ARTICLESشرعی سوالات

نیو منیٰ میں خیمے لینا کیسا ہے ؟

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ گروپ آپریٹروں کا نیو منیٰ میں خیمے لینا کیسا ہے اور اس سے حجاج کرام کے کتنے مناسک ترک ہوں گے اور حاجیوں کا وہاں قیام کرنا کیا ہے اور پھر کسی شخص کا نیو منیٰ کے قیام کے فوائد بتا کر اُس کی طرف رغبت دلانا شرعاً کیسا ہے اور منیٰ کی حُدود کیا ہے اور نیو منیٰ کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟

جواب

متعلقہ مضامین

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : نیو منیٰ(یہ عوام الناس کی اصطلاح ہے اس کی شرعاً کوئی حیثیت نہیں ) میں خیمہ لینے سے اجتناب کرنا چاہئے کہ اس سے حج کی تین مؤکّدہ سنتوں کے ترک ہونے کا سامان ہوتا ہے ، ایک ایام رمی کی راتوں کا قیام، دوسری آٹھ تاریخ کو منیٰ میں ظہر سے نمازیں اور نو (9) کی رات کا قیام اور تیسری اس صبح طلوعِ آفتاب سے قبل مزدلفہ سے منیٰ کی روانگی ۔ اور اب ہر ایک کے سنّت ہونے پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے ۔ 1۔ ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا سنّت مؤکّدہ ہے ، چنانچہ حدیث شریف ہے کہ

عن عائِشَۃَ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قَالتْ : أَفَاضَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنْ آخِرِ یَوْمِہٖ حِیْنَ صَلَّی الظُّہْرَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلٰی مِنیً، فَمَکَثَ بِہَا لَیَالِیَ أَیَّامِ التَّشْرِیْقِ۔ الحدیث

یعنی، اُمّ المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے آپ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس دن میں جس وقت ظہر ادا فرمائی، طوافِ افاضہ فرمایا پھر منیٰ کو لوٹے ، پس تشریق کے ایام کی راتیں وہیں قیام فرمایا۔ اس حدیث شریف کو امام ابو داؤد نے ’’سُنَن أبی داؤد‘‘ (123) میں ، امام ابن خزیمہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ (124) میں ، امام ابن حبان نے اپنی ’’صحیح‘‘ (125) میں ، امام ابو یعلیٰ موصلی نے اپنی ’’مسند‘‘ (126) میں ، امام احمد نے اپنی ’’مسند‘‘ (127) میں ، امام دار قطنی نے اپنی ’’سُنن‘‘ (128) میں ، امام ابو جعفر طحاوی نے ’’شرح مُشکل الآثار‘‘ (129) میں ، امام حاکم نے ’’المستدرک‘‘ (130) میں ، امام ابن الجارود نے ’’کتاب المنتقی‘‘ (131) میں ، امام بیہقی نے ’’السُّنن الکبریٰ‘‘ (132) میں روایت کیا ہے ۔

عن عروۃ فی البیتوتۃ بمکّۃ أیام منیً قال : لَا یَبِیْتَنَّ أحدٌ إلاَّ بِمِنیً أخرجہ سعید (133)

یعنی، حضرت عروہ (تابعی) سے ایام منیٰ مکہ مکرمہ میں گزارنے کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے فرمایا کوئی بھی ہرگز مکہ مکرمہ میں راتیں نہ بسر کرے ۔

و عن إبراہیم لا بأس بأن یزورَ البیتَ لیلاً، و لٰکن لا یبیتنّ بمکّۃ (134)

یعنی، ابراہیم نخعی (تابعی) سے مروی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ رات میں کعبہ کا طواف کرے لیکن (ایسا شخص) مکہ میں ہرگز رات نہ گزارے ۔ امام مالک اور امام بیہقی کی روایت ہے کہ

قال عبدُ اللہِ بن عمرَ : قال عمرُ بنُ الخطّابِ رضی اللہ عنہ : لَا یَبِیْتَنَّ أَحَدٌ مِنَ الْحَاجِّ لَیَالِیْ مِنًی مِنْ وَرَائِ الْعَقَبَۃَ (135)

و عن ابنِ عمرَ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : قال عمر : لاَ یَبِیْتَنَّ أَحَدٌ مِنَ الْحَاجِّ وَرَائَ الْعَقَبَۃِ حَتّٰی یَکُوْنُوْا بِمِنًی (136)

یعنی، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کوئی بھی حاجی ہرگز (جمرہ) عَقَبہ کے پیچھے رات نہ گزارے یہاں تک کہ وہ منیٰ میں ہوں ۔

عن ابنِ عباسٍ : لاَ یبِیْتَنَّ مِنْ وَرَائِ الْعَقَبَۃِ مِنْ مِنًی لَیْلاً (137)

یعنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حاجی ہرگز منیٰ کی رات (جمرہ) عَقَبہ کے پیچھے نہ گزارے ۔

عن ہشام بن عروۃ، عن أبیہ، أَنَّہٗ قَالَ فِی البَیْتُوْتَہِ بِمَکَّۃَ لَیَالِیْ مِنًی : لَا یَبِیْتَنَّ أَحَدٌ إِلاَّ بِمِنًی (138)

یعنی، ہشام بن عروہ سے مروی وہ اپنے والد (حضرت عروہ بن زبیر)سے روایت کرتے ہیں ، آپ نے منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کے بارے میں فرمایا کوئی حاجی (یہ راتیں ) نہ گزارے مگر منیٰ میں ۔ شارح صحیح بخاری علامہ بدر الدین حنفی متوفی 855ھ اِس حدیث شریف کے تحت لکھتے ہیں :

قال النّووی : ہذا یدلُّ علی مسألتَین : إحداہماأنَّ المبیتَ بمنیً لیالی أیّام التّشریق مأمورٌ بِہ، و ہل ہو واجبٌ أو سنّۃٌ؟ قال أبوحنیفۃَ : سنّۃٌ و الآخرون : واجبٌ، و الثّانیۃ : یجوز لأہل السّقایۃ أن یترکوا ہذا المبیتَ و یذھبوا إلی مکَّۃَ یستقوا باللّیل الماء من زمزم (139)

یعنی، ’’امام نووی‘‘ نے فرمایا یہ حدیث دو مسئلوں پر دلالت کرتی ہے ایک یہ کہ ایام تشریق میں منیٰ میں رات گزارنے کا حکم دیا گیا ہے (اب سوال یہ ہے کہ ) کیا یہ واجب ہے یا سنّت؟ تو ’’امام ابو حنیفہ‘‘ نے فرمایا سنّت (مؤکّدہ) ہے اور دوسروں نے فرمایا کہ واجب، دوسری یہ کہ اہلِ سقایہ کے لئے جائز ہے کہ اس رات گزارنے (یعنی ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنے ) کو چھوڑ دیں اور مکہ چلے جائیں تاکہ رات میں مکہ میں زمزم پلائیں ۔ اور حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852ھ نے اِس حدیث شریف کے تحت لکھا ہے :

و فی الحدیثِ دلیلٌ علی وُجوبِ المبیتِ بمنیً و أنَّہ من مناسکِ الحجِّ، لأَنَّ التّعبیرَ بالرّخصۃِ یقتضِی أَنَّ مقابلتَہا عزیمۃٌ، و أَنَّ الإذنَ وقع للعلّۃِ المذکورۃِ و إذا لم تُوجدْ أو ما فی معناہُ لم یحصلِ الإِذنُ و بالوجوبِ قال الجمہورُ : و فی قولٍ للشّافعی، و روایۃٍ عن أحمد و ہو مذہبُ الحنفیّۃِ أَنَّہ سنّۃٌ (140)

یعنی، حدیث شریف میں منیٰ میں رات گزارنے کے واجب ہونے کی دلیل ہے اور اس لئے کہ یہ رات گزارنا مناسکِ حج سے ہے کیونکہ رُخصت کے ساتھ تعبیر اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اِس کا مقابل عزیمت ہے اور اجازت علّتِ مذکورہ کی وجہ سے واقع ہوئی ہے اور جب مذکورہ علّت یا جو اِس کے معنی میں ہے نہ پائی گئی تو اجازت نہیں پائی جائے گی، اور منیٰ میں رات گزارنے کا قول جمہور فقہاء نے کیا ہے اور امام شافعی سے ایک قول اور امام احمد سے ایک روایت میں ہے اور یہی حنفیہ کا مذہب ہے کہ منیٰ میں رات گزارنا سنّت ہے ۔ اور اِس حدیث شریف کے تحت شارح صحیح مسلم امام ابو العباس احمد بن عمر قرطبی متوفی 656ھ لکھتے ہیں کہ

المبیتُ بمنیً لیالی أیّام التَّشریقِ مِن سُنَنِ الحجِّ بلا خلافٍ إِلاَّ لِذَوِی السّقایۃِ أو لِلرُّعاۃِ (141)

یعنی، ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنا بلا خلاف سُننِ حج سے ہے سوائے اہلِ سقایہ اور چرواہوں کے ۔ اور امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی 676ھ نے اس حدیث شریف کے تحت لکھا کہ

و الثّانی : سنّۃٌ و بہ قال ابنُ عباسٍ و الحسنُ و أبو حنیفۃَ (142)

یعنی، دوسرا یہ کہ سنّت ہے اور یہی حضرت ابن عباس، حسن بصری اور ابو حنیفہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا۔ اور اگر کوئی شخص ایام منیٰ میں رات گزارنے کے لئے منیٰ سے باہر بیٹھ جاتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُسے منیٰ کے اندر رات بسر کرنے کا حکم فرماتے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں کہ

وَ کَانَ یَبْعَثُ مَنْ یُدْخِلُ مَنْ یَنْزِلُ مِنَ الْأَعْرَابِ وَرَائَ الْعَقَبَۃِ حَتّٰی یَکُوْنُوْا بِمِنًی أخرجہ مالک و الأرزقی (143)

یعنی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شخص کو بھیجتے جو اُن اعرابیوں کو منیٰ میں داخل کرے جو (جمرہ) عَقَبہ کے پیچھے (رات گزارنے کے لئے ) اُترے ہیں ۔ اس کی تخریج امام مالک (144) اور ازرقی (145) نے فرمائی ہے ۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان میں سے جنہیں منیٰ سے باہر رات گزارنا ضروری ہوتا وہ حضور ﷺ سے اس کی اجازت لیتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اجازت طلب کرنا ایام تشریق کی راتیں منیٰ میں گزارنے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے جیسا کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذمے زم زم پلانے کی ذمہ داری تھی اس لئے وہ یہ راتیں منیٰ میں بسر نہیں کر سکتے تھے تو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے اجازت چاہی چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

عن ابن عمر رضی اللہ عنہما أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ رضی اللہ عنہ اسْتَأْذَنَ النَّبِیَّ ﷺ لِیَبِیْتَ بِمَکَّۃَ لَیَالِیْ مِنًی، مِنْ أَجْلِ سِقَایَتِہِ فَأَذِنَ لَہٗ (146)

