نماز خوف کے متعلق مسائل
اللہ عزوجل فرماتا ہے:۔
فان خفتم فرجالًا اورکبانًا ج فاذا امنتم فاذکروا اللہ کما علمکم ما لم تکونو تعلمون
(اگر تمہیں خوف ہو تو پیدل یا سواری پر نماز پڑھو پھر جب خوف جاتا رہے تو اللہ کو اس طرح یاد کرو جیسا اس نے سکھایا وہ کہ جو تم نہیں جانتے تھے)
اور فرماتا ہے:۔
واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ فلتقم طائفۃٌ منھم معک ولیاخذوا اسلحتھم قف فاذا سجدوا فلیکونوا من ورائ کم والتات طائفۃٌ اخری لم یصلوا فلیصلوا معک ولیاخذوا حذرھم واسلحتھم ج ودالذین کفروا لو تغفلون عن اسلحتکم وامتعتکم فیمیلون علیکم میلۃً واحدۃً ط ولا جناح علیکم ان کان بکم اذیً من مطرٍ او کنتم مرضی ان تضعوا اسلحتکم وخذوا حذرکم ط ان اللہ اعد للکفرین عذابًا مھینا ہ فاذا قضیتم الصلوۃ فاذکروا للہ قیامًاوقعودًا وعلی جنوبکم ج فاذا اطماننتم فاقیموا الصلوۃ ج ان الصلوۃ کانت علی المومنین کتابًا موقوتًا ہ
(اور جب تم ان میں ہو اور نماز قائم کر لو تو ان میں کا ایک گروہ تمہارے ساتھ کھڑا ہو اور انہیں چاہیئے کہ اپنے ہتھیار لئے ہوں پھر جب ایک رکعت کا سجدہ کر لیں تو وہ تمہارے پیچھے نہ ہوں ، اور اب دوسرا گروہ آئے جس نے تمہارے ساتھ نہ پڑھی تھی، وہ تمہارے ساتھ پڑھے اور اپنی پناہ اور اپنے ہتھیار لئے ہوں ، کافروں کی تمنا ہے کہ کہیں تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے اسباب سے غافل ہو جائو، تو ایک ساتھ تم پر جھک پڑیں ۔ اور تم پر گناہ کچھ نہیں اگر تمہیں مینہ سے تکلیف ہو یا بیمار ہو کہ اپنے ہتھیار رکھ دو، مگر پناہ کی چیز لئے رہو بیشک اللہ نے کافروں کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے، پھر جب نماز پوری کر چکو تو اللہ کو یاد کرو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹوں پر لیٹے، پھر جب اطمینان سے ہو جائو تو نماز حسب دستور قائم کرو، بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے)
حدیث ۱: ترمذی و نسائی میں بروایت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ مروی رسول اللہ ﷺ عسفان و ضبحنان کے درمیان اترے، مشرکین نے کہا ان کے لئے نماز ہے جو باپ اور بیٹوں سے بھی زیادہ پیاری ہے اور وہ نماز عصر ہے لہذا اسب کام ٹھیک رکھو، جب نماز کو کھڑے ہوں ایک دم حملہ کرو، جبریل علیہ الصلوۃ والسلام نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ حضور ﷺ اپنے اصحاب کے دو حصے کریں ایک گروہ کے ساتھ نماز پڑھیں اور دوسرا گروہ ان کے پیچھے سپر اوراسلحہ لئے کھڑا رہے تو ان کی ایک ایک رکعت ہو گی (یعنی حضور ﷺ کے ساتھ) اور رسول اللہ ﷺ کی دو (۲) رکعتیں ۔
