نماز مریض کے متعلق مسائل
حدیث ۱: حدیث میں ہے عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیمار تھے حضور اقدس ﷺ سے نماز کے بارے میں سوال کیا فرمایا کھڑے ہو کر پڑھو اگر استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو لیٹ کر اللہ تعالی کسی نفس کو تکلیف نہیں دیتا۔ مگر اتنی کہ اس کی وسعت ہو۔ اس حدیث کو مسلم کے سوا جماعت محدثین نے روایت کیا۔
حدیث ۲: بزاز مسند میں اور بیہقی معرفہ میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ نبی ﷺ ایک مریض کی عیادت کو تشریف لے گئے دیکھا کہ تکیہ پر نماز پڑھتا ہے یعنی سجدہ کرتا ہے اسے پھینک دیا، اس نے لکڑی لی کہ اس پر نماز پڑھے ، اسے بھی پھینک دیا اور فرمایا زمین پر نماز پڑھے اگر استطاعت ہو ورنہ اشارہ کرلے اور سجدہ کو رکوع سے پست کرے۔
مسئلہ ۱: جو شخص بوجہ بیماری کے کھڑے ہو کر نما زپڑھنے پر قادر نہیں کہ کھڑے ہو کر پڑھنے سے ضرر لاحق ہو گا یا مرض بڑھ جائے گا یا دیر میں اچھا ہو گا یا چکر آتا ہے یا کھڑے ہو کر پڑھنے سے قطرہ آئے گا یا بہت شدید درد ناقابل برداشت پیدا ہو جائے گا تو ان سب صورتوں میں بیٹھ کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھے۔ (درمختار ج۱ ص ۷۰۸،۷۰۹) اس کے متعلق بہت سے مسائل فرائض نماز میں مذکور ہوئے۔
مسئلہ ۲: اگر اپنے آپ بیٹھ بھی نہیں سکتا مگر لڑکا یا غلام یا خادم یا کوئی اجنبی شخص وہاں ہے کہ بٹھا دے گا تو بیٹھ کر پڑھنا ضروری ہے اور اگربیٹھا نہیں رہ سکتا تو تکیہ یا دیوار یا کسی شخص پر ٹیک لگا کر پڑھے یہ بھی نہ ہو سکے تو لیٹ کر پڑھے اور بیٹھ کر پڑھنا ممکن ہو تو نماز نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۶،درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۱)
مسئلہ ۳: بیٹھ کر پڑھنے میں کسی خاص طور پر بیٹھنا ضروری نہیں بلکہ مریض پر جس طرح آسانی ہو اس طرح بیٹھے۔ ہاں دو زانو بیٹھنا آسان ہو یا دوسری طرح بیٹھنے کے برابر ہو تو دو زانو بہتر ہے ورنہ جو آسان ہو اختیار کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۶ وغیرہ)
مسئلہ ۴: نفل نماز میں تھک گیا تو دیوار یا عصاپر ٹیک لگانے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے اور بیٹھ کر پڑھنے میں کچھ حرج نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۳)
مسئلہ ۵: چار رکعت والی نماز بیٹھ کر پڑھی،قعدۂ اخیرہ کے موقع پر تشہد پڑھنے سے پہلے قرأت شروع کر دی اور رکوع بھی کیاتو اس کا وہی حکم ہے کہ کھڑا ہو کر پڑھنے والا چوتھی کے بعد کھڑا ہو جاتا ہے لہذا اس نے جب تک پانچویں کا سجدہ نہ کیا ہو تشہد پڑھے اور سجدۂ سہو کرے اورپانچویں کا سجدہ کر لیا تو نماز جاتی رہی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۷)
