں کے بعد کہا کہ اب میں ان چیزوں کو قائم کرنے پر قادر ہوگیا ہوں جو موصی نے میرے سپرد کی تھیں تو وہ بدستور وصی ہے، حاکم کو دوبارہ مقرر کرنے کی ضرورت نہیں (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۲۷ : موصی نے دو آدمیوں کو اپنا وصی بنایا تو دونوں میں سے ایک تنہا تصرف نہیں کرسکتا اور اس کا تصرف بغیر دوسرے کی اجازت کے نافذ نہیں ہوگا لیکن چند چیزوں میں ہوسکتا ہے جیسے میت کی تجہیز و تکفین، میت کے دین کی ادائیگی، ودیعت (امانت) کی واپسی اور غصب کردہ چیز کی واپسی، حقوق میت سے متعلق مقدمات، نابالغ وارث کے لئے ہبہ قبول کرنا اور جس چیز کی ہلاکت کا اندیشہ ہے اسے فروخت کرنا، لیکن وہ تنہا میت کی ودیعت (امانت) پر قبضہ نہیں کرسکتا نہ میت کا دین وصول کر کے قبضہ کرسکتا ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۲۸ : موصی نے وصیت کی اور دو آدمیوں کو وصی بنایا کہ اس کا اتنا اتنا مال اس کی طرف سے صدقہ کر دیں اور کسی فقیر کو معین نہیں کیا تو دونوں میں سے کوئی وصی اکیلے صدقہ نہیں کرے گا اور اگر موصی نے فقیر کو معین کر دیا تھا تو ایک وصی اکیلے ہی صدقہ کرسکتا ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۲۹ : موصی نے دو آدمیوں کو وصی بنایا اور کہا کہ تم دونوں میں سے ہر ایک پورا پورا وصی ہے تو ہر ایک کے لئے تنہا تصرف کرنا جائز ہے (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۳۰ : ایک شخص نے ایک آدمی کو کسی مخصوص و معین شے میں وصی بنایا اور دوسرے آدمی کو کسی دوسری قسم کی چیز میں وصی بنایا مثلاً یہ کہا کہ میں نے تجھے اپنے قرضوں کی ادائیگی میں وصی بنایا اور دوسرے سے کہا کہ میں نے تجھے اپنے امور مالیہ کے قیام میں وصی بنایا تو ان میں سے ہر وصی تمام کاموں میں وصی ہے (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۳۱ : کسی آدمی کو اپنے بیٹے پر وصی بنایا اور ایک دوسرے آدمی کو اپنے دوسرے بیٹے پر وصی بنایا یا اس نے ایک وصی بنایا اپنے موجودہ مال میں ، اور دوسرے کو وصی بنایا اپنے غائب مال میں تو اگر اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ ان دونوں میں سے کوئی اس معاملہ میں وصی نہیں ہوگا جس کا وصی دوسرا ہے تو جیسی اس نے شرط لگائی بالاتفاق ایسا ہی ہوگا اور اگر یہ شرط نہیں لگائی تھی تو اس صورت میں ہر وصی پورے پورے معاملات میں وصی ہوگا (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۳۲ : ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصی بنایا پھر ایک وصی کا انتقال ہوگیا تو زندہ باقی رہنے والا وصی اس کے مال میں تصرف نہیں کرے گا وہ معاملہ قاضی کے سامنے لے جائے گا اگر قاضی مناسب خیال کرے گا تو تنہا اس کو وصی بنا دے گا اور تصرف کا اختیار دے دے گا یا اگر مناسب سمجھے گا تو اس کے ساتھی مرنے والے وصی کے بدلہ میں کوئی دوسرا وصی مقرر کرے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۹)

مسئلہ ۳۳: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصی بنایا تو ان دونوں وصیوں میں سے کسی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اپنے ساتھی سے یتیم کے مال سے کچھ خریدے، اسی طرح دو یتیموں کے لئے دو وصی تھے ان میں سے کسی کو یتیم کا مال خریدنا جائز نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۰)

مسئلہ ۳۴ : ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے دو(۲) وصی بنائے تھے پھر ایک شخص آیا اور اس نے میت پر اپنے دین (قرض) کا دعوی کیا دونوں وصیوں نے بغیر دلیل قائم ہوئے اس کا دین ادا کر دیا پھر ان دونوں وصیوں نے قاضی کے پاس جاکر اس دعوائے ادھار پر شہادت دی تو ان کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور جو کچھ انھوں نے مدعی کو دیا ہے وہ اس کے ضامن ہیں اور اگر انھوں نے اس کا دین (ادھار) ادا کرنے سے پہلے شہادت دی پھر قاضی نے انھیں دین ادا کرنے کا حکم دیا اور انھوں نے ادا کر دیا تو اب ان پر ضمان نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۰)

مسئلہ ۳۵ : میت کے وصی نے میت کا دین شاہدوں کی شہادت کے بعد ادا کیا تو جائز ہے اور اس پر ضمان نہیں اور اگر بغیر قاضی کے حکم کے بعض کا دین ادا کر دیا تو میت کے قرض خواہوں کے لئے ضامن ہوگا اور اگر قاضی کے حکم سے ادا کیا تو ضامن نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۰)

مسئلہ ۳۶ : ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصی بنایا ان میں سے ایک کا انتقال ہوا پھر مرتے وقت اس نے اپنے ساتھی کو وصی بنا دیا تو یہ جائز ہے اور اب اس کو تنہا تصرف کرنے کا حق ہے (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۰)

مسئلہ ۳۷ : وصی جب مرنے کے قریب ہو تو اس کو حق ہے کہ وہ دوسرے کو وصی بنا دے چاہے موصی نے اسے وصی بنانے کا اختیار نہ دیا ہو (ذخیرہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۰)

مسئلہ ۳۸ : ایک شخص نے وصیت کی اور انتقال کر گیا اور اس کے پاس کسی کی ودیعتیں (امانتیں ) رکھی ہیں پھر ایک وصی نے وسرے وصی کی اجازت کے بغیر میت کے گھر سے امانتیں قبضہ میں کر لیں کسی ایک وارث نے دونوں وصیوں کی اجازت کے بغیر یا بقیہ وارثوں کی اجازت کے بغیر ان ودیعتوں پر قبضہ کر لیا اور اس کے قبضہ میں آکر وہ مال امانت ہلاک ہوگیا تو اس پر ضمان نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۰)

