بہار شریعت

نکاح کے متعلق مسائل

نکاح کے متعلق مسائل

اللہ عزوجل فرماتاہے:۔

فانکحوٓاما طاب لکم من النسائ مثنی و ثلث وربع ط فان خفتم الاتعدلوا فواحدۃً (سورۂ نساء ۱۲)

(نکاح کرو جو تمہیں خوش آئیں عورتوں سے دو دو اور تین تین اورچار چار۔ اور اگر یہ خوف ہوکہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک سے)

اور فرماتا ہے:۔

وانکحوالایامی منکم والصالحین من عبادکم وامائکم ط ان یکونوا فقرائ یغنھم اللہ من فضلہٖلا واللہ واسعٌ علیمٌ ہ والیستعفف الذین لا یجدون نکاحًا حتی یغنیھم اللہ من فضلہٖ لا (پ ۱۸، ع ۱۰)

(اپنے یہاں کی بے شوہر والی عورتوں کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں اور باندیوں کا۔ اگر وہ محتاج ہوں تو اللہ اپنے فضل کے سبب انہیں غنی کر دے گا۔ اور اللہ وسعت والا علم والا ہے اورچاہیئے کہ پارسائی کریں کہ وہ نکاح کا مقدور نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے انہیں مقدور والا کر دے)

حدیث ۱: بخاری و مسلم و ابودائود وترمذی و نسائی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے جوانو ! تم میں جوکوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزہ رکھے کہ روزہ قاطع شہوت ہے۔

حدیث ۲: ابن ماجہ انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں جو خدا سے پاک و صاف ہو کر ملنا چاہے وہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے۔

حدیث ۳: بیہقی ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو میرے طریقہ کو محبوب رکھے وہ میری سنت پر چلے اور میری سنت سے نکاح ہے۔

حدیث ۴: مسلم و نسائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ حضور نے فرمایا دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترمتاع نیک عورت۔

حدیث ۵: ابن ماجہ میں ابوامامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے تھے تقوی کے بعد مومن کے لئے نیک بی بی سے بہتر کوئی چیز نہیں ۔ اگر اسے حکم کرتا ہے تو وہ اطاعت کرتی ہے اور اسے دیکھے تو خوش کر دے اور اس پر قسم کھا بیٹھے تو قسم سچی کر دے اورکہیں کو چلا جائے تو اپنے نفس اور شوہر کے مال میں بھلائی کرے (خیانت و ضائع نہ کرے)

حدیث ۶: طبرانی کبیر واوسط میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے جسے چار چیزیں ملیں اسے دنیا و آخرت کی بھلائی ملی۔ (۱) دل شکر گزار (۳) زبان یاد خدا کرنے والی اور (۳) بدن بلا پر صابر اور (۴) ایسی بیوی کہ ا پنے نفس اور مال شوہر میں گناہ کی جویاں نہ ہو۔

حدیث ۷: امام احمد و بزاز و حاکم سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین چیزیں آدمی کی نیک بختی سے ہیں اور تین چیزیں بد بختی سے۔ نیک بختی کی چیزوں سے نیک عورت اور اچھا مکان (یعنی وسیع یا اس کے پڑوسی اچھے ہوں ) اور اچھی سواری اور بدبختی کی چیزیں بد عورت، برا مکان، بری سواری۔

حدیث ۸: طبرانی و حاکم انس رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور ﷺ نے فرمایا جسے اللہ نے نیک بی بی نصیب کی اس کے نصف دین پر اعانت فرمائی تو نصف باقی میں اللہ سے ڈرے (تقوی و پرہیزگاری کرے)

حدیث ۹: بخاری و مسلم و ا بودائود و نسائی و ابن ماجہ ابی ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایاعورت سے نکاح چار باتوں کی وجہ سے کیا جاتا ہے (نکاح میں ان کا لحاظ ہوتا ہے) (۱) مال و (۲) حسب و (۳) جمال و (۴) دین۔ اور تو دین والی کو ترجیح دے۔

حدیث ۱۰: ترمذی و ابن حبان و حاکم ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین شخصوں کی اللہ تعالی مدد فرمائے گا۔ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اور(۲)مکاتب کہ ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور (۳) پارسائی کے ارادے سے نکاح کرنے والا۔

حدیث ۱۱: ابودائود و نسائی و حاکم معقل بن یسار رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ ﷺ میں نے عزت و منصب و مال والی ایک عورت پائی مگر اس کے بچہ نہیں ہوتا کیا میں اس سے نکاح کر لوں ؟ حضور ﷺ نے منع فرمایا ۔ پھر دوبارہ حاضر ہو کر عرض کی حضور ﷺ نے منع فرمایا، تیسری مرتبہ حاضر ہو کر پھر عرض کی، ارشاد فرمایا ایسی عورت سے نکاح کرو جو محبت کرنے والی، بچہ جننے والی ہو کہ میں تمہارے ساتھ اور امتوں پر کثرت ظاہر کرنے والا ہوں ۔

حدیث ۱۲: ابن ابی حاتم ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی انہوں نے فرمایا کہ اللہ نے جو تمہیں نکاح کا حکم فرمایا تم اسکی اطاعت کرو اس نے جو غنی کرنے کا وعدہ کیا ہے پورا فرمائے گا۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے اگر وہ فقیر ہوں گے تو اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔

حدیث ۱۳: ابویعلی جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ فرماتے ہیں جب تم میں کوئی نکاح کرتا ہے تو شیطان کہتا ہے ہائے افسوس ابن آدم نے مجھ سے دو تہائی دین بچا لیا۔

حدیث ۱۴: ایک روایت میں ہے حضور فرماتے ہیں جو اتنا مال رکھتا ہے کہ نکاح کرے پھر نکاح نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔

مسائل فقہیہ

نکاح اس عقد کو کہتے ہیں جو اس لئے مقرر کیا گیا کہ مرد کو عورت سے جماع وغیرہ حلال ہو جائے۔

مسئلہ ۱: خنثی مشکل یعنی جس میں مردوعورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اور یہ ثابت نہ ہو کہ مرد ہے یا عورت، اس سے نہ مرد کا نکاح ہو سکتا ہے نہ عورت کا ۔ اگر کیا گیا تو باطل ہے ہاں بعد نکاح اگر اس کا عورت ہونا متعین ہو جائے اور نکاح مرد سے ہوا ہے تو صحیح ہے یونہی اگر عورت سے نکاح ہوا اور اس کا مرد ہونا قرار پا گیا، خنثی مشکل کا نکاح خنثی مشکل سے بھی نہیں ہو سکتا مگر اس صورت میں کہ ایک کا مرد ہونا دوسرے کا عورت ہونا متحقق ہو جائے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۲: مرد کا پری سے یا عورت کا جن سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ (درمختار، ردالمحتار )

مسئلہ ۳ : یہ جو عوام میں مشہورہے کہ بن مانس آدمی کی شکل کا ایک جانور ہوتا ہے اگرواقعی ہے تو اس سے بھی نکاح نہیں ہو سکتا کہ وہ انسان نہیں جیسے پانی کا انسان کہ دیکھنے سے بالکل انسان معلوم ہوتا ہے اور حقیقۃً وہ انسان نہیں ۔

مسئلہ ۴: اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا بہت زیادہ غلبہ ہو نہ عنین (نامرد) ہو اور مہر و نفقہ پر قدرت بھی تو نکاح سنت مؤکدہ ہے کہ نکاح نہ کرنے پر اڑا رہنا گناہ ہے اور اگر حرام سے بچنا یا اتباع سنت و تعمیل حکم یا اولاد حاصل ہونامقصود ہے تو ثواب بھی پائے گا اور اگر محض لذت یا قضائے شہوت منظور ہوتو ثواب نہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵: شہوت کا غلبہ ہے کہ نکاح نہ کرے تو معاذاللہ اندیشۂ زنا ہے اور مہر ونفقہ کی قدرت رکھتا ہو تو نکاح واجب یونہی جبکہ اجنبی عورت کی طرف نگاہ اٹھنے سے رک نہیں سکتا یا معاذا للہ ہاتھ سے کام لینا پڑے گا تو نکاح واجب ہے۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۶: اگر یہ یقین ہو کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہو جائے گا تو فرض ہے کہ نکاح کرے۔ (درمختار)

مسئلہ ۷: اگر یہ ا ندیشہ ہے کہ نکاح کرے گا تو نان نفقہ نہ دے سکے گا یا جو ضروری باتیں ہیں ان کو پورا نہ کرسکے گا تو مکروہ ہے اور ان باتوں کا یقین ہو تو نکاح حرام مگر نکاح بہرحال ہو جائے گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۸: نکاح اور اس کے حقوق ادا کرنے میں اور اولاد کی تربیت میں مشغول رہنا نوافل میں مشغولی سے بہتر ہے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ۸: نکاح میں یہ امور مستحب ہیں :۔

(۱)علانیہ نکاحا (۲) نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں وارد ہو (۳) مسجد میں ہونا (۴) جمعہ کے دن (۵) گواہان عادل کے سامنے (۶) عورت عمر، حسب ، مال، عزت میں مرد سے کم ہواور (۷) چال چلن اور اخلاق و تقوی و جمال میں بیش ہو۔ (درمختار) حدیث میں ہے جو کسی عورت سے بوجہ اسکی عزت کے نکاح کرے اللہ اسکی ذلت میں زیادتی کرے گا اور جو کسی عورت سے اس کے مال کے سبب نکاح کرے گا اللہ تعالی اسکی محتاجی ہی بڑھائے گا اور اس کے حسب کے سبب نکاح کرے گا تو اس کے کمینہ پن میں زیادتی فرمائے گا اور جو اس لئے نکاح کرے کہ ادھر ادھر نگاہ نہ اٹھے اور پاکدامنی حاصل ہو یا صلہ رحم کرے تو اللہ عزوجل اس مرد کے لئے اس عورت میں برکت دے گا اور عورت کے لئے مرد میں ۔ (رواہ الطبرانی عن انس رضی اللہ تعالی عنہ کذا فیہ الفتح )

مسئلہ ۹: (۸) جس سے نکاح کرنا ہو اسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوالے اور عادات و اطوار و سلیقہ وغیرہ کی خوب جانچ کر لے کہ آئندہ خرابیاں نہ پڑیں ۔ (۹) کنواری عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی امید ہو نکاح کرنا بہتر ہے۔ سن رسیدہ، بدخلق اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۰: (۱۰) عورت کو چاہیئے کہ مرد دیندار، خوش خلق، مال دار ، سخی سے نکاح کرے فاسق بدکار سے نہیں اوریہ بھی نہ چاہیئے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی کا بوڑھے سے نکاح کر دے۔ (ردالمحتار)

یہ مسحتبات نکاح بیان ہوئے اگر اس کے خلاف نکاح ہو گا جب بھی ہو جائے گا۔

مسئلہ۱ ۱: ایجاب و قبول یعنی مثلاً ایک کہے میں نے اپنے کو تیری زوجیت میں دیا۔ دوسرا کہے میں نے قبول کیا۔ یہ نکاح کے رکن ہیں پہلے جو کہے وہ ایجاب ہے اور اس کے جواب میں دوسرے کے الفاظ کو قبول کہتے ہیں ۔ یہ کچھ ضرور نہیں کہ عورت کی طرف سے ایجاب ہو اور مرد کی طرف سے قبول بلکہ اس کا الٹا بھی ہو سکتا ہے۔ (درمختار، ردالمحتار )

