قرآن مجید پڑھنے کا بیان
اللہ عزوجل فرماتا ہے:۔
فَاقْرَئُ وْمَا تَیسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ
(قرآن سے جو میّسر آئے پڑھو)
اور فرماتا ہے:۔
وَاِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہ‘ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ
(جب قرآن پڑھا جائے اسے سُنو اور چپ رہو اس امید پر کہ رحم کئے جائو)
حدیث۱تا۳: امام بخاری و مسلم نے عبادہ بن ضامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی حضور اقدس ﷺ ارشاد فرماتے ہیںجس نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں یعنی نماز کامل نہیں چنانچہ دوسری روایت صحیح مسلم شریف میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے فَھِیَ خِدَاجٌ وہ نماز ناقص ہے یہ حکم اس کے لئے ہے جو امام ہو یا تنہا پڑھتا ہو اور مقتدی کو خود پڑھنا نہیں بلکہ امام کی قرأت اس کی قرأت ہے کہ اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی و حاکم نے جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا اور اسی کے مثل امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کی امام حلبی نے فرمایا کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
حدیث۴تا۶: امام ابو جعفر شرح معانی الآثار میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر و زید بن ثابت و جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے سوال ہوا ان سب حضرات نے فرمایا۔ امام کے پیچھے کسی نماز میں قرأت نہ کر۔
حدیث۷: امام محمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے موطا میں روایت کی کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے امام کے پیچھے قرأت کے بارے میں سوال ہوا فرمایا خاموش رہ کہ نماز میں شغل ہے اور امام کی قرأت تجھے کافی ہے۔
حدیث۸: سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں دوست رکھتا ہوں کہ جو امام کے پیچھے قرأت کرتا ہے اس کے منہ میں انگارا ہو۔
حدیث۹: امیر المومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو امام کے پیچھے قرأت کرتا ہے کاش اس کے منہ میں پتھر ہو۔
حدیث۱۰: حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ فرمایا جس نے امام کے پیچھے قرأت کی اس نے فطرت سے خطا کی۔
احکام فقہیہ
یہ تو معلوم ہو چکا کہ قرأت میں اتنی آواز درکار ہے کہ اگر کوئی مانع نہ ہو مثل ثقل سماعت شور وغل تو خود سُن سکے اگر اتنی آواز بھی نہ ہو تو نماز نہ ہو گی۔ اسی طرح جن معاملات میں نطق کو دخل ہے سب میں اتنی آواز ضروری ہے مثلاً جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ کہنا، طلاق، عتاق ، استشناء، آیت سجدہ پڑھنے پر سجدۂ تلاوت واجب ہونا۔
مسئلہ۱: فجر و مغرب و عشا ء کی دو پہلی میں اور جمعہ و عیدین و تراویح اور وتر رمضان کی سب میں امام پر جہر واجب ہے اور مغرب کی تیسری اور عشاء کی تیسری چوتھی یا ظہر و عصر کی تمام رکعتوں میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۷ وغیرہ)
مسئلہ۲: جہر کے یہ معنیٰ ہیں کہ دوسرے لوگ یعنی وہ کہ صفِ اوّل میں سُن سکیں یہ اولیٰ درجہ ہے اور اعلیٰ کے لئے کوئی حد مقرر نہیں اور آہستہ یہ خود سُن سکے۔ (عامہ کتب)
مسئلہ۳: اس طرح پڑھنا کہ فقط دو آدمی جو اس کے قریب ہیں سُن سکیں جہر نہیں بلکہ آہستہ ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۸)
مسئلہ۴: حاجت سے زیادہ اس قدر بلند آواز سے پڑھنا کہ اپنے یا دوسرے کے لئے باعثِ تکلیف ہو مکروہ ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۴۹۷)
