وصیت کے متعلق متفرق مسائل
مسئلہ ۱: ایک شخص نے قسم کھائی کہ وہ کوئی وصیت نہیں کرے گا پھر اس نے اپنے مرض الموت میں کوئی چیز ہبہ کی یا اس نے اس حالت میں اپنا غلام بیٹا خریدا جو کہ آزاد ہوگیا تو اس کی قسم نہیں ٹوٹی اور وہ حانث نہیں ہوا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۲)
مسئلہ ۲ : ایک مریض نے کچھ وصیتیں کیں لیکن یہ الفاظ نہیں کہے کہ اگر میں اپنے اس مرض سے مر جائوں یا یہ کہ اگر میں اس مرض سے اچھا نہ ہوں تو میری یہ وصیتیں ہیں ، وصیتیں کرنے کے بعد وہ اس مرض سے اچھا ہوگیا اور کئی سال زندہ رہا تو مرض سے اچھا ہونے کے بعد اس کی وصیتیں باطل ہو جائیں گی، (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۳ : مریض نے کہا اگر میں ایسی بیماری سے مر جائوں تو میرے مال سے فلاں کو اتنا روپیہ اور میری طرف سے حج کرایا جائے پھر اپنی بیماری سے اچھا ہوگیا پھر دوبارہ بیمار ہوگیا اور اس نے ان گواہوں سے جن کو پہلی وصیت پر گواہ بنایا تھا، کہا یا دوسرے لوگوں سے کہا ” تم گواہ ہو جائو کہ میں اپنی پہلی وصیت پر قائم ہوں ” تو یہ استحساناً جائز ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۴ : کسی نے وصیتیں کیں اور دستاویز لکھ دی اور اچھا ہوگیا پھر اس کے بعد بیمار ہوا اور کچھ وصیتیں کیں اور دستاویز لکھ دی، اگر اس نے اس دوسری دستاویز میں یہ واضح نہیں کیا کہ اس نے پہلی وصیتوں سے رجوع کر لیا ہے تو ایسی صورت میں دونوں وصیتوں پر عمل کیا جائے گا (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۵: ایک شخص نے وصیت کی پھر اسے وسوسوں اور وہم نے گھیر لیا اور فاتر العقل ہوگیا اور ایک زمانہ تک اسی حالت پر رہا پھر انتقال ہوگیا تو اس کی وصیت باطل ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۶ : ایک شخص نے کسی کو ایک ہزار روپیہ دیا اور کہا کہ یہ فلاں کے لئے ہے جب میں مر جائوں تو اس کو دے دینا پھر مرگیا تو وہ شخص میت کی وصیت کے مطابق وہ ایک ہزار روپے فلاں شخص کو دے گا اور اگر مرنے والے نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ روپے فلاں کے لئے ہیں صرف اتنا کہا کہ اس کو دے دینا پھر وہ مرگیا، اس صورت میں یہ روپیہ فلاں شخص کو نہیں دیا جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۷ : ایک شخص نے کہا کہ یہ روپے یا کپڑے فلاں کو دے دو یہ نہیں کہا کہ یہ اس کے لئے ہیں نہ یہ کہا کہ یہ اس کے لئے وصیت ہے تو یہ باطل ہے، یہ نہ وصیت ہے نہ اقرار (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۸ : ایک شخص نے کچھ وصیتیں کیں ، لوگوں نے اس کی وصیتیں کھوٹے اور ردی درہموں سے پوری کر دیں اس صورت میں اگر وصیت معین لوگوں کے لئے تھی اور وہ علم و اطلاع کے باوجود ان کھوٹے درہموں سے راضی ہیں تو جائز ہے اور اگر غیر معین فقیروں کے لئے وصیت تھی تب بھی جائز ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۹ : ایک شخص نے کچھ وصیتیں کیں اور مختلف سکوں کا چلن ہے تو خرید و فروخت میں جن سکوں کا چلن غالب ہے ان سکوں سے وصیتوں کو پورا کیا جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۱۰ : مریض نے لوگوں سے کہا کہ تو وصیت کیوں نہیں کر دیتا، اس نے کہا کہ میں نے وصیت کی کہ میرے ثلث مال سے نکالا جائے پھر ایک ہزار روپیہ مسکینوں پر صدقہ کر دیا جائے اور ابھی کچھ زیادہ نہ کہہ پایا تھا کہ مرگیا اور اس کا ثلث مال دو ہزار روپے ہے، اس صورت میں صرف ایک ہزار روپیہ صدقہ کیا جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۱۱ : مریض نے اگر یہ کہا کہ میں نے وصیت کی کہ میرے ثلث مال سے نکالا جائے اور کچھ نہ کہہ پایا تو اس کا کل تہائی مال فقیروں پر صدقہ کیا جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۱۲ : مریض نے کہا کہ میں نے فلاں کیلئے اپنے ثلث مال کی وصیت کی جو ایک ہزار ہے لیکن ثلث ایک ہزار سے زیادہ ہے تو امام حسن بن زیاد کے نزدیک موصی لہ کو ثلث مال ملے گا وہ جتنا بھی ہو ۔(عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۱۳ : ایسے ہی اگر یہ کہا کہ میں نے اس گھر سے اپنے حصہ کی وصیت کی اور وہ تہائی ہے پھر دیکھا تو اس کا حصہ نصف تھا تو موصی لہ کو نصف گھر ملے گا اگر نصف گھر میت کے کل مال کا تہائی حصہ یا اس سے کم ہے۔ (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۱۴ : اگر اس نے یہ کہا کہ میں نے فلاں کے لئے ایک ہزار روپے کی وصیت کی اور وہ میرے مال کا دسواں حصہ ہے تو موصی لہ کو صرف ایک ہزار روپیہ ملے گا اس کے مال کا دسواں حصہ کم ہو یا زیادہ ۔(عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۳)
مسئلہ ۱۵ : یہ کہا کہ اس تھیلی میں جو کچھ ہے میں نے فلاں کے لئے وصیت کی اور وہ ایک ہزار درہم ہیں اور یہ ایک ہزار درہم آدھا ہے جو اس تھیلی میں ہے پھر دیکھا تو تھیلی میں تین ہزار درہم ہیں تو موصی لہ کو صرف ایک ہزار ملیں گے اور اگر تھیلی میں ایک ہزار ہی ہیں تو وہ کل موصی لہ کو ملیں گے، اور اگر تھیلی میں صرف پانچ سو درہم تھے تو موصی لہ کو یہی ملیں گے اس کے علاوہ نہیں ، اور اگر تھیلی میں درہم نہیں ہیں بلکہ جواہرات اور دینار ہیں تو مناسب ہے کہ موصی لہ کو اس سے ایک ہزار روپے دیئے جائیں (فتاوی قاضی خان از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۱۶ : مریض نے کہا کہ جو کچھ اس گھر میں ہے میں نے اس تمام کی وصیت کی اور وہ ایک پیمانہ کھانا ہے پھر دیکھا تو اس میں کئی پیمانے کھانا ہے اور اس میں گیہوں اور جو بھی ہیں تو یہ سب موصی لہ کے لئے ہیں اگر ثلث مال کے اندر اندر ہیں (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۱۷ : اگر کسی نے مخصوص اور معین ایک ہزار درہم صدقہ کرنے کی وصیت کی اور وصی نے ان کے بدلے متوفی موصی کے مال سے دوسرے ایک ہزار درہم صدقہ کر دیئے تو جائز ہے لیکن اگر وصی کے صدقہ کرنے سے پہلے ہی وہ پہلے والے معین درہم ضائع ہوگئے اور وصی نے موصی کے اور مال سے ایک ہزار درہم صدقہ کر دیئے تو وصی ایک ہزار درہم کا ورثہ کے لئے ضامن ہے اور اگر موصی نے ایک ہزار معین درہم صدقہ کرنے کی وصیت کی پھر وہ ہلاک ہوگئے تو وصیت باطل ہو جائے گی (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۱۸ : ایک آدمی نے وصیت کی کہ اس کے مال میں سے کچھ حاجی فقیروں پر صرف کیا جائے تو اگر وہ مال حاجی فقیروں کے سوا دوسرے فقیروں پر صدقہ کر دیا جائے تو جائز ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۱۹ : ایک آدمی نے اپنے ثلث مال کو صدقہ کرنے کی وصیت کی پھر وصی سے کسی نے اس مال کو غصب کر لیاچھین لیا اور اس مال کو ہلاک کر دیا اب وصی یہ چاہتا ہے کہ وہ اس مال کو اس غاصب پر ہی صدقہ کر دے اور غاصب یعنی مال چھیننے والا بھی غریب و تنگدست ہے تو یہ جائز ہے (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