مسئلہ ۱۲: ایجاب و قبول میں ماضی کا لفظ ہونا ضروری ہے مثلاً یوں کہے کہ میں نے اپنا یا اپنی لڑکی یا اپنی مؤکلہ کا تجھ سے نکاح کیا یا ان کو تیرے نکاح میں دیا وہ کہے میں نے اپنے لئے یا اپنے بیٹے یا مؤکل کے لئے قبول کیا یا ایک طرف سے امر کا صیغہ ہو دوسری طرف سے ماضی کا مثلاً یوں کہ تو مجھ سے اپنا نکاح کر دے یا تو میری عورت ہو جا اس نے کہا میں نے قبول کیا یا زوجیت میں دیا ہو جائے گا یا ایک طرف سے حال کا صیغہ ہو دوسری طرف سے ماضی کا مثلاً کہے تو مجھ سے اپنا نکاح کرتی ہے اس نے کہا کیا تو ہو گیا یا یوں کہ میں تجھ سے نکاح کرتا ہوں اس نے کہا میں نے قبول کیا تو ہو جائے گا ان دونوں صورتوں میں پہلے شخص کو اس کی ضرورت نہیں کہ کہے میں نے قبول کیا۔ اور اگر کہا تو نے اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دیا اس نے کہا کر دیا یا کہا ہاں تو جب تک پہلا شخص یہ نہ کہے کہ میں نے قبول کیا نکاح نہ ہو گا اور ان لفظوں سے کہ نکاح کروں گا یا قبول کروں گا نکاح نہیں ہو سکتا۔ (درمختار، عالمگیری وغیرہما)

مسئلہ ۱۳: بعض ایسی صورتوں بھی ہیں جن میں ایک ہی لفظ سے نکاح ہو جائے گا مثلاً چچا کی نابالغہ لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہے اورولی یہی ہے تو دو گواہوں کے سامنے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ میں نے اس سے اپنا نکاح کیا یا لڑکا لڑکی دونوں نابالغ ہیں اورایک ہی شخص دونوں کا ولی ہے یا مرد وعورت دونوں نے ایک شخص کو وکیل کیا ۔ اس ولی یا وکیل نے یہ کہا کہ میں فلاں کا فلانی کے ساتھ نکاح کر دیا ہو گیا۔ ان سب صورتوں میں قبول کی کچھ حاجت نہیں ۔ (جوہرہ، نیرہ)

مسئلہ ۱۴: دونوں موجود ہیں ایک نے ایک پرچہ پر لکھا میں نے تجھ سے نکاح کیا دوسرے نے بھی لکھ کر دیا یا زبان سے کہا میں نے قبول کیا نکاح نہ ہوا اور اگر ایک موجود ہے دوسرا غائب اس غائب نے لکھ بھیجا اس موجود نے گواہوں کے سامنے پڑھایا کہا فلاں نے ایسا لکھا میں نے اپنا نکاح اس سے کیا تو ہو گیا۔ اور اگر اس کا لکھا ہوا نہ سنایا نہ بتایا فقط اتنا کہہ دیا کہ میں نے اس سے اپنا نکاح کردیاتونہ ہوا ۔ ہاں اگر اس میں امر کا لفظ تھامثلاً تو مجھ سے نکاح کر تو گواہوں کے خط سنانے یامضمون بتانے کی حاجت نہیں اور اگر اس موجود نے اس کے جواب میں زبان سے کچھ نہ کہا بلکہ وہ الفاظ لکھ دیئے جب بھی نہ ہوا۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۵: عورت نے مرد سے ایجاب کے لفظ کہے مرد نے اس کے جواب میں قبول کے لفظ نہ کہے اورمہر کے روپے دے دیئے تونکاح نہ ہوا۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۶: یہ اقرار کہ یہ میری عورت ہے نکاح نہیں یعنی اگر پیشتر سے نکاح نہ ہوا تھا تو فقط یہ اقرار نکاح قرار نہ پائے گا البتہ قاضی کے سامنے دونوں ایسا اقرار کریں تو وہ حکم دے دے گا کہ یہ میاں بیوی ہیں اوراگر گواہوں کے سامنے اقرارکیا گواہوں نے کہا تم دونوں نے نکاح کیا کہا ہاں تو ہو گیا۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۱۷: نکاح کی اضافت کل کی طرف ہو یا ایسے عضو کی طرف جسے بول کر کل مراد لیتے ہیں مثلاً سر و گردن تو اگر یہ کہا کہ نصف سے نکاح کیا نہ ہوا۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۱۸: الفاظ نکاح دو قسم ہیں :۔

ایک صریح یہ صرف دو لفظ ہیں ۔ نکاح و تزوج باقی کنایہ ہیں ۔ الفاظ کنایہ میں ان لفظوں سے نکاح ہو سکتا ہے جن سے خود شے ملک میں آجاتی ہے مثلاً ہبہ، تملیک، صدقہ، عطیہ، بیع، شرأ مگر ان میں ضرورت ہے کہ گواہ اسے نکاح سمجھیں ۔ (درمختار،عالمگیری)

