ARTICLESشرعی سوالات

نمازی کے آگے سے گزرنا اور حرم مکہ

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت ہے جب کہ مطاف میں لوگوں کو اس وقت بڑی پریشانی سے دو چار ہونا پڑتا ہے ، جب وہ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر مطاف سے باہر جانا چاہتے ہیں اور بعض لوگ تو بلا تأمل نمازیوں کے آگے سے گزر جاتے ہیں ، کیا کسی مذہب میں اس کی اجازت ہے اور ہمارے مذہب حنفی میں اس مسئلہ کا حل کیا ہے اور اگر جائز ہے تو کسی فقیہ کا جواز میں صریح قول منقول ہے ، ممانعت میں وارد احادیث کا کیا جواب دیا جائے گا؟ نیز مسعیٰ میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا حکم کیا ہے ؟ اگرچہ آپ کا اس موضوع پر ایک فتوی نظر سے گزرا ہے مگر بعض علماء طواف کرنے والوں کے سوا دوسروں کو نمازی کے آگے سے گزرنے کی اجازت نہیں دیتے ، اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ اس مئسلہ کو تفصیل کے ساتھ بیان فرما کر عند اللہ ماجور ہوں ۔

(السائل : محمد عرفان ضیائی، نور مسجد، مٹھا در، کراچی)

متعلقہ مضامین

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : مطاف میں لوگ اوقاتِ جماعت کے علاوہ مختلف اوقات میں فرداً فرداً نماز پڑھتے ہیں او رکبھی کبھار چند افراد مِل کر باجماعت نماز بھی ادا کرتے ہیں او راس حال میں نماز ختم کرنے کے بعد انہیں مطاف سے باہر آنے میں دُشواری ہوتی ہے اور اسی طرح ذکر و اذکار میں مشغول افراد اپنے اذکار و معمولات سے فارغ ہو کر اور طواف پورا کرنے والے نمازِ طواف پڑھنے کے بعد مطاف سے باہر نکلنے میں پریشان ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ہم نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت اور رُخصت میں وارد احادیثِ نبویہ علیہ التحیۃ و الثناء اور اس باب میں واقع کلام فقہاء کی روشنی میں اَنام کے ابتلائے عام کا حل تلاش کرتے ہیں ، سب سے پہلے ممانعت میں وارد چند احادیث ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں :

حدثنا أبو معمر، حدثنا عبدالوارث، حدثنا یونس، عن حُمید بن ہلال عن أبی صالح : عن أبی ہریرۃ، قال : قال النّبیّ ﷺ : ’’إِذَا مَرَّ بَیْنَ یَدَیَ أَحَدِکُمْ شَیْیٌٔ، وَ ہُوَ یُصَلِّیْ، فَلْیَمْنَعْہُ، فَإِنْ أَبٰی فَلْیَمْنَعَہُ، فَإِنْ أَبٰی فَلْیُقَاتلْہُ، فَإِنَّمَا ہُوَ الشَّیْطَانُ‘‘ و طرفہ فی : 509 (182)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے ابو معمر نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عبدالوارث نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے یونس نے ، وہ روایت کرتے ہیں حُمید بن بلال نے ، وہ ابو صالح سے ، وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ نبی انے فرمایا : ’’جب تم میں سے کسی ایک کے سامنے سے کچھ گزرے اور وہ نماز پڑھ رہا ہو تو اُسے چاہئے کہ اُسے روک دے ، پس وہ اگر انکار کرے تو اُسے چاہیے کہ اُسے روک دے ، پھر وہ اگر انکار کرے تو چاہئے کہ اس سے لڑے ، پس وہ صرف شیطان ہے ‘‘۔ اور علامہ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بن احمد ابن شاہین بغدادی متوفی 385ھ روایت کرتے ہیں :