مسئلہ ۳۹ : دو (۲)وصی ہیں ان میں سے ایک نے قبرستان تک جنازہ اٹھانے کے لئے مزدور کرایہ پر لئے اوردوسرا وصی بھی موجود ہے لیکن خاموش رہا تو یہ جائز ہے، یہ اجرت میت کے مال سے ادا کی جائے گی(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۰) یا وارثوں میں سے کسی نے دونوں وصیوں کی موجودگی میں جنازہ اٹھانے کے لئے مزدور کرایہ پر لئے اور دونوں وصی خاموش ہیں تو جائز ہے ان کی مزدوری میت کے مال سے دی جائے گی(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۰)

مسئلہ۴۰: میت نے دو وصیوں کو جنازہ اٹھانے سے قبل فقراء کو گند م صدقہ کرنے کی وصیت کی ان میں سے ایک وصی نے گندم صدقہ کردیا، اگر یہ گندم میت کے مال متروکہ میں موجود تھا تو جائز ہے اور دوسرے وصی کو منع کرنے کا حق نہیں ، اگر خرید کر صدقہ کیا تو خود اس کی طرف سے ہوگا، یہی حکم کپڑے اور کھانے کا ہے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۱: ایک شخص نے دو آدمیوں کو وصی بنا یا اور ان سے کہا کہ میرا ثلث مال جہاں چاہو دیدو یا جس کو چاہو دیدو پھر ان میں سے ایک وصی کا انتقال ہوگیا تو یہ وصیت باطل ہوجائے گی اور یہ ثلث مال ورثہ کو مل جائے گا اور اگر یہ وصیت کی تھی کہ میں نے ثلث مال مساکین کے لئے کردیا پھر ایک وصی کا انتقال ہوگیا تو قاضی اس کی جگہ اگر چاہے تو دوسرا وصی بنادے اگر چاہے تو زندہ رہنے والے وصی سے کہے، تو تنہااس کو تقسیم کردے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۲: دو نابالغوں کے گھروں کے بیج میں ایک دیوار ہے اس دیوار پر ان کا اپنا حمولہ(بوجھ)یعنی وزنی سامان اور دیوار کے گرنے کا اندیشہ ہے اور ہر نابالغ کے لئے ایک وصی ہے ان میں سے ایک کے وصی نے دوسرے کے وصی سے دیوار کی مرمت کا مطالبہ کیا اور دوسرے نے انکار کردیا تو قاضی امین کو بھیجے گا کہ اگر دیوار کو اسی حالت میں چھوڑدینے سے نقصان کا خطرہ ہے تو انکار کرنے والے وصی کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ دوسرے وصی کے ساتھ مل کر دیوار کی مرمت کرائے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۳: کسی شخص کو یہ وصیت کی کہ میرا ثلث مال جہاں تو پسند کرے رکھ دے تو اس وصی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس مال کو اپنی ذات کے لئے کرے اور اگر یہ وصیت کی تھی کہ جس کو چاہے دیدے تو اس صورت میں وہ یہ مال خود کو نہیں دے سکتا، (محیط السرخسی از عالمگیری ج۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۴: ایک شخص نے کسی کو وصی بنایا اس سے کہا کہ تو فلان کے علم کے ساتھ عمل کر، تو وصی کے لئے جائز ہے کہ وہ فلاں کے علم کے بغیر ہی عمل کرے، اور اگر یہ کہا تھا کوئی کام نہ کر مگر فلاں کے علم کے ساتھ تو وصی کے لئے جائز نہیں کہ وہ فلاں کے علم کے بغیر عمل کرے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۵: اگر میت نے وصی سے یہ کہا کہ فلاں کی رائے سے عمل کر یا کہا عمل نہ کرنا مگر فلاں کی رائے سے تو پہلی صورت میں صرف وصی مخاطب ہے وہ تنہا وصی رہے گا اور دوسرے صورت میں وہ دونوں وصی ہیں (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ ۴۶: کسی شخص نے اپنے وارث کو وصی بنایا تو یہ جائز ہے کہ اگر یہ وصی اپنے مورث کی موت کے بعد مرگیا اور ایک شخص سے یہ کہا تھا کہ میں نے تجھے اپنے مال میں وصی بنایا اور اس میت کے مال میں وصی بنایا جس میں میں وصی ہوں تو یہ دوسرا وصی دونوں کے مال میں وصی ہوگا(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۷: ایک شخص نے کسی کو اپنا وصی بنایا پھر ایک اور شخص نے اس موصی کو اپنا وصی بنادیا پھر یہ دوسرا موصی انتقال کرگیا تو موصی اول اس کا وصی ہے، پھر اس کے بعد اگر موصی اول بھی مرجائے تو اس کا وصی ان دونوں مرنے والوں کا وصی ہوگا، مثال کے طور پر زید نے خالد کو اپنا وصی بنایا اور کلیم نے زید کو اپنا وصی بنایا پھر دوسرا وصی یعنی کلیم انتقال کرگیا تو زید اس کا وصی ہے اور موصی اول زید بھی اس کے بعد انتقال کرگیا تو اس کا وصی خالد ان دونوں کا وصی ہوگا(شرح الطحاوی از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ ۴۸: مریض نے ایک جماعت کو مخاطب کرکے کہا کہ میرے مرنے کے بعد ایسا کرنا، اگر انھوں نے قبول کرلیا تو سب وصی بن گئے، اور اگر خاموش رہے پھر اس کے مرنے کے بعد بعض نے قبول کرلیا تو اگر قبول کرنے والے دو یا زیادہ ہیں تو اس کے وصی بن جائیں گے اور انھیں اس کی وصیت نافذ کرنے کا حق ہے لیکن اگر قبول کرنے والا ایک ہے تو وہ بھی وصی بن جائے گا لیکن اسے تنہا وصیت نافذ کرنے کا اختیار نہیں تاوقتیکہ وہ حاکم سے رجوع نہ کرے، حاکم اس کے ساتھ ایک اور وصی مقرر کرے گا(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۱)

مسئلہ۴۹: دو وصیوں میں اس امر میں اختلاف ہو اکہ مال کس کے پاس رہے گا تو اگر مال قابل تقسیم ہے تو دونوں کے پاس آدھا آدھا رہے گا اور اگر دونوں چاہیں تو کسی دوسرے کے پاس ودیعت رکھ دیں اور چاہیں تو دونوں میں سے کسی ایک کے پاس رہے، سب صورتیں جائز ہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۴۲)

مسئلہ۵۰: یتیموں کے لئے دو (۲)وصی تھے ان میں سے ایک نے مال تقسیم کرلیا تو جائز نہیں جب تک دونوں ایک ساتھ موجود نہ ہوں یا جو غائب ہے اس کی اجازت حاصل ہو(عالمگیری ج۶ ص۱۴۲)یہی حکم نابالغ کے مال کے فروخت کرنے کا ہے کہ دونوں وصی حاضر ہوں تو فروخت کرنا جائز ہے ، اگر ایک غائب ہے تو دوسرا اس سے اجازت لئے بغیر فروخت نہیں کرسکتا(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۲)