مسئلہ ۱۹: ایک نے دوسرے سے کہا میں نے اپنی یہ لونڈی تجھے ہبہ کی تو اگر یہ پتہ چلتا ہے کہ نکاح ہے مثلاً گواہوں کو بلا کر ان کے سامنے کہنا اورمہر کا ذکر وغیرہ تو یہ نکاح ہو گیا اور اگرقرینہ نہ ہو مگر وہ کہتا ہے میں نے نکاح مرادلیا تھا اورجسے ہبہ کی وہ اس کی تصدیق کرتاہے جب بھی نکاح ہے۔ اوراگر وہ تصدیق نہ کرے تو ہبہ قرار دیاجائے گا اور آزاد عورت کی نسبت یہ الفاظ کہے تو نکاح ہی ہے۔ قرینہ کی حاجت نہیں مگر جب ایسا قرینہ پایا جائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح نہیں تونہیں مثلاً معاذاللہ کسی عورت سے زنا کی درخواست کی اس نے کہا میں نے اپنے کوتجھے ہبہ کر دیا۔ اس نے کہا قبول کیا تو نکاح نہ ہوا یا لڑکی کے باپ نے کہا یہ لڑکی خدمت کے لئے میں نے تجھے ہبہ کر دی اس نے قبول کیا تو یہ نکاح نہیں مگر جبکہ اس لفظ سے نکاح مراد لیا تو ہو جائے گی۔ (عالمگیری ، ردالمحتار )

مسئلہ ۲۰: عورت سے کہا تو میری ہو گئی اس نے کہا ہاں یا میں تیری ہو گئی یا عورت سے کہا بعوض اتنے کے تو میری عورت ہو جااس نے قبول کیا یاعورت نے مرد سے کہا میں نے تجھ سے اپنی شادی کی مردنے قبول کیا۔ یا مرد نے عورت سے کہا تونے اپنے کومیری عورت کیا اس نے کہا کیا تو ان سب صورتوں میں نکاح ہو جائے گا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۱: جس عورت کو بائن طلاق دی ہے اس نے گواہوں کے سامنے کہا میں نے اپنے کو تیری طرف واپس کیا، مرد نے قبول کیا نکاح ہو گیا۔ (عالمگیری) اجنبی عورت اگریہ لفظ کہے تو نہ ہو گا۔

مسئلہ ۲۱: کسی نے دوسرے سے کہا اپنی لڑکی کا مجھ سے نکاح کر دے اس نے کہا اسے اٹھا لے جا یا تو جہاں چاہے لے جا تو نکاح نہ ہوا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۳: ایک شخص نے منگنی کا پیغام کسی کے پاس بھیجا۔ ان پیغام لے جانے والوں نے وہاں جا کر کہا تو نے اپنی لڑکی ہمیں دی اس نے کہا دی نکاح نہ ہوا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۴: لڑکے کے باپ نے گواہوں سے کہا میں نے اپنے لڑکے کا نکاح فلاں کی لڑکی کے ساتھ اتنے مہر پر کر دیا تم گواہ ہو جائو۔ پھر لڑکی کے باپ سے کہا گیا کیا ایسا نہیں ہے ؟ اس نے کہا ایسا ہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہ کہا تو بہتر یہ ہے کہ نکاح کی تجدید کی جائے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۵: لڑکے کے باپ نے لڑکی کے باپ کے پاس پیغام دیا اس نے کہا میں نے تو اس کا نکاح فلاں سے کر دیا ہے اس نے کہا نہیں تو اس نے کہا اگر میں نے اس سے نکاح نہ کیا ہو توتیرے بیٹے سے کر دیا اس نے کہا میں نے قبول کیا، بعد کو معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا نکاح کسی سے نہیں ہوا تھا تو یہ نکاح صحیح ہو گیا۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۶: عورت نے مرد سے کہا میں نے تجھ سے اپنانکاح کیا اس شرط پر کہ مجھے اختیار ہے جب چاہوں اپنے کو طلاق دے لوں ۔ مرد نے قبول کیا تو نکاح ہو گیا اور عورت کو اختیار رہا جب چاہے اپنے کو طلاق دے لے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۷: نکاح میں خیار رویت خیار عیب خیار شرط مطلقاً نہیں خواہ مرد کو خیار ہو یا عورت کے لئے یا دونوں کیلئے۔ تین دن کا خیار ہو یا کم یا زائد مثلاً اندھے، لنجھے، اپاہج نہ ہونے کی شرط لگائی یا یہ شرط کی کہ خوبصورت ہو اور اس کے خلاف نکلا یا مرد نے شرط لگائی کہ کنواری ہو اور ہے اس کے خلاف تو نکاح ہو جائے گا اور شرط باطل۔ یونہی عورت نے شرط لگائی کہ مرد شہری ہو تو نکلا دیہاتی تو اگر کفو ہے نکاح ہو جائے گا اورعورت کو کچھ اخیتار نہیں یا اس شرط پرنکاح ہوا کہ باپ کو اختیار ہے تو نکاح ہو گیا اور اسے اختیارنہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۲۸: نکاح میں مہر کا ذکر ہو تو ایجاب پورا جب ہو گا کہ مہر بھی ذکر کرلے مثلاً یہ کہتاتھا کہ فلاں عورت تیرے نکاح میں دی بعوض ہزار روپے کے اور مہر کے ذکر سے پیشتر اس نے کہا میں نے قبول کی نکاح نہ ہوا کہ ابھی ایجاب پورا نہ ہوا تھا اورا گر مہر کا ذکر نہ ہوتا توہو جاتا۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۲۹: کسی نے لڑکی کے باپ سے کہا میں تیرے پاس اس لیے آیا کہ تو اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دے۔ اس نے کہا میں نے اس کو تیرے نکاح میں دیا نکاح ہو گیا۔ قبول کی حاجت نہیں ۔ بلکہ اسے اب یہ اختیار نہیں کہ نہ قبول کرے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۰: کسی نے کہا تو نے مجھے لڑکی دی اس نے کہا دی اگرنکاح کی مجلس ہے تو نکاح ہے اورمنگنی کی ہے تومنگنی۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۱: عورت کو اپنی دلہن یا بی بی کہہ کر پکارا اس نے جواب دیا تو اس سے نکاح نہیں ہوتا (ردالمحتار)