مسئلہ ۶: بیٹھ کر پڑھنے والا دوسری کے سجدہ سے اٹھااور قیام کی نیت کی مگر قرأت سے پہلے یاد آگیا تو تشہد پڑھے اور نماز پوری ہو گئی اور سجدۂ سہو بھی نہیں ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۷)
مسئلہ ۷: مریض نے بیٹھ کر نماز پڑھی چوتھی کے سجدہ سے اٹھا تو یہ گمان کر کے کہ تیسری ہے قرأت کی اور اشارہ سے رکوع و سجود کیا نماز جاتی رہی اور دوسری کے سجدہ کے بعد یہ گمان کر کے کہ دوسری ہے قرأت شروع کی پھر یاد آیا تو تشہد کی طرف عود نہ کرے بلکہ پوری کرے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے۔(عالمگیری ج۱ ص ۱۳۷)
مسئلہ ۸: کھڑا ہو سکتا ہے مگر رکوع و سجود نہیں کر سکتا یا صرف سجدہ نہیں کر سکتا مثلاً حلق وغیرہ میں پھوڑا ہے کہ سجدہ کرنے سے بہے گا تو بھی بیٹھ کر اشارہ سے پڑھ سکتا ہے بلکہ یہی بہتر ہے اور اس صورت میں یہ بھی کرسکتا ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے اور رکوع کے لئے اشارہ کرے یا رکوع پر قادر ہو تو رکوع کرے پھر بیٹھ کر سجدہ کے لئے اشارہ کرے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۶، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۰)
مسئلہ ۹: اشارہ کی صورت میں سجدہ کا اشارہ رکوع سے پست ہونا ضروری ہے مگر یہ ضرور نہیں کہ سر کو بالکل زمین سے قریب کر دے سجدہ کے لئے تکیہ وغیرہ کوئی چیز پیشانی کے قریب اٹھا کراس پر سجدہ کرنا مکروہ تحریمی ہے خواہ خود اسی نے وہ چیز اٹھائی ہو یا دوسرے نے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۱ وغیرہ)
مسئلہ ۱۰: اگر کوئی چیز اٹھا کر اس پر سجدہ کیا اور سجدہ میں بہ نسبت رکوع کے زیادہ سر جھکا لیا، جب بھی سجدہ ہو گیا مگر گناہگار ہوا اور سجدہ کے لئے سر نہ جھکایا تو ہوا ہی نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۱، عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۶)
مسئلہ۱۱: اگر کوئی اونچی چیز زمین پر رکھی ہوئی ہے اس پر سجدہ کیا اور رکوع کے لئے صرف اشارہ نہ ہوا بلکہ پیٹھ بھی جھکائی تو صحیح ہے بشرطیکہ سجدہ کے شرائط پائے جائیں مثلاً اس چیز کا سخت ہونا جس پر سجدہ کیا۔ کہ اس قدر پیشانی دب گئی ہو کہ پھر دبانے سے نہ دبے اور اس کی اونچائی بارہ (۱۲) انگل سے زیادہ نہ ہو۔ ان شرائط کے پائے جانے کے بعد حقیقۃً رکوع و سجود پائے گئے اشارہ سے پڑھنے والا اسے نہ کہیں گے اور کھڑا ہو کر پڑھنے والا اس کی اقتدا کر سکتا ہے اور یہ شخص جب اس طرح رکوع و سجود کر سکتا ہے اور قیام پر قادر ہے تو اس پر قیام فرض ہے یا اثنائے نماز میں قیام پر قارر ہو گیا تو جو باقی ہے اسے کھڑے ہو کر پڑھنا فرض ہے لہذا جو شخص زمین پر سجدہ نہیں کر سکتا مگر شرائط مذکور کے ساتھ کوئی چیز زمین پر رکھ کر سجدہ کر سکتا ہے اس پر فرض ہے کہ اسی طرح سجدہ کرے اشارہ جائز نہیں اور اگر وہ چیز جس پر سجدہ کیا ایسی نہیں تو حقیقۃً سجود نہ پایا گیابلکہ سجدہ کے لئے اشارہ ہوا لہذا کھڑا ہونے والا اس کی اقتداء نہیں کر سکتا اور اگر یہ شخص اثنائے نماز میں کھڑا ہونے پر قادر ہو ا تو نئے سرے سے پڑھے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۱)
