بہار شریعت

نماز فاسد کرنے والی چیزوں کا بیان

  نماز فاسد کرنے والی چیزوں کے متعلق احادیث و مسائل کا تفصیلی مطالعہ

نماز فاسد کرنے والی چیزوں کا بیان

حدیث ۱: صحیح مسلم میں معاویہ بن الحکم سے مروی کہ حضور اقدس ﷺ فرماتے ہیں نماز میں آدمیوں کا کائی کلام درست نہیں وہ تو نہیں مگر تسبیح و تکبیر و قرأت قرآن۔

حدیث۲:            صحیح بخاری و مسلم میں ہے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ حضور نماز میں ہوتے اور ہم حضور کو سلام کیا کرتے اور حضور جواب دیتے جب نجاشی کے یہاں سے ہم واپس ہوئے سلام عرض کیا جواب نہ دیا عرض کی یا رسول اللہ ہم سلام کرتے تھے اور حضور جواب دیتے تھے (اب کیا بات ہے کہ جواب نہ ملا) فرمایا نماز میں مشغولی ہے اور ابودائود کی روایت میں ہے فرمایا کہ اللہ عزوجل اپنا حکم جو چاہتا ہے ظاہر فرماتا ہے اس میں سے یہ ہے کہ نماز میں کلام نہ کرو اس کے بعد سلام کا جواب دیا اور فرمایا نماز قرأت قرآن اور ذکر خدا کے لئے ہے تو جب نماز میں ہو تو تمہاری یہی شان ہونی چاہیے۔

متعلقہ مضامین

حدیث ۳:            امام احمد و ابودائود و ترمذی و نسائی و ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی کہ حضور فرماتے ہیں دو سیاہ چیزیں سانپ اور بچھو کو نماز میں قتل کرو۔

احکام فقہیہ 

مسئلہ ۱:               کلام مفسد نماز ہے عمداً ہو یا خطاً یا سہواً سوتے میں ہو یا بیداری میں اپنی خوشی سے کلام کیا کسی نے کلام کرنے پر مجبور کیا یا اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ کلام کرنے سے نماز جاتی رہتی ہے۔ خطا کے معنی یہ ہیں کہ قرأت وغیرہ اذکارِ نماز کہنا چاہتا تھا غلطی سے کوئی بات زبان سے نکل گئی اور سہو کے یہ معنی ہیں کہ اسے اپنا نماز میں ہونا یاد نہ رہا۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۴، ۵۷۵)

مسئلہ ۲:               کلام میں قلیل و کثیر کا فرق نہیں اور یہ بھی فرق نہیںکہ وہ کلام اصلاح نماز کے لئے ہو یا نہیں مثلاً امام کو بیٹھنا تھا کھڑا ہو گیا مقتدی نے بتانے کو کہا بیٹھ جا یا ہوں کہا نماز جاتی رہی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۴، عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۳:  قصداً کلام سے اسی وقت نماز فاسد ہو گی جب بقدر تشہد نہ بیٹھ چکا ہو اور بیٹھ چکا ہے تو نماز پوری ہو گئی البتہ مکروہ تحریمی ہوئی ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۷۳)

مسئلہ ۴:              کلام وہی مفسد ہے جس میں اتنی آواز ہو کہ کم از کم وہ سُن سکے اگر کوئی مانع نہ ہو اور اگر اتنی آواز بھی نہ ہو بلکہ صرف تصحیح حروف ہو تو نماز فاسد نہ ہو گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۵:              نماز پوری ہونے سے پہلے بھول کر سلام پھیر دیا تو حرج نہیں اور قصداً پھیرا تو نماز جاتی رہی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۵ وغیرہ)

مسئلہ ۶:               کسی شخص کو سلام کیا عمداً ہو یا سہواً نماز فاسد ہو گئی اگرچہ بھول کر السّلام کہا تھا کہ یاد آیا کہ سلام کرنا نہ چاہیئے اور سکوت کیا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۷:  مسبوق نے یہ خیال کر کے کہ امام کے ساتھ سلام پھیرنا چاہیئیسلام پھیر دیا نماز فاسد ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۸:              عشاء کی نماز میں یہ یاد کر کے تراویح ہے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔ ظہر کو جمعہ تصوّر کر کے دو رکعت پر سلام پھیرا یا مقیم نے اپنے کو مسافر خیال کر کے دو رکعت پر سلام پھیرا نماز فاسد ہو گئی اس پر بنا بھی جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۹:               دوسری رکعت کو چوتھی سمجھ کر سلام پھیر دیا پھر یاد آیا تو نماز پوری کرکے سجدہ سہو کرلے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۱۰: زبان سے سلام کا جواب دینابھی نماز کو فاسد کرتا ہے اور ہاتھ کے اشارے سے دیا تو مکروہ ہوئی، سلام کی نیت سے مصافحہ کرنا بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۶، عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۱۱:              مُصلّی سے کوئی چیز مانگی یا کوئی بات پوچھی اس نے سر یا ہاتھ سے ہاں یا نہیں کا اشارہ کیا نماز فاسد نہ ہوئی البتہ مکروہ ہوئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۱۲: کسی کوچھینک آئی اس کے جواب میں نمازی نے یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہا نماز فاسد ہو گئی اور خود اس کو چھینک آئی اور اپنے کو مخاطب کرکے یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہا نماز فاسد نہ ہوئی اور کسی اور کو چھینک آئی اس مصلّی نے اَلْحَمْدُلِلّٰہ کہا نماز ہو گئی اور جواب کی نیت سے کہا تو جاتی رہی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۱۳: نماز میں چھینک آئی کسی دوسرے نے یَرْحَمُکَ اللّٰہ کہا اور اس نے جواب میں کہا آمین نماز فاسد ہو گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۱۴: نما زمیں چھینک آئے تو سکوت کرے اور الحمدﷲ کہہ لیا تو بھی نماز میں حرج نہیں اور اگر اس وقت حمد نہ کی تو فارغ ہو کر کہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۸)