حدّثنا عبداللہ بن سلیمان بن أشعث، قال : حدّثنا ہارون بن سلیمان الخزاز، قال : حدّثنا أبو بکر الحنفی، قال : حدّثنا الضحاک بن عثمان، قال : حدّثنا صدقۃ بن یسار، عن ابن عمر، قال : قال رسول اللہ ﷺ : ’’إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیُصَلِّ إِلٰی شَیْیٍٔ یَسْتُرُہُ، وَ لَا یَدَعُ أَحَدًا یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ فَإِنْ أَبٰی فَلْیُقَاتِلْہُ‘‘ (183)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ بن سلیمان بن اشعث، انہوں نے فرمایا کہ حدیث بیان کی ہم سے ہارون بن سلیمان الخزاز نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ابو بکر حنفی نے ،وہ فرماتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے ضحاک بن عثمان نے ، وہ فرماتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے صدقہ بن یسار نے ،وہ روایت کرتے ہیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اُسے چاہئے کہ وہ ایسی چیز کی طرف نماز پڑھے جو اس کے لئے سُترہ ہو اور وہ کسی کو نہ چھوڑے کہ وہ اس کے آگے سے گزرے ، پس اگر وہ انکار کرے تو اس سے لڑے ‘‘۔ اسی طرح نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت پر احادیث متعدد مُحدِّثین کی روایت سے بکثرت کُتُبِ احادیث میں مذکور ہیں ۔ اور رُخصت میں وارد حدیث حضرت مطلب بن ابی وَدَاعَہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جیسے مُحدِّثین کرام نے اپنی اپنی اسناد سے صِحاح، سُنن، جوامع اور مسانید وغیرہا میں روایت کیا ہے ۔ امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ اور امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی متوفی 275ھ روایت کرتے ہیں :

حدّثنا أحمد بن حنبل، حدّثنا سفیان بن عیینۃ، حدثنی کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، عن بعض أہلہ، عن جدہ، أنہ رأی النبی ﷺ : ’’یُصَلِّیْ مِمَّا یَلِیْ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُمَا سُتْرَۃٌ‘‘، قال سفیان : ’’لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الْکَعْبَۃِ سُتْرَۃٌ‘‘ ۔ و اللفظ لأبی داؤد (184)

یعنی، ہم سے امام احمد بن حنبل نے حدیث بیان کی، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے سفیان بن عیینہ نے ، وہ کہتے ہیں حدیث بیان کی مجھے کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعہ نے وہ اپنے بعض اہل سے روایت کرتے ہیں ، وہ ان کے دادا (مطلب بن أبی وداعہ) سے کہ ’’انہوں نے بابِ بنی سہم کے قریب نبی ا کو اس حال میں نماز ادا فرماتے دیکھا کہ لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے اور ان کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ سفیان نے فرمایا کہ ’’آپ ا اور کعبہ معظمہ کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ اور امام ابو بکر عبداللہ بن الزبیر الحمیدی متوفی 219ھ روایت کرتے ہیں :

قال : ثنا سفیان، قال ثنی کثیر بن کثیر بن المطلب، عن بعض أہلہ، أنہ سمع جدہ المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، یقول : ’’رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یُصَلِّیْ مِمَّا یَلِیْ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَافِ سُتْرَۃٌ‘‘ (185)

یعنی، فرمایا حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی مجھ سے کثیر بن کیثر بن المطلب نے اپنے بعض اہل سے کہ انہوں نے ان کے دادا مطلب بن ابی وَدَاعہ کو سُنا فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو بابِ بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا اور لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے جب کہ آپ ا اور طواف کرنے والوں کے مابین سترہ نہ تھا‘‘۔ مندرجہ بالا روایت اور ’’سنن نسائی‘‘ کی روایت اور دیگر روایات میں لفظ ’’الطواف‘‘ آیا ہے اس کے اعراب کے بارے میں علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی 855ھ لکھتے ہیں :

قولہ : ’’بین الطواف‘‘ فی روایۃ النسائی، بفتح الطاء، و تخفیف الواو، و قد ضبطہ بعضہم من أفاضل المحدّثین بضم الطاء، و تشدید الواؤ، و أراد بہ جمع طائف، و لکل منہا وجہ واللہ أعلم (186)