یعنی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سقایہ کی وجہ سے نبی ﷺ سے منیٰ کی راتیں مکہ میں گزارنے کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی۔ اسی طرح نبی کریم ﷺ نے دیگر ضرورتمندوں کو رُخصت مرحمت فرمائی جیسے چرواہے کیونکہ منیٰ میں جانوروں کے چارے کا کوئی سامان نہ تھا چنانچہ شیخ وہبی سلیمان نے نقل کیا :

لأنَّ وادی منیً لا نباتَ فیہ، ولو باتُوا لھلکتْ مواشِیہم (147)

یعنی، کیونکہ وادی منیٰ میں سبزہ نہیں ہے اگر وہ وہاں رات گزاریں تو اُن کے مواشی ہلاک ہو جائیں گے ۔ کیونکہ چرواہوں کا جانور لے کر منیٰ سے باہر جانا ضروری تھا اس لئے نبی کریم ﷺ نے انہیں اجازت مرحمت فرمائی ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے :

عن البدّاح عن أبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما قال : رَخَّصَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِرِعَائِ الْإِبِلِ فِی الْبَیْتُوْتَۃِ الحدیث (148)

یعنی، بدّاح روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے منیٰ میں رات گزارنے میں اونٹوں کے چرواہوں کو رُخصت مرحمت فرمائی۔ اِس روایت کے تحت مُحقِّق سُنَن أبی داؤد عزت عبید الدّعاس نے لکھا کہ

ہذا رخصۃٌ رخّصہا رسول اللہ ﷺ للرّعاء، لأَنَّہم مُضطُّرون إلی حفظِ أموالِہم، فلو أخذُوا بالمقام و المبیتِ بمنیً ضاعتْ أموالُہم و لیس حکمُ غیرِہم فی ہذا کحُکمِہم (149)

یعنی، یہ وہ رُخصت ہے جو رسول اللہ ﷺ نے چرواہوں کو عنایت فرمائی کیونکہ وہ اپنے اموال کی حفاظت کے لئے مجبور تھے اگر وہ منیٰ میں ٹھہرے رہتے تو اُن کے اموال ضائع ہو جاتے اور اُن کے غیر کا حکم اُن کے حکم کی مثل نہیں ہے ۔ جن لوگوں کا عُذر واقعی صالح عُذر تھا نبی ﷺ سے وہ لوگ اجازت مُتمنّی ہوئے اور انہیں اجازت ملی اور صحابہ کرام علیہم الرضوان نے مذکورہ بالا اَعذَار کے علاوہ جب کوئی دوسرا صالح عُذر پایا تو منیٰ کی بجائے مکہ مکرمہ میں رات گزرانے کی رُخصت دی جیسے مال کی حفاظت چنانچہ حدیث شریف ہے کہ

عن أبی حُریز أنہ سمِعَ عبد اللہ بن فرُّوخ یسألُ ابنَ عُمرَ قال : إِنَّا نَتَبَایَعُ بِأَمْوَالِ النَّاسِ، فَیَأْتِیْ أَحْدُنَا مَکَّۃَ، فَیَبِیْتُ عَلَی الْمَالِ، فَقَالَ : أَمَّا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَقَدْ بَاتَ بِمنًی وَ ظَلَّ (150)

یعنی، ابو حُریز سے مروی ہے انہوں نے عبداللہ بن فروخ کو حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوال کرتے ہوئے سُنا کہ آپ نے فرمایا ہم لوگوں کے مال بیچا کرتے پس ہم میں کا ایک مکہ مکرمہ آتا اور مال پر رات گزارتا ہے تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب میں ارشاد فرمایا مگر رسول اللہ ﷺ نے تو منیٰ میں رات بسر فرمائی اور وہیں رہے ۔ اِس لئے شوافع کے نزدیک اگر تینوں راتوں کا قیام ترک کیا تو دَم واجب ہوگا اور ایک رات کا قیام ترک کیا تو ایک تہائی دَم اور امام مالک کے نزدیک ایک رات کے قیام کے ترک میں کامل دَم لازم ہے جیسا کہ ’’القِری لقاصد أمّ القُری‘‘ (151) میں ہے ۔ اور یہ وُجوبِ دَم کا حکم اُن کے نزدیک غیر معذور کے لئے ہے اور اگر معذور ہے تو اس پر دَم واجب نہ ہو گا چنانچہ شیخ وہبی سلیمان نے ’’المجموع‘‘ (8/190) کے حوالے سے لکھا :

قال الإمام النّووی رحمہ تعالیٰ : الأصحُّ المبیتُ بمنیً لغیرِ المعذورِ واجبٌ، و إنْ تَرَکَ مبیتَ اللّیالی وجبَ علیہ دمٌ (152)

یعنی، ’’امام نووی‘‘ علیہ الرحمہ نے فرمایا صحیح ترین قول یہ ہے کہ منیٰ میں رات گزارنا غیر معذور کے لئے واجب ہے اگر اُس نے منیٰ کی راتوں کا قیام (منیٰ میں ) ترک کر دیا تو اُس پر یہ دَم واجب ہے ۔ اور امام مالک کے نزدیک غیر معذور کو ایام منیٰ کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب ہے ترک کی صورت میں دَم لازم ہے اور امام احمد سے اِس بارے میں دو روایتیں ہیں ایک وجوب کی اور دوسری سنّت ہونے کی (153) اور احناف کے نزدیک ایام منی کی راتیں منیٰ میں گزارنا غیر معذور کے لئے سنّت مؤکّدہ ہے اور اس کا بلا عُذر ترک مکروہ ہے چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

لما روی أَنَّ النّبیّ ﷺ بات بمنیً لیالی الرَّمی و ہذہ البیتوتۃُ سنّۃٌ عندنا (154)

یعنی، اس لئے کہ مروی ہے کہ بے شک نبی کریم ﷺ نے رمی کی راتیں منیٰ میں گزاریں اور یہ راتیں منیٰ میں گزارنا ہمارے نزدیک سنّت (مؤکّدہ) ہے ۔ محرر مذہب نعمانی امام محمد بن حسن شیبانی متوفی 189ھ لکھتے ہیں :

و إنْ کان أیام منیً بمکۃ غیر أنَّہ کان یأتی منیً فیرمی الجمارَ، قال : قد أَسَائُ و لَیسَ علیہ شیئٌ (155)

یعنی، اگر ایام منیٰ میں مکہ مکرمہ میں ہے سوائے اس کے کہ وہ منیٰ آتا ہے اور رمی کرتا ہے ، فرمایا اُس نے اسائت کی اور اُس پر (جرمانے وغیرہ سے ) کوئی شئے لازم نہیں ۔ اور شمس الائمہ امام شمس الدین ابو بکر محمد سرخسی متوفی 483ھ امام محمد کی مندرجہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

لأنَّہ ما تَرکَ إلاّ السُّنَّۃَ و ہی البیتوتۃُ بمنیً فی لیالی الرَّمی (156)

یعنی، (دم وغیرہ لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ) اُس نے نہیں چھوڑا مگر سنّت کو، اور منیٰ کی راتیں منیٰ میں گزارنا سنّت ہے ۔ اور امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی حنفی متوفی 321ھ لکھتے ہیں :

و مَن باتَ فی غیرِ منیً فی أیّام الرَّمی کا ن مُسیئاً و لا شیئَ علیہ (157)

یعنی، جس نے ا یام تشریق میں راتیں غیر منیٰ میں گزاریں وہ اسائت کرنے والا ہے اور اُس پر (جُرمانے وغیرہ سے ) کوئی شئے لازم نہیں ۔ اور امام ابو الحسین احمد بن محمد قدوری حنفی متوفی 428ھ لکھتے ہیں :

قال أصحابُنا : إذا تَرکَ المبیتُ بمنیً من غیرِ عُذرٍ فقد أسائَ، و لا شیئَ علیہ (158)

یعنی، ہمارے اصحاب (احناف) نے فرمایا جب منیٰ میں رات گزارنا بلا عُذر ترک کر دیا تو اُس نے اسائت کی اور اُس پر (جرمانہ وغیرہ سے ) کوئی شئے لازم نہیں ۔ علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبی حنفی متوفی 956ھ اور فقیہ عبد اللہ بن محمد داماد آفندی حنفی متوفی 1078 ھ لکھتے ہیں :

و یبیتُ لیالی الرّمی بمنیً فیکرہ أن لا یبیتَ بمنیً و لو باتَ فی غیرِہ مِن غیرِ عُذرٍ لا شیئَ علیہ (159)

یعنی، رمی کی راتیں منیٰ میں گزارے ، پس مکروہ ہے منیٰ کی راتیں منیٰ میں نہ گزارے اور اگر یہ راتیں بلا عذر منیٰ کے غیر میں گزاریں تو اس پر کوئی جزاء لازم نہیں ۔ اور شارح صحیح بخاری علامہ بدر الدین عینی حنفی صحیح بخاری کی حدیث ابن عمر (برقم : 1638) کے تحت لکھتے ہیں :

قال أصحابُنا : یکرہُ أنْ لا یبیتَ بمنیً لیالی الرَّمَلِ لأنَّہ ﷺ باتَ بِہا و کذا عمرُ بنُ الخطّابِ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و کان یؤدّبُ علی ترکِہ (160)

یعنی، ہمارے اصحاب (احناف) نے فرمایا کہ ایام رمی کی راتیں منیٰ میں نہ گزارنا مکروہ ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے یہ راتیں منیٰ میں گزاریں اور اسی طرح حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے چھوڑنے پر تادیب فرمایا کرتے تھے ۔ اور علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبد اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :

و السُّنّۃ أن یبیتَ بمنًی لیالی أیام الرَّمی (161)

یعنی، سنّت یہ ہے کہ ایام رمی کی راتیں منیٰ میں گزارے ۔ اس کے تحت ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

لأنَّ البیتوتۃَ بمنیً لیالیہا سنّۃٌ عندنا (162)

یعنی، کیونکہ ایام رمی کی راتیں منیٰ میں گزارنا ہمارے نزدیک سنّت ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ سُنَن مؤکّدہ کے بیان میں لکھتے ہیں :

و ازانہا ست بیتوتۃ نمودن اکثر شب در منی در شب ’’یازدہم و دو ازدہم‘‘ وہم چنیں درشب سیزدہم نیز در حق کسے کہ تاخیر کند نفررا تا روز چہارم کہ روز سیزدہم ست (163)

یعنی، سُنَنِ مؤکّدہ میں سے ہے گیارہ اور بارہ کی رات کا اکثر حصہ منیٰ میں گزارنا اور اِسی طرح تیرھویں رات اُس شخص کے حق میں جس نے مکہ لوٹنے میں چوتھے روز تک تاخیر کی کہ تیرھواں دن ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

فیبِیتُ بہا للرَّمی إی لیالی أیام الرَّمی ہو السُّنّۃُ (164)