مسئلہ ۱۵: خوشی کی خبر سن کر جواب میں الحمد ﷲ کہا نماز فاسد ہو گئی اور اگر جواب کی نیت سے نہ کہا بلکہ یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ نماز میں ہے تو فاسد نہ ہوئی یونہی کوئی چیز تعجب خیز سن کر بقصد جواب سُبْحَانَ اللّٰہ یا لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یا اَللّٰہُ اَکْبَر کہا نماز فاسد ہو گئی ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۹)

مسئلہ ۱۶: کسی نے آنے کی اجازت چاہی اس نے یہ ظاہر کرنے کو کہ نماز میں ہوں زور سے الحمد ﷲ یا اللہ اکبر کہا یا سبحان اللہ پڑھا نماز فاسد نہ ہوئی۔ (غنیہ)

مسئلہ ۱۷: بُری خبر سُن کر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ کہا یا الفاظ قرآن سے کسی کو جواب دیا نماز فاسد ہو گئی مثلاً کسی نے پوچھا کیا خدا کے سوا دوسرا خدا ہے اس نے جواب دیالَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ یا پوچھا کہ تیرے کیا کیا مال ہیں اس نے جواب میںکہا اَلْخَبْلُ وَالْبِغَالُ وَالْحَمِیْرُ یا پوچھا کہاں سے آئے کہا وَبِئْرٍ مُّعَطَّلَۃٍ وَّ قَصْرٍ مَّشِیْدٍ یونہی اگر کسی کو الفاظ قرآن سے مخاطب کیا مثلاً اس کا نام یحییٰ ہے اس سے کہا یَا یَحْیٰی خُذِ الْکِتٰبَ بِقُوَّۃٍ موسیٰ نام ہے اس سے کہا وَمَا تِلْکَ بِیَمِیْنِکَ یَا مُوْسٰی نماز فاسد ہو گئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۱،۵۸۰)

مسئلہ ۱۸: اللہ عزوجل کا نام مبارک سُن کر جل جلالہ کہا یا نبی ﷺ کا اسم مبارک سُن کر درود پڑھا یا امام کی قرأت سُن کر صَدَقَ اللّٰہُ وَ صَدَقَ رَسُوْلُہ‘ کہا تو ان سب صورتوں میں نماز جاتی رہی جب کہ بقصد جواب کہا ہو اور اگر جواب میں نہ کہا تو حرج نہیں یونہی اگر اذان کا جواب دیا نماز فاسد ہو جائے گی۔(درمختار، ردالمحتار ج۱ ص ۵۸۱)

مسئلہ ۱۹:  شیطان کا ذکر سُن کر اس پر لعنت بھیجی نماز جاتی رہی دفع وسوسہ کے لئے لاحول پڑھی اگر امور دنیا کے لئے ہے نماز فاسد ہو جائے گی اور امور آخرت کے لئے ہے تو نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۹،۱۰۰)

مسئلہ ۲۰: چاند کو دیکھ کر ر َبِّی وَ رَبُّکَ اللّٰہ کہا یا بخار وغیرہ کی وجہ سے کچھ قرآن پڑھ کر دم کیا نماز فاسد ہو گئی بیمار نے اٹھتے بیٹھتے تکلیف اور درد پر بسم اللہ کہی تو نماز فاسد نہ ہوئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۹)

مسئلہ ۲۱: کوئی عبارت بوزن شعر کہ قرآن مجید میں بترتیب پائی جاتی ہے بہ نیت شعر پڑھی نماز فاسد ہو گئی جیسے وَالْمُرْسَلٰتِ عُرْفًا فَالْعٰصِفٰتِ عَصْفًا اور اگر نماز میں شعر موزوں کیا مگر زبان سے کچھ نہ کہا تو اگرچہ نماز فاسد نہ ہوئی مگر گناہ ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۰)

مسئلہ ۲۲: نماز میں زبان پر نعم یا ارے یا ہاں جاری ہو گیا اگر یہ لفظ کہنے کا عادی ہے فاسد ہو گئی ورنہ نہیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۲ وغیرہ)

مسئلہ ۲۳:            مصلّی نے اپنے امام کے سوا دوسرے کو لقمہ دیا نماز جاتی رہی جس کو لقمہ دیا ہے وہ نماز میں ہو یا نہ ہو مقتدی ہو یا منفرد یا کسی اور کا امام ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۸۱ وغیرہ)