حدیث ۲: صحیح بخاری و صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہتے ہیں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ گئے جب ذات الرقاع میں پہنچے ایک سایہ دار درخت حضور ﷺ کے لئے چھوڑ دیا اس پر حضور ﷺ نے اپنی تلوار لٹکا دی تھی ایک مشرک آیا اور تلوار لے لی اور کھینچ کر کہنے لگا۔ آپ مجھ سے ڈرتے ہیں فرمایا نہ، اس نے کہا تو آپ کو کون مجھ سے بچائے گا،فرمایا، اللہ ، صحابہ کرام نے جب دیکھا تو اسے ڈرایا، اس نے میان میں تلوار رکھ کر لٹکا دی اس کے بعد اذان ہوئی حضور ﷺ نے ایک گروہ کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی پھر یہ پیچھے ہٹا اور دوسرے کے ساتھ دو رکعت پڑھی تو حضور ﷺ کی چار ہوئیں اور لوگوں کی دو (۲) دو (۲) یعنی حضور ﷺ کے ساتھ۔
مسائل فقہیہ
مسئلہ ۱: نماز خوف جائز ہے جبکہ دشمنوں کا قریب میں ہونا یقین کے ساتھ معلوم ہو اور اگر یہ گمان تھا کہ دشمن قریب میں ہیں اور نماز خوف پڑھی بعد کوگمان کی غلطی ظاہر ہوئی تو مقتدی نماز کا اعادہ کریں یونہی اگر دشمن دور ہوں تو یہ نماز جائز نہیں یعنی مقتدی کی نہ ہو گی اور امام کی ہو جائے گی۔
نماز خوف کا طریقہ یہ ہے کہ جب دشمن سامنے ہوں اور یہ اندیشہ ہو کہ سب ایک ساتھ نماز پڑھیں گے تو حملہ کر دیں گے ایسے وقت امام جماعت کے دو حصے کرے اور اگر کوئی گروہ اس پر راضی ہو کہ ہم بعدکو پڑھ لیں گے تو اسے دشمن کے مقابل کرے اور دوسرے گروہ کے ساتھ نماز پڑھ لے پھر جس گروہ نے نماز نہیں پڑھی اس میں کوئی امام ہو جائے اور یہ لوگ اس کے ساتھ باجماعت پڑھ لیں اور اگر دونوں میں سے بعد کو پڑھنے پر کوئی راضی نہ ہو تو امام ایک گروہ کو دشمن کے مقابل کرے اور دوسرا امام کے پیچھے نماز پڑھے، جب امام اس گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھ چکے یعنی پہلی رکعت کے دوسرے سجدے سے سر اٹھائے تو یہ لوگ دشمن کے مقابل چلے جائیں اور جو لوگ وہاں تھے وہ چلے آئیں اب ان کے ساتھ امام ایک رکعت پڑھے اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے مگر مقتدی سلام نہ پھیریں بلکہ یہ لوگ دشمن کے مقابل چلے جائیں یا یہیں اپنی نماز پوری کر کے جائیں اور وہ لوگ آئیں اور ایک رکعت بغیر قرأت پڑھ کر تشہدکے بعد کر سلام پھیریں ، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ گروہ یہاں نہ آئے بلکہ وہیں اپنی نماز پوری کر لے اور دوسرا گروہ اگر نماز پوری کر چکا ہے، فبہا، ورنہ اب پوری کرے خواہ وہیں یا یہاں آکر اور یہ لوگ قرأت کے ساتھ اپنی ایک رکعت پڑھیں اور تشہد کے بعد سلام پھیریں ۔یہ طریقہ دو (۲) رکعت والی نماز کا ہے خواہ نماز ہی دو (۲) رکعت کی ہو، جیسے فجر و عید و جمعہ یا سفر کی وجہ سے چار کی دو ہو گئیں اور چار رکعت والی نماز ہو تو ہر گروہ کے ساتھ امام دو (۲) دو (۲) رکعت پڑھے اور مغرب میں پہلے گروہ کے ساتھ دو (۲) اور دوسرے گروہ کے ساتھ ایک پڑھے، اگر پہلے کے ساتھ ایک پڑھی اور دوسرے کے ساتھ دو تو نماز جاتی رہی۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۹۴،۷۹۲، عالمگیری ج۱ ص ۱۵۵،۱۵۴ وغیرہما)
مسئلہ ۲: یہ سب احکام اس صورت میں ہیں جب امام و مقتدی سب مقیم ہوں یا سب مسافر یا امام مقیم ہیں اور مقتدی مسافر اور اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم تو امام ایک گروہ کے ساتھ ایک رکعت پڑھے اور دوسرے کے ساتھ ایک پڑھ کر سلام پھیر دے پھر پہلا گروہ آئے اور تین رکعتیں بغیر قرأت کے پڑھے پھر دوسرا گروہ آئے اور تین پڑھے، پہلی میں فاتحہ و سورت پڑھے اور اگر امام مسافر ہے اور مقتدی بعض مقیم ہیں بعض مسافر تو مقیم مقیم کے طریقہ پر عمل کریں اور مسافر مسافر کے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵۵ وغیرہ)
مسئلہ ۳: ایک رکعت کے بعد دشمن کے مقابل جانے سے مراد پیدل جانا ہے سواری پر جائیں گے تو نماز جاتی رہے گی۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۷۹۳)
مسئلہ ۴: اگر خوف بہت زیادہ ہو کہ سواری سے اتر نہ سکیں تو سواری پر تنہا تنہا اشارہ سے، جس طرف بھی منہ کر سکیں اسی طرف نماز پڑھیں سواری پر جماعت سے نہیں پڑھ سکتے ہاں اگر ایک گھوڑے پر دو سوار ہوں تو پچھلا اگلے کی اقتدا کر سکتا ہے اور سواری پر فرض نماز اسی وقت جائز ہو گی کہ دشمن ان کا تعاقب کر رہے ہوں اور اگر یہ دشمن کے تعاقب میں ہوں تو سواری پر نماز نہیں ہو گی۔ (جوہرہ، درمختار ج ۱ ص ۷۹۴)
مسئلہ ۵: نماز خوف میں صرف دشمن کے مقابل جانا اور وہاں سے امام کے پاس صف میں آنا یا وضو جاتا رہا تو وضو کے لئے چلنا معاف ہے، اس کے علاوہ چلنا نماز کو فاسد کر دے گا، اگر دشمن نے اسے دوڑایا یا اس نے دشمن کو بھگایا تو نماز جاتی رہی، البتہ پہلی صورت میں اگر سواری پر ہو تو معاف ہے۔ (درمختار،ردالمحتار ج ۱ ص ۷۹۴)
مسئلہ ۶: سواری پر نہیں تھا اثنائے نماز میں سوار ہو گیا نماز جاتی رہی خواہ کسی غرض سے سوار ہوا ہو اور لڑنا بھی نماز کو فاسد کر دیتا ہے مگر ایک تیر پھینکنے کی اجازت ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۹۴) یونہی آج کل بندوق کا ایک فیر کرنے کی اجازت ہے۔
مسئلہ ۷: دریا میں تیرنے والا اگر کچھ دیر بغیر اعضا کو حرکت دیئے رہ سکے تو اشارہ سے نماز پڑھے ور نہ نماز نہ ہو گی۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۹۴)
مسئلہ۸: جنگ میں مشغول ہے مثلاً تلوار چلا رہا ہے اور وقت نماز ختم ہوا چاہتا ہے تو نماز کو مؤخر کرے اور لڑائی سے فارغ ہو کر نماز پڑھے ۔(ردالمحتار ج ۱ ص ۷۹۴)
مسئلہ ۹: باغیوں اور اس شخص کیلئے جس کا سفر کسی معصیت کے لئے ہو صلاۃ الخوف جائز نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۹۴)
مسئلہ ۱۰: نماز خوف ہو رہی تھی اثنائے نماز میں خوف جاتا رہا یعنی دشمن چلے گئے تو جو باقی ہے وہ امن کی سی پڑھیں ، اب خوف کی پڑھنا جائز نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵۶)
مسئلہ ۱۱: دشمنوں کے جانے کے بعد کسی نے قبلہ سے سینہ پھیرا نماز جاتی رہی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵۶)
مسئلہ ۱۲: نماز خوف میں ہتھیار لئے رہنا مستحب ہے اور خوف کا اثر صرف اتنا ہے کہ ضرورت کے لئے چلنا جائز ہے باقی محض خوف سے نماز میں قصر نہ ہو گا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۵۶، درمختار ج ۱ ص ۷۹۴)
مسئلہ ۱۳: نماز خوف جس طرح دشمن کے ڈر کے وقت جائز ہے یونہی درندہ اور بڑے سانپ سے خوف ہو جب بھی جائز ہے۔ (درمختار ج ۱ ص ۷۹۳)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