یعنی، پس رمی کے لئے منیٰ میں رات گزارے یعنی ایام رمی کی راتیں (منیٰ میں گزارے ) اور یہ سنّت ہے ۔ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : دسویں گیارہویں ، بارہویں کی راتیں منیٰ میں بسر کرنا سنّت ہے نہ مزدلفہ میں نہ مکہ میں نہ راہ میں (165) اور احناف کے نزدیک ایام رمی کی راتیں منیٰ میں گزارنا واجب نہیں ہے جب کہ دیگر کے نزدیک واجب ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا چنانچہ علامہ مظفر الدین ابن الساعاتی حنفی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :

لا نُوجب المبیتَ فی ہذہ اللّیالی بمنیً (166)

یعنی، ہم یہ راتیں منیٰ میں بسر کرنا واجب نہیں کرتے ۔ عدم وُجوب کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اہلِ سقایہ اور اونٹوں والوں کو رُخصت عنایت فرمائی اگر یہ رات گزارنا واجب ہوتا تو آپ ﷺ رُخصت مرحمت نہ فرماتے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ منیٰ میں رات بسر کرنے سے مقصود رمی ہے چنانچہ اسعد محمد سعید صاغرجی نے لکھا :

و قال الحنفیّۃُ : المبیتُ فی تلک اللّیالی بمنیً سنّۃٌ عندنا لیس بواجبٍ لأَنَّ المقصودَ الرَّمی، و لأَنَّہ لو کان واجباً لما رخَّصَ فی ترکِہ لأہلِ السِّقایۃ، و أمّا استئذانُ العبّاسِ فلإسقاط الإساء ۃ الکائنۃِ بسببِ الانفرادِ عن جمیعِ النّاس مع الرّسولِ علیہ الصّلاۃ و السّلام (167)

یعنی، حنفیہ نے کہا کہ یہ راتیں منیٰ میں گزارنا ہمارے نزدیک سنّت ہے واجب نہیں ہے کیونکہ مقصود رمی ہے اور کیونکہ اگر واجب ہوتا تو اس کے ترک کی اہلِ سقایہ کو رُخصت نہ دی جاتی مگر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا اجازت طلب کرنا تو وہ اُس اسائت کو ساقط کرنے کے لئے تھا جو انفراد کی وجہ سے تھی کہ تمام لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے ۔ لہٰذا اِن راتوں کا اکثر حصہ مزدلفہ، یا مکہ یا منیٰ کے علاوہ کسی اور جگہ گزارنا مکروہ ہے چنانچہ علامہ محمد بن احمد سمرقندی حنفی متوفی 540ھ (168) اور علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی 587ھ (169) لکھتے ہیں :

و یکرہُ أن یبیتَ فی غیرِ منیً فی أیام منیً و یکونُ مُسیئاً ملخصاً

یعنی، مکروہ ہے کہ ایام منیٰ (کی راتیں ) منیٰ کے غیر میں گزارے (اور ایسا کرنے والا) بُرا کرنے والا ہو گا۔ 2۔اور آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ آنا اور آنے والی رات کا اکثر حصہ منیٰ میں گزارنا بھی سُنّت ہے چنانچہ حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں ہے کہ

أَنّہُ صَلّی اللّہ عَلَیْہِ وَسَلّمَ تَوَجَّہَ قَبْلَ صَلَاۃِ الظُّہْرِ، وَ صَلَّی بِمِنًی الظُّہْرَ وَ الْعَصْرَ، وَ الْمَغْرِبَ وَ العِِشَائَ و فی روایۃ أبی سعیدٍ : رَاحَ النَّبِیُّ ﷺ یَوْمَ التَّرْوِیَۃِ بَعْدَ الزَّوَالِ، فَأَتَی مِنیً، فَصَلَّی الظُّہْر وَ الْعَصْر وَ الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَائَ وَ الصُّبْحَ، و قال البخاریّ : صَلَّی الظُّہْرَ وَ الْعَصْرَ یَوْمَ التَّرْوِیَۃِ بِمِنیً (170)

یعنی، نبی کریم ﷺ نماز ظہر سے قبل (منیٰ کی طرف) متوجّہ ہوئے اور ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازیں منیٰ میں ادا فرمائیں ۔اور ابو سعید کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ آٹھ ذوالحجہ کو زوال کے بعد روانہ ہوئے پس منیٰ میں تشریف لائے اور ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا فرمائیں ۔ اور امام بخاری نے فرمایا کہ ظہر اور عصر کی نمازیں منیٰ میں ادا فرمائیں ۔ اور امام مسلم کی روایت ہے کہ

عن جابرٍ قال : فَلَمَّا کَانَ یَوْمَ التَّرْوِیَۃِ تَوَجَّھُوْا إِلٰی مِنًی، فَأَھَلُّوْا بِالْحَجِّ وَ رَکِبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ فَصَلَّی بِہَا الظُّہْرَ، وَ الْعَصْرَ، وَ الْمَغْرِبَ، وَ الْعِشَائَ، وَ الْفَجْرَ، ثُمَّ مَکَثَ قَلِیْلاً حَتّی طَلَعَتِ الشَّمْسُ (171)

یعنی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : جب آٹھویں ذوالحجہ آئی تو لوگ منیٰ کی طرف متوجہ ہوئے پس حج کا احرام باندھا اور نبی کریم ﷺ سوار ہوئے پس ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں منیٰ میں ادا کیں پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج طلوع ہوا۔ آٹھ کو منیٰ جانا اور وہاں رات گزارنا سنّت ہے اور ترک مکروہ ہے مُرتکب مُسیٔ (اسائت کرنے والا) ہے چنانچہ امام ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

لأَنَّ الرّواحَ إلی منیً یوم التَّرویۃِ سُنَّۃٌ و ترکُ السُّنَّۃِ مکروہٌ إِلاَّ لضرورۃٍ (172)

یعنی، کیونکہ آٹھ ذوالحجہ کو منیٰ جانا سنّت ہے اور ترکِ سنّت مکروہ ہے مگر یہ کہ کسی ضرورت کی بنا پر ہو۔ علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغینانی حنفی متوفی 593ھ اس تاریخ میں قیام منیٰ کے تارک کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

و لٰکِنَّہُ أسائَ بترکہ الاقتدائَ بِرسولِ اللہ علیہ الصّلاۃ و السَّلام (173)

لیکن اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو ترک کرکے بُرا کیا۔ مخدوم محمد ہاشم بن عبد الغفور ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

بودن شبِ عرفہ درمنی سنّت است (174)

یعنی، عرفہ کی رات منیٰ میں ہونا سنّت ہے ، جیسا کہ آگے آئے گا۔ یہاں بھی رات سے مراد رات کا اکثر حصہ ہے ۔ علامہ ابو منصور کرمانی حنفی (175) ، علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی (176) اور علامہ ابو البرکات عبد اللہ احمد بن محمود نسفی حنفی متوفی 710ھ (177) لکھتے ہیں اور ’’ہدایہ‘‘ و ’’کافی نسفی‘‘ کے حوالے سے ملا علی قاری (178) نقل کرتے ہیں :

و إن باتَ بمکّۃَ لیلۃَ عرفۃَ و صلّی بہا الفجرَ، ثمّ غدا مِنہا إلی عرفاتٍ و مرّ علی منیً جازَ ذلک و لکنّہُ مُسِیٌٔ۔ و اللّفظ للأول

یعنی، پس اگر عرفات کی رات مکہ میں بسر کی اور وہیں نماز فجر پڑھی پھر وہاں سے صبح میں عرفات کو چلا اور منیٰ سے گزرا تو اُسے جائز ہوا لیکن وہ اس میں اسائت کرنے والا ہوا۔ علامہ رحمت اللہ بن قاضی عبداللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :

و إن باتَ بمکَّۃَ تلک اللّیلۃَ جازَ و أسائَ (179)

یعنی، اگر وہ رات مکہ میں گزاری تو جائز ہوا (یعنی حج ہو گیا) اور اُس نے اسائت کی۔ اس کے تحت ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

أی لترکِ السُّنّۃ علی القولِ بہا فقال الفارسیُّ تبعاً لما فی ’’المحیط‘‘ المبیت بہا سنّۃ (180)

یعنی، اس کے سنّت ہونے کے قول کی بنا پر اس نے سنّت ترک کر دیا ، پس فارسی نے جو ’’محیط‘‘ میں ہے اس کی اتباع میں کہا کہ منیٰ میں رات گزارنا سنّت ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

پس اگر توقف نمود شبِ عرفہ درمکہ یا عرفات یاد ر جائے دیگر اسائت کردہ باشد بسبب ترکِ سنت (181)

یعنی، پس اگر شبِ عرفہ مکہ میں ٹھہرا رہا یا عرفات میں یا (منیٰ کے علاوہ) کسی اور جگہ (جیسے مزدلفہ وغیرہ) تو اُس نے ترکِ سنّت کے سبب اسائت کی۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : اگر عرفہ کی رات مکہ میں گزاری اور نویں کو فجر پڑھ کر منیٰ سے ہوتا ہوا عرفات پہنچا تو حج ہو جائے گا مگر بُرا کیا کہ سنّت کو ترک کیا۔ (182) اور یہ مبیت (یعنی، رات گزارنا، چاہے نو کی رات ہو یا گیارہ اور بارہ کی راتیں ہوں ) رات کے اکثر حصے سے حاصل ہو گا نہ کہ اقلّ سے چنانچہ شارح صحیح بخاری علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی 855ھ لکھتے ہیں :

و فی ’’التّوضیح‘‘ لا یحصلُ المبیتُ إِلاَّ بمَعظم اللَّیلِ (183)

یعنی، رات گزارنا رات کے اکثر حصے سے حاصل ہو گا۔ اور علامہ محب الدین طبری متوفی 694ھ لکھتے ہیں :

و المعتبرُ فی المبیتِ : الکونُ بمنیً معظم اللَّیلِ، إذ المبیتُ وَرَدَ مطلقاً، و الاستیعاب غیرُ واجبٍ اتفاقاً، فأُقِیم المعظمُ مقامَ الکُلِّ، و لا فرق بین أول اللّیل و الآخرۃ (184)

یعنی، منیٰ میں رات گزارنے میں معتبر منیٰ میں اکثر رات ہونا ہے ، کیونکہ مبیت مطلقاً وارد ہوا ہے اور استیعاب بالاتفاق واجب نہیں ہے ، پس اکثر کُل کے قائم مقام ہے ، اور اول رات اور آخر رات میں کوئی فرق نہیں (یعنی اکثر رات کے اول میں گزارے یا رات کے آخری حصے میں گزارے اس میں کوئی فرق نہیں ہے ) ترکِ مبیتِ منیٰ اگر عُذر صالح کی بنا پر ہو تو اسائت لازم نہ آئے گی ، اُن میں سے دو عُذر تو وہ ہیں کہ جن کا ذکر احادیث میں ہے کہ اہلِ سقایہ اور چرواہے اس معاملہ میں معذور قرار دئیے گئے ، ان کے علاوہ امام نووی نے چند عُذر مزید بیان فرمائے چنانچہ وہبی سلیمان نے امام نووی کے حوالے سے لکھا کہ

و المعذرون : رِعائُ الإبِلِ و أہلُ السّقایۃِ : و منہم مَن لہ مالٌ یخافُ ضیاعَہُ لو اشتَغَلَ بالمبیتِ أو یخافُ علی نفسِہِ، أو أن یکونَ بہ مرضٌ یشُقُّ معہ المبیتُ، أولہ مریضٌ یحتاجُ إلی تعہّدِہِ (185)