یعنی، امام نسائی کی روایت میں راوی کا قول ’’بین الطواف‘‘ طاء کی فتح (زبر) اور واؤ کی تخفیف (یعنی بلا تشدید زبر) کے ساتھ (یعنی، الطّوَاف) ہے اور محدّثین میں سے بعض افاضل نے اسے ضم طاء (طاء کی پیش) اور واؤ کی تشدید کے ساتھ ضبط کیا ہے (یعنی، الطُّوَّافپڑھا ہے ) اور انہوں نے اس سے طائف (طواف کرنے والا) کی جمع کا ارادہ کیا ہے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک وجہ ہے ۔ واللہ اعلم اور امام احمد اور امام ابو داؤد حدیثِ مطلب کے تحت لکھتے ہیں :

قال سفیان : کان ابن جریج أخبرنا عنہ، قال : أخبرنا کثیر بن کثیر، عن أبیہ، قال : فسألتُہ، فقال : لیس من أبی سمعتُہ، لکن من بعض أہلی عن جدّی (187)

یعنی، سفیان فرماتے ہیں کہ ابن جریج نے ہمیں اُن سے (یعنی کثیر بن کثیر سے ) خبر دی تھی ، فرمایا کہ ہمیں خبر دی کثیر بن کثیر نے اپنے باپ (کثیر بن مطلب بن ابی وَدَاعہ) سے ، فرماتے ہیں تو میں نے اُن سے (یعنی کثیر بن کثیر سے ) اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے اِسے اپنے باپ (کثیر بن مطلب بن ابی وَدَاعہ ) سے نہیں سُنا لیکن میں نے اس حدیث کو اپنے بعض اہل (یعنی گھر والوں ) سے سُنا جنہوں نے میرے دادا سے روایت کیا۔ اور امام ابو بکر عبداللہ بن الزبیر حمیدی متوفی 219ھ نے بھی یہی لکھا اور ان کے الفاط یہ ہیں :

قال سفیان : و کان ابن جریج حدّثنا أولاً عن کثیر، عن أبیہ، عن المطلب، فلما سألتُہ عنہ، قال : لیس ہو عن أبی، إنما أخبرنی بعض أہلی، أنہ سمعہ من المطلب (188)

حدیث شریف کے انہی الفاظ کو امام عز الدین بن جماعہ الکنانی متوفی 767ھ نے ’’ہِدایۃ السالک‘‘ (189) میں نقل کیا ہے ۔ اس حدیث میں بابِ بنی سہم کا ذکر ہے جو کہ اب بابُ العُمرہ کے نام سے معروف ہے ، چنانچہ امام عز الدین بن جماعہ الکنانی متوفی 767ھ لکھتے ہیں :

باب بنی سہم ہو الذی یقال لہ الیوم باب العمرۃ (190)

یعنی، بابِ بنی سہم وہی ہے جسے آج بابُ العُمرہ کہا جاتا ہے ۔ امام ابو جعفراحمد بن محمد طحاوی حنفی متوفی 321ھ روایت کرتے ہیں :

حدثنا أحمد بن داؤد بن موسیٰ، قال : حدثنا إبراہیم بن بشار ، قال : ثنا سفیان، قال سمعتُ ابن جریج یحدّث عن کثیر بن کثیر، عن أبیہ، عن جدہ المطلب بن أبی وَدَاعَۃَ فذکر مثلہ، غیر أنہ قال : لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَافِ سُتْرَۃٌ‘‘ (191)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے احمد بن داؤد بن موسیٰ نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ابراہیم بن بشارنے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے سفیان نے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابن جریج کو حدیث بیان کرتے سُنا، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے دادا مطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، اس حدیث کو سابقہ حدیث کی مثل ذکر کیا سوائے اس کے کہ کہا کہ ’’آپ ا اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی سترہ نہ تھا‘‘ اس حدیث کے تحت علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی 855ھ لکھتے ہیں :

ہذا إسناد حسن جیّد (192)

یعنی، یہ سند حسن جید ہے ۔ اور اس روایت کے تحت امام طحاوی حنفی لکھتے ہیں :