نکاح کے لئے چند شرطیں ہیں :۔

(۱) عاقل ہونا۔مجنوں یانا سمجھ بچہ نے نکاح کیا تو منعقد ہی نہ ہوا

(۲) بلوغ۔ نابالغ اگر سمجھ والا ہے تو منعقد ہو جائے گا مگر ولی کی اجازت پر موقوف رہے گا۔

(۳) گواہ ہونا۔ یعنی ایجاب و قبول دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کے سامنے ہوں ۔ گواہ آزاد عاقل بالغ ہوں اور سب نے ایک ساتھ نکاح کے الفاظ سنے۔ بچوں اور پاگلوں کی گواہی سے نکاح نہیں ہو سکتا نہ غلام کی گواہی سے اگرچہ مدبر یا مکاتب ہو۔ مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت کے ساتھ ہے تو گواہوں کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے لہذا مسلمان مرد و عورت کا نکاح کافر کی شہادت سے نہیں ہو سکتا اور اگر کتابیہ سے مسلمان مرد کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ ذمی کافر بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ عورت کے مذہب کے خلاف گواہوں کا مذہب ہو۔ مثلاً عورت نصرانیہ ہے اور گواہ یہودی یا بالعکس یونہی اگر کافرو کافرہ کا نکاح ہو تو اس نکاح کے گواہ کافر بھی ہو سکتے ہیں اگرچہ دوسرے مذہب کے ہوں ۔

مسئلہ ۳۲: سمجھ والے بچے یا غلام کے سامنے نکاح ہوا اور مجلس نکاح میں وہ لوگ بھی تھے جو نکاح کے گواہ ہو سکتے ہیں پھر وہ بچہ بالغ ہو کر یا غلام آزاد ہونے کے بعد اس نکاح کی گواہی دیں کہ کہ ہمارے سامنے نکاح ہوا اور اس وقت ہمارے سوا نکاح میں اورلوگ بھی موجود تھے جن کی گواہی سے نکاح ہوا تو ان کی گواہی مان لی جائے گی۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۳۳: مسلمان کا نکاح ذمیہ سے ہوا اور گواہ ذمی تھے اب اگر مسلمان نے نکاح سے انکار کر دیا تو ان کی گواہی سے نکاح ثابت نہ ہو گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۳۴: صرف عورتوں یا خنثی کی گواہی سے نکاح نہیں ہو سکتا۔ جب تک ان میں سے دو کے ساتھ ایک مرد نہ ہو۔ (خانیہ)

مسئلہ ۳۵: سوتے ہوئوں کے سامنے ایجاب و قبول ہوا تونکاح نہ ہوا یونہی اگر دونوں گواہ بہرے ہوں کہ انہوں نے الفاظ نکاح نہ سنے تو نکاح نہ ہوا۔ (خانیہ)

مسئلہ ۳۶: ایک گواہ سنتا ہوا ہے اور ایک بہرہ۔ بہرے نے نہیں سنا اور اس سننے والے یا کسی اور نے چلا کر اس کے کان میں کہا نکاح نہ ہوا جب تک دونوں گواہ ایک ساتھ عاقدین سے نہ سنیں ۔ (خانیہ)

مسئلہ ۳۷: ایک گواہ نے سنا دوسرے نے نہیں پھر لفظ کا اعادہ کیا۔ اب دوسرے نے سنا پہلے نے نہیں تو نکاح نہ ہوا۔ (خانیہ)

مسئلہ ۳۸: گونگے گواہ نہیں ہو سکتے کہ جو گونگا ہوتا ہے بہرا بھی ہوتا ہے ہاں اگر گونگا ہو بہرا نہ ہوتو ہو سکتا ہے۔ (ہندیہ)

مسئلہ ۳۹: عاقدین گونگے ہوں تونکاح اشارے سے ہو گا لہذا اس نکاح کا گواہ گونگا بھی ہو سکتا ہے اور بہرا بھی۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۰: گواہ دوسرے ملک کے ہیں کہ یہاں کی زبان نہیں سمجھتے تو اگر یہ سمجھ رہے ہیں کہ نکاح ہو رہا ہے اور الفاظ بھی سنے اور سمجھے یعنی وہ الفاظ زبان سے ادا کر سکتے ہیں اگرچہ ان کے معنی نہیں سمجھتے نکاح ہو گیا۔ (خانیہ، عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۱: نکاح کے گواہ فاسق ہوں یا اندھے یا ان پر تہمت کی حد لگائی گئی ہو تا ان کی گواہی سے نکاح منعقد ہو جائے گا مگر عاقدین میں سے اگر کوئی انکار کر بیٹھے تو ان کی شہادت سے نکاح ثابت نہ ہو گا۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۴۲: عورت یا مرد دونوں کے بیٹے گواہ ہوئے نکاح ہو جائے گا مگر میاں بی بی میں سے اگر کسی نے نکاح سے انکار کر دیا تو ان لڑکوں کی گواہی اپنے باپ یا ماں کے حق میں مفید نہیں مثلاً مرد کے بیٹے گواہ تھے اور عورت نکاح سے انکار کرتی ہے اب شوہر نے اپنے بیٹوں کی گواہی کے لئے پیش کیا تو ان کی گواہی اپنے باپ کے لئے نہیں مانی جائے گی اور اگر وہ دونوں گواہ دونوں کے بیٹے ہوں یا ایک ایک کا دوسرا دوسرے کا تو ان کی گواہی کسی کے لئے نہیں مانی جائے گی۔ (درمختار وغیرہ)

مسئلہ ۴۳: کسی نے اپنی بالغہ لڑکی کا نکاح اس کی اجازت سے کر دیا اور اپنے بیٹوں کو گواہ بنایا۔ اب لڑکی کہتی ہے کہ میں نے اذن نہیں دیا اور اس کا باپ کہتا ہے ہے دیا تو لڑکوں کی گواہی کہ اذن دیا تھا مقبول نہیں ۔ (خانیہ)