مسئلہ۵۱ـ: وصی نے میت کی زمین فروخت کی تاکہ اس کا دین ادا کرے اور وصی کے قبضہ میں اتنا مال ہے کہ اس سے میت کا ادھار بیباق کردے، اس صور ت میں بھی یہ بیع جائز ہے(خزانتہ المفتیین از عالمگیر ی ج۶ ص۱۴۲)

مسئلہ۵۲: باپ کی طرف سے مقرر کردہ وصی نابالغ کے لئے مال کا مقاسمہ کرسکتا ہے چاہے مال منقولہ جائداد ہو یا جائداد غیر منقولہ، اس میں اگر معمولی گڑبڑ ہو(یعنی معمولی غبن ہو)تب بھی جائز ہے لیکن اگر غبن فاحش ہے(بڑا غبن ہے) تو جائز نہیں ، اس قسم کے مسائل میں اصل و قاعدہ یہ ہے کہ جو شخص کسی چیز کو فروخت کرنے کا اختیاررکھتا ہے اسے اس میں مقاسمہ کرنے کا اختیار بھی حاصل ہے(محیط از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۲)

مسئلہ ۵۳: وصی کے لئے جائز ہے کہ موصی لہ کے حصہ کو تقسیم کردے سوائے عقار کے اور نابالغوں کا حصہ روک لے اگر چہ بعض بالغ اور غائب ہوں (عالمگیری ج ۶ ص۹۱۴۲

مسئلہ ۵۴: وصی نے ورثہ کے لئے موصی کامال تقسیم کیا اور ترکہ میں کسی شخص کے لئے وصیت بھی ہے اور موصی لہ غائب ہے تو وصی کی تقسیم غائب موصی لہ پر جائز نہیں موصی اپنی وصیت میں ورثہ کا شریک ہوگا اور اگر تمام ورثہ نابالغ ہیں اور وصی نے موصی لہ سے مال تقسیم کیا اور اسے ثلث مال دے کر دو ثلث ورثہ کے لئے روک لیا تو یہ جائز ہے اب اگر وصی کے پاس سے وہ مال ہلاک ہوگیا تو ورثہ موصی لہ کے حصہ میں شریک نہ ہوں گے(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۲)

مسئلہ۵۵: قاضی نے یتیم کے لئے ہر چیز میں وصی مقرر کرلیا پھر اس نے جائداد غیر منقولہ میں اور سامان میں تقسیم کی تو جائز ہے جبکہ قاضی نے ہر چیز میں وصی کیا ہو لیکن اگر اسے یتیم کے نفقہ اور کسی خاص شے کی حفاظت کے لئے وصی مقرر کیا تو اسے تقسیم کرنا جائز نہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۴۲)

مسئلہ۵۶: کسی نے ایک ہزار درہم کے ثلث کی وصیت کی، ورثہ نے یہ قاضی کے حوالہ کردیئے قاضی نے اس کو تقسیم کیا اور موصی لہ غائب ہے تو قاضی کی تقسیم صحیح ہے یہاں تک کہ اگرموصی لہ کے حصہ کے یہ درہم ہلاک ہوگئے بعدمیں موصی لہ حاضر ہواتو ورثہ میں حصہ کے وہ شریک نہ ہوگا(کافی از عالمگیر ی ج۶ ص۱۴۳)

مسئلہ۵۷: دو یتیموں کے لئے ایک وصی ہے اس نے یتیموں کے بالغ ہوجانے کے بعد ان سے کہا کہ میں تم دونوں کو ایک ہزار درہم دے چکاہوں ان میں سے ایک نے وصی کی تصدیق کی اور دوسرے نے تکذیب کی اورانکار کیا تو اس صورت میں انکار کرنے والا اپنے بھائی سے ڈھائی سو درہم لینے کا حقدار ہے اور اگر دونوں نے وصی کی بات تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو وصی پر ان کے لئے کچھ نہیں ، اور اگر وصی نے یہ کہا تھا کہ میں نے تم میں سے ایک ایک کو پانچ پانچ سو درہم علیحدہ علیحدہ دیئے تھے اور ان میں سے ایک نے تصدیق کی دوسرے نے انکار کیا تو اس صورت میں انکار کرنے والا وصی سے ڈھائی سو درہم لے لے گا(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۳)

مسئلہ۵۸: ایک شخص نے دو چھوٹے لڑکے چھوڑے اور ان کے لئے وصی بنادیا، انھوں نے بالغ ہونے کے بعد وصی سے اپنی میراث طلب کی، وصی نے کہا کہ تمہارے باپ کا کل ترکہ ایک ہزار درہم تھا اور میں تم میں سے ہر ایک پر پانچ پانچ سو درہم خرچ کرچکا ہو، ان دونوں بیٹوں میں سے ایک نے وصی کی تصدیق کی اور دوسرے نے انکار کیا تو انکار کرنے والا تصدیق کرنے والے سے ڈھائی سو درہم لے لے گا وصی سے کچھ نہیں (محیط السرخسی از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۳)

مسئلہ۵۹: جو وصی بچہ کی ماں نے مقرر کیا وہ اس بچہ کے لئے اس کی وہ منقولہ جائیداد تقسیم کرنے کا حقدار ہے جو بچہ کو اس کی ماں کی طرف سے ملی ہے، یہ حق اس وقت ہے جب بچہ کا باپ زندہ نہ ہوں اور نہ باپ کا وصی، لیکن ان دونوں میں سے اگر ایک بھی ہے تو ماں کے وصی کو تقسیم کا حق نہیں لیکن ماں کا وصی کسی حال میں بھی بچہ کے لئے اس کی جائداد غیر منقولہ تقسیم نہیں کرسکتا اور نہ اسے جائداد کی تقسیم کا اختیار ہے جو بچہ کی ماں کے علاوہ کسی اور سے ملی چاہے وہ جائداد منقولہ ہو یا غیر منقولہ، یہی حکم نابالغ کے بھائی کے وصی اور اس کے چچا کے وصی کا ہے(عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۳)

مسئلہ۶۰: باپ کے وصی نے باپ کے ترکہ سے کچھ فروخت کیا تو اس کی دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ میت پر دین نہ ہو اور نہ وصیت ہو، دوسری صورت یہ ہے کہ میت پر دین ہویا اس نے وصیت کی ہو تو پہلی صورت میں حکم یہ ہے (کتاب الصغیر میں ہے)وصی کے لئے یہ جائز ہے کہ اگر میت پر دین ہے اور پورے ترکہ کے برابر ہے تو کل ترکہ فروخت کرنا بالاجماع جائز ہے اور اگر دین پورے ترکہ کے برابر نہیں تو بقدر دین ترکہ فروخت کرے گا(کافی ازعالمگیر ی ج ۶ ص۱۴۵)