مسئلہ ۱۲: پیشانی میں زخم ہے کہ سجدہ کے لئے ماتھا نہیں لگا سکتا تو ناک پر سجدہ کرے اور ایسا نہ کیا بلکہ اشارہ کیا نماز نہ ہوئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۶)
مسئلہ ۱۳: اگر مریض بیٹھنے پر بھی قادر نہیں تو لیٹ کر اشارہ سے پڑھے خواہ داہنی یا بائیں کروٹ پر لیٹ کر قبلہ کو منہ کرے خواہ چت لیٹ کر قبلہ کو پائوں کرے مگر پائوں نہ پھیلائے کہ قبلہ کو پائوں پھیلانا مکروہ ہے بلکہ گھٹنے کھڑے رکھے اور سر کے نیچے تکیہ وغیرہ رکھ کر اونچا کر لے کہ منہ قبلہ کو ہو جائے اور یہ صورت یعنی چت لیٹ کر پڑھنا افضل ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۱،۷۱۲ وغیرہ)
مسئلہ ۱۴: اگر سر سے اشارہ بھی نہ کر سکے تو نماز ساقط ہے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ آنکھ یا بھوں یا دل کے اشارہ سے پڑھے پھر اگر چھ (۶) رکعت اسی حالت میں گزر گئے تو ان کی قضا بھی ساقط فدیہ کی بھی حاجت نہیں ورنہ بعد صحت ان نمازوں کی قضا لازم ہے اگرچہ اتنی ہی صحت ہو کہ سر کے اشارہ سے پڑھ سکے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۲ وغیرہ)
مسئلہ ۱۵: مریض اگر قبلہ کی طر ف نہ اپنے آپ منہ کر سکتا ہے نہ دوسرے کے ذریعہ سے تو ویسے ہی پڑھ لے اور صحت کے بعد اس نماز کا اعادہ نہیں اور اگر کوئی شخص موجود ہے کہ اس کے کہنے سے قبلہ رو کردے گا مگر اس نے اس سے نہ کہا تو نہ ہوئی۔ اشارہ سے جونمازیں پڑھی ہیں صحت کے بعد ان کا بھی اعادہ نہیں ۔ یونہی اگر زبان بند ہو گئی اور گونگے کی طرح نماز پڑھی پھر زبان کھل گئی تو ان نمازوں کا اعادہ نہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۳، ۷۱۲)
مسئلہ ۱۶: مریض اس حالت کو پہنچ گیا کہ رکوع و سجود کی تعداد یاد نہیں رکھ سکتا تو ا س پر ادا ضروری نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۳)
مسئلہ ۱۷: تندرست شخص نماز پڑھ رہا تھا، اثنائے نماز میں ایسا مرض پیدا ہو گیا کہ ارکان کی ادا پر قدرت نہ رہی تو جس طرح ممکن ہو بیٹھ کر لیٹ کر نماز پوری کرلے۔ نئے سرے سے پڑھنے کی حاجت نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۳، عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۷)
مسئلہ ۱۸: بیٹھ کر رکوع و سجود سے نماز پڑھ رہا تھا اور اثنائے نماز میں قیام پر قادر ہو گیا تو جو باقی ہے کھڑا ہو کر پڑھے اور اشارہ سے پڑھتا تھا۔ اور نماز میں رکوع و سجود پر قادر ہو گیا تو نئے سرے سے پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ص ۱۳۷، درمختارج ۱ ص ۷۱۳)