مسئلہ ۲۴:            اگر لقمہ دینے کی نیت سے نہیں پڑھا بلکہ تلاوت کی نیت سے تو حرج نہیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۱)

مسئلہ ۲۵:            اپنے مقتدی کے سوا دوسرے کا لقمہ لینا بھی مفسد نماز ہے البتہ اگر اس کے  بتاتے وقت اسے خود یاد آگیا اس کے بتانے سے نہیں یعنی اگر وہ نہ بتاتا جب بھی اسے یاد آجاتا اس کے بتانے کو دخل نہیں تو اس کا پڑھنا مفسد نہیں۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۱، ۵۸۳)

مسئلہ ۲۶: اپنے امام کو لقمہ دینا اور امام کا لقمہ لینا مفسد نہیں ہاں اگر مقتدی نے دوسرے سے سُن کر جو نماز میں اس کا شریک نہیں ہے لقمہ دیا اور امام نے لے لیا تو سب کی نماز گئی اور امام نے نہ لیا تو صرف اس مقتدی کی گئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۲)

مسئلہ ۲۷:            لقمہ دینے ولا قرأت کی نیت نہ کرے بلکہ لقمہ دینے کی نیت سے وہ الفاظ کہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۹ وغیرہ)

مسئلہ ۲۸:            فوراً ہی لقمہ دینا مکروہ ہے تھوڑا توقف چاہیے کہ شاید امام خود نکال لے مگر جب کہ اس کی عادت اسے معلوم ہو کہ رُکتا ہے تو بعض ایسے حروف نکلتے ہیں جن سے نماز فاسد ہو جاتی ہے تو فوراً بتائے یوہیں امام کو مکروہ ہے کہ مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور کرے بلکہ کسی دوسری سورت کی طرف منتقل ہو جائے یا دوسری آیت شروع کر دے بشرطیکہ اس کا وصل مفسد نماز نہ ہو اور اگر بقدر حاجت پڑھ چکا ہے تو رکوع کرے مجبور کرنے کے یہ معنی ہیں کہ بار بار پڑھے یا ساکت کھڑا رہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۹، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۲) مگر وہ غلطی اگر ایسی ہے جس میں فساد معنی تھا تو اصلاح نماز کیلئے اس کا اعادہ لازم تھا اور یاد نہیں آتا تو مقتدی کو آپ ہی مجبور کر ے گا اور وہ بھی نہ بتا سکے تو گئی۔

مسئلہ ۲۹: لقمہ دینے والے کے لئے بالغ ہونا شرط نہیں مراہق بھی لقمہ دے سکتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۹۹)  بشرطیکہ نماز جانتا ہو اور نماز میں ہو۔

مسئلہ ۳۰:            ایسی دعا جس کا سوال بندے سے نہیں کیا جا سکتا جائز ہے مثلاً اَللّٰھُمَّ عَافِنِی اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ اور جس کا سوال بندوں سے کیا جا سکتا ہے مفسد نماز ہے مثلاًاَللّٰھُمَّ اَطْعِمْنِیْ یا اَللّٰھُمَّ زَوِّجْنِیْ ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۰)

مسئلہ ۳۱: آہ، اوہ، اُف، تف یہ الفاظ درد یا مصیبت کی وجہ سے نکلے یا آواز سے رویا اور حروف پیدا ہوئے ان سب صورتوں میں نماز جاتی رہی اور اگر رونے میں صرف آنسو نکلے آواز و حروف نہیں نکلے تو حرج نہیں ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۰، ۱۰۱، درمختار ج ۱ ص ۵۷۹)

مسئلہ ۳۲:            مریض کی زبان سے بے اختیار آہ نکلی یا اوہ نکلی نماز فاسد نہ ہوئی یوہیں چھینک کھانسی جماہی ڈکار میں جتنے حروف مجبورانہ نکلتے ہیں معاف ہیں۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۸)

مسئلہ ۳۳:            جنت و دوزخ کی یاد میں اگر یہ الفاظ کہے تو نماز فاسد نہ ہوئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۹)

مسئلہ ۳۴:            امام کا پڑھنا پسند آیا اس پر رونے لگا ارے۔ نعم ۔ ہاں زبان سے نکلا کوئی حرج نہیں کہ یہ خشوع کے باعث ہے اور اگر خوش گلوئی کے سبب کہا تو نماز جاتی رہی ۔(درمختار ، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۷۹)

مسئلہ۳۵:            اگر پھونکنے میں آواز پیدا نہ ہو تو وہ مثل سانس کے ہے مفسد نہیں مگر قصداً کرنا مکروہ ہے اور اگر دو حروف پیدا ہوں جیسے اف، تف تو مفسد ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۱ ، غنیہ)

مسئلہ ۳۶:            کھنکارنے میں جب دو حروف ظاہر ہوں جیسے اخ مفسد نما زہے جب کہ نہ عذر ہو نہ کوئی صحیح غرض،ا گر عذر سے ہو مثلاً طبیعت کا تقاضا ہو یا کسی صحیح غرض کے لئے مثلاً آواز صاف کرنے کے لئے یا امام سے غلطی ہو گئی ہے اس لئے کھنکارتا ہے کہ دوسرے شخص کو اس کا نماز میں ہونا معلوم ہو تو ان سب صورتوں میں نما ز فاسد نہیں ہوتی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۷۸ وغیرہ)