مسئلہ۵: آہستہ پڑھ رہا تھا کہ دوسرا شخص شامل ہو گیا تو جو باقی ہے اُسے جہر سے پڑھے اور جو پڑھ چکا ہے اس کا اعادہ نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۴۹۷)
مسئلہ۶: ایک بڑی آیت جیسے آیت الکرسی یا آیت مدائنہ اگر ایک رکعت میں اس میں کا بعض پڑھا اور دوسری میںبعض تو جائز ہے جب کہ ہر رکعت میں جتنا پڑھا بقدر تین آیت کے ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۶۹)
مسئلہ۷: دن کے نوافل میں آہستہ پڑھنا واجب ہے اور رات کے نوافل میں اختیار ہے اگر تنہا پڑھے اور جماعت سے رات کے نفل پڑھے تو جہر واجب ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۸)
مسئلہ۸: جہری نمازوں میں منفرد کو اخیتار ہے اور افضل جہر ہے جب کہ ادا پڑھے اور جب قضا ہے تو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۴۹۸)
مسئلہ۹: جہری کی قضا اگرچہ دن میں ہو امام پر جہر واجب ہے اور سرّی کی قضا میں آہستہ پڑھنا واجب ہے اگرچہ رات میں ادا کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۳، درمختار ج ۱ ص ۴۹۷)
مسئلہ۱۰: چار رکعتی فرض کی پہلی دونوں رکعتوں میں سورت بھول گیا تو پچھلی رکعتوں میں پڑھنا واجب ہے اور ایک میں بھول گیا ہے تو تیسری یا چوتھی میں پڑھے اور مغرب کی پہلی دونوں میں بھول گیا تو تیسری میں پڑھے اور ایک رکعت کی قرأت سورت جاتی رہی اور ان سب صورتوں میں فاتحہ کے ساتھ پڑھے جہری نماز ہو تو فاتحہ و سورت جہراً پڑھے ورنہ آہستہ ان سب صورتوں میں سجدۂ سہو کرے اور قصداً چھوڑی تو اعادہ کرے۔ (درمختا، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۰)
مسئلہ۱۱: سور ت ملانا بھول گیا رکوع میں یاد آیا تو کھڑا ہو جائے اور سورت ملائے پھر رکوع کرے اور اخیر میں سجدۂ سہو کرے اگر دوبارہ رکوع نہ کرے تو نماز نہ ہوگی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۰۰)
مسئلہ۱۲: فرض کی پہلی رکعتوں میں فاتحہ بھول گیا تو پچھلی رکعتوں میں اس کی قضا نہیں اور رکوع سے پیشتر یاد آیا تو فاتحہ پڑھ کر پھر سورت پڑھے یوہیں اگر رکوع میں یاد آیا تو قیام کی طرف عود کرے اور فاتحہ و سورت پڑھے پھر رکوع کرے اگر دوبارہ رکوع نہ کرے گا نماز نہ ہوگی۔ (درمختار، ردالمحتار ج۱ ص ۵۰۰)
مسئلہ۱۳: ایک آیت کا حفظ کرنا ہر مسلمان مکلّف پر فرض عین ہے اور پورے قرآن مجید کا حفظ کرنا فرض کفایہ اور سورۂ فاتحہ اور ایک دوسری چھوٹی سورت یا اس کی مثل تین چھوٹی آیتیں یا ایک بڑی آیت کا حفظ واجب عین ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۰۲)
مسئلہ۱۴: بقدر ضرورت مسائل فقہ کا جاننا فرض عین ہے اور حاجت سے زائد سیکھنا حفظ جمیع قرآن سے افضل ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۲)
مسئلہ۱۵: سفر میں اگر امن و قرار ہو تو سنت یہ ہے کہ فجر و ظہر میں سورۂ بروج یا اس کی مثل سورتیں پڑھیں اور عصر و عشاء میں اس سے چھوٹی اور مغرب میں قصار مفصّل کی چھوٹی سورتیں اور جلدی ہو تو ہر نماز میں جو چاہے پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۷)
مسئلہ۱۶: اضطراری حالت میں مثلاً وقت جاتے رہنے یا دشمن یا چور کا خوف ہو تو بقدر حال پڑھے خواہ سفر میں ہو یا حضر میں مثلاً فجر کا وقت اتنا تنگ ہے کہ صرف ایک ایک آیت پڑھ سکتا ہے تو یہی کرے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۴) مگر بعد بلندی آفتاب اس نماز کا اعادہ کرے۔
مسئلہ۱۷: سنت فجر میں جماعت جانے کو خوف ہو تو صرف واجبات پر اقتصار کرے ثنا و تعوذ کو ترک کرے اور رکوع و سجود میں ایک بار تسبیح پر اکتفا کرے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۴)