یعنی، اور معذورین، اونٹوں کے چرواہے ، اور اہلِ سقایہ اور اُن معذورین میں سے وہ شخص ہے جو مال رکھتا ہو اور اگر وہ مبیتِ منیٰ (یعنی منیٰ میں رات گزارنے ) میں مشغول ہوتا ہے تو اُسے اُس کے ضائع ہونے کا خوف ہے ، یا اُسے اپنی جان کا خوف ہے ، یا وہ ایسا مریض ہو کہ جس پر مبیتِ منیٰ شاق ہو یا اُس کا ایسا مریض ہو جو تیمارداری کا محتاج ہو۔ ائمہ ثلاثہ (امام مالک، شافعی اور احمد) کے نزدیک بلا عُذر منیٰ میں رات گزارنے کے ترک پر دَم واجب ہو گا اور توبہ لازم ہو گی کیونکہ اُن کے نزدیک مبیتِ منیٰ واجب ہے اور ترکِ واجب سے دَم لازم آتا ہے اور اُن کے نزدیک یہ بھی واجب ہے لہٰذا اس کے بلا عُذر ترک پر دَم لازم ہو گا اور احناف کے نزدیک مبیتِ منیٰ سنّت مؤکّدہ ہے اور بلا عُذر اس کا ترک مکروہ ہے کہ جس پر اسائت لازم ہو گی۔ چنانچہ علامہ مظفر الدین ابن السّاعاتی حنفی متوفی 594ھ لکھتے ہیں :

و یکرہُ ترکُہ (186)

یعنی، اس کا ترک مکروہ ہے ۔ اور علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :

و ترکُ السُّنّۃِ مکروہٌ إلا لضرورۃٍ (187)

یعنی، ترکِ سنّت مکروہ ہے مگریہ کہ کسی شرعی ضرورت کی وجہ سے ہو۔ اور علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں :

و لو باتَ (أکثر لیلہا فی غیر منیً) کُرِہَ (188)

یعنی، اگر رات کا اکثر حصہ غیر منیٰ میں گزارا تو مکروہ ہوا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

پس اگر انداخت آنہارا یا یکے ازانہا در مکہ یا در طریق، یا در موضع دیگر غیر منی مکروہ باشد (189)

یعنی، پس اگر یہ راتیں یا اِن میں سے کوئی ایک رات مکہ مکرمہ میں یا راستے میں یا منیٰ کے علاوہ کسی اور جگہ گزاری تو مکروہ ہوا۔ اور دوسرے مقام پر مکروہات کے بیان میں لکھتے ہیں :

و ازانہا ست بیتوتۃ کردن در شبہائے رمی جمار در غیر منی اگرچہ درمکہ باشد (190)

یعنی، اُن میں سے ہے رمی جمار کی راتیں غیر منیٰ میں گزارنا اگرچہ مکہ میں ہو۔ اور سنّت مؤکّدہ کے قصداً ترک پر اسائت لازم آتی ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اور ملا علی قاری لکھتے ہیں :

و حکم السُّنَن أی المؤکّدۃِ الإساء ۃ بترکہا أی لو ترکہا عمداً (191)

یعنی، سُنَنِ مؤکّدہ کا حکم یہ ہے کہ اُن کے عمداً ترک پر اسائت لازم آتی ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

حکم سُنَن مؤکّدہ لزوم اسائت است بترک یکے ازانہا عمداً (192)

یعنی، حکم سُننِ مؤکّدہ کا لُزوم اسائت ہے ان میں سے کسی ایک کو عمداً ترک کرنے کے سبب سے ۔ اور لُزوم اسائت سے اس عمل کا ثواب ناقص ہو جاتا ہے چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

و حکمُہا أی حکمُ المکروہاتِ دُخولُ النَّقصِ أی نقص الثّوابِ فی العَمَلِ و خوف العقاب أی تحقّق العقاب فیما ترک فیہ السُّنّۃ المؤکّدۃ و تحقّق العذاب فی ترک الإیجاب (193)

یعنی، مکروہات کا حکم عمل میں ثواب کا ناقص ہونا ہے اور خوفِ عقاب ہے یعنی جس میں سنّت مؤکّدہ کو ترک کیا اُس میں عقاب کے تحقُّق کا خوف ہے اور جس میں واجب کو ترک کیا اُس میں عذاب کا تحقُّقْ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

حکم مکروہات آن ست کہ ناقص شود ثواب عملی کہ واقع گردد در وی فعل مکروہ و لازم آید خوف عتاب در ترک سنّت مؤکدہ و خوف عذاب در ترک واجب (194)

یعنی، مکروہات کا حکم یہ ہے کہ جس میں یہ فعل مکروہ واقع ہو اس عمل کا ثواب ناقص ہو جاتا ہے اور سنّت مؤکّدہ کے ترک میں خوفِ عتاب اور ترکِ واجب میں خوفِ عذاب لازم آتا ہے ۔ 3۔ طلوعِ آفتاب سے قبل مزدلفہ سے منیٰ کو روانہ ہونا سنّت مؤکّدہ ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ

عن جابر حدیثہ الطّویل، و فیہ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَمَّا أَتَی الْمُزْدَلِفَۃُ صَلَّی الْمَغْرِبَ وَ الْعِشَائَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّی طَلَعَ الْفَجْرُ، فَصَلَّی الْفَجْرَ، ثُمَّ رَکِبَ الْقَصْوَائَ حَتَّی أَتَی الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، وَ لَمْ یَزِلْ وَاقِفاً حَتَّی أَسْفَر جِدّاً ثُمَّ دَفَعَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ (195)

یعنی، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے طویل حدیث میں مروی ہے اور اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب (عرفات سے ) مزدلفہ تشریف لائے تو مغرب و عشاء کی نمازیں ادا فرمائیں پھر آرام فرما ہوئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہوئی، پس نماز فجر ادا فرمائی، پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر حرام تشریف لائے وہیں وقوف میں رہے یہاں تک کہ خُوب اُجالا ہوا پھر طلوعِ آفتاب سے قبل (منیٰ کو) لوٹے ۔ امام بخاری کی حضرت عمرو بن میمون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ :

قال : شَہِدْتُ عُمَرَ صَلَّی بِجَمْعِ الصُّبْحَ، ثُمَّ وَقَفَ فَقَالَ : إِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ کَانُوْا لَا یُفِیْضُوْنَ حَتَّی تَطْلُعَ الشَّمْسَ، وَ یَقُوْلُوْنَ : أَشْرِقُ ثَبِیْرُ، وَ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ خَالَفَہُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ (196)

یعنی، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہکی خدمت میں حاضرتھا جب آپ نے مزدلفہ میں فجر کی نمازادا فرمائی پھر وقوف فرمایا، پس فرمایا مشرکین مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے تک نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے اے ثبیر! روشن ہو جا اور بے شک نبی کریم ﷺ نے اُن کی مخالفت کی پھر سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کو لوٹے ۔ اور محب طبری نے اِس روایت کو اِن الفاظ سے نقل کیا ہے :

عن عمرو بن میمون قال : شَہِدْتُ عُمَرَ حِیْنَ صَلَّی بِجَمْعِ الصُّبْحَ قَالَ : إِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ کَانُوْا لَا یَدْفَعُوْنَ حَتَّی طَلَعَ الشَّمْسُ وَ یَقُوْلُوْنَ : أشْرِقْ ثَبِیْرُ، وَ إِنَّ النَّبِیَّ ﷺ خَالَفَہُمْ، ثُمَّ أفَاضَ قَبْلَ أَن تَطْلُعَ (197)

یعنی، عمرو بن میمون سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا جب آپ نے مزدلفہ میں نمازِ فجر ادا فرمائی، فرمایا بے شک مشرکین مزدلفہ سے نہیں لوٹتے تھے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جاتا اور کہتے تھے اے ثبیر! روشن ہو جا، اور بے شک نبی کریم ﷺ نے اُن کی مخالفت فرمائی اور طلوعِ آفتاب سے قبل منیٰ کو لوٹے ۔

عن ابن عمر قال : إِنَّ الْمُشْرِکِیْنَ کَانُوْا لَا یُفِیْضُوْنَ حَتّٰی تَطْلَعَ الشَّمْسُ، وَ یَقُوْلُوْنَ : أَشْرِقْ ثَبِیْرُ، وَ إِنَّ النَّبِیَّ ﷺ خَالَفَہُمْ، ثُمَّ أَفَاضَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ (198)

یعنی، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا بے شک مشرکین مزدلفہ سے طلوعِ آفتاب سے قبل نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے (جبلِ) ثبیر روشن ہو جا اور نبی کریم ﷺ نے اُن کی مخالفت فرمائی پھر طلوعِ آفتاب سے قبل لوٹے ۔

و عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال : رَأَیْتُ أَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ لَا یُفِیْضُوْنَ فِیْ حَجِّہِمْ مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ حَتَّی تَنْظُرَ الْإِبِلُ مَوَاضِعَ أَخْفَافِہَا (199) أخرجہ سعید بن منصور

یعنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے آپ نے فرمایا میں نے حضرت ابو بکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ یہ حضرات اپنے حج میں مزدلفہ سے (منیٰ کو) نہ لوٹتے تھے یہاں تک کہ اونٹ اپنے پاؤں رکھنے کی جگہ کو دیکھ لیں ۔

عن جابر بن زید قال : وَقْتُ الدَّفْعَۃِ مِنَ الْمُزْدَلِفَۃِ إِذَا أَبْصَرَتِ الْإِبِلُ أَخْفَافَہَا (200) أخرجہ سعید بن منصور

یعنی، حضرت جابر بن زید سے مروی ہے فرمایا مزدلفہ سے (منیٰ کو) لوٹنے کا وقت وہ ہے جب اونٹ اپنے پاؤں رکھنے کی جگہ کو دیکھ لے ۔

عن نافع قال : أَسْفَرَ ابْنُ الزُّبَیْرِ لِلدَّفْعَۃِ ، فَقَالَ ابنُ عُمَرَ : تُرِیْدُوْنَ الْجَاہِلِیَّۃَ؟ فَدَفَعَ ابْنُ عُمَرَ، وَ دَفَعَ النَّاسُ مَعَہُ (201) أخرجہ سعید بن منصور

یعنی، نافع تابعی سے مروی ہے کہ فرمایا مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹنے کے لئے حضرت ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے خوب اُجالا ہونے کا انتظار کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم لوگ زمانۂ جاہلیت والے عمل کا ارادہ رکھتے ہو (یعنی سورج نکلنے کا انتظار کر رہے ہو)، پس حضرت ابن عمرمنیٰ کو لوٹے اور آپ کے ساتھ لوگ بھی لوٹے ۔