مسئلہ ۳۷:            نماز میں مصحف شریف سے دیکھ کر قرآن پڑھنا مطلقاً مفسد نما زہے ہاں اگر یاد پر پڑھتا ہو مصحف یا محراب پر فقط نظر ہے تو حرج نہیں۔ (درمختار ، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۳)

مسئلہ ۳۸:            کسی کاغذ پر قرآن مجید لکھا ہوا دیکھا اور اسے سمجھا نماز میں نقصان نہ آیا یونہی اگر فقہ کی کتاب دیکھی اورسمجھی نماز فاسد نہ ہوئی خواہ سمجھنے کے لئے اسے دیکھا یا نہیں ہاں اگر قصداً دیکھا اور بقصدسمجھا تو مکروہ ہے اور بلا قصد ہوا تو مکروہ بھی نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۱)

مسئلہ ۳۹: یہی حکم ہر تحریر کا ہے اور جب غیر دینی ہو تو کراہت زیادہ۔ (عالمگیری ج  ۱ ص ۱۰۱)

مسئلہ ۴۰:            صرف تورات و انجیل کو نما ز میں پڑھا تو نماز نہ ہوئی، قرآن پڑھنا جانتا ہے یا نہیں ۔(عالمگیری) اور اگر بقدر حاجت قرآن شریف پڑھ لیا اور کچھ آیات تورات و انجیل کی جن میں ذکرِ الٰہی ہے پڑھیں تو حرج نہیں مگر نہ چاہیے۔ (ھامش الاصلی عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۱)

مسئلہ ۴۱: عملِ کثیر کہ نہ اعمال نماز سے ہو نہ نما زکی اصلاح کیلئے کیا گیا ہو نماز فاسد کر دیتا ہے عمل قلیل مفسد نہیں جس کام کے کرنے والے کو دُور سے دیکھ کر نماز میں نہ ہونے کا شک نہ رہے بلکہ گمان غالب ہو کہ نماز میں نہیں تو عملِ کثیر ہے اور اگر دُور سے دیکھنے والے کو شبہ و شک ہو کہ نماز میں ہے یا نہیں تو عملِ قلیل ہے۔ (درمختار ج۱ ص ۵۸۳،۵۸۴ وغیرہ)

مسئلہ ۴۲:            کرتا یا پاجامہ پہنا یا تہبند باندھا نماز جاتی رہی۔ (غنیہ)

مسئلہ ۴۳:            ناپاک جگہ پر بغیر حائل کے سجدہ کیا نماز فاسد ہو گئی اگرچہ اس سجدہ کو پاک جگہ اعادہ کرے۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۵) یونہی گھٹنے یا ہاتھ ناپاک جگہ پر رکھے نماز فاسد ہو گئی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۵)

مسئلہ ۴۴:            ستر کھولے ہوئے یا بقدر مانع نجاست کے ساتھ پورا رکن ادا کرنا یا تین تسبیح کا وقت گزر جانا مفسد نماز ہے۔ یوہیں بھیڑ کی وجہ سے اتنی دیر تک عورتوں کی صف میں پڑ گیا یا امام سے آگے ہو گیا تو نماز جاتی رہی ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۸۵ وغیرہ) اور قصداً ستر کھولنا مطلقاً مفسد نماز ہے اگرچہ معاً ڈھانک لے اس میں وقفہ کی بھی حاجت نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۵)

مسئلہ۴۵:            دو (۲) کپڑے ملا کر سیے ہوں ان میں استر ناپاک ہے اور ابرا پاک تو ابرے کی طرف بھی نماز نہیں ہو سکتی جب کہ نجاست بقدر مانع مواضع سجود میں ہو اور سِلے نہ ہوں تو ابرے پر جائز ہے جب کہ اتنا باریک نہ ہو کہ استر چمکتا ہو۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۵، ۵۸۶)

مسئلہ ۴۶:            نجس زمین پر چونہ مٹی خوب بچھا دیا اب اس پر نماز پڑھ سکتے ہیں اور اگر معمولی طرح سے خاک چھڑک دی ہے کہ نجاست کی بُو آتی ہے تو ناجائز ہے جب کہ مواضع سجود پر نجاست ہو ۔(منیہ شامی ج ۱ ص ۵۸۶)

مسئلہ ۴۷:            نماز کے اندر کھانا پینا مطلقاً نماز کو فاسد کر دیتا ہے۔ قصداً ہو یا بھول کر تھوڑا ہو یا زیادہ یہاں تک کہ اگر تل چبائے نگل لیا یا کوئی قطرہ اُس کے منہ میں گرا اور اس نے نگل لیا نماز جاتی رہی۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۲)