مسئلہ۶۱: اگر وصی نے اپنے مال سے میت کو کفن دیا تو وہ میت کے مال سے لے گا اور یہی حکم وارث کا بھی ہے(عقود الدریہ بزازیہ برہامش ہندیہ ج ۶ ص ۴۴۶)

مسئلہ۶۲: اگر وصی یا وارث نے میت کا دین اپنے مال سے ادا کیا تو وہ میت کے مال سے لینے کا مستحق ہے(عقود الدریہ بزازیہ برہامش ہندیہ جلد ۶ ص ۴۴۶)

مسئلہ۶۳: باپ کی طرف سے چھوٹے بچہ کے لئے جو وصی مقرر ہے اسے بچہ کی جائیداد غیر منقولہ صرف اس صورت میں فروخت کرنے کا اختیار و اجازت ہے جب میت پردین ہو جو صرف زمین کی قیمت سے ہی ادا کیا جاسکتا یا بچہ کے لئے زمین کی قیمت کی ضرورت ہو یا کوئی خریدار زمین کی دوگنی قیمت ادا کرنے کو تیار ہو(کافی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۵)

مسئلہ ۶۴: وصی نے یتیم کے لئے کوئی چیز خریدی اگر اس میں غبن فاحش ہے یعنی کھلی بے ایمانی ہے تو یہ خریداری جائز نہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۴۵)

مسئلہ۶۵: ورثہ اگر بالغ و حاضر ہیں تو ان کی اجازت کے بغیر وصی کو میت کے ترکہ سے کچھ فروخت کرنا جائز نہیں اگر بالغ ورثہ موجود نہیں ہیں تو ان کی عدم موجودگی میں وصی کو جائیداد غیر منقولہ کو فروخت کرنا جائز نہیں ، جائیداد غیر منقولہ کے علاوہ اور چیزوں کی بیع جائز ہے، جائیداد غیر منقولہ کو صرف اس صورت میں وصی کو فروخت کرنا جائز ہے جب کہ اس کے ضائع و ہلاک ہونے کا خطرہ ہو ۔اگر میت نے وصیت مرسلہ (مطلقہ) کی تو وصی بقدر وصیت بیع کرنے کا بالاتفاق مالک ہے اور امام اعظم کے نزدیک کل کو بیع کرسکتا ہے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۵)

مسئلہ۶۶: اگر ورثہ میں کوئی نابالغ بچہ ہے اور باقی سب بالغ ہیں اور میت پر کوئی دین اور اس کی کوئی وصیت بھی نہیں اور ترکہ سب ہی از قسم مال و اسباب ہے(یعنی جائیداد غیرمنقولہ نہیں )تو وصی نابالغ بچہ کا حصہ فروخت کرسکتا ہے، امام اعظم رحمتہ اللہ تعالی علیہ کے نزدیک وہ وصی باقی ماندہ بڑوں کے حصہ کو بھی بیع کرسکتا ہے اور اگر وہ کل کی بیع کرے گا تو اس کی بیع جائز ہوگی(عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۴)

مسئلہ ۶۷: ماں کا انتقال ہوا اس نے نابالغ بچہ چھوڑا اور اس کے لئے وصی بنایا تو اس وصی کو بجز جائیدا غیر منقولہ اس کے ترکہ سے ہر چیز بیع کرنا جائز ہے اور اس وصی کو اس بچہ کے لئے کھانے کپڑے کے علاوہ کوئی اور چیز خریدنا جائز نہیں (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۴)

مسئلہ ۶۸: ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے اپنے نابالغ بچے چھوڑے اور اپنے باپ کو چھوڑا اور کسی کو اپنا وصی نہیں بنایا اس صور ت میں میت کاباپ (یعنی بچوں کا دادا)بجائے وصی متصور ہوگا اسے بچوں کی حفاظت اور مال ہر قسم کے تصرفات کا اختیار ہے لیکن اگر میت پر دین کثیر ہو تو اس میت کے باپ کو دین کی ادائیگی کے لئے اس کا ترکہ فروخت کرنے کا اختیار نہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۴۵)

مسئلہ ۶۹: میت کے وصی نے دیون کی ادائیگی کے لئے اس کا ترکہ فروخت کیا اور دین کو ترکہ کو محیط نہیں ہے تو جائز ہے لیکن اگر ترکہ میں دین نہیں ہے اور وارثوں میں چھوٹے بچے بھی ہیں اور قاضی نے کل ترکہ فروخت کردیا تو یہ بیع نافذ ہوجائے گی(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۶)

مسئلہ۷۰: میت نے باپ چھوڑا اور وصی بھی چھوڑا توو صی زیادہ مستحق ہے باپ سے اگر اس نے وصی نہیں بنایا تھا تو باپ مستحق ہے اور باپ بھی نہیں تو دادا پھر قاضی کی طرف سے مقرر کیا ہوا وصی(عالمگیری ج ۶ص ۱۴۶)

مسئلہ۷۱: بچہ ماں کا وارث ہو اور اس کا باپ نہایت فضول خرچ ہے اور وہ ممنوع التصرف ہونے کے لائق ہے تو اس صورت میں اس باپ کو اس کے مال میں ولایت نہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۴۶)یعنی وہ بچہ کے مال میں تصرف کا مالک نہیں ہوگا۔

مسئلہ ۷۲: قاضی نے یتیم بچہ کے لئے وصی مقرر کیا تو قاضی کا یہ وصی اس کے باپ کے وصی کی جگہ ہوگا اگر قاضی نے اسے تمام معاملات میں وصی عام بنایا ہے اور اگر قاضی نے اسے کسی خاص معاملہ میں وصی بنایا تو وہ اس معاملہ کے ساتھ خاص رہے گا دوسرے معاملات میں اسے کچھ اختیار نہیں بخلاف اس وصی کے جس کو باپ نے مقرر کیا کہ اسے کسی معاملہ کے ساتھ خاص نہیں کیا جاسکتا یعنی اگر اس نے کسی کو ایک معاملہ میں وصی بنایا تو وہ ہر معاملہ میں وصی رہے گا(فتاوی قاضی خان از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۶)

مسئلہ ۷۳: وصی نے میت کے ترکہ سے کوئی چیز ادھار فروخت کی اگراس میں یتیم کے نقصان کا اندیشہ ہو مثلاً یہ کہ خریدار قیمت دینے سے انکار کردے یا میعاد مقررہ پر اس سے قیمت وصول نہ ہونے کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں یہ بیع جائز نہیں اور اگر اندیشہ نہ ہو تو جائز ہے(عالمگیری ج۶ ص۴۶ا)