قال طاؤوس : کان أہلُ الجاہلیّۃ یَدفعُونَ مِن عرفۃَ قبلَ أن تغیبَ الشّمسُ و مِن المزدلفۃِ بعد أن تطلعَ الشّمسُ، و یقولون : أشرِق ثبیرُ کما نُغیر فأخّرہُ اللہُ ہذہ، و قدّم ہذہ، قال الشّافعی یعنی قدّم المزدلفۃ قبل أن تطلعَ الشّمس و أخّر عرفۃَ إلی أن تغیبَ الشَّمسُ (202)

یعنی، طاؤوس نے فرمایا کہ اہلِ جاہلیت میں عرفات سے (مزدلفہ کو) سورج غُروب ہونے سے قبل اور مزدلفہ سے (منیٰ کو) سورج طلوع ہونے کے بعد لوٹتے تھے اور کہتے تھے ثبیر روشن ہو جا تاکہ ہم جگہ بدلیں تو اللہ تعالیٰ نے اِسے مؤخر کر دیا اور اُسے مقدم کر دیا، امام شافعی نے فرمایا مطلب ہے کہ مزدلفہ سے لوٹنے کو سورج نکلنے پر مقدم فرمایا اور عرفہ کے قیام کو سورج غروب ہونے تک مؤخّر فرمایا۔ احادیث و آثار کو نقل کر کے علامہ محب الدین طبری شافعی متوفی 694ھ لکھتے ہیں :

قال أہل العلم : و ہذہ سنّۃ الإسلام ، أن یُدفع من المزدلفۃ عند الأسفار قبل طلوع الشّمس (203)

یعنی، اہل علم نے فرمایا یہ سنّتِ اسلام ہے کہ خوب اُجالا ہو جانے کے وقت طلوعِ آفتاب سے قبل مزدلفہ سے (منیٰ کو) لوٹے ۔ اور امام عز الدین بن جماعہ کتانی متوفی 767ھ لکھتے ہیں :

و السُّنّۃ : أن یتوجّھُوا إلی منیً قبل طلوعِ الشّمسِ و علیہم السّکینۃُ بالاتفاق، اقتدائً بالنّبیّ ﷺ (204)

یعنی، سُنّت ہے کہ طلوعِ آفتاب سے قبل لوٹیں اور لوٹتے وقت اُن پر بالاتفاق سکون لازم ہو نبی ﷺ کی اقتدا کرتے ہوئے ۔ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :

و الحاصلُ أَنَّ الإفاضۃ علی وجہِ السُّنّۃِ أن یکونَ بعد الإسفارِ مِن المَشعرِ الحرام (205)

یعنی، حاصل کلام یہ ہے کہ مزدلفہ سے سنّت کے مطابق رُجوع یہ ہے کہ وہ (یعنی منیٰ کو لوٹنا) خُوب اُجالا ہو جانے کے بعد مَشعرِحرام سے ہو۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :

چون فارغ شود از وقوفِ مزدلفہ و اسفار بسیار شود پس سنت است کہ افاضہ نماید از مزدلفہ ہمراہ امام قبل از طلوعِ شمس (206)

یعنی، جب وقوف مزدلفہ سے فارغ ہو جائے اور خُوب اُجالا ہو جائے تو سُنّت یہ ہے کہ امام کے ساتھ سورج نکلنے سے قبل مزدلفہ سے (منیٰ کو) لوٹے ۔ اور دوسرے مقام پر سُنَنِ مؤکّدہ کے بیان میں لکھتے ہیں :

و ازانہا خروج نمودن از مزدلفہ برای رجوع بسوی منیٰ قبل از طلوعِ شمس (207)

یعنی، سُنَنِ مؤکّدہ میں سے ہے مزدلفہ سے منیٰ کی جانب لوٹنے کے لئے طلوعِ آفتاب سے قبل نکلنا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ طلوعِ آفتاب سے قبل مزدلفہ سے منیٰ کو لوٹنا سُنّت مؤکّدہ ہے اور طلوعِ آفتاب کے وقت مزدلفہ میں رہنا اور منی کو نہ لوٹنا سُنّت مؤکّدہ کے خلاف ہے اگرچہ اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا اور وہ سنّت مؤکّدہ کو ترک کرنے کی وجہ سے اسائت کرنے والا کہلائے گا۔ چنانچہ علّامہ رحمت اللہ سندھی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

(وکذا لو دَفَعَ بعدَ طُلوعِ الشَّمسِ) سواء أفاضَ معہ أم لا،(لا یلزَمُ منہ شیئٌ، و یکونُ مُسیئاً) لترکِہِ السُّنّۃ (208)

یعنی، اور اسی طرح اگر طلوعِ شمس کے بعد لوٹا، چاہے امام کے ساتھ لوٹا یا نہ، تو اس پر کچھ لازم نہ ہو گا اور وہ سنّت کو ترک کرنے کی وجہ سے اسائت کرنے والا ہو گا۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

پس اگر توقف کرد تا طلوعِ شمس در مزدلفہ خلاف سُنّت کردہ باشد و لیکن لازم نہ نباشد بروئے چیزے از کفارت (209)

یعنی، پس اگر وہ طلوعِ آفتاب تک مزدلفہ میں ٹھہرا رہا تو خلافِ سنّت کیا لیکن اس وجہ سے اس پر کوئی کفّارہ لازم نہیں آئے گا۔ علامہ سید محمد امین عابدین حنفی متوفی 1252ھ صاحب درمختار علامہ علاؤ الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ کی عبارت ’’و إذا أسفَرَ جداً أتی منیً‘‘ (یعنی جب خوب اُجالا ہو جائے تو منیٰ آئے ) کے تحت لکھتے ہیں :

و فسَّرَ ’’الإمامُ‘‘ الإسفارَ بحیث لا یبقی إلی طُلوعِ الشَّمسِ إلاَّ مقدارُ ما یصلِّی رکعتَین، و إنْ دَفَعَ بعد طلوعِ الشَّمسِ، أو قبل أنْ یصلِّیَ النّاسُ الفجرَ فقد أسائَ، و لا شیئَ علیہ ’’ہندیۃ‘‘ ’’ط‘‘ و ما وقَعَ فی نسخ ’’القدوریِّ‘‘ : و إذا طلعتِ الشّمسُ أفاض الإمامُ، قال فی ’’الہدایۃ‘‘ : إنَّہ غلط، لأَنَّ النّبیّ ﷺ دَفَعَ قبلَ طلوعِ الشّمس و تمامُہ فی ’’الشرنبلالیۃ‘‘ (210)

یعنی، اور امام نے خُوب اُجالے کی تفسیر اس طرح کی کہ طلوعِ آفتاب میں صرف اتنا وقت باقی رہ جائے کہ جس میں (مسنون قرأت کے ساتھ) دو رکعت ادا کی جا سکیں اور اگر طلوعِ آفتاب کے بعد (مزدلفہ سے ) لوٹا یا لوگوں کے نماز فجر پڑھ لینے سے قبل (اور طُلوعِ فجر کے بعد) لوٹا تو اس نے اسائت کی اور اُس پر کچھ لازم نہیں ’’ہندیہ‘‘ (211) ’’طحطاوی‘‘(212) اور جو ’’قدوری‘‘ (213)کے نسخوں میں واقع ہے کہ جب سورج طلوع ہو جائے تو امام لوٹے ، ’’ہدایہ‘‘ (214) میں فرمایا کہ یہ غلط ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ (مزدلفہ سے منیٰ کو) طلوعِ آفتاب سے قبل لوٹے تھے اور یہ تمام
’’شرنبلالیۃ‘‘ (215) میں ہے ۔ ہاں اگر حاجی خُوب اُجالا ہو جانے کے بعد مَشعرِ حرام سے منیٰ کو چلا اور لوگوں کے ازدحام یا کسی اور وجہ سے سے حُدودِ مزدلفہ سے ابھی نہ نکلا تھا کہ سورج طلوع ہو گیا تو اِس صورت میں وہ سنّت کا خلاف کرنے والا اسائت کا مرتکب نہ ہو گا چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں :

حتی لو طلَعت الشّمسُ علیہ و ہو بمزدلفۃَ لا یکونُ مخالفاً للسُّنَّۃِ (216)

یعنی، (خُوب اُجالا ہونے کے بعد حاجی مَشعرِ حرام سے چلا) حتی کہ اُس پر سورج طلوع ہو گیا اور وہ (ابھی) مزدلفہ میں تھا تو سُنّت کا مخالف نہ ہو گا۔ اب وہ لوگ کہ جن کے خیمے مزدلفہ میں ہوں وہ تین مؤکّدہ سُنّتوں کا قصداً خلاف کریں گے ایک تو یہ کہ وہ جب 8 ذوالحجہ کو مکہ مکرمہ سے آئیں گے تو بجائے منیٰ کے مزدلفہ میں قیام کریں گے جب کہ منیٰ میں قیام سنّت مؤکّدہ تھا، اور اس کے ترک میں روافض کے ساتھ مشابہت بھی ہے کہ وہ اِس تاریخ کو منیٰ نہیں آتے ، دوسری یہ کہ جب وہ شبِ مزدلفہ کے بعد اپنے خیموں کو لوٹیں گے تو سورج نکلنے کے بعد تک مزدلفہ میں ہی رہیں گے جب کہ سورج نکلنے سے قبل مَشعرِ حرام سے منیٰ کو لوٹنا سنّت مؤکّدہ تھا، اور اُن کو اُس شخص پر قیاس کر کے مخالفتِ سنّت کے ارتکاب سے بَری نہیں کیاجا سکتاجو خوب اُجالا ہونے کے بعد مَشعرِ حرام سے چلا ابھی مزدلفہ کی حُدود سے نہ نکلا تھا کہ سورج طلوع ہو گیا کیونکہ وہ عازم منیٰ ہے اور یہ عازم منیٰ نہیں ہیں کیونکہ اِس کی قیام گاہ منیٰ نہیں مزدلفہ ہے ، اس طرح سنّت کی مخالف اور مشرکین کے عمل سے مشابہت ہو گی جب کہ نبی کریم ﷺ نے مشرکین کی مخالفت کا قصد فرمایا تھا، اور اس سے وہ لوگ خارج ہیں جو مزدلفہ میں خیمہ ہونے کے باوجود سنّت کی موافقت اور مشرکین کی مخالفت کا قصد کرتے ہیں لیکن ایسے اقل قلیل ہیں جن کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اور تیسری یہ ہے کہ گیارہ اور بارہ کی راتوں کا اکثر حصہ منیٰ میں بسر کرنا سنت مؤکّدہ ہے جب کہ مزدلفہ کے مقیم اس سے محروم رہتے ہیں ، یہ تینوں سنتیں مؤکّدہ ہیں اور اُن کا ارتکاب مکروہ اور لُزومِ اسائت کا سبب اور محرومی کا باعث ہے ۔ اِس معاملے میں گروپ لیڈران کو چاہئے کہ وہ غور کریں اور اپنے ساتھ آنے والے حاجیوں کے لئے اُن مؤکّدہ سُنَن کی ادائیگی آسان بنائیں اور اُن کے ترک کا التزام نہ کریں ، ان لوگوں کا مزدلفہ میں قیام اور مکہ میں قیام برابر ہے بلکہ مزدلفہ میں قیام سے اُن کا مکہ میں قیام بہتر ہے کیونکہ مزدلفہ میں قیام سے تین مؤکّدہ سنتیں ترک ہوئیں جب کہ مکہ میں قیام سے دو، ایک آٹھ کو منیٰ پہنچ کر 9 کی رات کاا کثر حصہ منیٰ میں گزرانے کی سنّت اور دوسری گیارہ او ربارہ کی راتوں کا اکثر حصہ منیٰ میں گزارنے کی سُنّت، اور دس کی صبح سورج نکلنے سے قبل منیٰ کو نکلنے کی سُنّت فوت نہ ہوئی تو اس لحاظ سے مزدلفہ میں قیام سے مکہ میں قیام بہتر ہوا۔ اور یہ کہنا کہ یہ نیو منیٰ ہے جو دن کو منیٰ اور رات کو مزدلفہ یا رات کو منیٰ اور دن کو مزدلفہ ہے اس کی کوئی شرعی حقیقت نہیں ہے کیونکہ منیٰ کی حد لمبائی میں جمرہ عقبہ سے وادی محسّر تک ہے اور جمرہ عقبہ اور وادی محسّر دونوں اس میں شامل نہیں ہے چنانچہ مُلّا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ جمرۂ عَقَبہ کے بارے میں لکھتے ہیں :