مسئلہ۱۸: حضر میں جب کہ وقت تنگ نہ ہو تو سنت یہ ہے کہ فجر و ظہر میں طوال مفصل پڑھے اور عصر و عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل اور ان سب صورتوں میں امام و منفرد دونوں کا ایک ہی حکم ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۰۴ وغیرہ)
فائدہ: حجرات سے آخر تک قرآن مجید کی سورتوں کو مفصل کہتے ہیں اس کہ یہ تین حصّے ہیں سورہ حجرات سے بروج تک طوال مفصل اور بروج سے لم یکن تک اوساط مفصل اور لم یکن سے آخر تک قصار مفصل۔
مسئلہ۱۹: عصر کی نماز وقت مکروہ میں ادا کرے جب بھی صواب یہ ہے کہ قرأت مسنونہ کو پورا کرے جب کہ وقت میں تنگی نہ ہو۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۷)
مسئلہ۲۰: وتر میں نبی ﷺ نے پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ دوسری میں قُلْ یٰااَیُّھَا الْکَفِرُوْنَ اور تیسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ پڑھی ہے لہٰذا کبھی تبرکاً انہیں پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص۸ ۷) اور کبھی پہلی رکعت میں سورہ اعلیٰ کی جگہ اِنَّا اَنْزَلْنَا۔
مسئلہ۲۱: قرأت مسنونہ پر زیادت نہ کرے جب کہ مقتدیوں پر گراں ہو اور شاق نہ ہو تو زیادت قلیلہ میں حرج نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۵)
مسئلہ۲۲: فرضوں میں ٹھہر ٹھہر کر قرأت کرے اور تراویح میں متوسط انداز پر اور رات کے نوافل میں جلد پڑھنے کی اجازت ہے مگر ایسا پڑھے کہ سمجھ میں آسکے یعنی کم از کم مد کا جو درجہ قاریوں نے رکھا ہے اس کو ادا کرے ورنہ حرام ہے اس لئے کہ ترتیل سے قرآن پڑھنے کا حکم ہے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۵) آج کل کے اکثر حفاظ اس طرح پڑھتے ہیں کہ مد کا ادا ہونا بڑی بات ہے یَعْلَمُوْنَ تَعْلَمُوْنَ کے سوا کسی لفظ کا پتہ بھی نہیں چلتا نہ تصحیح حروف ہوتی بلکہ جلدی میں لفظ کے لفظ کھا جاتے ہیں اور تفاخر ہوتا ہے کہ فلاں اس قدر جلد پڑھتا ہے حالانکہ اس طرح قرآن مجید پڑھنا سخت حرام ہے۔
مسئلہ۲۳: ساتوں قرائتیں جائز ہیں مگر اولیٰ یہ ہے کہ عوام جس سے نا آشنا ہوں وہ نہ پڑھے کہ اس میں ان کے دین کا تحفظ ہے جیسے ہمارے یہاں قرأت امام عاصم بروایت حفص رائج ہے لہٰذا یہی پڑھے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۵)
مسئلہ۲۴: فجر کی پہلی رکعت کو بہ نسبت دوسری کے دراز کرنا مسنون ہے اور اس کی مقدار یہ رکھی گئی ہے کہ پہلی میں دو تہائی دوسری میں ایک تہائی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۸)
مسئلہ۲۵: اگر فجر کی پہلی رکعت میں طول فاحش کیا مثلاً پہلی میں چالیس (۴۰) آیتیں دوسری میں تین تو بھی مضائقہ نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۶)
مسئلہ۲۶: بہتر یہ ہے کہ اور نمازوں میں بھی پچھلی رکعت کی قرأت دوسری سے قدرے زیادہ ہو یہی حکم جمعہ و عیدین کا بھی ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۸)
مسئلہ۲۷: سنن و نوافل میں دونوں رکعتوں میں برابر کی سورتیں پڑھے۔ (مینہ)
مسئلہ۲۸: دوسری رکعت کی قرأت پہلی سے طویل کرنا مکروہ ہے جبکہ بیّن فرق معلوم ہوتا ہو اس کی مقدار یہ ہے کہ اگر دونوں سورتوں کی آیتیں برابر ہوں تو تین آیت کی زیادتی سے کراہت ہے اور چھوٹی بڑی ہوں تو آیتوں کی تعداد کا اعتبار نہیں بلکہ حروف کلمات کا اعتبار ہے اگر کلمات و حروف میں بہت تفادت ہو کراہت ہے اگرچہ آیتیں گنتی میں برابر ہوں مثلاً پہلی میں اَلَمْ نَشْرَحْ بڑھی اور دوسری میں لم یکن تو کراہت ہے اگرچہ دونوں میں آٹھ آٹھ آیتیں ہیں۔ (درمختار و ردالمحتار ج ۱ ص ۵۰۶)
مسئلہ۲۹: جمعہ و عیدین کی پہلی رکعت میں سبّح اسم دوسری میں ھَل اتٰک پڑھنا سنت ہے کہ نبی ﷺ سے ثابت ہے یہ اس قاعدہ سے مستشنیٰ ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۰۷ ردالمحتار)