مسئلہ ۷۴: یتیم کا ایک گھر ہے ایک شخص نے اسے آٹھ روپے ماہانہ پر کرایہ پر لینا چاہا اور دوسرا اسے دس روپے کرایہ پر لینا چاہتا ہے لیکن آٹھ روپے ماہانہ دینے والا مالدار و قادر ہو(یعنی کرایہ دیتا رہے گا)تو گھر اس کو دیا جائے گا دس روپے ماہانہ والے کو نہیں جب کہ اس سے کرایہ نہ دینے کا اندیشہ ہو۔(عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۶)

مسئلہ ۷۵: وصی نے یتیم کے مال میں سے کوئی چیز صحیح قیمت پر فروخت کی، دوسرا س سے زیادہ دے کرلینا چاہتا ہے تو قاضی یہ معاملہ ایماندار ماہرین قیمت کے سپرد کردے گا، اگر ان میں سے دو صاحب امانت لوگوں نے کہہ دیا کہ وصی نے اسے صحیح قیمت پر فروخت کیا ہے اور اس کی قیمت یہی ہے تو قاضی زیادہ قیمت دینے والے کی طرف توجہ نہ کرے گا یہی حکم مال وقف کو اجارہ پر دینے کا ہے، (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج۶ ص ۱۴۶)

مسئلہ ۷۶: ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے ثلث مال کی وصیت کی اور مختلف قسم کی جائیداد غیر منقولہ چھوڑیں اب وصی ان میں سے کسی ایک جائیداد کو میت کی وصیت پوری کرنے کے لئے فروخت کرنا چاہتا ہے تو ورثہ کو یہ حق ہے کہ وہ صرف اس صورت میں اپنی رضا مندی دیں جب میت کی ہر قسم کی جائیدادغیر منقولہ میں سے ایک ثلث فروخت کیا جائے، اگر اس کی ہر جائیداد میں سے اس کا ثلث فروخت کرنا ممکن ہو، (فتاوی ابی اللیث از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۷)

مسئلہ۷۷: ایک عورت کا انتقال ہوا اس نے وصیت کی کہ میرا مال و متاع فروخت کیا جائے اور اس کی قیمت کا ثلث (تہائی حصہ)فقراء پر خرچ کیا جائے، اس کے بالغ ورثاء بھی ہیں اب وصی نے چاہا کہ اس کا تمام ساز وسامان فروخت کردے، ورثاء نے انکار کیا اور بقدر مقدار وصیت فروخت کرنے کو کہا اگر ثلث مال کی خریداری میں نقص و خرابی ہے اور اس سے ورثاء اور اہل وصیت (موصی لہم)کو نقصان پہنچتا ہے تو وصی کو کل مال فروخت کردینے کا اختیار ہے ورنہ نہیں ، صرف اتنا فروخت کرے گا جس میں وصیت پوری کی جاسکے(ذخیرہ از عالمگیری ج۶ ص ۱۴۷)

مسئلہ ۷۸: وصی کو مال یتیم سے تجارت کرنا جائز ہے(مبسوط از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۷)

مسئلہ ۷۹: وصی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ یتیم یا میت کے مال سے اپنی ذات کے لئے تجارت کرے گا اگر اس نے تجارت کی اور منافع ہوا تو وہ یتیم یا میت کے اصل مال کا ضامن ہوگا اور منافع کو صدقہ کرے گا(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۷)

مسئلہ ۸۰: وصی مال یتیم سے یتیم کو فائدہ پہنچانے کے لئے تجارت کرسکتا ہے(المبسوط از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۷)

مسئلہ ۸۱: وصی نے میت کے ترکہ کا کچھ حصہ طویل مدت کے لئے اجارہ پر دیا تاکہ اس سے میت کا دین(ادھار) ادا کردے تو یہ جائز نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۷)

مسئلہ ۸۲: ایک شخص کا انتقال ہوا وہ مدیون ہے(یعنی اس پر ادھا ر ہے) نے وصی بنایا اورو صی غائب ہے، کسی وارث نے اس کا ترکہ فروخت کیا اور اس کا دین ادا کردیا اور اس کی وصیتوں کو نافذ کردیا تو یہ بیع فاسد ہوگی لیکن اگر قاضی کے حکم سے بیع کیا تھا تو بیع جائز ہے، یہ اس صورت میں ہے جب کہ پورا ترکہ دین میں مستغرق ہو، اگر ترکہ دین میں مستغرق نہیں ہے تو وارث کا تصرف صرف اسی کے حصہ میں نافذ ہوگا(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۰) مگر یہ کہ مبیع اگر بیت معین ہو تو اس صورت میں وارث کا تصرف اسی کے حصہ میں ہی نافذ ہوگا۔

مسئلہ۸۳: بالغ وارث نے میت کے ترکہ سے یا اس کی غیر منقولہ جائیداد سے کچھ فروخت کیا پھر بھی میت پر دین اور وصیتیں باقی رہ گئیں وصی نے چاہا کہ وارث کی بیع کو رد کردے تو اگر وصی کے قبضہ میں اس کے علاوہ بھی میت کا کچھ مال ہے جسے فروخت کرکے وہ میت کا قرضہ اور وصیتیں بے باق کرسکتا ہے تو وہ وارث کی بیع کو رد نہیں کرنے گا(عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۷)

مسئلہ ۸۴: وصی اگر یتیم کا مال کسی کو قرض دینا چاہے تو اس کو یہ اختیار نہیں ہے(محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۷) اگر قرض دے گا تو ضامن ہوگا۔

مسئلہ۸۵: میت کے وصی یا باپ نے یتیم کا مال اپنے دین (ادھار) میں رہن کردیا تو استحساناً جائز ہے اگر وصی نے یتیم کے مال سے اپنا قرض ادا کیا تو جائز نہیں اگر باپ نے ایسا کیا تو جائز ہے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۷)

مسئلہ ۸۶: وصی نے بچہ کو کسی عمل خیر کے لئے اجرت پر رکھا تو یہ جائز ہے(عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۸)

مسئلہ ۸۷: وصی نے یتیم کے لئے کوئی اجیر اس سے زیادہ اجرت پر لیا جو اس کی ہے تو یہ اجارہ جائز ہے لیکن اسے اتنی ہی اجرت دی جائے گی جو اس کی ہوتی ہے اور جو زیادہ ہے وہ اس یتیم بچہ کوو اپس کردی جا ئے گی۔