مسئلہ ۱۹: رکوع و سجود پر قادر نہ تھا کھڑے یا بیٹھے نماز شروع کی رکوع و سجود کے اشارہ کی نوبت نہ آئی تھی کہ اچھا ہو گیا تو اسی نماز کو پورا کرے نئے سرے سے پڑھنے کی حاجت نہیں اوراگر لیٹ کر نماز شروع کی تھی اور اشارہ سے پہلے کھڑے یا بیٹھ کر رکوع و سجود پر قادر ہو گیا تو نئے سرے سے پڑھے۔ (ردالمحتار، درمختار ج ۱ ص ۸۱۳)
مسئلہ ۲۰: چلتی ہوئی کشتی یا جہاز میں بلا عذر بیٹھ کر نماز صحیح نہیں بشرطیکہ اتر کر خشکی میں پڑھ سکے اور زمین پر بیٹھ گئے ہوں تو اترنے کی حاجت نہیں اور کنارے پر بندھی ہو اور اتر سکتا ہو تو اتر کر خشکی میں پڑھے ورنہ کشتی ہی میں کھڑے ہو کر اور بیچ دریا میں لنگر ڈالے ہوئے ہے تو بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں اگر ہوا کے تیز جھونکے لگتے ہوں کہ کھڑے ہونے میں چکر کا غالب گمان ہو اور اگر ہوا سے زیادہ حرکت نہ ہو تو بیٹھ کرنہیں پڑھ سکتے اور کشتی پر نماز پڑھنے میں قبلہ رو ہونا لازم ہے اور جب کشتی گھوم جائے تو نمازی بھی گھوم کر قبلہ کو منہ کر لے اوراگر اتنی تیز گردش ہو کہ قبلہ کو منہ کرنے سے عاجز ہے تو اس وقت ملتوی رکھے ہاں اگر وقت جاتا دیکھے تو پڑھ لے۔ (غنیہ، درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۴،۷۱۳)
مسئلہ ۲۱: جنون یا بے ہوشی اگر پورے چھ (۶) وقت کو گھیرلے تو ان نمازوں کی قضا نہیں اگرچہ بے ہوشی آدمی یا درندے کے خوف سے ہو اور اس سے کم ہو تو قضا واجب ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۴)
مسئلہ ۲۲: اگر کسی کسی وقت ہوش ہو جاتا ہے اگر اس کا وقت مقرر ہے اور اس سے پہلے پورے چھ (۶) وقت نہ گزرے تو قضا واجب اور وقت مقرر نہ ہو بلکہ دفعتہً ہوش آجاتا ہے پھر وہی حالت پیدا ہو جاتی ہے تو اس افاقہ کا اعتبار نہیں یعنی سب بے ہوشیاں متصل سمجھی جائیں گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۷، درمختار ج ۱ ص ۷۱۴)
مسئلہ ۲۳: شراب یا بھنگ پی اگرچہ دوا کی غرض سے اور عقل جاتی رہی تو قضا واجب ہے اگرچہ بے عقلی کتنے ہی زیادہ زمانہ تک ہو یونہی دوسرے نے مجبور کر کے شراب پلا دی جب بھی قضا مطلقاً واجب ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۷، ۱۳۸، د رمختار ج ۱ ص ۷۱۵)
مسئلہ ۲۴: سوتا رہا جس کی و جہ سے نماز جاتی رہی تو قضا فرض ہے اگرچہ نیند پورے چھ (۶) وقت کو گھیر لے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۱۵)
مسئلہ ۲۵: اگر یہ حالت ہو کہ روزہ رکھتا ہیے تو کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا اور نہ رکھے تو کھڑے ہو کر پڑھ سکے گا تو روزہ رکھے اور نماز بیٹھ کرپڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۸)
مسئلہ ۲۶: مریض نے وقت سے پہلے نماز پڑھ لی اس خیال سے کہ وقت میں نہ پڑھ سکے گا تو نماز نہ ہوئی اور بغیر قرأت بھی نہ ہو گی مگر جبکہ قرأت سے عاجز ہو تو ہو جائے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۸)