مسئلہ۳۰: سورتوں کا معین کرلینا کہ اس نماز میں ہمیشہ وہی سورت پڑھا کرے مکروہ ہے مگر جو سورتیں احادیث میں وارد ہیں ان کو کبھی کبھی پڑھ لینا مستحب ہے مگر مداومت نہ کرے کہ کوئی واجب نہ گمان کر لے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۰۸،ردالمحتار)
مسئلہ۳۱: فرض نماز مین آیت ترغیب (جس میں ثواب کا بیان ہے) و ترہیب (جس میں عذاب کا ذکر ہے) پڑھے تو مقتدی و امام اس کے ملنے اور اس سے بچنے کی دُعا نہ کریں نوافل با جماعت کا بھی یہی حکم ہے ہاں نفل تنہا پڑھتا ہو تو دُعا کر سکتا ہے ۔(درمختار ص ۵۰۹، ردالمحتار)
مسئلہ۳۲: دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت کی تکرار مکروہ تنزیہی ہے جب کہ کوئی مجبوری نہ ہو اور مجبوری ہو تو بالکل کراہت نہیں مثلاً پہلی رکعت میں پوری قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھی تو اب دوسری میں بھی یہی پڑھے یا دوسری بلاقصد وہی پہلی سورت شروع کر دی یا دوسری سورت یاد نہیں آتی تو وہی پہلی پڑھے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۰)
مسئلہ۳۳: نوافل کی دونوں رکعتوں میں ایک ہی سورت کو مکرر پڑھنا یا ایک رکعت میں اسی سورت کو باربار پڑھنا بلا کراہت جائز ہے۔ (غنیہ)
مسئلہ۳۴: ایک رکعت میں پورا قرآن مجید ختم کر لیا تو دوسری میں فاتحہ کے بعد الٓم سے شروع کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۹)
مسئلہ۳۵: فرائض کی پہلی رکعت میں چند آیتیں پڑھیں اور دوسری میں دوسری جگہ سے چند آیتیں پڑھیں اگرچہ اسی سورت کی ہوں تو اگر درمیان میں دو یا زیادہ آیتیں رہ گئیں تو کوئی حرج نہیں مگر بلا ضرورت ایسا نہ کرے اور اگر ایک ہی رکعت میں چند آیتیں پڑھیں پھر کچھ چھوڑ کر دوسری جگہ سے پڑھا تو مکروہ ہے اور اگر بھول کر ایسا ہوا تو لوٹے اور چھوٹی ہوئی آیتیں پڑھے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۰)
مسئلہ۳۶: پہلی رکعت میں کسی سورت کا آخر پڑھا اور دوسری میں کوئی چھوٹی سورت مثلاً پہلی میں اَفَحَسِبْتُمْ دوسری میں قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ تو حرج نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۸)
مسئلہ۳۷: فرض کی ایک رکعت میں دو سورت نہ پڑھے اور منفرد پڑھ لے تو حرج بھی نہیں بشرطیکہ ان دونوں سورتوں میں فاصل نہ ہو اور اگر بیچ میں ایک یا چند سورتیں چھوڑدیں تو مکروہ ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۰)
مسئلہ۳۸: پہلی رکعت میں کوئی سورت پڑھی اور دوسری میں ایک چھوٹی سورت درمیان سے چھوڑ کر پڑھی تو مکروہ ہے اور اگر وہ درمیان کی سورت بڑی ہے کہ اس کو پڑھے تو دوسری کی قرأت پہلی سے طویل ہو جائے گی تو حرج نہیں ہے وَالتِّینِ کے بعد اِنَّا اَنْزَلْنَا پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور اِذَا جَآء کے بعد قُلْ ھُوَ اللّٰہُ نہ پڑھنا چاہیے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۱۰ وغیرہ)
مسئلہ۳۹: قرآن مجید اُلٹا پڑھنا کہ دوسری رکعت میں پہلی والی سے اوپر کی سورت پڑھے یہ مکروہ تحریمی ہے مثلاً پہلی میں قُلْ یٰااَیُّھَا الْکَفِرُوْنَ پڑھی اور دوسری میں اَلَمْ تَرَ کَیْفَ (درمختار ج ۱ ص ۵۱۰) اس کے لئے سخت وعید آئی ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں جو قرآن اُلٹ کر پڑھتا ہے کیا خوف نہیں کرتا کہ اللہ اس کا دل اُلٹ دے اور بھول کر ہو تو نہ گناہ نہ سجدۂ سہو۔
مسئلہ۴۰: بچوں کی آسانی کے لئے پارہ عم خلاف ترتیب قرآن مجید پڑھنا جائز ہے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۱۰)