لأنَّہا أقصَی الجمرِ مِن منیً، و أقربُ إلی مکۃ، فإنَّہا خارجۃٌ عن حدِّ منیً (217)

یعنی، وہ منیٰ کے جمرات میں سے اقصی جمرہ ہے اور مکہ مکرمہ سے زیادہ قریب ہے پس یہ حدِّ منیٰ سے خارج ہے ۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں :

ہی ثالثُ الجمرات علی حدِّ منیً من جہۃِ مکّۃَ و لیستْ من منیً (218)

یعنی، جمرہ عقبہ یہ جمرات میں سے مکہ کی جہت تیسرا جمرہ ہے اور یہ منیٰ میں نہیں ہے ۔ اور وادیٔ مُحسَّر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

و فی ’’البحر‘‘ : وادی محسَّرٍ موضعٌ فاصلٌ بین منیً و مزدلفۃَ لیس مِن واحدۃٍ منہا، قال الأزرقی و ہو خمسمائۃ ذراع و أربعون ذراعاً اھ لأنَّہ موقفُ النَّصاری ہم أصحابُ الفیل(219)

یعنی، اور ’’بحر الرائق‘‘ (220) میں ہے کہ وادی مُحسَّر منیٰ اور مزدلفہ کے مابین (حدِّ) فاصل ہے دونوں میں سے کسی سے نہیں ہے (یعنی نہ منیٰ سے نہ مزدلفہ سے ) علامہ ابو الولید محمد بن عبداللہ بن احمد مکی ازرقی متوفی 244ھ فرماتے ہیں کہ وہ پانچ سو چالیس ہاتھ ہے 1ھ کیونکہ یہ موقفِ نصاریٰ ہے جو ہاتھی والے تھے ۔ اور علامہ محب الدین طبری شافعی متوفی 694ھ (221) اور ابن الضیاء حنفی (222) نقل کرتے ہیں کہ

عن ابن جریج قال : قلتُ لعطاء : أین منیً؟ قال : من العَقَبۃ إلی وادی مُحسَّر، قال عطاء : فلا أُحبُّ أنْ ینزلَ أحدٌ إلاَّ ورائَ العَقَبَۃِ إلی وادی محسِّرٍ أخرجہ الأزرقی

یعنی، ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے عطاء (تابعی) سے پوچھا کہ منیٰ کہاں ہے ؟ انہوں نے فرمایا جمرۂ عقبہ سے لے کر وادیٔ محسّر تک، عطا نے فرمایا، پس میں اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (قیام منیٰ کے لئے ) اُترے مگر عقبہ کے بعد سے وادی محسّر تک، علامہ ازرقی نے اِس کی تخریج فرمائی ہے ۔ علامہ محب طبری (223) نے اس باب میں اثر عمر، و ابن عباس، و مجاہد رضی اللہ عنہم نقل کرنے کے بعد لکھا جسے علامہ ابن الضیاء حنفی (224) نے بھی نقل کیا کہ :

فی ہذہ الأحادیث دلالۃ علی أنَّ حدَّ مِنیً من وادی مُحسِّر إلی جمرۃِ العَقَبۃ، و لیس وادی محسِّر منہُ

یعنی، اِن احادیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ منیٰ کی حد وادیٔ محسَّر سے جمرۂ عقبہ تک ہے اور وادی محسَّر منیٰ سے نہیں ہے ۔ قاضی و مفتی مکہ علامہ ابو البقاء محمد بن احمد ابن الضیاء مکی حنفی متوفی 654ھ لکھتے ہیں :

و وادی مُحَسِّر : مسیلُ مائٍ فاصلٌ بین مزدلفۃ و منیً، و ہو لیس مِن منیً، و نقل القاضی عز الدین بن جماعۃ اتفاق الأئمۃ الأربعۃ علی ذلک (225)

یعنی، وادی محسّر : پانی بہنے کی جگہ جو مزدلفہ اور منیٰ میں فاصل ہے اور وہ منیٰ سے نہیں ہے قاضی عز الدین جماعہ (226) نے اس پر ائمہ اربعہ سے اجماع نقل کیا ہے ۔ اور منیٰ تقریباً دو میل لمبی گھاٹی ہے جو جمرہ عقبہ کے بعد سے شروع ہو کر وادی محسَّر تک ختم ہوتی ہے اس لئے اِس کی لمبائی زیادہ اور چوڑائی بہت کم ہے اور اِس کے اطراف میں جو پہاڑ ہیں اُن کا اندرونی حصہ منیٰ سے اور بیرونی منیٰ سے خارج ہے یہی چوڑائی میں اِس کی حدِّ ہے چنانچہ علامہ محب الدین طبری متوفی 694ھ لکھتے ہیں :

منیً شعبٌ طویلٌ نحو مِیلَین و عرضُہ یسیرٌ و الجبال المحیطۃُ بہ : ما أقبلَ منہا علیہ فہو مِن منیً، و ما أدبرَ فلیس مِن منیً(227)

