الاستفتاء : کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ میرے والدین حج پرجانے کاارادہ رکھتے تھے لیکن کرونا کے باعث حج پرروانگی نہیں ہوسکی اوراسی سال میرے والدصاحب کاانتقال ہوگیا،معلوم کرنے پرپتاچلاکہ حج بدل کرواناہوگاواضح رہے کہ والدین نے انتقال سے پہلے حج بدل کی وصیت نہیں کی تھی۔(سائل : نعیم،گارڈن،کراچی)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں ورثاء پراپنے والدین کی طرف سے حج بدل کروانا لازم نہیں ہے کیونکہ انہوں نے وفات سے قبل وصیت نہیں کی ہے ،لیکن وارثین کرواناچاہیں توعنداللہ ماجورہوں گے اورامیدہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی طرف سے حج قبول فرمالے اوراس پرسے فرض حج کوساقط فرمادے یادرہے کہ جس پرحج فرض ہوجائے اوروہ حج ادانہ کرے اورحج کی وصیت کئے بغیرفوت ہوجائے تووہ عنداللہ گنہگارہوتاہے کیونکہ حدیث شریف میں ایسے شخص کے لئے وعیدائی ہے ۔ چنانچہ امام ابوعیسیٰ محمدبن عیسیٰ ترمذی متوفی279ھ اپنی سندکے ساتھ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ” من ملك زادًا وراحلةً تبلغه الى بيت الله ولم يحج فلا عليه ان يموت يهوديا، او نصرانيا”۔( ) یعنی،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : جس شخص کے پاس سفرحج کاسامان اور سواری ہوجواسے خانہ کعبہ تک پہنچادے پھروہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی ہوکرمرے یاعیسائی ہوکر۔ اوراگرایسے شخص کی جانب سے اس کاوارث خودحج کرے یاکروائے توفقہائے کرام نے اسے جائزقراردیاہے اورامیدکی ہے کہ اللہ تعالیٰ مرنے والے کی طرف سے اسے قبول فرمالے ۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993ھ اورملاعلی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں اوران کے حوالے سے علامہ سیدمحمدامین ابن عابدین شامی حنفی متوفی1252ھ لکھتے ہیں : (وان لم یوص بہ) ای بالاحجاج (فحج) ای الوارث (بنفسہ) ای عنہ (او احج عنہ غیرہ جاز) ای ذلک التبرع او الحج او الاحجاج او ما ذکر جمیعہ، والمعنی : جاز عن حجۃ الاسلام ان شاء اللہ تعالیٰ، کما قال فی ’’الکبیر‘‘۔ملخصا [واللفظ للسندی وللقاری] ( ) یعنی،اگرمیت نے حج بدل کروانے کی وصیت نہ کی تھی،لیکن اس کے وارث نے اس کی طرف سے حج کیایادوسرے سے کروایاتویہ جائزہے یعنی یہ تبرع یاحج کرنایاکروانا،یامذکورہ تمام صورتیں ،اورمعنی یہ ہے کہ ان شاءاللہ فرض حج اداہوجائے گاجیساکہ’’ کبیر‘‘( ) میں فرمایاہے ۔ اورعلامہ نظام الدین حنفی متوفی1161ھ اورعلمائے ہندکی ایک جماعت نے لکھاہے : لا یجوزحج الغیرعنہ بغیرامرہ الا الوارث یحج عن مورثہ بغیر امرہ فانہ یجزیہ۔( ) یعنی،کسی کی اجازت کے بغیراس کی طرف سے حج بدل ادانہیں ہوگامگروارث کہ وہ اپنے مورث کی طرف سے بغیراس کی اجازت کے حج کرے تواداہوجائے گا۔ اسی بناپرفقہائے کرام نے بھی ایسے شخص کوگناہگارلکھاہے ۔چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اورعلمائے ہندکی ایک جماعت نے لکھاہے : من علیہ الحج اذا مات قبل ادائہ فان مات عن غیر وصیۃٍ یاثم بلا خلافٍ۔