مسئلہ ۸۸: وصی نے نابالغ بچہ کا مکان اس سے کم کرایہ پر دیا جتنا کرایہ اس کا لینا چاہئے تھا مستاجر کو یعنی مکان کرایہ پر لینے والے کو اس کاپورا کرایہ دینا لازم ہے(یعنی اتنا کرایہ جتنے کرایہ کا اس جیسا مکان ملتا ہے) لیکن اگر کم کرایہ لینے میں یتیم کا فائدہ ہے تو کم کرایہ پر مکان دینا واجب ہے(ذخیرہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۸)

مسئلہ ۸۹: وصی اپنی ذات کو نابالغ یتیم کا آجر نہیں بناسکتا لیکن باپ یعنی یتیم کا داد اجیر بن سکتا ہے اور اس یتیم کو اپنا اجیر بناسکتا ہے(قدوری از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۸)

مسئلہ۹۰: وصی کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ یتیم کے مال کو بالمعاوضہ یا بلا معاوضہ ہبہ کرے باپ کے لئے بھی یہی حکم ہے(فتاوی قاضی خان از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۸)

مسئلہ۹۱: وصی نے نابالغ یتیم کا مال خود اپنے ہاتھ فروخت کیا یا اپنا مال یتیم نابالغ کے ہاتھ فروخت کیا تو اگر ان سودوں (خرید و فروخت ) میں یتیم کے لئے کھلا ہوانفع ہے تو جائز ہے اور اگر منفعت ظاہر(کھلا ہوا نفع) نہیں ہے تو جائز نہیں منفعت ظاہر کی تشریح بعض مشائخ علماء نے یہ کی ہے کہ یتیم کا سو کا مال سواسو میں فروخت کرے یا اپنا سو کا مال پچہتر(۷۵) روپے میں یتیم کو دیدے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۸)

مسئلہ۹۲: دو یتیموں کے ایک وصی نے ایک یتیم کا مال دوسرے یتیم کو فروخت کیا تو یہ جائز نہیں (ذخیرہ از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۸)

مسئلہ۹۳: میت کے باپ نے یا اس کے وصی نے نابالغ کو تجارت کی اجازت دیدی تو صحیح ہے اور اس نابالغ کے خرید و فروخت کرتے وقت ان کا سکوت بھی اجازت ہے اور اگر نابالغ بالغ ہوگیا اور باپ یا وصی زندہ ہے تو اجازت باطل نہیں ہوگی(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۸)

مسئلہ۹۴: نابالغ کا مال فروخت کرنے کے لئے باپ نے یا وصی نے وکیل بنایا پھر باپ کا انتقال ہوگیا یا نابالغ بالغ ہوگیا تو وکیل معزول ہوجائے گا(عالمگیری ج۶ ص۱۴۹)

مسئلہ۹۵: قاضی نے نابالغ کو یا کم سمجھ کو تجارت کی اجازت دیدی تو صحیح ہے(عالمگیری ج ۶ ص۱۴۹)

مسئلہ ۹۶: قاضی نے نابالغ کو تجارت کی اجازت دیدی اور باپ یا وصی نے منع کیا تو ان کا منع کرنا باطل ہے اور ایسے ہی اجازت دینے والے قاضی کا انتقال ہوگیا تو یہ اجازت اس وقت تک ممنوع نہ ہوگی جب تک دوسرا قاضی ممنوع نہ قرار دے(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۴۹)

مسئلہ ۹۷: وصی کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ یتیم کے مال سے اس کا صدقہ فطر ادا کردے یا اس کے مال سے ا س کی طرف سے قربانی کرے جب کہ یتیم مالدار ہو(عالمگیری ج ۶ص۱۴۹)

مسئلہ ۹۸: وصی کو اختیار نہیں کہ وہ میت کے قرضداروں کو بری کردے یا ان کے ذمہ قرض میں سے کچھ کم کردے یا قرض کی ادائیگی کے لئے میعاد مقرر کرے جب کہ وہ دین میت کے خود اپنے کئے ہوئے معاملہ کا ہو، اور اگر معاملہ وصی نے کیا تھا اس کا دین ہے تو وصی کو مدیون کو بری کرنے یا دین کو کم کرنے یا اس کی مدت مقرر کرنے کا اختیار ہے لیکن اس کے نقصان کا ضامن ہوگا۔(عالمگیری ج ۶ ص ۱۴۹)

مسئلہ۹۹: وصی نے میت کے کسی قرضدار سے میت کے دین میں مصالحت کرلی، اگر میت کی طرف سے اس دین کا ثبوت ہے یا قرضدار خود اقراری ہے یا قاضی کو اس کے حق کا علم ہے تو ان تمام صورتوں میں وصی کی یہ مصالحت جائز نہیں ، اگر اس حق (دین) پر دلیل وبینہ قائم نہیں ہے تو وصی کا مصالحت کرلینا جائز ہے لیکن اگر وصی نے اس دین میں صلح کی جو میت پر واجب تھا یا یتیم پر تھا تو اگر مدعی کے پاس دلیل وبینہ ہے یا قاضی نے مدعی کے حق میں فیصلہ کردیا تو وصی کا صلح کرلینا جائز ہے اور اگر مدعی کے لئے ا س کے حق میں دلیل نہیں ہے اور نہ قاضی نے مدعی کے حق میں فیصلہ دیا تو صلح کرنا جائز نہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۴۹)

مسئلہ۱۰۰: وصی یتیم کا مال لے کر کسی ظالم و جابر کے پاس سے گزرا اور اسے اندیشہ ہے کہ اگر اس نے اس کے ساتھ حسن سلوک نہ کیا یعنی اسے کچھ نہ دیا تو یہ سب مال اس کے قبضہ سے نکل جائے گا۔ اس نے یتیم کے مال سے اس کو کچھ دیدیا تو استحساناً جائز ہے یہی حکم مضاربت کے لئے ہے مال مضارب میں (عالمگیری ج۶ ص ۱۵۰)

مسئلہ ۱۰۱: وصی نے قاضی کی عدالت میں مقدمات پر خرچ کیا اور بطور اجارہ کچھ دیا تو وصی اس کا ضامن نہیں لیکن بطور رشوت کچھ خرچ کیا ہے تو اس کا ضامن ہے، فقہاء فرماتے ہیں اپنی جان اور مال سے رفع ظلم کے لئے مال خرچ کرنا اس کے حق میں رشوت دینے میں داخل نہیں لیکن اگر دوسرے پر کوئی حق ہے اس حق کو نکلوانے میں مال خرچ کرنا رشوت ہے۔(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۰)

مسئلہ۱۰۲: ایک شخص کا انتقال ہوا اور اس نے اپنی عورت کو وصی بنایا اور نابالغ بچے اور ترکہ چھوڑا پھر اس کے گھر ظالم حکمراں آیا، اس وصی عورت سے کہا گیا اگر تو اس کو کچھ نہیں دے گی تو یہ گھر اور جائیداد غیر منقولہ پر قبضہ اور غلبہ کرے گا اس وصی عورت نے جائیداد غیر منقولہ سے اسے کچھ دیدیا تو یہ معاملہ صحیح ہے(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۰)