یعنی، منیٰ تقریباً دو میل کی مقدار طویل گھاٹی ہے اِس کی چوڑائی تھوڑی ہے اور پہاڑ جو اسے احاطہ کئے ہوئے ہیں اُن کی جو سامنے کی طرف ہے وہ منیٰ ہے اور جو پچھلی طرف ہے وہ منیٰ سے نہیں ہے ۔ لہٰذا کُبرِی فیصل سے لے کر وادی محسَّر تک حصے میں خیمے نصب کر کے اُسے نیو منیٰ کا نام دیا گیا ہے اِس کی کوئی حقیقت نہیں ہے اِس جگہ موجود شخص مزدلفہ میں ہی رہے گا نہ کہ منیٰ میں اور اِس جگہ رات گزارنا مزدلفہ میں رات گزارنا ہے نہ کہ منیٰ میں ۔ اور گروپ لیڈران میں سے جو اپنے گروپ کے لئے اِس جگہ خیمے حاصل کرے اُسے چاہئے کہ وہ لوگوں کو اِس کی کوئی مالی و مادی منفعت بتا کر راغب نہ کرے کیونکہ ایک تو مؤکّدہ سُنَن کا ترک ہے اور دوسرا یہ کہ یہ مؤکّدہ سُنَن ترک کروانے کا سامان کرنا پھر اِس کی رغبت دلانا ایک شنیع فعل ہے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی فجر کی دو مؤکّدہ سنّتوں ، یا ظہر کی چار یا دو مؤکّدہ سنّتوں یا مغرب یا عشاء کی دو مؤکّدہ سنّتوں کے ترک کی ترغیب دلائے اور کہے سنّت ہی ہے اور کیا ہے اگر چھوڑ دی تو کچھ لازم نہیں آئے گا اور مزید برآں اس کے چھوڑنے کے فائدے بتائے کہ اگر تو یہ سنتیں چھوڑ دے گا تو تیرا اتنا وقت بچے گا جس میں تو اتنے روپے کما لے گا، کوئی مسلمان ایسا کرنا تو دُور کی بات ہے ایسا کرنے کا تصوّر بھی نہیں کر سکتا کہ وہ مسلمانوں کو نماز کی مؤکّدہ سنتیں چھوڑنے کا مشورہ دے یا رغبت دلائے یا چھوڑنے کے فوائد گنوائے ، اگر یہ نماز کی مؤکّدہ سنتیں ہیں تو وہ حج کی مؤکّدہ سنتیں ہیں ۔ اِن کو چھوڑنے کا مشورہ دینا ایسا ہی ہے جیسا مقیم کو نماز کی مؤکّدہ سنتیں چھوڑنے کا مشورہ دینا، ان کو چھوڑنے کی رغبت دلانا ایسا ہی ہے جیسا نماز مؤکّدہ سنتیں چھوڑنے کی رغبت دلانا ، ان کے ترک کے فوائد گنوانا ایسا ہی ہے جیسا نماز کی مؤکّدہ سنتوں کو چھوڑنے کے فوائد گنوانا، اگرچہ آج کل حجاج کرام کی اکثریت ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ جن کے پیش نظر مناسکِ حج کی صحیح ادائیگی نہیں ہوتی وہ صرف آرام و راحت اور مالی منفعت کو مدِّ نظر رکھتے ہیں ، گروپ آپریٹر اُن کی اِس غلط سوچ، گھٹیا نظریے کو تقویت دینے کی بجائے اُن میں مثبت سوچ بیدار کرنے کی سعی کریں ، وہ جو اس سعادت کے حصول کے لئے ایک عرصے تک دعائیں کرتے رہے اور ہر آنے والے کو دعا کے لئے کہتے رہے اور زر کثیر خرچ کر کے اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں پہنچے اور یہاں آ کر انہوں نے سب کچھ بھلا دیا، یہاں تک کہ اُن کو اپنے آنے کا مقصد بھی یاد نہ رہا، انہیں اُن کے آنے کا مقصد یاد دلائیں اور مقصود کے حصول کے لئے سامان مہیا کریں ۔ حجاج کرام کی اکثریت ہدایا و تحائف کی خریداری پر کثیر رقم خرچ کر دیتی ہے مشاہدہ کرنا ہو تو حجاج کرام کو اُس وقت دیکھئے جب وطن واپسی کے لئے وہ ائیر پورٹ پر ہوں اور اُن کے سامان کا وزن ہو رہا ہو، انہیں سمجھائیں کہ اگر گنجائش نہیں ہے تو ہدایا و تحائف میں کمی کر دیں اور ترکِ سنّت مؤکّدہ کا التزام نہ کریں جس محبوب کے طفیل ساری نعمتیں ملیں اُسی پیارے آقا کی مؤکّدہ سنّت کو قصداً ترک کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے ۔ نادان لوگ کہتے ہیں کہ فلاں گروپ بہت اچھا ہے کہ اس نے اتنی اچھی رہائش دی، بہترین کھانا دیا، یہ سہولت دی وہ سہولت دی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ گروپ وہی اچھا ہے جس نے آپ کو آپ کے آنے کا مقصود یاد دلایا، آپ سے حج کے مناسک صحیح ادا کروائے ، آپ کے لئے عبادت و بندگی کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے ، مگر کیا کریں المیہ تو یہ ہے کہ گروپ بنانے والے کی اکثریت ایسی ہے کہ جن کو دین سے کوئی وابستگی ہی نہیں ، اُن کا مقصود صرف اور صرف حصولِ زر ہے ، اکثر تو ایسے ہیں کہ جنہیں حج کے ارکان اور واجبات تک کا بھی علم نہیں اُن سے بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حجاج کرام کے لئے فرائض و واجبات صحیح ادا کرانے کی سعی کریں گے ۔ اگرچہ ایسے بھی ہیں جو حجاج کرام کے مناسک کی صحیح صحیح ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں ان کی مکمل رہنمائی کا انتظام کرتے ہیں اُن کو آنے کا مقصد یاد دلانے کی سعی کرتے ہیں ، انہیں روحانی غدا مہیا کرنے کا بندوبست کرتے ہیں لیکن ایسے بہت ہی کم ہیں ۔ اگر انہیں کہا جائے کہ جمرات کے قریب خیمے مہنگے ہیں تو تم لوگ منٰی کے آخر میں دُور خیمے خرید لو لازماً وہاں قیمت کم ہو گی تو کہتے ہیں کہ اس سے بہتر ہے کہ ہم مزدلفہ میں خیمہ لے لیں کیونکہ حاجی کو کنکریاں مارنے کے لئے دونوں صورتوں میں زیادہ ہی چلنا پڑے گانادان یہ نہیں سمجھتے کہ حاجی کے چلنے اور جمرات سے فاصلے کا مسئلہ نہیں ہے ، مسئلہ صرف و صرف مؤکّدہ سنتوں کی ادائیگی اور عدم ادائیگی کا ہے منیٰ میں خیمے لینے ہیں مؤکّدہ سنتوں کی ادائیگی کا اہتمام ہے جب کہ مزدلفہ میں خیمے خریدنے میں ان مؤکّدہ سنتوں کے ترک کی سعی ہے ۔ اور بعض گروپ بنانے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ حجاج کرام منیٰ سے رات کو ہی عرفات بسوں میں روانہ ہو جاتے ہیں وہ بھی تو سنّت کو ترک کرتے ہیں کیونکہ سنّت یہ ہے کہ حاجی نو تاریخ کو طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ سے عرفات کو روانہ ہو، اور وہ لوگ فجر جسے منیٰ میں ادا کرنا سنّت تھا اُسے عرفات میں جا کر ادا کرتے ہیں اور وہ رات کہ جسے منیٰ میں گزارنا سنّت تھا اُسے عرفات میں گزارتے ہیں ، اس کا جواب یہ ہے کہ ہم نہیں کہتے کہ یہ درست ہے بلا عُذر ایسا کرنا یقینا درست نہیں ہے کہ اس میں سنّت کا ترک لازم آتا ہے کیونکہ رات کا اکثر حصہ منیٰ میں گزارنا سنّت تھا اور وہ نہ پایا گیا اور نماز فجر منیٰ میں ادا کرنا سنّت تھا وہ ادا نہ ہوئی، لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ جو بسیں طلوعِ آفتاب کے بعد عرفات کو روانہ ہوتی ہیں اُن کے راستہ میں پھنس جانے کا امکان زیادہ ہو تا ہے کیونکہ لوگ راستوں پر بیٹھ جاتے ہیں کہ پیدل چلنا بھی دشوار ہو جاتا ہے ، اس لئے گروپ آپریٹرز اس کا رِسک اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے اس کا آسان حل یہی ہے کہ اس رات کا اکثر حصہ گزرنے پر حاجیوں کی بسیں لے کر عرفات روانہ ہوں وہ اس طرح کہ مغرب سے رات شروع ہو جاتی ہے فجر تک گھنٹوں کا حساب لگایا جائے جب آدھے سے زیادہ وقت گزر جائے اس وقت روانہ ہوں اس طرح یہ سنّت مؤکّدہ ادا ہو جائے گی، گروپ آپریٹرز اسے ممکن بنا سکتے ہیں کیونکہ بسیں دینا معلّم حضرات کے بس میں ہے اور اُن کو انہوں نے بھاری رقم ادا کی ہوتی ہے لہٰذا تھوڑی سی کوشش سے اس مؤکّدہ سنّت کی ادائیگی کو ممکن بنایا جا سکتا ہے باقی رہا طلوعِ آفتاب کے بعد عرفات روانگی فی زمانہ اس پر عمل کرنے کے لئے پیدل چلنے کے سوا کوئی حل نظر نہیں آتا۔ بہر حال اُن لوگوں کا مزدلفہ میں خیمے لینے کے لئے اس بات کو جواز بنانا سوائے نادانی کے اور کچھ نہیں ہے اگر مان لیا جائے جیسا کہ انہوں نے کہا حاجیوں کی ایک مؤکّدہ سنّت ترک ہوتی ہے لیکن یہ لوگ جو کرتے ہیں اس سے تو تین تین مؤکّدہ سنّتیں ترک ہوتی ہیں مزید یہ کہ یہ لوگ اپنا پیکج بیچنے کے لئے اس کے فضائل بیان کرنے سے بھی نہیں چُوکتے جب دین کو تجارت سمجھ لیا جائے تو ایسی ہی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں ، اللہ تعالیٰ ہمارے ان بھائیوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ حاجی جب بکنگ کے لئے آتا ہے تو وہ سب سے پہلے یہی پوچھتا ہے کہ ہوٹل کیسا ہو گا کھانا کیسا ہو گا یعنی سہولت کو مدِّنظر رکھتا ہے اور پھر اس بات کو دیکھتا ہے کہ کونسا گروپ ایسا ہے جو ہزار دو ہزار روپے کم وصول کر رہا ہے یہ نہیں پوچھتے کہ ان کی رہائش حرم شریف سے کتنی قریب ہو گی تاکہ انہیں بیت اللہ شریف کی حاضری اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت آسانی سے میسر آئے ، اور اُن کے خیمے منیٰ میں ہوں گے یا نہیں تاکہ اُ ن کی سُنَن ادا ہوں ، جب خریدار ایسے آنے لگے تو دکانداروں نے دکانیں بھی ویسی ہی سجانی شروع کر دیں اور حج جو ایک عظیم فریضہ اور افضل ترین عبادت ہے اُسے خریداروں اور دکانداروں نے مل کر تجارت بنا لیا، اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ عطا فرمائے ، آمین ثم آمین بجاہ حبیبک سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الإثنین، 17محرم الحرام 1431ھ، 4 ینایر 2010 م 651-F

حوالہ جات

123۔ سنن أبی داؤد، کتاب المناسک، باب فی رمی الجمار، برقم : 1973، 2/340

124۔ صحیح ابن خزیمۃ، کتاب المناسک، باب البیتوتۃ بمنیً لیالی أیام التّشریق، برقم : 2956، 2/1388، و باب التّکبیر مع کلّ حصاۃ یرمی بہا رامی الجمار، برقم : 2971، 2/1394

125۔ الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحجّ ، باب رمی جمرۃ العقبۃ، برقم : 3857، 4/6/67

126۔ مسند أبی یعلیٰ، مسند عائشۃ، برقم : 4742/388، ص870

127۔ المسند للإمام أحمد، 6/90

128۔ سُنَن الدّار قطنی، کتاب الحج، برقم : 2654، 1/2/241

129۔ شرح مُشکل الآثار، باب مُشکل ما روی عن ابن عباس و عن جابر فی قولہما : ما ندری بکم إلخ، برقم : 3514، 9/133

130۔ المستدرک للحاکم، أول کتاب المناسک، برقم : 1792، 2/38

131۔ کتاب المنتقی، کتاب المناسک، برقم : 492، ص426، 427

132۔ السُّنَن الکبری للبیہقی، کتاب الحجّ، باب الرّجوع من منیً أیّام التّشریق الخ، برقم : 9661، 5/241

133۔ القِریٰ لقَاصِدِ أُمّ القُریٰ، الباب الحادی و الثّلاثون، ما جاء فی وجوب استکمال المبیت فی اللّیالی الثّلاث، ص542

134۔ القِری لقاصد أم القری، الباب الحادی و الثلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء فی حُدودِ منیً، ص542

135۔ الموطأ للإمام مالک، کتاب الحجّ، باب (70) البیتوتۃ بمکۃ لیالی منیً، برقم : 488 (أثر)، ص270

أیضاً السُّنَن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الحجّ، باب لا رخصۃ فی البیتوتۃ بمکۃ لیالی منیً، برقم : 9690، 5/249

136۔ القِری لقاصد أمّ القُریٰ، الباب الحادی و الثّلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء فی حدود منیً، ص543، و قال : أخرجہ مالک و الأرزقی

137۔ القِریٰ لقاصِدِ أُمّ القُریٰ، الباب الحادی و الثّلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء فی حدود منیً، ص543

138۔ الموطّأ للإمام مالک، کتاب الحجّ، باب (70) البیتوتۃ بمکّۃ لیَالی منیً، برقم : 349 (أثر)، ص270

139۔ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری، کتاب الحج، باب سقایۃ الحاجّ، برقم : 1634، 7/213

140۔ فتح الباری، کتاب الحجّ، باب ہل مبیت أصحاب السّقایۃ أو غیرہم الخ، برقم : 1743۔ 1745، 4/3/238

141۔ المفہم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم، کتاب الحجّ، باب الرّخصۃ فی ترک البیتوتۃ بمنیً لأھلِ السّقایۃ، برقم : 1168، 3/414

142۔ شرح صحیح مسلم للنّووی، کتاب الحجّ، باب المبیت بمنیً لیالی أیام التّشریق إلخ، برقم : 346۔ (1315)، 5/9/53

143۔ القِری لقاصد أُمّ القُرٰی، الباب الحادی و الثّلاثون، ما جاء فی حدود منیً، ص543

144۔ الموطّأ للإمام مالک، کتاب الحجّ، باب (70) البتوتۃ بمکۃ لیالی منًی، برقم : 488 (أثر)، ص270

145۔ أخبار مکّۃ، باب ذرع طواف سبعۃ بالکعبۃ، ما جاء فی منزل رسول اللہ ﷺ بمنًی و حدود منًی، 2/179

146۔ صحیح البخاری، کتاب الحجّ، باب سقایۃ الحاجّ، برقم : 1634، 1/403، و باب ہل یبیت أصحاب السّقایۃ أو غیرہم بمکّۃ لیالی منیً؟ ، برقم : 1745، 1/429

أیضاً صحیح مسلم، کتاب الحجّ، باب وُجوب المبیتِ بمنیً لیالی أیّام التّشریق إلخ، برقم : 346۔ (1315)، 2/953

147۔ الکافی فی الفقہ الحنفی، الحج و أحکامہ، الفصل الثّالث، المبیت بمنیً (9)، 2/800