مسئلہ۴۱: بھول کر دوسری رکعت میں اوپر کی سورت شروع کر دی یا ایک چھوٹی سورت کا فاصلہ ہو گیا پھر یا د آیا تو جو شروع کر چکا ہے اسی کو پورا کرے اگرچہ ابھی ایک ہی حرف پڑھا ہو مثلاً پہلی میں قُلْ یٰااَیُّھَا الْکَفِرُوْنَ پڑھی اور دوسری میں اَلَمْ تَرَ کَیْفَ یا تَبَّتْ شروع کر دی اب یاد آنے پر اسی کو ختم کرے چھوڑ کر اِذَاجآئَ پڑھنے کی اجازت نہیں۔(درمختار ج ۱ ص ۵۱۰ وغیرہ)
مسئلہ۴۲: بہ نسبت ایک بڑی آیت کے تین چھوٹی آیتوں کا پڑھنا بہتر ہے اور جز و سورت اور پوری سورت میں افضل وہ ہے جس میں زیادہ آیتیں ہوں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۱۱)
مسئلہ۴۳: رکوع کے لئے تکبیر کہی مگر ابھی بھی رکوع میں نہ گیا تھا یعنی گھٹنوں تک ہاتھ پہنچنے کے قابل نہ جُھکا تھا کہ اور زیادہ پڑھنے کا ارادہ ہوا تو پڑھ سکتا ہے کچھ حرج نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۹)
مسائل قرأت بیرون نماز
مسئلہ۴۴: قرآن مجیددیکھ کر پڑھنا، زبانی پڑھنے سے افضل ہے کہ پڑھنا بھی ہے اور دیکھنا اور ہاتھ سے اس کا چھونا بھی یہ سب عبادت ہے۔
مسئلہ۴۵: مستحب یہ ہے کہ با وضو قبلہ رو اچھے کپڑے پہن کر تلاوت کرے اور شروع تلاوت میں اعوذ پڑھنا واجب ہے اور ابتدائے سورت میں بسم اللہ سنت ورنہ مستحب اور اگر جو آیت پڑھنا چاہتا ہے تو اس کی ابتداء میں ضمیر مولا تعالیٰ کی طرف راجع ہے جیسے ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ تو اس سورت میں اعوذ کے بعد بسم اللہ پڑھنے کا استحباب مؤکدہ ہے درمیان میں کوئی دنیوی کام کرے تو اعوذباللہ بسم اللہ پھر پڑھ لے اور دینی کام کیا مثلاً سلام یا اذان کا جواب دیا یا سبحان اللہ اور کلمہ طیّبہ وغیرہ اذکار پڑھے اعوذ باللہ پھر پڑھنا اس کے ذمے نہیں۔ (غنیہ وغیرہ)
مسئلہ۴۶: سورۂ براء ت سے اگر تلاوت شروع کی تو اعوذباللہ بسم اللہ کہہ لے اور جو اس کے پہلے سے تلاوت شروع کی اور سورت براء ت آگئی تو تسمیہ پڑھنے کی حاجت نہیں (غنیہ) اور اس کی ابتداء میں نیا تعوذ جو آج کل کے حافظوں نے نکالا ہے بے اصل ہے اور یہ جو مشہو ر ہے کہ سورۂ توبہ ابتداً بھی پڑھے جب بھی بسم اللہ نہ پڑھے یہ محض غلط ہے۔
مسئلہ۴۷: گرمیوں میں صبح کو قرآن مجید ختم کرنا بہتر ہے اور جاڑوں میں اوّل شب کوکہ حدیث میں ہے جس نے شروع دن میں قرآن ختم کیا شام تک فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور جس میں ابتدائے شب میں ختم کیا صبح تک استغفار کرتے ہیں اس حدیث کو دارمی نے سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا تو گرمیوں میں چونکہ دن بڑا ہوتا ہے تو صبح کے ختم کرنے میں استغفار ملائکہ زیادہ ہو گی اور جاڑوں میں راتیں بڑی ہوتی ہیں تو شروع رات میں ختم کرنے سے استغفار زیادہ ہو گی۔ (غنیہ)
مسئلہ۴۸: تین دن سے کم میں قرآن کا ختم خلاف اولیٰ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے تین رات سے کم میں قرآن پڑھا اس نے سمجھا نہیں اس حدیث کو ابو دائود و ترمذی و نسائی نے عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا۔
مسئلہ۴۹: جب ختم ہو تو تین بار قل ھو اللہ احد پڑھنا بہتر ہے اگرچہ تراویح میں ہو البتہ اگر فرض نماز میں ختم کرے تو ایک بار سے زیادہ نہ پڑھے۔ (غنیہ وغیرہ)
مسئلہ۵۰: لیٹ کر قرآن پڑھنے میں حرج نہیں جب کہ پائوں سمٹے ہوں اور منہ کھلا ہو یوہیں چلنے اور کام کرنے کی حالت میں بھی تلاوت جائز ہے جبکہ دل نہ بٹے ورنہ مکروہ ہے۔ (غنیہ)
مسئلہ۵۱: غسل خانہ اور مواضع نجاست میں قرآن مجید پڑھنا ناجائز ہے۔ (غنیہ)
مسئلہ۵۲: جب بلند آواز سے قرآن پڑھا جائے تو تمام حاضرین پر سُننا فرض ہے جب کہ وہ مجمع بغرض سُننے کے حاضر ہو ورنہ ایک کا سُننا کافی ہے اگرچہ اور اپنے کام میں ہوں۔ (غنیہ، فتاویٰ رضویہ)