مسئلہ ۱۰۳: وصی نے یتیم کا مال یتیم کی تعلیم قرآن اور ادب میں خرچ کیا، اگر بچہ اس کی (یعنی تعلیم ادب کی) صلاحیت رکھتا تھا تو جائز ہے بلکہ وصی ثواب پائے گا اور اگر بچہ میں علم حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں تو بقدر ضرورت نماز قرآن مجید کی تعلیم دلائے(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۰ در مختار ج۵ ص ۵۰۴ علی ہامش رد االمحتار)

مسئلہ۱۰۴: وصی کو چاہئے کہ وہ بچہ کے نفقہ میں وسعت کرے، نہ فضول خرچی کرے نہ تنگی، یہ وسعت بچے کے مال اور حال کے لحاظ سے ہوگی، وصی کو بچہ کے مال اور حال کو دیکھ کر اس کے لائق خرچہ کرے گا(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۰)

مسئلہ ۱۰۵: وصی اگر یتیم کے کاموں کے لئے جائے گا اور یتیم کے مال سے سواری کرایہ پر لے گا اور اپنے اوپر خرچ کرے گا تو استحساناً یہ اس کے لئے جائز ہے بشرطیکہ وہ خرچہ ضروری و ناگزیر ہو(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۰ ،درمختار علی رد االمحتار ج ۵ ص۵۰۴)

مسئلہ ۱۰۶: وصی نے میت کے ترکہ سے اگر کوئی چیز اپنے لئے خریدی اور میت کا چھوٹا بڑا کوئی وارث نہیں تو جائز ہے(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۰)

مسئلہ ۱۰۷ـ: ایک شخص کا انتقال ہوا اورا س کے پاس مختلف لوگوں کی ودیعتیں (امانتیں ) تھیں اس نے ترکہ میں مال چھوڑا لیکن اس پر دین ہے جو اس کے پورے مال کو محیط ہے اور وصی نے میت کے گھر تمام ودیعتوں پر قبضہ کرلیا تاکہ وہ ودیعت رکھنے والے کو واپس کردے یا اس نے میت کے مال پر قبضہ کرلیا تاکہ اس سے میت کا دین ادا کردے پھر وہ ما ل یا ودیعتیں وصی کے قبضہ میں ہلاک ہوگئیں تو وصی پر کوئی ضمان نہیں ، اسی طرح اگر میت پر دین نہ تھا اور وصی نے میت کے تمام مال کو قبضہ میں لیا پھر وہ مال ہلاک ہوگیا تو بھی وصی پر کوئی ضمان نہیں (ذخیرہ از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۱)

مسئلہ ۱۰۸: ایک شخص نے اپنا مال کسی کے پاس امانت رکھا اور کہا کہ اگر میں مرجاؤں تو یہ مال میرے بیٹے کو دیدینا اور ا س نے وہ مال بیٹے کو دیدیا اور اس کے دوسرے وارث بھی ہیں تو وصی وارث کے حصہ کا ضامن ہوگا اور ان الفاظ سے وہ وصی نہیں بن جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص۱۵۱)

مسئلہ ۱۰۹: مریض کے پا س اس کے عزیز و اقارب ہیں جو ا س کے مال سے کھاپی رہے ہیں اگر مریض ان کی آمدورفت کا اپنے مرض میں محتاج ہے اور وہ اس کے اور اس کے عیال کے ساتھ بغیر اسراف کے کھاتے پیتے ہیں تو استحساناً ان پر کوئی ضمان نہیں ، اگر مریض ان کا محتاج نہیں ہے تو اگر وہ مریض کے حکم سے کھاتے پیتے ہیں تو جو ان میں وارث ہیں ان پر ان کے کھانے پینے کے خرچہ کا ضمان ہے اور جو وارث نہیں ان کا خرچہ میت کے ثلث مال میں محسوب ہوگا اگر مریض نے اس کا حکم دیا تھا (عالمگیری ج ۶ ص۱۵۱، رد المحتار بحوالہ بزازیہ کتاب الوصایا ص ۴۵۷)

مسئلہ ۱۱۰: وصی نے دعوی کیا کہ میت کے ذمہ میر ادین ہے تو قاضی اس کے دین کی ادائیگی کے لئے ایک وصی مقرر کرے گا جو ثبوت قائم ہونے کے بعد اس کا دین ادا کرے گا اور قاضی میت کے وصی کو وصی ہونے سے خارج کرے گا اسی پر فتوی ہے(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۱)

مسئلہ۱۱۱: میت نے اپنی بیوی کو وصی بنایا، او رمال چھوڑا اور بیوی کا میت پر مہر ہے تو اگر میت نے اس کے مہر کے برابر سونا چاندی چھوڑا ہے تو بیوی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس سونے چاندی سے ۱پنا مہر لے لے ، اور اگر میت نے سونا چاندی نہیں چھوڑا تو بیوی کے لئے جائز ہے کہ وہ اس چیز کو فروخت کردے جو فروخت کرنے کے لئے زیادہ مناسب ہے اور اس کی قیمت سے اپنا مہر لے لے(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۳)

مسئلہ ۱۱۲: میت پر دین ہے اور جس کا دین ہے وہ اس کا وارث یا وصی ہے تو اس کو یہ حق ہے کہ وارثوں کے علم میں لائے بغیر اپنا حق لے لے(عالمگیری ج ۶ ص ۱۵۳)

مسئلہ ۱۱۳: ایک شخص کا انتقال ہوا اس نے نابالغ بچے چھوڑے اور کسی کو وصی نہیں بنایا پھر قاضی نے کسی شخص کو وصی مقرر کیا پھر ایک آدمی نے میت پر اپنے دین کا یا ودیعت کا دعوی کیا اور بیوی نے اپنے مہر کا دعوی کیا اس صورت میں دین یا ودیعت کی ادائیگی تو ثبوت ہوجانے کے بعد کی جائے گی، نکاح اگر معروف ہے تو مہر کے بارے میں عورت کا قول معتبر ہے اگر وہ مہر مثل کے اندر ہے، وہ مہر عورت کو ادا کیا جائے گا(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۴)

مسئلہ ۱۱۴: وصی نے میت کی وصیت اپنے مال سے ادا کردی اگر یہ وصی وارث ہے تو میت کے ترکہ سے لے لے گا ورنہ نہیں (عالمگیری ج ۶ ص۱۵۵)