مسئلہ ۲۷: عورت بیمار ہو تو شوہر پر فرض نہیں کہ اسے وضو کرا دے اور غلام بیمار ہو تو وضو کرا دینا مولی کے ذمہ ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۸)
مسئلہ ۲۸: چھوٹے سے خیمہ میں ہے کہ کھڑا نہیں ہو سکتا اور باہر نکلتا ہے تو مینہ اور کیچڑ ہے تو بیٹھ کر پڑھے، یونہی کھڑے ہونے میں دشمن کا خوف ہے تو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۸)
مسئلہ ۲۹: بیمار کی نمازیں قضا ہو گئیں اب اچھا ہو کر انہیں پڑھنا چاہتا ہے تو ویسے پڑھے جیسے تندرست پڑھتے ہیں اس طرح نہیں پڑھ سکتا جیسے بیماری میں پڑھتا مثلاً بیٹھ کر یا اشارہ سے اگر اسی طرح پڑھیں تو نہ ہوئیں اور صحت کی حالت میں قضا ہوئیں بیماری میں انہیں پڑھنا چاہتا ہے تو جس طرح پڑھ سکتا ہے پڑھے ہو جائے گی، صحت کی سی پڑھنا اس وقت واجب نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۸)
مسئلہ ۳۰: پانی میں ڈوب رہا ہے اگر اس وقت بھی بغیر عمل کثیر اشارے سے پڑھ سکتا ہے مثلاً تیراک ہے یا لکڑی وغیرہ کا سہارا پا جائے تو پڑھنا فرض ہے ورنہ معذور ہے بچ جائے تو قضا پڑھے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۵)
مسئلہ ۳۱: آنکھ بنوائی اورطبیب حاذق مسلمان مستور نے لیٹے رہنے حکم دیا تو لیٹ کر اشارے سے پڑھے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۵)
مسئلہ ۳۲: مریض کے نیچے نجس بچھونا بچھا ہے اور حالت یہ ہو کہ بدلا بھی جائے تونماز پڑھتے پڑھتے بقدر مانع ناپاک ہو جائے تو اسی پر نماز پڑھے، یونہی اگر بدلا جائے تو اس قدر جلد نجس نہ ہو گا مگر بدلنے میں اسے شدید تکلیف ہو گی تو اسی نجس ہی پر پڑھ لے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۷، درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۷۱۵)
تنبیہ ضروری: مسلمان اس باب کے مسائل دیکھیں تو انہیں بخوبی معلوم ہو جائے کہ شرع مطہرہ نے کسی حالت میں بھی سوا بعض نادر صورتوں کے نما زمعاف نہیں کی بلکہ یہ حکم دیا کہ جس طرح ممکن ہو پڑھے۔ آج کل جو بڑے نمازی کہلاتے ہیں ان کی یہ حالت دیکھی جا رہی ہے کہ بخار آیا ذرا شدت ہوئی نماز چھوڑ دی شدت کا درد ہوا نماز چھوڑ دی کوئی پھڑیا نکل آئی نماز چھوڑ دی۔ یہاں تک کہ نوبت پہنچ گئی ہے کہ درد سر و زکام میں نماز چھوڑ بیٹھتے ہیں حالانکہ جب تک اشارے سے بھی پڑھ سکتا ہو اور نہ پڑھے تو انہیں وعیدوں کا مستحق ہے جو شروع کتاب میں تارک الصلوۃ کے لئے احادیث سے بیان ہوئیں والعیاذ باللہ تعالی۔
اللھم اجعلنا من مقیمی الصلوۃ ومن صالحٖی اھلھا احیآئً و امواتًا و ارزقنا اتباع شریعۃ حبیبک الکریم علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم امین لا
(اے اللہ تو ہم کو نماز قائم کرنے والوں میں اور زندگی اور مرنے کے بعد اچھے نماز والوں میں کر اور اپنے حبیب کریم کی شریعت کی پیروی کی توفیق دے اور روزی میں فراخی کر ان پر بہتر درود و سلام) امین
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