148۔ سُنن أبی داؤد، کتاب المناسک، باب فی رمی الجمار، برقم : 1975، 2/431

أیضاً سُنَن التّرمذی، کتاب الحجّ، باب الرّخصۃ للرّعاء أن یرموا یوماً، برقم : 955، 2/93

أیضاًٰ الموطأ للإمام مالک، کتاب الحجّ، باب (72) الرّخصۃ فی رمی الجمار، برقم : 2/72/428، ص271

أیضاً سُنَن ابن ماجۃ، کتاب المناسک، باب تأخیر رمی الجمار من عذرٍ، برقم : 3037، 3/484

أیضاً سُنَن الدّارمی، کتاب المناسک، باب فی جمرۃ العقبۃ أیّ ساعۃ ترمی؟ برقم : 1897، 2/53

أیضاً سُنن النّسائی، کتاب مناسک الحجّ، باب رمی الرّعاۃ، برقم : 3066، 3/5/280

149۔ تعلیق سُنَن أبی داؤد، برقم : 1975، 2/341

150۔ سُنَن أَبی داؤد، کتاب المناسک، باب یبیت بمکۃ لیالی منیً، برقم : 1958، 2/336

أیضًا السُّنَن الکبری للبیہقی، کتاب الحجّ، باب لا رخصۃ فی البیتوتۃ بمکۃ لیالی منیً، برقم : 9689، 5/249

151۔ القِری لقاصد أُمّ القُری، الباب الحادی و الثّلاثون، ص542

152۔ الکافی فی الفقہ الحنفی، أحکام الحج، الفصل الثّالث، 2/800

153۔ الکافی فی الفقہ الحنفی، أحکام الحج، الفصل الثالث، 2/800

154۔ المسالک فی المناسک، فصل فی دخول مکۃ بطواف الزّیارۃ، ص593

155۔ کتاب الأصل المعروف بالمبسوط، کتاب المناسک، باب رمی الجمار، 2/358

156۔ المبسوط للسّرخسی، کتاب المناسک، باب رمی الجمار، 2/4/61

157۔ مختصر الطّحاوی، کتاب الحجّ، باب الفدیۃ و جزاء الصّید، ص70

158۔ التّجرید، کتاب الحجّ، مسئلۃ رقم : 492، حکم من ترک المبیت بمنیً من غیر عذرٍ، 4/1957

159۔ ملتقی الأبحر و شرحہ مجمع الأنہر، کتاب الحجّ، فصل ، 1/416

160۔ عمدۃ القاری، کتاب الحجّ، باب سقایۃ الحاج، برقم : 1634، 7/213

161۔ لباب المناسک ، باب طواف الزّیارۃ، فصل : فی الرجوع إلی منی، ص158

162۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب طواف الزّیارۃ، فصل إذا فرغ من الطّواف، ص332

163۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمہ : فصل سوم در بیان فرائض الخ، ص47

164۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، مطلب : صلاۃ العید و الجمعۃ فی منیً، تحت قولہ : فیبیتُ بہا للرّمی، 3/620

165۔ بہار شریعت، حج کا بیان، طواف فرض، 1/1146

166۔ مجمع البحرین، فصل فی صفۃ أفعال الحجّ، ص231

167۔ الحجّ و العمرۃ، حکم المبیت بمنیً لیالی الرّمی، ص68

168۔ تحفۃ الفقہاء، کتاب الحجّ، باب الإحرام، ص202

169۔ بدائع الصّنائع ، کتاب الحجّ، فصل فی بیان سُنَن الحجّ إلخ، 2/149

170۔ القِری لقاصد أمّ القُرٰی، الباب السّابع عشر فی التّوجُّہِ من مکّۃ إلی منیً، ماجاء (2) فی وقت التّوجّہ إلی منیً من یوم التّرویۃ، ص376، 377

171۔ صحیح مسلم، کتاب الحجّ، باب حجّۃ النّبیّ ﷺ، برقم : 147 (1218)، 2/889

172۔ المسالک فی المناسک، فصل فی الرّواح من مکّۃ إلی منًی، ص487

173۔ الہدایۃ، کتاب الحج، باب الإحرام، 1۔2/173

174۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب پنجم، فصل چہارم، ص171

175۔ المسالک فی المناسک، فصل الرّواح من مکۃ إلی منیً، ص487

176۔ الہدایۃ، کتاب الحجّ، باب الإحرام، 1۔2/173

177۔ الکافی، کتاب الحجّ، باب الإحرام، تحت قولہ : ثمَّ إلی عرفاتَ إلخ، ق 1/229/أ

178۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب خطبۃ یوم السّابع من ذی الحجّۃ، فصل فی الرّواح، ص268

179۔ لُباب المناسک ، باب خطبۃ یوم السّابع من ذی الحجّۃ، فصل فی الرّواح، ص133

180۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب خطبۃ یوم السّابع من ذی الحجۃ، فصل فی الرّواح، ص267

181۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب پنجم، فصل چہارم، ص171

182۔ بہار شریعت، حج کا بیان، منی کی روانگی اور عرفہ کا وقوف، 1/1120

183۔ عمدۃ القاری، کتاب الحجّ، باب سِقایۃ الحاجّ، برقم : 1634، 7/214

184۔ القِری لقاصِد اُمّ القُرٰی، الباب الحادی و الثّلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء فی وجوب استکمال المبیت فی اللّیالی الثّلاث، ص542

185۔ الکافی فی الفقہ الحنفی، 2/800

186۔ مجمع البحرین، فصل فی صفۃ أفعال الحجّ، ص231

187۔ المسالک فی المناسک، فصل الرّواح من مکّۃ إلی منیً، ص487

188۔ لُباب المناسک ، باب فی الخطبۃ، فصل : فی الرجوع إلی منی، ص158

189۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب نہم، فصل سیوم، ص211

190۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمہ، فصل سیوم در بیان فرائض و واجبات و سُنَن الخ، ص50

191۔ لُباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب فرائض الحجّ، فصل فی سُنَنہ، ص105

192۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمہ، فصل سیوم، ص48

193۔ لُباب المناسک و شرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب فرائض الحجّ، فصل فی مکروہاتہ و ہی کثیرۃ، ص107

194۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمہ، فصل سیوم، ص50

195۔ القِریٰ لقاصد أمِّ القُری، الباب التّاسع عشر فی الإفاضۃ من عرفۃ و الوقوف بالمزدلفۃ، ما جاء (16) فی التّبکیر بالصّبح بالمزدلفۃ، ص425

196۔ صحیح البخاری، کتاب الحجّ، باب متی یدفع من جمعٍ، برقم : 1684،1/415

197۔ القِری لقاصد أمّ القُری، الباب العشرون فی الإفاضۃ من المزدلفۃ و فی الرّمی، ماجاء (1) فی وقت الإفاضۃ، ص427

198۔ ہدایۃ السّالک إلی المذاہب الأربعۃ فی المناسک، الباب الحادی عشر، فصل فی الدّفع من مزدلفۃ إلی منیً، 3/1074

199۔ القِریٰ لقاصد أمّ القُریٰ، الباب العشرون، فی الإفاضۃ من المزدلفۃ و فی الرّمی، ما جاء (1) فی وقت الإفاضۃ، ص427

200۔ القِریٰ لقاصد أمّ القُریٰ، الباب العشرون، فی الإفاضۃ من المزدلفۃ و فی الرّمی، ما جاء (1) فی وقت الإفاضۃ، ص427

201۔ القِری لقاصد أمّ القُری، الباب العشرون، فی الإفاضۃ من المزدلفۃ و فی الرّمی، ما جاء (1) فی وقت الإفاضۃ، ص427

202۔ القِریٰ لقاصد أمّ القُریٰ، الباب العشرون، فی الإفاضۃ من المزدلفۃ و فی الرّمی، ما جاء (1) فی وقت الإفاضۃ، ص427

203۔ القِری لقاصد أم القُری، الباب العشرون، فی الإفاضۃ من المزدلفۃ و فی الرّمی، ما جاء (1) فی وقت الإفاضۃ، ص427

204۔ ہدایۃ السّالک، الباب الحادی عشر : فی الخروج من مکۃ المشرفۃ إلخ، 3/1075

205۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أحکام المزدلفۃ، فصل فی آداب التّوجّہ إلی منیً، ص313

206۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ہفتم، فصل ششم در بیان کیفیۃ رجوع از مزدلفۃ بسوئے منیٰ، ص198

207۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمہ، فصل سیوم دربیان فرائض الخ، ص47

208۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أحکام المزدلفۃ، فصل فی آداب ا لتّوجّہ إلی منًی، ص313

209۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب ہفتم، فصل ششم در بیان کیفیۃ رجوع از مزدلفہ بسوئے منٰی، ص198

210۔ ردُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، مطلب : فی الوقوف بمزدلفۃ، تحت قولہ : إذا أسفر جداً، 3/605، 606

216۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب أحکام المزدلفۃ، فصل فی آداب التّوجّہ إلی منیً، ص313

217۔ المسلک المتقسّط فی المنسک المتوسّط، باب رمی الجمار، فصل فی صفۃ الرّمی الخ، ص342

218۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، مطلب فی رمی جمرۃ العقبۃ، 3/606

219۔ رَدُّ المحتار علی الدُّرِّ المختار، کتاب الحجّ، مطلب فی الوقوف بمزدلفۃ، 3/606

220۔ البحر الرائق، کتاب الحجّ، باب الإحرام، تحت قولہ : ……

221۔ القِری لقاصد أُمّ القُریٰ، الباب الحادی و الثّلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء (2) فی حدود منیً، ص543

222۔ البحر العمیق، الباب الحادی عشر : فی الخروج من مکّۃ إلی منًی ثم عرفۃ، یوم الترویۃ، 3/1415

223۔ القِری لقاصد أُمّ القُریٰ، الباب الحادی و الثّلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء (2) فی حدود منیً، ص543

224۔ البحر العمیق، الباب الحادی عشر : فی الخروج من مکّۃ إلی منًی ثم عرفۃ، یوم الترویۃ، 3/1415

225۔ البحر العمیق، الباب الحادی عشر، فی الحروج من مکۃ إلی منیً، مطلب : وادی مُحسِّر، 3/1651

226۔ ہدایۃ السالک، الباب الحادی عشر فی الخروج من مکۃ إلی منًی إلخ، 3/1079

و فیہ : و وادی مُحَسِّرٍ، مَسِیْلُ مائٍ فاصلٌ بین مزدلفۃ و مِنیً، کذا نقل النّووی رحمہ اللہ عن الشّافعیّۃ، و جزم بأنَّہ لیس منیً، و ہو قول الثّلاثۃِ

یعنی، وادی مُحسِّر : پانی بہنے کی جگہ ہے جو مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ہے اس طرح امام نووی علیہ الرحمہ نے شافعیہ سے نقل کیا ہے اور جزم فرمایا کہ یہ منی نہیں ہے اور یہی ائمہ ثلاثہ کا قول ہے ۔

227۔ القِریٰ لقاصِدِ أمِّ القُریٰ، الباب الحادی و الثّلاثون فی المبیت لیالی منیً، ما جاء (2) فی حُدود منیً، ص543

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button