مسئلہ ۴۴: ایک شخص نے کسی سے کہا کہ میری نابالغہ لڑکی کا نکاح فلاں سے کر دے اس نے ایک گواہ کے سامنے کر دیاتو اگر لڑکی کا باپ بوقت نکاح موجود تھا تو نکاح ہو گیا کہ وہ دونوں گواہ ہو جائیں گے اور باپ عاقد اور موجود نہ تھا تو نہ ہوا۔ یونہی اگر بالغہ کا نکاح اس کی اجازت سے باپ نے ایک شخص کے سامنے پڑھایا اگر لڑکی بوقت عقد موجود تھی ہو گیا ورنہ نہیں ۔ یونہی اگر عورت نے کسی کو اپنے نکاح کا وکیل کیا اس نے ایک شخص کے سامنے پڑھا دیا تو اگر مؤکلہ موجود ہے ہو گیا ورنہ نہیں ۔ خلاصہ یہ ہے کہ مو ٔکل اگر بوقت عقد موجود تھا تو اگرچہ وکیل عقد کر رہا ہے مگر مؤکل عاقد قرار پائے گا اور وکیل گواہ مگر یہ ضرور ہے کہ گواہی دیتے وقت اگر وکیل نے کہا میں نے پڑھایا ہے تو شہادت نا مقبول ہے کہ یہ خود اپنے فعل کی شہادت ہوئی۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۵: مولی نے اپنی باندی یا غلام کا ایک شخص کے سامنے نکاح کیا تو اگرچہ وہ موجود ہو نکاح نہ ہوا اور اگر اسے نکاح کی اجازت دے دی پھر اس کی موجودگی میں ایک شخص کے سامنے نکاح کیا تو ہو جائے گا۔ (درمختار)

مسئلہ ۴۶: گواہوں کا ایجاب و قبول کے وقت ہونا شرط ہے فلہذا اگر نکاح اجازت پر موقوف ہے اور ایجاب و قبول گواہوں کے سامنے ہوئے اور اجازت کے وقت نہ تھے ہو گیا اور اس کا برعکس ہوا تو نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۴۷: گواہ اسی کو نہیں کہتے جو دو شخص مجلس عقد میں مقرر کر لئے جاتے ہیں بلکہ وہ تمام حاضرین گواہ ہیں جنہوں نے ایجاب و قبول سنا مگر قابل شہادت ہوں ۔

مسئلہ ۴۸: ایک گھر میں نکاح ہوا اور یہاں گواہ نہیں دوسرے مکان میں کچھ لوگ ہیں جن کو انہوں نے گواہ نہیں بنایا مگر وہ وہاں سے سن رہے ہیں اگر وہ لوگ انہیں دیکھ بھی رہے ہوں تو ان کی گواہی مقبول ہے ورنہ نہیں ۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۴۹: عورت سے اذن لیتے وقت گواہوں کی ضرورت نہیں یعنی اس وقت اگر گواہ نہ بھی ہوں اور نکاح پڑھاتے وقت ہوں تو نکاح ہو گیا البتہ اذن کے لئے گواہوں کی یوں حاجت ہے کہ اگر اس نے انکار کر دیا اوریہ کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھا تو اب گواہوں سے اس کا اذن دینا ثابت کیا جائے گا۔ (عالمگیری، ردالمحتار وغیرہ)

مسئلہ ۵۰: یہ جو تمام ہندوستان میں عام طور پر رواج پڑا ہوا ہے کہ عورت سے ایک شخص اذن لے کر آتا ہے جسے وکیل کہتے ہیں وہ نکاح پڑھانے والے سے کہہ دیتا ہے میں فلاں کا وکیل ہوں آپ کو اجازت دیتا ہوں کے نکاح پڑھا دیجئیے۔ یہ طریقہ محض غلط ہے۔ وکیل کو یہ اختیارنہیں کہ اس کام کے لئے دوسرے کو وکیل بنا دے۔ اگر ایسا کیا تو نکاح فضولی ہوا۔ اجازت پر موقوف ہے اجازت سے پہلے مرد و عورت ہر ایک کو توڑ دینے کا اختیار حاصل ہے بلکہ یوں چاہیئے کہ جو پڑھائے وہ عورت یا اس کے ولی کا وکیل بنے۔ خواہ یہ خود اس کے پاس جا کر وکالت حاصل کرے یا دوسرا اس کی وکالت کے لئے اذن لائے کہ فلاں بن فلاں بن فلاں کو تونے وکیل کیا کہ وہ تیرا نکاح فلاں بن فلاں بن فلاں سے کر دے۔ عورت کہے ہاں ۔