ٖمسئلہ ۲۰ : ایک شخص کو حرام مال ملا اس نے وصیت کی کہ اسے مال کے مالک کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے اگر مال کا مالک معلوم ہے تو یہ مال اسے واپس کیا جائے گا اور اگر معلوم نہیں تو اس کی طرف سے صدقہ کر دیا جائے گا اور اگر موصی کے ورثہ نے اس کے اس اقرار کو (یہ حرام مال ہے) جھٹلایا اور نہ مانا تو وصیت کے مطابق اس میں سے ایک تہائی صدقہ کر دیا جائے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۲۱ : ایک آدمی نے اپنے ثلث مال کی مسکینوں کے لئے وصیت کی اور وہ اپنے وطن سے باہر کسی دوسرے شہر میں ہے اگر مال اس کے ساتھ ہے تو جس شہر میں وہ ہے وہ مال اسی شہر کے مسکینوں پر خرچ کیا جائے گا اور اس کا جو مال اس کے وطن میں ہے وہ وطن کے فقیروں و مسکینوں پر خرچ ہوگا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۲۲ : اگر کسی نے وصیت کی کہ اس کا ثلث مال فقرائے بلخ پر صدقہ کیا جائے تو افضل یہ ہے کہ ان پر ہی خرچ کیاجائے اور اگر وہ مال ان کے علاوہ دوسروں پر صدقہ کر دیا تو جائز ہے، امام ابو یوسف کے نزدیک اسی پر فتوی ہے (شرنبلالیہ خلاصہ درمختار از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۲۳: یہ وصیت کی کہ اس کا مال دس دن میں خرچ کر دیا جائے اس نے ایک ہی دن میں خرچ کر دیا تو جائز ہے (نوازل از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۲۴ : اگر یہ وصیت کی کہ ہر فقیر کو ایک درہم دیا جائے، وصی نے ہر فقیر کو آدھا درہم دیا پھر آدھا درہم اور دے دیا اور اس وقت تک فقیر نے آدھا خرچ کر لیا تھا تو جائز ہے وصی ضامن نہ ہوگا (نوازل و خلاصہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۴)
مسئلہ ۲۵ : موصی نے وصیت کی کہ میری طرف سے کفارہ میں دس مسکین کھلا دیئے جائیں ، وصی نے دس مسکینوں کو صبح کا کھانا کھلایا پھر دسوں مرگئے تو وصی دوسرے دس کو صبح و شام کا کھانا کھلائے گا اور اس پر ضمان نہیں ، اور اگر اس نے یہ کہا کہ میری طرف سے دس مسکینوں کو صبح و شام کا کھانا کھلا دیا جائے کفارہ کا ذکر نہیں کیا اور وصی نے دس مسکینوں کو صبح کا کھانا کھلایا تھا کہ وہ مرگئے تو اس صورت میں بھی مفتی بہ یہی ہے کہ وصی دوسرے دس مسکینوں کو صبح و شام کا کھانا کھلائے گا اور پہلے دس کے کھلانے کا تاوان نہ دے گا (خزانتہ المفتیین از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۵)
مسئلہ ۲۶ : ایک آدمی نے وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد تین سو قفیز گیہوں صدقہ کیا جائے (قفیز گیہوں ناپنے کے ایک پیمانہ کا نام ہے) وصی نے موصی کی زندگی ہی میں دو سو قفیز گیہوں صدقہ میں تقسیم کر دیئے تو وصی اس کا ضامن ہوگا موصی کے مرنے کے بعد حاکم کے حکم سے تقسیم کرے، اگر اس نے موصی کی موت کے بعد بغیر حاکم کے حکم تقسیم کر دیئے تب بھی وہ تاوان دینے سے نہ بچے گا اور اگر موصی کے انتقال کے بعد وصی نے ورثہ کے حکم سے تقسیم کئے تو اگر ورثہ میں نابالغ بھی ہیں تو ان کا حکم کرنا جائز نہیں ، اگر سب بالغ ہیں تو حکم صحیح ہے اگر تقسیم کر دے گا تو اس پر تاوان نہیں ، اگر ورثہ میں نابالغ بھی ہیں اور بالغ ورثہ نے گیہوں تقسیم کرنے کا حکم دیا تو یہ بالغوں کے حصہ میں صحیح اور نابالغوں کے حصہ میں صحیح نہ ہوگا (فتاوی قاضی خاں از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۵)