قال : سفیان، فحدّثنا کثیر بن کثیر بعد ما سمعتُہ من ابن جریج، قال : أخبرنی بعض أہلی و لم أسمعہ من أبی (193)

یعنی، سفیان نے فرمایا اس حدیث کو میں نے ابن جریج سے سُنا تھا اس کے بعد کثیر بن کثیر نے ہم سے حدیث بیان کی، فرمایا کہ خبر دی مجھے میرے بعض اہل نے اور اسے میں نے اپنے باپ (کثیر بن المطلب) سے نہیں سُنا۔ امام بیہقی لکھتے ہیں :

قال سفیان، فذہبت إلی کثیر فسألتُہ، قلتُ : حدیث تحدّثہ عن أبیک، قال : لم أسمعہ من أبی حدّثنی بعض أہلی عن جدّی المطلب، قال علی : قولہ : لم أسمعہ من أبی شدید علی ابن جریج، قال أبو سعید عثمان یعنی ابن جریج لم یضبطہ، قال الشیخ : و قد قیل عن ابن جریج، عن کثیر، عن أبیہ، قال : حدّثنی أعیان بنی المطلب، عن المطلب، وروایۃ ابن عیینۃ أحفظ (194)

یعنی، سفیان نے فرمایا میں کثیر کے پاس گیا اور ان سے (اس حدیث کے متعلق) پوچھا، میں نے کہا (یہ) حدیث اِسے آپ اپنے باپ سے روایت کرتے ہو، تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اس حدیث کو میں نے اپنے باپ سے نہیں سُنا، مجھے میرے بعض اہل نے میرے دادا مطلب سے روایت کیا ہے ، اور علی (بن المدینی) نے فرمایا کہ کثیر بن کثیر کا یہ کہنا کہ میں نے اسے اپنے باپ سے نہیں سنا ابن جریج پر شدید ہے ، فرمایا : ابن جریج نے اسے ضبط نہیں کیا، شیخ نے فرمایا کہ سند میں یوں بھی کہا جاتا ہے از ابن جریج از کثیر، از ابیہ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی مجھے اعیان بن المطلب نے مطلب سے ، او رابن عیینہ کی روایت اَحْفَظ ہے ۔ امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب نسائی متوفی 303ھ روایت کرتے ہیں :

أخبرناإسحاق بن إبراہیم، قال : أنبأنا عیسیٰ بن یونس قال : حدّثنا عبدالملک بن عبد العزیز بن جریج، عن کثیر بن کثیر، عن أبیہ، عن جدّہ، قال : ’’رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ طَافَ بِالْبَیْتِ سَبْعًا، ثُمَّ صَلَّی رَکْعَتَیْنِ بِحِذَائِہِ فَیْ حَاشِیَۃِ الْمَقَامِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ‘‘ (195)

یعنی، ہمیں اسحاق بن ابراہیم نے خبر دی، وہ فرماتے ہیں ہمیں عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عبدالملک بن عبد العزیز بن جریج نے ، وہ کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا آپ نے کعبہ کا سات پھیرے طواف کیا، پھر اس کے مقابل حاشیۂ مقام میں دو رکعت نماز ادا فرمائی،آپ او رطواف کرنے والوں کے مابین کوئی نہ تھا‘‘۔ اور امام نسائی سے دوسری روایت ہے :

أخبرنا یعقوب بن إبراہیم، عن یحییٰ، عن ابن جریج، عن کثیر بن کثیر، عن أبیہ، عن المطلب بن أبی وَداعَۃ، قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ حِیْنَ فَرَغَ مِنْ سُبُعِِہِ جَائَ حَاشِیَۃَ الْمَطَافِ، فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَافِیْنَ أَحَدٌ ‘‘ (196)

یعنی، ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، وہ یحییٰ سے روایت کرتے ہیں ، وہ ابن جریج سے وہ کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے باپ سے وہ مطلب بن وَدَاعہ سے ، فرماتے ہیں کہ ’’میں نے نبی ا کو دیکھا جب کہ آپ اپنے طواف کے سات چکروں سے فارغ ہوئے حاشیۂ مطاف میں تشریف لائے ، پس آپ نے دو رکعت نماز ادا فرمائی اور آپ اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی نہ تھا۔ اور امام ابو عبداللہ محمد بن یزید ابن ماجہ متوفی 273ھ (197)اور امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ (198) روایت کرتے ہیں اور ان سے امام عز الدین بن جماعہ الکنانی 767ھ (199) نقل کرتے ہیں :