مسئلہ۵۳: مجمع میں سب لوگ بلند آواز سے پڑھیں یہ حرام ہے اکثر تیجوں میں سب بلند آواز سے پڑھتے ہیں یہ حرام ہے اگر چند شخص پڑھنے والے ہوں تو حکم ہے کہ آہستہ پڑھیں ۔(درمختار وغیرہ)
مسئلہ۵۴: بازاروں اور جہاں لوگ کام میں مشغول ہوں بلند آواز سے پڑھنا ناجائز ہے لوگ نہ سُنیں گے تو گناہ پڑھنے والے پر ہے اگر کام میں مشغول ہونے سے پہلے اس نے پڑھنا شروع کر دیا ہو اور اگر وُہ جگہ کام کرنے کے لئے مقرر نہ ہو تو اگر پہلے پڑھنا اس نے شروع کیا اور لوگ نہیں سنتے تو لوگوں پر گناہ اور اگرکام شروع کرنے کے بعد اس نے پڑھنا شروع کیا تو اس پر گناہ۔ (غنیہ)
مسئلہ۵۵: جہاں کوئی شخص علم دین پڑھا رہا ہے یا طالب علم علمِ دین کی تکرار کرتے یا مطالعہ دیکھتے ہوں وہاں بھی بلند آواز سے پڑھنا منع ہے۔ (غنیہ)
مسئلہ۵۶: قرآن مجید سُننا تلاوت کرنے اور نفل پڑھنے سے افضل ہے ۔(غنیہ)
مسئلہ۵۷: تلاوت کرنے میں کوئی شخص معظم دینی بادشاہ اسلام یا عالم دین یا پیر یا استاد یا باپ آجائے تو تلاوت کرنے والا اس کی تعظیم کو کھڑا ہو سکتا ہے۔ (غنیہ)
مسئلہ۵۸: عورت کو عورت سے پڑھنا غیر محرم نابینا سے پڑھنے سے بہتر ہے کہ اگرچہ وہ اسے دیکھتا نہیں مگر آواز تو سنتا ہے اور عورت کی آواز بھی عورت ہے یعنی غیرمحرم کو بلا ضرورت سُنانے کی اجازت نہیں ۔(غنیہ)
مسئلہ۵۹: قرآن پڑھ کر بھلا دینا گناہ ہے حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں میری امت کے ثواب مجھ پر پیش کئے گئے یہاں تک کہ تنکا جو مسجد سے آدمی نکال دیتا ہے اور میری امت کے گناہ مجھ پر پیش ہوئے تو اس سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں دیکھا کہ آدمی کو سورت یا آیت دی گئی اور اس نے بھلا دیا اس حدیث کو ابو دائود و ترمذی نے روایت کیا دوسری روایت میں ہے جو قرآن مجید پڑھ کر بھول جائے قیامت کے دن کو کوڑھی ہو کر آئے گا اس حدیث کو ابودائود و دارمی و نسائی نے روایت کیا اور قرآن مجید میں ہے کہ اندھا ہو کر اُٹھے گا۔
مسئلہ۶۰: جو شخص غلط پڑھتا ہو تو سُننے والے پر واجب ہے کہ بتا دے بشرطیکہ بتانے کی وجہ سے کینہ و حسد پیدا نہ ہو۔ (غنیہ) اسی طرح اگر کسی کا مصحف شریف اپنے پاس عاریت ہے اگر اس میں کتابت کی غلطی دیکھی بتا دینا واجب ہے۔
مسئلہ۶۱: قرآن مجید نہایت باریک قلم سے لکھ کر چھوٹا کر دینا جیسا کہ آج کل تعویذی قرآن چھپتے ہیں مکروہ ہے کہ اس میں تحقیر کی صورت ہے (غنیہ) بلکہ حمائل بھی نہ چاہیے۔
مسئلہ۶۲: قرآن مجید بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے جب کہ کسی نمازی یا مریض یا سوتے کو ایذا نہ پہنچے (غنیہ)
مسئلہ۶۳: دیواروں اور محرابوں پر قرآن مجید لکھنا اچھا نہیں اور مصحف شریف کو مطلا کرنے میں حرج نہیں (غنیہ) بلکہ بہ نیّت تعظیم مستحب ہے۔
قرأت میں غلطی ہونے کا بیان
اس باب میں قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ اگر ایسی غلطی ہوئی جس سے معنی بگڑ گئے نماز فاسد ہو گئی ورنہ نہیں۔
مسئلہ۱: اعرابی غلطیاں اگر ایسی ہوں جن سے معنی نہ بگڑتے ہوں تو مفسد نہیں مثلاً تَرْفَعُوْا اَصْوَاتُکُمْ نَعْبَدُ اور اگر اتنا تغّیر ہو کہ اس کا اعتقاد اور قصداً پڑھنا کفر ہو تو احوط یہ ہے کہ اعادہ کرے مثلاً عَصٰی اٰدَمُ رَبَّہ‘ میں میم کو زبر اور بے کو پیش پڑھ دیا اور اِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآئُ میں جلالت کو رفع اور العلما کو زبر پڑھا اور فَسَآئَ مَطَرُ الْمُنْذَرِیْنَ میں ذال کو زیر پڑھا اِیَّاکَ نَعْبُدُ میں کاف زیر پڑھا اور اَلْمُصَّوِرُ کے وائو کو زبر پڑھا۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۰،عالمگیری ج ۱ ص ۸۱)