مسئلہ ۴۸:            دانتوں کے اندر کھانے کی کوئی چیز رہ گئی تھی اس کو نگل گیا اگر چنے سے کم ہے نماز فاسد نہ ہوئی مکروہ ہوئی اور چنے برابر ہے تو فاسد ہو گئی۔ دانتوں سے خون نکلا اگر تھوک غالب ہے تو نگلنے سے فاسد نہ ہو گی ورنہ فاسد ہو جائے گی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۲، عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۲) غلبہ کی علامت یہ ہے کہ حلق سے خون کا مزہ محسوس ہو نماز توڑنے میں مزے کا اعتبار ہے اور وضو توڑنے میں رنگ کا۔

مسئلہ ۴۹: نماز سے پیشتر کوئی چیز میٹھی کھائی تھی اس کے اجزا نگل لئے تھے صرف لعاب دہن میں کچھ مٹھاس کا اثر رہ گیا اُس کے نگلنے سے نماز فاسد نہ ہو گی۔ منہ میں شکر وغیرہ ڈالی کہ گھل کر حلق میں پہنچتی ہے نماز فاسد ہو گئی۔ گوند منہ میں ہے اگر چبایا اور بعض اجزا حلق سے اتر گئے نماز جاتی رہی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۲)

مسئلہ ۵۰:            سینہ کوقبلہ سے پھیرنا مفسد نما زہے جب کہ کوئی عذر نہ ہو یعنی اتنا پھیرے کہ سینہ خاص جہت کعبہ سے پینتالیس (۴۵) درجے ہٹ جائے اور اگر عذر سے ہو تو مفسد نہیں مثلاً حدث کا گمان ہوا اور منہ پھیرا ہی تھا کہ گمان کی غلطی ظاہر ہوئی تو مسجد سے اگر خارج نہ ہوا ہو نما زفاسد نہ ہو گی ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۸۶ وغیرہ)

مسئلہ ۵۱: قبلہ کی طرف ایک صف کی قدر چلا پھر ایک رکن کی قدر ٹھہر گیا پھر چلا ٹھہرا اگرچہ متعدد بار ہو جب تک مکان نہ بدلے نماز فاسد نہ ہو گی مثلاً مسجد سے باہر ہو جائے یا میدان میں نماز ہو رہی تھی اور یہ شخص صُفوف سے متجاوز ہو گیا کہ دونوں ہی صورتیں مکان بدلنے کی ہیں اور ان میں نماز فاسد ہو جائے گی یوہیں اگر ایکدم دو صف کی قدر چلا نماز فاسد ہو گئی۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۶)

مسئلہ ۵۲:            صحرا میں اگر اس کے آگے صفیں نہ ہوں بلکہ یہ امام ہو اور موضع سجود سے متجاوز ہوا تو اگر اتنا آگے بڑھا جتنا اس کے اور سب سے قریب والی صف کے درمیان فاصلہ تھا تو فاسد نہ ہوئی اور اس سے زیادہ ہٹا تو فاسد ہو گئی اور اگر منفرد ہے تو موضع سجود کا اعتبار ہے یعنی اتنا ہی فاصلہ آگے پیچھے دائیں بائیں کہ اس سے زیادہ ہٹنے میں نماز جاتی رہے گی۔ (شامی ج ۱ ص ۵۸۶)

مسئلہ ۵۳:            کسی کو چوپایہ نے ایک دم بقدر تین قدم کے کھینچ لیا یا دھکیل دیا تو نماز فاسد ہو گئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۸۷)

مسئلہ ۵۴:            ایک نماز سے دوسری کی طرف تکبیر کہہ کر منتقل ہوا پہلی نماز فاسد ہو گئی مثلاً ظہر پڑھ رہا تھا عصر یا نفل کی نیت سے اللہ اکبر کہا ظہر کی نماز جاتی رہی پھر اگر صاحبِ ترتیب ہے اور وقت میں گنجائش ہے تو عصر کی بھی نہ ہو گی بلکہ دونوں صورتوں میں نفل ہے ورنہ عصر کی نیت ہے تو عصر اور نفل کی نیت ہے تو نفل یوہیں اگر تنہا نماز پڑھتا تھا اب اقتداء کی نیت سے اللہ اکبر کہا یا مقتدی تھا اور تنہا پڑھنے کی نیت سے اللہ اکبر کہا تو نماز فاسد ہو گئی یوہیں اگر نماز جنازہ پڑھ رہا تھا اور دوسرا جنازہ لایا گیا دونوں کی نیت سے اللہ اکبر کہا یا دوسرے کی نیت سے تو دوسرے جنازہ کی نماز شروع ہوئی اور پہلے کی فاسد ہو گئی۔ (درمختار شامی ج ۱ ص ۵۸۳)

مسئلہ ۵۵:            عورت نماز پڑھ رہی تھی بچہ نے اس کی چھاتی چوسی اگر دودھ نکل آیا نماز جاتی رہی۔ (شامی ج ۱ ص ۵۸۷)

مسئلہ ۵۶:            عورت نماز میں تھی مرد نے بوسہ لیا یا شہوت کے ساتھ اس کے بدن کو ہاتھ لگایا نماز جاتی رہی ہاں اگرہاتھ میں تیل لگا ہوا ہے اس کو سر یا بدن میں کسی جگہ پونچھ دیا تو نماز فاسد نہ ہوئی ۔(منیہ، غنیہ، شامی ج ۱ ص ۵۸۷، ۵۸۸)