حدّثنا أبو بکر بن أبی شیبۃ، ثنا أبو أسامۃ، عن ابن جریج، عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعۃ السَّہْمِیّ، عن أبیہ، عن المطلب، قال : ’’رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ إِذَا فَرَغَ مِنْ سُبُعِہِ جَائَ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِالرُّکْنِ، فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ فِی حَاشِیَۃِ الْمَطَافِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطُّوَّافِ أَحَدٌ‘‘۔ و اللفظ لابن ماجۃ۔ قَالَ ابن ماجۃ : ہذا بمکۃ خاصّۃ

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے ابو بکر بن ابی شیبہ نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ابو اُسامہ نے ، وہ ابن جریج سے ، وہ کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعہ سہمی سے ، وہ اپنے باپ (کثیر بن المطلب) سے ، وہ مطلب (بن ابی وَدَاعہ) سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ کو دیکھا جب کہ آپ اپنے طواف کے سات چکروں سے فارغ ہو کر رُکنِ اسود کے مقابل تشریف لائے پس حاشیۂ مطاف میں دو رکعت نماز ادا فرمائی، حالانکہ آپ اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی نہ تھا‘‘۔ اور امام احمد بن حنبل متوفی 241ھ سے ایک روایت ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے یحییٰ بن سعید نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریج سے ، وہ کہتے ہیں حدیث بیان کی مجھے کثیر ابن کثیر نے اپنے باپ سے ، انہوں نے مطلب بن ابی وداعہ سے ، انہوں نے فرمایا :

’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ حِیْنَ فَرَغَ مِنْ أُسْبُوْعِہِ أَتَی حَاشِیَۃِ الطَّوَّافِ فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَّافِ أَحَدٌ‘‘ (200)

یعنی، ’’میں نے نبی ا کو دیکھا جب آپ اپنے طواف کے سات چکروں سے فارغ ہوئے حاشیۂ طواف میں تشریف لائے ، پھر دو رکعت نماز ادا فرمائی جب کہ آپ اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی نہ تھا‘‘۔ اور امام ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی حنفی سے ایک روایت ہے کہ

حدّثنا یونس، قال حدّثنا سفیان بن عیینۃ، عن کثیر بن کثیر، عن بعض أہلہ، سمع المطلب یقول : ’’ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺٗ یُصَلِّیْ وَ مِمَّا یَلِیْ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ و النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ القْبْلَۃِ شَیْئٌ ‘‘ (201)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے یونس نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے سفیان بن عیینہ نے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے بعض اہل سے کہ اس نے مطلب کو فرماتے سُنا کہ ’’میں نے نبی ا کو بابِ بنی سہم (بابُ العُمرہ) کے پاس نماز پڑھتے دیکھا اور لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے جب کہ آپ اور قبلہ کے مابین کوئی شئے نہ تھی‘‘۔ اور امام طحاوی حنفی نے اس حدیث کو مندرجہ ذیل سند سے بھی روایت کیا ہے :

حدّثنا یزید بن سنان، قال حدّثنا یزید بن ہارون، قال : أنبأنا ہشام، قال : أنبأنا ابن عمّ المطلب بن أَبی وَدَاعۃ،(وفی شرح معانی الآثار : قال : أنا ہشام، أراہ عن ابن عم المطلب بن أبی وَدَاعَۃ) عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن اَبی وَدَاعۃ، عن أبیہ، عن جدہ عن النبی ﷺ بذلک (و فی التحفۃ : مثلہ) (202)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے یزید بن سنان نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے یزید بن ہارون نے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی ہمیں ہشام نے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی ہمیں مطلب بن أبی وَدَاعَہ کے چچا کے بیٹے نے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر بن المطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ اُن کے دادا سے ، وہ نبی اسے ، اُسے یا اس کی مثل بیان کرتے ہیں ۔(اوراسی کی مثل’’تحفۃ الاخیار‘‘ میں ہے ) امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں :

قال لنا أبو عاصم : عن ابن جریج، عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ السہمی، عن أبیہ، و ذکر أعمامہ عن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، قالَ : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ فِیْ حَاشِیَتِہِ، یعنی حَاشِیَۃِ الطَّوَافِ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ (203)

یعنی، ہمیں ابو عاصم نے فرمایا ، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریج سے ، وہ کثیر بن کثیر بن المطلب بن ابی وَدَاعَہ سہمی سے ، وہ اپنے باپ سے ، انہوں نے اُن کے چچاؤں کی روایت سے بیان کیا، وہ مطلب بن أبی وَدَاعَہ سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا کہ ’’میں نے نبی ا کو حاشیۂ طواف میں نماز ادا فرماتے دیکھا اور لوگ آپ ﷺ کے آگے سے گزر رہے تھے ‘‘۔ امام بخاری روایت کرتے ہیں :

و قال محمد المثنی : نا یزید بن ہارون، سمع ہشام بن حسان، قال : أخبرنی ابن عم عبدالمطلب بن أبی وَدَاعَۃ، عن کثیر بن کثیر بن المطلب، عن أبیہ، عن جدہ، قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ، بنحوہ‘‘ (204)

یعنی، اور محمد المثنی نے فرمایا حدیث بیان کی ہم سے یزید بن ہارون نے ، انہوں نے سُنا ہشام بن حسان کو،وہ فرماتے ہیں خبر دی مجھے عبدالمطلب بن ابی وَدَاعَہ کے چچا کے بیٹے نے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر بن المطلب سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے دادا سے ، فرماتے ہیں کہ میں نے نبی ا کو دیکھا الخ۔ حافظ محمد بن حبان بن ابی حاتم تمیمی بُستی متوفی 354ھ روایت کرتے ہیں :

أخبرنا محمد بن إسحاق بن خزیمۃ قال : حدثنا یعقوب بن إبراہیم الدورقی قال : حدثنا یحیی بن سعید، عن ابن جریج، عن کثیر بن کثیر، عن أبیہ أبی المطلب بن أبی وَدَاعَۃ أنہ قال : ’’ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ حِیْنَ فَرَغَ مِنْ طَوَافِہِ أَتَی حَاشِیَۃَ الْمَطَافِ، فَصَلَّی
رَکْعَتَیْنِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَافِیْنَ أَحَدٌ ‘‘ (205)

یعنی، ہمیں خبر دی محمد بن اسحاق بن خزیمہ نے ، وہ فرماتے ہیں ہمیں حدیث بیان کی یعقوب بن ابراہیم الدورقی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے یحییٰ بن سعید نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریج سے ، وہ کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے والد ابی المطلب بن أبی وَدَاعَہ سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے فرمایا کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا جب آپ طواف سے فارغ ہوئے ، تو حاشیۂ مطاف میں تشریف لائے ، پس دو رکعت نماز ادا فرمائی، اور آپ کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی چیز نہ تھی‘‘۔ حافظ ابن حبان متوفی 354ھ سے ہی روایت ہے :

أخبرنا عمر بن محمد الہمدانی، حدثنا عمر بن عثمان، حدثنا الولید ابن مسلم، حدثنا زہیر بن محمد العنبری، حدثنا کثیر بن کثیر، عن أبیہ أبی المطلب بن أبی وَدَاعَۃ قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ حِذْ وَ الرُّکْنِ الْأَسْوَدِ ، وَ الرِّجالُ وَ النِّسَائُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، مَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَہُمْ سُتْرَۃٌ‘‘ (206)