مسئلہ ۵۱: یہ امر بھی ضروری ہے کہ منکوحہ گواہوں کو معلوم ہو جائے یعنی یہ کہ فلاں عورت سے نکاح ہوتا ہے اس کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ اگر وہ مجلس عقد میں موجود ہے توا س کی طرف نکاح پڑھانے والا اشارہ کر کہے کہ میں نے اس کو تیرے نکاح میں دیا تو اگرچہ عورت کے منہ پر نقاب پڑا ہو بس اشارہ کافی ہے اور اس صورت میں اگر اس کے یا اس کے باپ دادا کے نام میں غلطی بھی ہو جائے تو کچھ حرج نہیں کہ اشارہ کے بعد اب کسی نام وغیرہ کی ضرورت نہیں اور اشارے کی تعیین کے مقابل کوئی تعیین نہیں ۔ دوسری صورت معلوم کرنے کی یہ ہے کہ عورت اور اس کے باپ اور دادا کے نام لئے جائیں کہ فلاں بنت فلاں بن فلاں ۔ اور اگر صرف اس کے نام لینے سے گواہوں کو معلوم ہو جائے کہ فلانی عورت سے نکاح ہوا تو باپ دادا کے نام لینے کی ضرورت نہیں پھر بھی احتیاط اس میں ہے کہ ان کے نام بھی لئے جائیں اور اس کی اصلاً ضرورت نہیں کہ اسے پہچانتے ہوں بلکہ یہ جاننا کافی ہے کہ فلانی اور فلاں کی بیٹی فلاں کی پوتی ہے اور اس صورت میں اگر اس کے یا اس کے باپ دادا کے نام میں غلطی ہوئی تو نکاح نہ ہوا اور ہماری غرض نام لینے سے یہ نہیں کہ ضرور اس کا نام ہی لیا جائے بلکہ مقصود یہ ہے کہ تعیین ہو جائے خواہ نام کے ذریعہ سے یا یوں کہ فلاں بن فلاں بن فلان کی لڑکی اور اگر اس کی چند لڑکیاں ہوں تو بڑی یا منجھلی یا سنجھلی یا چھوٹی غرض معین ہو جانا ضرور ہے اور چونکہ ہندوستان میں عورتوں کا نام مجمع میں ذکر کرنا معیوب ہے لہذا یہی پچھلا طریقہ یہاں کے حال کے مناسب ہے۔ (ردالمحتار)

تنبیہ: بعض نکاح خواں کو دیکھا گیا ہے کہ رواج کی وجہ سے نام نہیں لیتے اور نام لینے کو ضروری بھی سمجھتے ہیں لہذا دولہا کے کان میں چپکے سے لڑکی کا نام ذکر کر دیتے ہیں پھر ان لفظوں سے ایجاب کرتے ہیں کہ فلاں کی لڑکی جس کا نام تجھے معلوم ہے میں نے اپنی وکالت سے تیرے نکاح میں دی۔ اس صورت میں اگر اس کی اور لڑکیاں بھی ہیں توگواہوں کے سامنے تعیین نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ اگر یوں کہا کہ میں نے اپنی مؤکلہ تیرے نکاح میں دی یا جس عورت نے اپنا اختیار مجھے دے دیا ہے اسے تیرے نکاح میں دیا تو فتوی اس پر ہے کہ نکاح نہ ہوا۔

مسئلہ ۵۲: ایک شخص کی دو لڑکیاں ہیں اور نکاح پڑھانے والے نے کہا کہ فلاں کی لڑکی تیرے نکاح میں دی تو ان میں اگر ایک کا نکاح ہو چکا ہے تو ہو گیا کہ وہ جو باقی ہے وہی مراد ہے۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۳: وکیل نے مؤکلہ کے باپ کے نام میں غلطی کی اور مؤکلہ کی طرف اشارہ بھی نہ ہو تو نکاح نہیں ہوا۔ یونہی اگر لڑکی کے نام میں غلطی کرے جب بھی نہ ہوا۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۴: کسی کی دو لڑکیاں ہیں بڑی کا نکاح کر نا چاہتا ہے اور نام لے دیا چھوٹی کا تو چھوٹی کا نکاح ہوا اور کہا بڑی لڑکی جس کا نام یہ ہے اور نام لیا چھوٹی کا تو کسی کا نہ ہوا۔ (درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ ۵۵: لڑکی کے باپ نے لڑکے کے باپ سے صرف اتنے لفظ کہے کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح کیا لڑکے کے باپ نے کہا میں نے قبول کیا تو یہ نکاح لڑکے کے باپ سے ہوا۔ اگرچہ پیشتر سے خود لڑکے کی نسبت وغیرہ ہو چکی ہو اور اگر یوں کہا کہ میں نے اپنی لڑکی کا نکاح تیرے لڑکے سے کیا، اس نے کہا میں نے قبول کیا تو اب لڑکے سے ہوا۔ اگرچہ اس نے یہ نہ کہا تھا کہ کہ میں نے اپنے لڑکے کیلئے قبول کی اور اگر پہلی صورت میں یہ کہتا کہ میں نے اپنے لڑکے کے لئے قبول کی تو لڑکے ہی کا ہوتا۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۶: لڑکے کے باپ نے کہا توا پنی لڑکی کا نکاح میرے لڑکے سے کر دے اس نے کہا میں نے تیرے نکاح میں دی اس نے کہا میں نے قبول کی تو اسی کا نکاح ہوا۔ اس کے لڑکے کا نہ ہوا اور ایسا بھی اب نہیں ہو سکتا کہ باپ طلاق دے کر لڑکے سے نکاح کر دے وہ تو ہمیشہ کے لئے لڑکے پر حرام ہو گئی۔ (ردالمحتار)

مسئلہ ۵۷: عورت سے اجازت لیں تو اس میں بھی زوج اور اس کے باپ دادا کے نام ذکر کر دیں کہ جہالت باقی نہ رہے۔

مسئلہ ۵۸: عورت نے اذن دیا اگر اس کو دیکھ رہا ہے اور پہچانتا ہے تو اس کے اذن کا گواہ ہو سکتاہے یونہی اگر مکان کے اندر سے آواز آئی اور اس گھر میں وہ تنہا ہے تو وہ بھی شہادت دے سکتا ہے اور اگر تنہا نہیں اور اذن دینے کی آواز آئی تو اگر بعد میں عورت نے کہا کہ میں نے اذن نہیں دیا تھاتو یہ گواہی نہیں دے سکتا۔ کہ اسی نے اذن دیا تھا مگر واقعی اگر اس نے اذن دے دیا تھا جب تو پوری طرح سے نکاح ہو گیا ورنہ نکاح فضولی ہو گا کہ اس کی اجازت پر موقوف رہے گا۔ (ردالمحتار وغیرہ) سنا گیا ہے کہ بعض لڑکیاں اذن دیتے وقت کچھ نہیں بولتیں دوسری عورتیں ہوں کر دیا کرتی ہیں یہ نہیں چاہیئے۔