( ) یعنی،جس پرحج فرض ہواوروہ اسے اداکرنے سے پہلے بغیروصیت کئے فوت ہوجائے تووہ بغیرکسی اختلاف کے گنہگارہوگااوراگر اس شخص کاوارث اپنے مورث کی طرف سے حج کرناچاہے توکرے اوران شاءاللہ امیدہے کہ فرض حج اداہوجائے گا،ایساہی امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذکرفرمایاہے ۔ اورامام اہلسنت امام احمدرضاخان حنفی متوفی1340ھ لکھتے ہیں : یہ حج بامرمحجوع عنہ ہوبلااجازت دوسرے کی طرف سے حج کافی نہ ہوگامگرجبکہ وارث اپنے مورث کی طرف سے حج کرے یاکرائے لقیامہ مقامہ خلافۃ۔( )
اورصدرالشریعہ محمدامجدعلی اعظمی حنفی متوفی1367ھ لکھتے ہیں : جس پر حج فرض ہے اورنہ ادا کیا نہ وصیت کی تو بالا جماع گنہگار ہے ، اگر وارث اس کی طرف سے حج بدل کرانا چاہے تو کرا سکتا ہے ۔ان شاء اﷲتعالیٰ امید ہے کہ ادا ہو جائے اور اگر وصیت کر گیاتوتہائی مال سے کرایا جائے اگرچہ اس نے وصیت میں تہائی کی قید نہ لگائی۔مثلا یہ کہہ مراکہ میری طرف سے حج بدل کرایا جائے ۔( ) اورحج بدل کیلئے کسی ایسے شخص کوبھیجنابہترہے جس نے پہلے خودفرض حج اداکیاہو۔چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اور ملاعلی قاری لکھتے ہیں : (ولا یشترط لجواز الاحجاج ان یکون الحاج المامور قد حج عن نفسہ) ای عندنا وعند مالکٍ (فیجوز حج الصرورۃ) بفتح الصاد المھملۃ وضم الراء الاولیٰ : وھو الذی لم یحج عن نفسہ (الا ان الافضل) کما قال فی البدائع (ان یکون قد حج عن نفسہ) ای للخروج عن الخلاف الذی ھو مستحب بالاجماع، ولانہ بالحج عن غیرہ یصیر تارکا لاسقاط الفرض عن نفسہ، فیتمکن فی ھذا الاحجاج ضرب کراھۃٍ، ولانہ اعرف بالمناسک فکان افضل۔ قال ابن الھمام : ان حج الصرورۃ عن غیرہ ان کان بعد تحقق الوجوب علیہ بملک الزاد والراحلۃ والصحۃ، فھو مکروہ کراھۃ تحریمٍ۔ملخصا ( ) یعنی،ہمارے اورامام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک حج بدل کے جوازکیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ جسے بھیجاجائے اس نے اپنی طرف سے حج کیاہو،لہٰذاجس نے خودحج نہیں کیاہے اسے بھیجنے سے بھی حج بدل ہوجائے گالیکن بہتریہ ہے کہ حج بدل کیلئے ایساشخص بھیجا جائے جوخودفرض حج اداکرچکاہو،جیساکہ’’بدائع الصنائع‘‘( )میں ہے یعنی اختلاف سے نکلنے کیلئے اوریہ بالاجماع مستحب ہے ،اوراس لئے کہ جب وہ دوسرے کی طرف سے حج کرے گاتووہ اپنی طرف سے فرض کے ساقط کرنے کوچھوڑنے والاہوجائے گا، لہٰذا اس کے ذریعے حج کروانے میں ایک طرح کی کراہت پیداہوجائے گی،اوراس لئے کہ جس نے پہلے خودحج کیاہوگاوہ مناسک حج کوزیادہ جاننے والاہوگا،لہٰذاحج بدل کیلئے وہی افضل ہے اورعلامہ ابن ہمام علیہ الرحمہ نے فرمایا( ) کہ جس پرخودحج فرض ہواسے حج بدل کیلئے بھیجنا مکروہ تحریمی ہے ۔ اورصدرالشریعہ لکھتے ہیں : بہتر یہ ہے کہ حج بدل کے لیے ایسا شخص بھیجا جائے جو خود حجۃ الاسلام(حج فرض) ادا کرچکا ہو اور اگر ایسے کوبھیجا جس نے خود نہیں کیا ہے ، جب بھی حج بدل ہو جائے گا۔اور اگر خود اس پر حج فرض ہو اور ادانہ کیا ہو تو اسے بھیجنا مکروہ تحریمی ہے ۔( ) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ہفتہ،8/شعبان المعظم،1443ھ۔11/مارچ،2022م