یعنی، خبر دی ہمیں عمر بن محمد ہمدانی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عمر بن عثمان نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ولید ابن مسلم نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے زہیر بن محمد عنبری نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہمیں کثیر بن کثیر نے ، وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد ابو المطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، فرمایاکہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو رُکنِ اسود کے مقابل نماز پڑھتے دیکھا اور مرد و عورتیں آپ کے آگے سے گزر رہے تھے ، آپ ا اور ان کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ حافظ ابو بکر احمد بن عمرو ابن ابی عاصم الضحاک بن مخلد شیبانی متوفی 287ھ روایت کرتے ہیں :

حدّثنی عمرو بن عثمان، نا الولید بن مسلم، نا زہیر، عن کثیر بن کثیر، عن أبیہ، عن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ رضی اللہ عنہ، قال : ’’ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّہِ ﷺ یُصَلِّیْ حِذْ وَ الْرُکْنِ الْأَسْوَدِ، وَ الرِّجَالُ وَ النِّسَائُ یَطُوْفُوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، مَا بَیْنَہُمْ وَ بَیْنَہُ سُتْرَۃٌ‘‘ (207)

یعنی، حدیث بیان کی مجھ سے عمرو بن عثمان نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ولید بن مسلم نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی زہیر نے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ مطلب بن ابی وَدَاعَہ رضی اللہ عنہ سے ، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو رُکنِ اسود کے مقابل نماز ادا فرماتے دیکھا، اور مردو عورتیں آپ کے آگے طواف کر رہے تھے ، اُن کے اور آپ ا کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ حافظ ابو یعلی احمد بن علی موصلی تمیمی متوفی 307ھ (208) اور اس کی سند سے علامہ ابن اثیر جزری (209) روایت کرتے ہیں :

حدّثنا أبو الفضل بن الحسن الطبری بإسنادہ إلی أبی یعلی : حدّثنا ابن نمیر، حدّثنا أبو أسامۃ، عن ابن جریج، عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، عن أبیہ المطلب قال : ’’ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ إِذَا فَرَغَ مِنْ سَبْعِہِ حَتَّی یُحَاذِیَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ السَّقِیْفَۃِ، فَیُصَلِّیْ رَکْعَتَیْنِ فِیْ حَاشِیَۃِ الْمَطَافِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطُّوَافِ أَحَدٌ‘‘

یعنی، حد یث بیان کی ہم سے ابو الفضل بن الحسن ابو یعلی کی طرف اپنی اسناد کے ساتھ : (ابو یعلی فرماتے ہیں ) حدیث بیان کی ہم سے ابن نمیر نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ابو اُسامہ نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریج سے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر بن المطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، وہ اپنے والد مطلب سے روایت کرتے ہیں کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا جب آپ اپنے طواف کے سات چکروں سے فارغ ہوئے ، تو اپنے اور سقیفہ کے درمیان محاذی ہوئے ، پس آپ ا نے مطاف میں دو رکعت نماز پڑھی ، اور آپ اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی (سترہ)نہ تھا‘‘۔ امام ابو الولید محمد بن عبداللہ بن احمد الازرقی روایت کرتے ہیں :

حدّثنا أبو الولید، قال : حدّثنی جدّی، حدّثنا سفیان بن عیینۃ، عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ السَّہمیِّ، ’’أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ مِمَّایَلِیْ بَابَ بَنِی سَہْمٍ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُمْ وَ بَیْنَہُ شِبْرٌ‘‘ (210)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے ابو الولید نے ، فرمایا کہ حدیث بیان کی مجھ سے میرے دادا نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے سفیان بن عیینہ نے ، وہ کثیر بن کثیر بن المطلب بن ابی وَدَاعہ سہمی سے روایت کرتے ہیں کہ ’’انہو ں نے نبی ا کو بابِ بنی سہم (یعنی بابُ العمرہ) کے پاس نماز پڑھتے دیکھا حالانکہ لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے او رلوگوں اور آپ کے مابین ایک بالشت (کافاصلہ) نہ تھا‘‘۔ امام طبرانی سے روایت ہے :