مسئلہ۲: تشدید کو مخفف پڑھا جیسے اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ میں سے تشدید نہ پڑھی اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ میں ب تشدید نہ پڑھی قُتِّلُوْا تَقْتِیْلاً میں ت پر تشدید نہ پڑھی نماز ہو گئی ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۸۱، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۰)
مسئلہ۳: مخفف کو مشدد پڑھا جیسے وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ میں ذال کو تشدید کے ساتھ پڑھا یا ترکِ ادغام کیا جیسے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ میں لام ظاہر کیا نماز ہو جائے گی۔(عالمگیری ج ۱ ص ۸۱، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۱)
مسئلہ۴: حرف زیادہ کرنے سے اگر معنی نہ بگڑیں نماز فاسد نہ ہوگی جیسے وَانْھٰی عَنِ الْمُنکَرِ میں ر کے بعد ی زیادہ کی ھُمُ الَّذِیْنَ میں میم کو جزم کرکے الف ظاہر کیا اور اگر معنی فاسد ہو جائیں جیسے زَرَابِیُّ کو زَرَابِیْبَ مثانی کو مثانین پڑھا تو نماز فاسد ہو جائیگی۔ (عالمگیری ج ۱ ص (۷۹، ۸۰ا)
مسئلہ۵: کسی حرف کو دوسرے کلمہ کے ساتھ وصل کر دینے سے نماز فاسد نہیں ہوتی جیسے اِیَّاکَ نَعْبُدُ یوہیں کلمہ کے بعض حروف کو قطع کرنا بھی مفسد نہیں یوہیں وقف و ابتداء کابے موقع ہونا بھی مفسد نہیں اگرچہ وقف لازم ہو مثلاً اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحٰتِ پر وقف کیا پھر پڑھا اُوْلٰئِکَ ھُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّۃِ ط یا اَصْحٰبُ النَّارِ پر وقف نہ کیا اور اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ پڑھ دیا اور شَھِدَ اللّٰہُ اَنَّہ‘ لَٓا اِلٰہَ پر وقف کر کے اِلَّا ھُوَ پڑھا ان سب صورتوں میں نماز ہو جائے گی مگر ایسا کرنا بہت قبیح ہے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۸۱ وغیرہ)
مسئلہ۶: کوئی کلمہ زیادہ کر دیا تووہ کلمہ قرآن میںہے یا نہیں اور بہر صورت معنی کا فساد ہوتا ہے یا نہیں اگر معنی فاسد ہو جائیں گے نماز جاتی رہے گی جیسے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ اُوْلٰئِک ھُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ اور اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَاْدُوْ اِثْمًا وَّ جَمَالًا اور اگر معنی متغیر نہ ہوں تو فاسد نہ ہوگی اگرچہ قرآن میں اس کا مثل نہ ہو جیسے اِنَّ اللّٰہَ بِعِبَادِہِ خَبِیْرًا بَصِیْرًا اور فِیْھَا فَاکِھَۃٌ وَّ نَخْلٌ وَّ تُفَّاحٌ وَّ رُمَانٌ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۰ وغیرہ)
مسئلہ۷: کسی کلمہ کو چھوڑ گیا اور معنی فاسد نہ ہوئے جیسے جَزَائُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَامیں دوسریسَیِّئَۃٌ کو نہ پڑھا تو نماز فاسد نہ ہوئی اور اگر اس کی وجہ سے معنی فاسد ہوں جیسے فَمَا لَھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ میں لَا نہ پڑھا جائے تو نماز فاسد ہو گئی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۱، ۵۹۲)
مسئلہ۸: کوئی حرف کم کر دیا اور معنی فاسد ہوں جیسے خَلَقْنَا بلا خ کے اور جَعَلْنَا بغیر ج کے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر معنی فاسد نہ ہوں مثلاً بروجہ ترخیم شرائط کے ساتھ حذف کیا جیسے یَا مَالِکُ میں یَا مَالُ پڑھا تو فاسد نہ ہوگی یوہیں تَعَالیٰ جَدُّ رَبِّنَا میں تعالی حذفِ یاء کے ساتھ پڑھا ہو جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۹، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۲)