(۴) ایجاب و قبول دونوں کا ایک مجلس میں ہونا۔ تو اگر دونوں ایک مجلس میں موجود تھے ایک نے ایجاب کیا دوسرا قبول سے پہلے اٹھ کھڑا ہو یا کوئی ایسا کام شروع کر دیا جس سے مجلس بدل جاتی ہے تو ایجاب باطل ہو گیا اب قبول کرنا بے کار ہے پھر سے ہونا چاہیئے۔ (عالمگیری)

مسئلہ ۵۹: مر د نے کہا میں نے فلانی سے نکاح کیا اور وہ وہاں موجود نہ تھی اسے خبر پہنچی تو کہا میں نے قبول کیا یا عورت نے کہا میں نے اپنے کو فلاں کی زوجیت میں دیا اور وہ غائب تھا جب خبر پہنچی تو کہا میں نے قبول کیا تو دونوں صورتوں میں نکاح نہ ہوا۔ اگرچہ جن گواہوں کے سامنے ایجاب ہوا۔ انہیں کے سامنے قبول بھی ہوا۔ (عالمگیری)

مسئلہ۰ ۶: اگر ایجاب کے الفاظ خط میں لکھ کر بھیجے اور جس مجلس میں خط اس کے پاس پہنچا اس میں قبول نہ کیا بلکہ دوسری مجلس میں گواہوں کو بلا کر قبول کیا تو ہو جائے گا جب کہ وہ شرطیں پائی جائیں جو اوپر مذکور ہوئیں جس کے ہاتھ خط بھیجا مرد ہو یا عورت آزاد ہو یا غیر آزاد بالغ ہو یا نابالغ صالح ہو یا فاسق۔ (عالمگیری )

مسئلہ ۶۱: کسی کی معرفت ایجاب کے الفاظ کہلا کر بھیجے اس پیغام پہنچانے والے نے جس مجلس میں پیغام پہنچایا اس میں قبول نہ کیا پھر دوسری مجلس میں قاصد نے تقاضا کیا۔ اب قبول کیا تو نکاح نہ ہوا۔( ردالمحتار)

مسئلہ ۶۲: چلتے ہوئے یا جانور پر سوار جارہے تھے اور ایجاب و قبول ہوا نکاح نہ ہوا۔ کشتی پر جا رہے تھے اور اس حالت میں ہوا تو ہو گیا۔ (ردالمحتار وغیرہ)

مسئلہ ۶۳: ایجاب کے بعد فوراً قبول کرنا شرط نہیں جب کہ مجلس نہ بدلی ہو لہذا اگر نکاح پڑھانے والے نے ایجاب کے الفاظ کہے اور دولہا نے سکوت کیا پھر کسی کے کہنے پر قبول کیا تو ہو گیا۔ (ردالمحتار وغیرہ)

(۵) قبول ایجاب کے مخالف نہ ہو مثلاً اس نے کہا ہزار روپے مہر پر تیرے نکاح میں دی اس نے کہا نکاح تو قبول کیا اور مہر قبول نہیں کیا تو نکاح نہ ہوا۔ اور اگر نکاح قبول کیا اور مہر کی نسبت کچھ نہ کہا تو ہزار پر نکاح ہو گیا۔ (عالمگیری، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۴: اگر کہا ہزار پر تیرے نکاح میں دی اس نے کہا دو ہزار پر میں نے قبول کی یا مرد نے عورت سے کہا ہزار روپے مہر پر میں نے تجھ سے نکاح کیا عورت نے کہا پانسو مہر پر میں نے قبول کیا تو نکاح ہو گیا مگر پہلی صورت میں اگر عورت نے بھی اسی مجلس میں دو ہزار قبول کئے تو مہر دو ہزار ورنہ ایک ہزار دوسری صورت میں مطلقاً پانسو مہر ہے۔ اگر عورت نے ہزار کو کہا مرد نے پانسو پر قبول کیا تو ظاہر یہ ہے کہ نہیں ہوا اس لئے کہ ایجاب کے مخالف ہے۔ (عالمگیری ، ردالمحتار)

مسئلہ ۶۵: غلام نے بغیر اجازت مولی اپنا نکاح کسی عورت سے کیا اور مہر خود اپنے کو کیا اس کے مولی نے نکاح تو جائز کیا مگر غلام کے مہر میں ہونے کی اجازت نہ دی تو نکاح ہو گیا اور مہر کی نسبت یہ حکم ہے کہ مہرمثل و قیمت غلام دونوں میں جو کم ہے وہ مہر ہے غلام بیچ کر مہر ادا کیا جائے۔ (عالمگیری)

(۶) لڑکی بالغہ ہے تو اس کا راضی ہونا شرط ہے ولی کو یہ اختیارنہیں کہ بغیر اس کی رضا کے نکاح کر دے۔

(۷) کسی زمانہ آئندہ کی طرف نسبت نہ کی ہو نہ کسی شرط نامعلوم پر معلق کیا ہو مثلاً میں نے تجھ سے آئندہ روز میں نکاح کیا یا میں نے نکاح کیا اگر زید آئے ان صورتوں میں نکاح نہ ہوا۔

مسئلہ ۶۶: جب کہ صریح الفاظ نکاح میں استعمال کئے جائیں تو عاقدین اور گواہوں کا ان کے معنی جاننا شرط نہیں ۔ (درمختار)

(۸) نکاح کی اضافت کل کی طرف ہو یا ان اعضاء کی طرف جن کو بول کرکل مراد لیتے ہیں تو اگر یہ کہا فلاں کے ہاتھ یا پائوں یا نصف سے نکاح کیا صحیح نہ ہوا۔ (عالمگیری)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button