مسئلہ ۵۷:            کسی آدمی کو نماز پڑھتے میں طمانچہ یا کوڑا مارا نماز جاتی رہی اور جانور پر سوار نماز پڑھ رہا تھا دو ایک بار ہاتھ یا ایڑی سے ہانکنے میں نماز فاسد نہ ہوگی، تین بار پے در پے کرے گا تو جاتی رہے گی۔ ایک پائوں سے ایڑ لگائی اگر پے در پے تین بار ہو نماز جاتی رہی ورنہ نہیں اور دونوں پائوں سے لگائی تو فاسد ہو گئی لیکن اگر آہستہ پائوں ہلائے کہ دوسرے کو بغور دیکھنے سے پتہ چلے تو فاسد نہ ہوئی ۔(منیہ، غنیہ، عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳)

مسئلہ ۵۸:            گھوڑے کو چابک سے راستہ بتایا اور مارا بھی نماز فاسد ہو گئی نماز پڑھتے میں گھوڑے پر سوار ہو گیا نماز جاتی رہی اور سواری پر نماز پڑھ رہا تھا اتر آیا فاسد نہ ہوئی ۔۰منیہ، قاضیخاں،عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳)

مسئلہ ۵۹: تین کلمے اس طرح لکھنا کہ حروف ظاہر ہوں نما زفاسد کرتا ہے اور اگر حروف ظاہر نہ ہوں مثلاً پانی پر یا ہوا میں لکھا تو عبث ہے نماز مکروہ تحریمی ہوئی۔ (غنیہ، عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳)

مسئلہ ۶۰: نماز پڑھنے والے کو اٹھا لیا پھر وہیں رکھ دیا اگر قبلہ سے سینہ نہ پھرا تو فاسد نہ ہوئی اور اگر اس کو اٹھا کرسواری پر رکھ دیا نماز جاتی رہی ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳)

مسئلہ ۶۱: موت و جنون و بے وہوشی سے نماز جاتی رہتی ہے اگر وقت میں ا فاقہ ہوا تو ادا کرے ورنہ قضا بشرطیکہ ایک دن رات سے متجاوز نہ ہو۔ (درمختار ردالمحتار ج ۱ ص ۵۸۹)

مسئلہ ۶۲: قصداً وضو توڑا یا کوئی موجب غسل پایا گیا یا کسی رکن کو ترک کیا جبکہ اس نماز میں اس کو ادا نہ کر لیا ہو بلا عذر شرط کو ترک کیا یا مقتدی نے امام سے پہلے رکن ادا کر لیا اور امام کے ساتھ یا بعد میں پھر اس کو ادا نہ کیا یہاں تک کہ امام کیساتھ سلام پھیر دیا مسبوق نے فوت شدہ رکعت کا سجدہ کر کے امام کے سجدہ سہو میں متابعت کی یا قعدہ اخیرہ کے بعد سجدہ نماز یا سجدہ تلاوت یاد آیا اور اس کے ادا کرنے کے بعد پھر قعدہ نہ کیا یا کسی رکن کو سوتے میں ادا کیا تھا اس کا اعادہ نہ کیا ان سب صورتوں میں نماز فاسد ہو گئی ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۸۹ وغیرہ)

مسئلہ ۶۳:            سانپ بچھو مارنے سے نماز نہیں جاتی جب کہ نہ تین قدم چلنا پڑے نہ تین ضرب کی حاجت ہو ورنہ جاتی رہے گی مگر مارنے کی اجازت ہے اگرچہ نماز جاتی رہے۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳، غنیہ)

مسئلہ ۶۴:            سانپ بچھو کو نماز میں مارنا اس وقت مباح ہے کہ سامنے سے گذرے اور ایذا دینے کا خوف ہو اور اگر تکلیف پہنچانے کا اندیشہ نہ ہو تو مکروہ ہے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳)

مسئلہ ۶۵:            پے در پے تین بال اکھیڑے یا تین جوئیں ماریں یا ایک ہی جوں کو تین بار مارا نماز جاتی رہی اور پے در پے نہ ہو تو نماز فاسد نہ ہوئی مکروہ ہے ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳، غنیہ)

مسئلہ ۶۶: موزہ کشادہ ہے اسے اتارنے سے نماز فاسد نہ ہوگی اور موزہ پہننے سے نماز جاتی رہے گی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۳)

مسئلہ ۶۷:            ایک رکن میں تین بار کھجلانے سے نماز جاتی رہتی ہے یعنی یوں کہ کھجا کر ہاتھ ہٹا لیا پھر کھجایا پھر ہاتھ اٹھا یا وعلیٰ ہذا اور اگر ایک بار ہاتھ رکھ کر چند مرتبہ حرکت دی تو ایک مرتبہ کھجانا کہا جائے گا ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴، غنیہ)

مسئلہ ۶۸:            تکبیرات انتقال میں اللہ یا اکبر کے الف کو دراز کیا آﷲ یا آکبر کہا یا بے کے بعد الف بڑھایا اللہ اکبار کہا نماز فاسد ہو جائے گی اور تحریمہ میں ایسا ہوا تو نماز شروع ہی نہ ہوئی ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۸۹) وغیرہ) قرأت یا اذکارِ نماز میں ایسی غلطی جس سے معنی فاسد ہو جائیں نما زفاسد کر دیتی ہے اس کے متعلق مفصّل بیان گذر چکا۔