مسئلہ۹: ایک لفظ کے بدلے میں دوسرا لفظ پڑھا اگر معنی فاسد نہ ہوں نماز ہو جائے گی جیسے عَلِیْمٌ کی جگہ حَکِیْمٌ اور اگر معنی فاسد ہوں نماز نہ ہوگی جیسے وَعْدًا عَلَیْنَا اِنَّا کُنَّا فٰعِلِیْنَ میںفَاعِلِیْنَ کی جگہ غَافِلِیْنَ پڑھا اگر نسب میں غلطی کی اور منسوب الیہ قرآن میں نہیں ہے نماز فاسد ہو گئی جیسے مَرْیَمُ ابْنَۃُ غَیْلَانَ پڑھا اور قرآن میں ہے تو فاسد نہ ہوئی جیسے مَرْیَمُ ابْنَۃُ لُقْمَانَ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۰) حروف کی تقدیم و تاخیر میں بھی اگر معنی فاسد ہوں نماز فاسد ہے ورنہ نہیں جیسے قَسْوَرَۃٍ کو قَوْسَرَۃٍ پڑھا عَصْفٍ کی جگہ عَفْصٍ پڑھا فاسد ہو گئی اور اِنْفَجَرَتْ کو اِنْفَرَجَتْ۔ پڑھا تو نہیں یہی حکم کلمہ کی تقدیم تاخیر کا ہے جیسے لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّ شَھِیْقٌ میں شَھِیْقٌ کو زَفِیْرٌ پر مقدم کیا فاسد نہ ہوئی اور اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ جَحِیْمٍ وَاِنَّ الْفُجَّارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ پڑھا فاسد ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۰)
مسئلہ۱۰: ایک آیت کو دوسری جگہ پڑھا اگر پورا وقف کر چکا ہے تو نماز فاسد نہ ہوئی جیسے وَالْعَصْرِ اِنَّ الْاِنْسَانَ پر وقف کر کے اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ پڑھا یا اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحٰتِ پر وقف کیا پھر پڑھا اُوْلٰئِکَ ھُمْ شَرُّ الْبَرِیَّۃِ نماز ہو گئی اور اگر وقف نہ کیا تو معنی متغیر ہونے کی صورت میں نماز فاسد ہو جائے گی جیسے یہی مثال ورنہ نہیں جیسے اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحٰتِ کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدُوْسِ کی جگہ جَزَآؤْنِ لْحُسْنٰی پڑھا نماز ہو گئی ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۸۱،۸۲)
مسئلہ۱۱: کسی کلمہ کو مکرّر پڑھا تو معنی فاسد ہونے میں نماز فاسد ہوگی جیسے رَبِّ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ مٰلِکِ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ جب کہ بقصد اضافت پڑھا یعنی رب کا رب مالک کا مالک اور اگر بقصد تصحیح مخارج مکرّر کیا یا بغیر قصد زبان سے مکرّر ہو گیا یا کچھ بھی قصد نہ کیا تو ان سب صورتوں میں نماز فاسد نہ ہوگی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۲)
مسئلہ۱۲: ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنا اگر اس وجہ سے ہے کہ اس کی زبان سے وہ حرف ادا نہیں ہوتا تو مجبور ہے اس پر کوشش کرنا ضروری ہے اگر لاپروائی سے ہے جیسے آج کل کے اکثر حفاظ و علماء کہ ادا ہونے پر قادر ہیں مگر بے خیالی میں تبدیل حرف کر دیتے ہیں تو اگر معنی فاسد ہوں نماز نہ ہوئی اس قسم کی جتنی نمازیں پڑھی ہوں ان کی قضا لازم اس کی تفصیل باب الامامۃ میں مذکور ہو گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۷۹، درمختار ج ۱ ص ۵۹۲)
مسئلہ۱۳: ط ت، س ث ص، ذ ز ظ، ا ء ع، ہ ح، ض ذ ظ، ان حرفوں میں صحیح طور پر امیتاز رکھیں ورنہ معنی فاسد ہونے کی صورت میں نماز نہ ہو گی اور بعض تو س ش، ز ج، ق ک میں بھی فرق نہیں کرتے۔
مسئلہ۱۴: مد، غنہ، اظہار، اخفاء، امالہ بے موقع پڑھا یا جہاں پڑھنا ہے نہ پڑھا تو نماز ہو جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۱)
مسئلہ۱۵: لحن کے ساتھ قرآن پڑھنا حرام ہے اور سُننا بھی حرام مگر مد و لین میں لحن ہوا تو نماز فاسد نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۲) اگر فاحش نہ ہو کہ تان کی حد تک پہنچ جائے۔
مسئلہ۱۶: اللہ عزوجل کے لئے مؤنث کے صیغے یا ضمیر ذکر کرنے سے نماز جاتی رہتی ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۸۲)