مسئلہ ۱۱۵: وصی نے اقرار کیا کہ میں نے میت کا دین جو لوگوں پر تھا قبضہ کرلیا پھر ایک مقروض آیا اور وصی سے کہا کہ میں نے تجھے میت کے دین کا اتنا اتنا روپیہ دیا، وصی نے انکار کیا اور کہا کہ میں نے تجھ سے کچھ بھی نہیں لیا اور نہ مجھے علم ہے کہ تجھ پر میت کا قرض تھا تو اس صورت میں وصی کا قول قسم لے کر تسلیم کرلیا جائے گا(محیط از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۴)

مسئلہ ۱۱۶: وصی نے نابالغ بچوں کے لئے کپڑا خریدا یاجو کچھ ان کا خرچ ہے وہ خریدتا رہتا ہے اپنے مال سے تو وہ روپیہ میت کے مال اور ترکہ سے لے لے گا یہ وصی کی طرف سے تطوعا ًیا احسان کے طور پر نہیں ہے (عالمگیری ج ۶ص۱۵۴)

مسئلہ ۱۱۷: کوئی مسافر کسی آدمی کے گھر آیا اور اس کا انتقال ہوگیا اس نے کسی کو وصی بھی نہیں بنایا اور جو کچھ روپے چھوڑا تو معاملہ حاکم کے سامنے پیش ہوگا اور اس کو حاکم کے حکم سے درمیانی درجہ کا کفن دیا جائے گا اور اگر حاکم نہ ملے تو بھی درمیانی درجہ کا کفن دیا جائے اور اگر اس میت پر دین ہے تو یہ شخص ا س کے مال کو دین کی ادائیگی کے لئے فروخت نہ کرے گا(فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۵)

مسئلہ ۱۱۸: عورت نے اپنے ثلث مال کی وصیت کی اور کسی کو اپنا وصی بنادیا اور اس وصی نے اس کی کچھ وصیتوں کو نافذ کردیا اور کچھ ورثہ کے قبضہ میں باقی رہ گئیں اگر ورثہ دیانتدار ہیں اور وصی کو ان کی دیانت کاعلم ہے کہ وہ میت کے ثلث مال سے ان باقی ماندہ وصیتوں کو پورا کردیں گے تو اس کو ان کے لئے چھوڑ دینا جائز ہے اور اس کا علم اس کے خلاف ہے تو وصی ان کے لئے نہ چھوڑے گا بشرطیکہ وہ ورثاء سے مال برآمد کرسکتا ہو(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۵)

مسئلہ ۱۱۹: وصی نے یتیم سے کہا کہ میں نے تیرا مال تیرے نفقہ میں خرچ کردیا، فلاں فلاں چیز میں فلاں فلاں سامان میں ، اگر اتنی مدت میں اتنا مال نفقہ میں خرچ ہوجاتا ہے تو وصی کی تصدیق کردی جائے گی زیادہ میں نہیں ، نفقہ مثل کا مطلب یہ ہے کہ بین بین ہو نہ اسراف نہ تنگی(محیط از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۵)

مسئلہ۱۲۰ـ: وصی نے یہ دعوی کیا کہ اس نے یتیم کو ہر ماہ (۱۰۰)سو روپیے دیئے اور یہ مقررہ تھا اور یتیم نے اس کو ضائع کردیا پھر میں نے اسے اسی ماہ دوسرے سو(۱۰۰) روپے دیئے، اس صورت میں وصی کی تصدیق کی جائے گی جب تک وصی سراسر اور کھلی ہوئی غلط بات نہ کہے مثلاً یہ کہے کہ میں نے اس یتیم کو ایک ماہ میں بہت بار سو(۱۰۰) سو(۱۰۰) روپے دیئے اور اس نے ضائع کردیئے تو ایسی بات وصی کی نہیں مانی جائے گی(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۶)

مسئلہ ۱۲۱: وصی نے یتیم سے یہ کہا کہ تونے اپنے چھٹپن میں اس شخص کا اتنا اتنا مال ہلاک کردیا پھر میں نے اپنی طرف سے ادا کردیا یتیم نے اس کی تکذیب کی اور نہیں مانا تو یتیم کی بات قبول کرلی جائے اور وصی اتنے مال کا ضامن ہوگا(نوازل از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۶)

مسئلہ ۱۲۲: میت کے وصی نے اقرار کیا کہ میت کا فلاں شخص پر جتنا واجب تھا وہ تمام میں نے پورا وصول پایا اور و ہ سو (۱۰۰)روپے تھے، جس پر دین تھا اس نے کہا مجھ پر اس کا ایک ہزار روپے کا دین تھا اور وہ تونے لے لئے تو قرضدار اپنے تمام دین سے بری ہے اب وصی اس سے کچھ بھی نہیں لے سکتا اور وصی ورثہ کے لئے اتنے ہی کا ذمہ دار ہوگا جتنے کے وصول کرنے کا اس نے اقرار کیا(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۷)

مسئلہ ۱۲۳: قرضدار نے اولاً ایک ہزار روپے قرض ہونے کا اقرار کیا پھر وصی نے اقرار کیا کہ جوکچھ اس پر قرض تھا وہ میں نے پورا پالیا اور وہ ایک سو(۱۰۰) روپے تھا اس صو رت میں قرضدار بری ہوگیا اور وصی ورثہ کے لئے باقی نو سو(۹۰۰) روپے کا ضامن ہوگا(عالمگیری ج ۶ ص۱۵۷)

مسئلہ ۱۲۴: وصی نے اقرار کیا کہ اس نے فلاں شخص سے سو (۱۰۰)روپے وصول کرلئے اور یہ کل قیمت ہے، مشتری یعنی خریدار نے کہاکہ نہیں بلکہ قیمت ڈیڑھ سو (۱۵۰)روپے ہے تو وصی کو حق ہے کہ وہ بقیہ پچاس روپے اس سے اور طلب کرے۔(عالمگیری ج ۶ ص ۱۵۷)

مسئلہ۱۲۵: وصی نے اقرار کیا کہ اس نے میت کے گھر میں جو کچھ مال و متاع اور میراث تھی اس پر قبضہ کرلیا، پھر کہا کہ وہ کل سو (۱۰۰) روپے اور پانچ کپڑے تھے اور وارثوں نے دعوی کیا کہ اس سے زیادہ تھا اور ثبوت دیدیا کہ جس دن میت کا انتقال ہوا اس کی میراث اس دن اس گھر میں ایک ہزار روپے اور سو(۱۰۰) کپڑے تھی تو وصی کو اتنا ہی لازم ہے جتنے کا اس نے اقرار کیا ہے(محیط از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۸)

مسئلہ ۱۲۶: وصی نے میت پر دین کا اقرار کیا تو اس کا اقرار صحیح نہیں (ذخیرہ از عالمگیری ج ۶ ص۱۵۸)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button