مسئلہ ۶۹: نمازی کے آگے سے بلکہ موضع سجود سے کسی کا گذرنا نماز کو فاسد نہیں کرتا خواہ گذرنے والا مرد یا عورت کُتّا ہو یا گدھا۔ (عامہ کتب، شامی ج ۱ ص ۵۹۳، عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴)

مسئلہ ۷۰:            مصلّی کے آگے سے گزرنا بہت سخت گناہ ہے حدیث میں فرمایا کہ اس میں جو کچھ گناہ ہے اگر گزرنے والا جانتا تو چالیس (۴۰) تک کھڑے رہنے کو گزرنے سے بہتر جانتا، راوی کہتے ہیں میں نہیں جانتا کہ چالیس (۴۰) دن کہے یا چالیس مہینے یا چالیس برس یہ حدیث صحاح ستہ میں ابو جہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے اور بزاز کی روایت میں چالیس (۴۰) برس کی تصریح ہے اور ابن ماجہ کی روایت ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی جانتا کہ اپنے بھائی کے سامنے سے نماز میں آڑے ہو کر گزرنے میں کیا ہے تو سو برس کھڑا رہنا اس قدم چلنے سے بہتر سمجھتا۔امام مالک نے روایت کیا کہ کعب احباب فرماتے ہیں نمازی کے سامنے گزرنے والا اگر جانتا کہ اس پر کیا گناہ ہے تو زمین میں دھنس جانے کو بہتر جانتا گزرنے سے۔ امام مالک سے روایت صحیح مسلم میں ہے ابو حجیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو مکّہ میں دیکھا حضور ابطح میں چمڑے کے ایک سُرخ قبہ کے اندر تشریف فرما ہیں اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور کے وضو کا پانی لیا اور لوگ جلدی جلدی اسے لے رہے ہیں جو اس میں سے کچھ پا جاتا اسے منہ اور سینہ پر ملتا اور جو نہیں پاتا وہ کسی اور کے ہاتھ ے تری لے لیتا پھر بلال ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نیزہ نصب کر دیا اور رسول اللہ ﷺ سُرخ دھاری دار جوڑا پہنے تشریف لائے اورنیزہ کی طرف منہ کر کے دو رکعت نما زپڑھائی اور میں نے آدمیوں اور چوپائوں کو نیزے کے اُس طرف سے گزرتے دیکھا۔

مسئلہ ۷۱: میدان میں اور بڑی مسجد میں مصلّی کو قدم سے موضع سجود تک گزرنا ناجائز ہے۔ موضع سجود سے مراد یہ ہے کہ قیام کی حالت سجدہ کی جگہ کی طرف نظر کرے تو جتنی دور تک نگاہ پھیلے وہ موضع سجود ہے اس کے درمیان سے گزرنا ناجائز ہے مکان اور چھوٹی مسجد میں قدم سے دیوار قبلہ تک کہیں سے گزرناجائز نہیں اگر سترہ نہ ہو۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴، درمختار ج ۱ ص ۵۹۳)

مسئلہ ۷۲:            کوئی شخص بلندی پر پڑھ رہا ہے اس کے نیچے سے گزرنا بھی جائز نہیں جبکہ گزرنے والے کو کوئی عضو نمازی کے سامنے ہو چھت یا تخت پر نماز پڑھنے والے کے آگے سے گزرنے کا بھی یہی حکم ہے اور اگر ان چیزوں کی اتنی بلندی ہو کہ کسی عضو کا سامنا نہ ہو تو حرج نہیں ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۹۳، ۵۹۴)

مسئلہ ۷۳:            مصلّی کے آگے سے گھوڑے وغیرہ پر سوار ہو کر گزرا، اگر گزرنے والے کا پائوں وغیرہ نیچے کا بدن مصلّی کے سر کے سامنے ہو تو ممنوع ہے ۔(ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۴)

مسئلہ ۷۴:            مصلّی کے آگے ستُرہ ہو یعنی کوئی چیز سے آڑ ہو جائے تو سُترہ کے بعد سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں۔ (عامہ کتب، عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴)

مسئلہ ۷۵:            سُترہ بقدر ایک ہاتھ کے اونچا اور انگلی برابر موٹا ہو اور زیادہ سے زیادہ تین ہاتھ اونچا ہو ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۵، ۵۹۶)

مسئلہ ۷۶:            امام و منفرد جب صحرا میں یا کسی ایسی جگہ نماز پڑھیں جہاں سے لوگوں کے گزرنے کا اندیشہ ہو تو مستحب ہے کہ سُترہ گاڑیں اور سُترہ نزدیک ہونا چاہیے سُترہ بالکل ناک کی سیدھ پر نہ ہو بلکہ داہنے یا بائیں بھوئوں کی سیدھ پر ہونا افضل ہے ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۹۶، ۵۹۷ وغیرہ)

مسئلہ ۷۷:            اگر نصب کرنا نا ممکن ہو تو وہ چیز لمبی رکھ دے اور اگر کوئی ایسی چیز بھی نہیں رکھ سکے تو خط کھینچ دے خواہ طول میں ہو یا محراب کی مثل ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۹۶، عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴)