مسئلہ ۲۷ : یہ وصیت کی کہ میرے مال سے گیہوں اور روٹی خریدی جائے اور انھیں مسکینوں پر صدقہ کیا جائے تو اگر موصی نے گیہوں اور روٹی اٹھا کر لانے والے حمالوں (بوجھ برداروں ) کی اجرت دینے کی بھی وصیت کی تو وہ متوفی موصی کے مال سے دی جائے گی اور اگر موصی نے اپنی وصیت میں اس اجرت کے دینے کو نہیں کہا تو ایسی صورت میں وصی کے لئے مناسب ہے کہ وہ ایسے لوگوں سے اٹھوا کر لائے جو بغیر اجرت کے اٹھا لائیں پھر اس گیہوں اور روٹی میں سے بطور صدقہ کچھ دے دے اور اگر موصی نے یہ وصیت کر دی تھی کہ ان کو مساجد میں لے جایا جائے تو اس کی اجرت متوفی موصی کے مال سے ادا کی جائے گی (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۵)
مسئلہ ۲۸ : موصی نے ایک شخص کو وصیت کی اور اسے اپنا ثلث مال صدقہ کرنے کا حکم دیا تو اگر اس شخص نے وہ مال خود ہی رکھ لیا تو جائز نہیں لیکن اگر اس نے اپنے بالغ بیٹے کو دیا یا ایسے چھوٹے بیٹے کو دیا جو قبضہ کرنا جانتا ہے تو جائز ہے اور اگر وہ چھوٹا بیٹا قبضہ کرنا نہیں جانتا تو جائز نہیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۵)
مسئلہ ۲۹ : بادشاہ کے عامل (محاصل وصول کرنے والے)سے وصیت کی کہ فقیروں کو اس کے مال سے اتنا اتنا دے دیا جائے تو اگر یہ معلوم ہے کہ اس کا مال اس کا نہیں دوسرے کا ہے تو اس کا لینا حلال نہیں اور اگر اس کا مال دوسرے کے مال سے ملا جلا ہے تو اس کا لینا جائز ہے بشرط یہ کہ متوفی موصی کا بقیہ مال اس قدر ہو کہ اس سے دعویداروں کے مطالبات ادا ہو جائیں (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۵)
مسئلہ ۳۰ : ایک شخص نے اپنے ثلث مال کی فقراء کے لئے وصیت کی اور وصی نے وہ مال لاعلمی میں اغنیاء کو دے دیا تو یہ جائز نہیں وصی فقراء کو اتنا مال دینے کا ضامن ہے (تاتار خانیہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۵)
مسئلہ ۳۱ : ایک شخص کے پاس سو درہم نقد ہیں اور سو درہم کسی اجنبی پر ادھار ہیں اس نے ایک آدمی کے لئے اپنے ثلث مال کی وصیت کی تو موصی لہ نقد مال کا ثلث لے لے گا (ظہیریہ از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۶)
مسئلہ ۳۲ : ایک شخص کا کسی آدمی پر ادھار تھا اس نے وصیت کی کہ اسے ثواب کے کاموں میں صرف کیا جائے تو اس وصیت کا تعلق صرف ادھار سے ہے اگر موصی نے اپنے ادھار میں سے کچھ حصہ مقروض کو ہبہ کر دیا تو جس قدر ہبہ کر دیا اتنے مال میں وصیت باطل ہے (فتاوی الفضلی از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۶)
مسئلہ ۳۳ : اپنے جسم کے سامان کی وصیت کی تو اس میں ٹوپی، موزے، لحاف، بستر، قمیص، فرش اور پردے شامل ہیں (سیر از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۶)
ٖمسئلہ ۳۴ : حریر کے جبہ کی وصیت کی اور موصی کا ایک جبہ ہے جس کا بالائی کپڑا بھی حریر ہے اور استر بھی حریر ہے تو وہ وصیت میں شامل ہے اور اگر بالائی حصہ حریر ہے اور استر غیر حریر تب بھی وصیت میں داخل ہے اور اگر استر حریر ہے اور بالائی کپڑا حریر نہیں تو موصی لہ کو نہیں ملے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۶)
مسئلہ ۳۵ : اگر زیورات کی وصیت کی تو اس میں ہر وہ چیز داخل ہے جس پر زیور کا لفظ بولا جائے خواہ یاقوت و زمرد سے جڑائو ہو یا نہ ہو، اور یہ سب موصی لہ کو ملے گا (عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۶)
مسئلہ ۳۶ : زیور کی وصیت کی تو اس میں سونے کی انگوٹھی داخل ہے اور اس میں چاندی کی وہ انگوٹھی بھی داخل ہے جو عورتیں پہنتی ہیں لیکن اگر چاندی کی انگوٹھی ایسی ہے جس کو مرد پہنتے ہیں وہ اس میں داخل نہیں اور اگر لولو اور زمرد وغیرہ چاندی سونے کے ساتھ مرکب ہیں تو یہ بھی زیور میں داخل ہیں ورنہ نہیں (محیط از عالمگیری ج ۶ ص ۱۳۶)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