مسئلہ ۷۸:            اگر سُترہ کیلئے کوئی چیز نہیں ہے اور اس کے پاس کتاب یا کپڑا موجود ہے تو اسی کو سامنے رکھ لے۔ (ردالمحتار ج۱ ص ۵۹۶)

مسئلہ ۷۹:            امام کا سُترہ مقتدی کے لئے سُترہ ہے اس کو جدید سُترہ کی حاجت نہیں تو اگر چھوٹی مسجد میں بھی مقتدی کے آگے سے گذر جائے جب کہ امام کے آگے سے نہ ہو حرج نہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۷ وغیرہ)

مسئلہ ۸۰:            درخت اور جانور اور آدمی وغیرہ کا بھی سُترہ ہو سکتا ہے کہ ان کے بعد گزرنے میں کچھ حرج نہیں ۔(غنیہ) مگر آدمی کو اس حالت میں سُترہ کیا جائے جب کہ اس کی پیٹھ مصلّی کی طرف ہو کہ مصلّی کی طر ف منہ کرنا منع ہے۔

مسئلہ ۸۱: سوار اگر مصلّی کے آگے گذرنا چاہتا ہے تو اس کا حیلہ یہ ہے کہ جانور کو آگے کر لیا اور اس طرف سے گذر جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴)

مسئلہ ۸۲:            دو شخص برابر امام کے آگے سے گذر گئے تو مصلّی سے جو قریب ہے وہ گناہ گار ہوا اور دوسرے کے لئے یہی سُترہ ہو گیا ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۱۰۴)

مسئلہ ۸۳:            مصلّی کے آگے سے گذرنا چاہتا ہے تو اگر اس کے پاس کوئی چیز سُترے کے قابل ہو تو اسے اس کے سامنے رکھ کر گذر جائے پھر اسے اٹھالے اگر دو شخص گذرنا چاہتے ہیں اور سُترہ کو کوئی چیز نہیں تو ایک ان میں سے نمازی کے سامنے بیٹھ کر کھڑا ہو جائے اور دوسرا اس کی آڑ پکڑ کر گذر جائے پھر وہ دوسرا اس کی پیٹھ کے پیچھے نمازی کی طرف پشت کر کے کھڑا ہو جائے اور یہ گذر جائے پھر وہ دوسرا جدھر سے اس وقت آیا اسی طرف ہٹ جائے۔ (عالمگیری، ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۵)

مسئلہ ۸۴:            اگر اس کے پاس عصا ہے مگر نصب نہیں کر سکتا تو اسے کھڑا کر کے مصلّی کے آگے سے گزرنا جائز ہے جب کہ اس کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ کر گرنے سے پہلے گذر جائے۔(شامی ج ۱ ص ۵۹۵)

مسئلہ ۸۵:            اگلی صف میں جگہ تھی اسے خالی چھوڑ کر پیچھے کھڑا ہوا تو آنے والا شخص اس کی گردن پھلانگتا ہوا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنی حُرمت اپنے آپ کھوئی۔ (درمختار ج ۱ ص ۵۹۵)

مسئلہ ۸۶:            جب آنے جانے والوں کا اندیشہ نہ ہو نہ سامنے راستہ ہو تو سُترہ نہ قائم کرنے میں بھی حرج نہیں، پھر بھی اُولیٰ سُترہ قائم کرنا ہے ۔(درمختار ج ۱ ص ۵۹۷)

مسئلہ ۸۷:            نمازی کے سامنے سُترہ نہیں اور کوئی شخص گزرنا چاہتا ہے یا سُترہ ہے مگر وہ شخص مصلّی اور سُترہ کے درمیان سے گذرنا چاہتا ہے تو نمازی کو رخصت ہے کہ اسے گُذرنے سے روکے خواہ سبحان اللہ کہے یا جہر کے ساتھ قرأت کرے یا ہاتھ یا سر یا آنکھ کے اشارے سے منع کرے اس سے زیادہ کی اجازت نہیں مثلاً کپڑا پکڑ کر جھٹکنا یا مارنا بلکہ اگر عملِ کثیر ہو گیا تو نماز ہی جاتی رہی ۔(ردالمحتار، درمختار ج ۱ ص ۵۹۶، ۵۹۷)

مسئلہ ۸۸:            تسبیح و اشارہ دونوں کو بلا ضرورت جمع کرنا مکروہ ہے عورت کے سامنے سے گذرے تو تصفیق سے منع کرے یعنی داہنے ہاتھ کی انگلیاں بائیں کی پشت پر مارے اور اگر مرد نے تصفیق  کی اور عورت نے تسبیح کہی تو بھی نماز فاسد نہ ہوئی مگر خلافِ سُنّت ہوا۔(درمختار ج ۱ ص ۵۹۷)

مسئلہ ۸۹: مسجد الحرام شریف میں نماز پڑھتا ہو تو اُس کے آگے طواف کرتے ہوئے لوگ گذر سکتے ہیں۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۵۹۴)

ماخوذ از:
بہار شریعت، جلد1مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

یہ بھی پڑھیں:
Close
Back to top button