حدّثنا ورد بن أحمد بن لبید البیروتی، ثنا صفوان بن صالح، ثنا الولید بن مسلم، ثنا سالم الخیاط و زہیر بن محمد، قالا : ثنا کثیر بن کثیر، عن أبیہ، حدثنی المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، قال : ’’رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یُصَلِّیْ حِذْ وَ الرُّکْنِ الْأَسْوَدِ، وَ الرِّجَالُ وَ النِّسَائُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، مَا بَیْنَہُ وَ بَیْنَہُمْ سُتْرَۃٌ‘‘ (211)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے ورد بن احمد بن لبید بیروتی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے صفوان بن صالح نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ولید بن مسلم خیاط اور زہیر بن محمد نے ، وہ دونوں فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے کثیر بن کثیر نے اپنے باپ سے ، انہوں نے حدیث بیان کی مطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، فرمایا کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو حجر اسود کے سامنے نماز ادا فرماتے دیکھا اور مرد اور عورتیں آپ کے آگے سے گزر رہے تھے ، آپ ا اور ان کے درمیان کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ امام طبرانی سے روایت ہے :

حدّثنا یحییٰ بن أیوب الغلاف المصری، ثنا سعید بن أبی مریم، ثنا محمد بن عبداللہ بن عید بن عمیر، عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، عن أبیہ عن المطلب،’’ أَنَّہُ رَأَی رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یُصَلِّیْ إِلَی الْبَیْتِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَافِ أَحَدٌ‘‘ (212)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے یحییٰ بن ایوب غلاف مصری نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے سعید بن أبی مریم نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی محمد بن عبداللہ بن عید بن عمیر نے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر بن مطلب بن أبی وَدَاعَہ سے ، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’انہوں نے رسول اللہ ا کو بیت اللہ کی طرف نماز ادا کرتے دیکھا، اور آپ ا اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی( سُترہ )نہ تھا‘‘۔ امام طبرانی سے روایت ہے :

حدّثنا أبو یزید القراطیسی، ثنا عبداللہ بن عبد الحکم، أنا اللیث بن سعد (ح) و حدّثنا المطلب بن شعیب الأزدی، ثنا عبداللہ بن صالح، حدثنی اللیث، عن ابن جریج، عن کثیر بن کثیر بن المطلب، عن أبیہ کثیر، عن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ صَلَّی فِیْ حَاشِیَۃِ الطَّوَافِ، لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّائِفِیْنَ سُتْرَۃٌ‘‘ (213)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے ابو یزید قراطیسی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ بن عبدالحکم نے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی ہمیں لیث بن سعد نے (ح) اور حدیث بیان کی ہم سے مطلب بن شعیب ازدی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ بن صالح نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی مجھ سے لیث نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریج سے ، وہ کثیر بن کثیر بن المطلب سے ، وہ اپنے باپ کثیر سے ، وہ مطلب بن أبی وَدَاعَہ سے کہ ’’رسول اللہ ا نے حاشیۂ طواف میں نماز ادا فرمائی اور آپ ا اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘، یہ ابن صالح کے الفاظ ہیں ، اور ابن الحکم نے اپنی (مروی) حدیث میں کہا کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو دیکھا کہ جب آپ نے اپنی سعی کو مکمل فرمایا تو حاشیۂ طواف میں نماز ادا کی، آپ ا اور طواف کرنے والوں کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی روایت کرتے ہیں :

حدّثنا أحمد بن داؤد المکی، ثنا محمد بن أبی بکر المقدمی، ثنا حماد بن زید، عن ابن جریج، حدّثنی کثیر بن کثیر بن المطلب، عن أبیہ، حدثنی أعیان المطلب، عن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّی حِیَالَ الرُّکْنِ، وَ الرِّجَالُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ (214)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے احمد بن داؤد مکی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے حماد بن زید نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابن جریج سے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی مجھ سے کثیر بن کثیربن المطلب نے ، وہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی مجھے اعیانِ مطلب نے مطلب بن ابی وَدَاعَہ سے فرمایا کہ ’’میں نے نبی ا کو رُکنِ اسود کے مقابل نماز پڑھتے دیکھا اور لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے ‘‘۔ امام طبرانی سے روایت ہے :

حدّثنا محمد بن یحیی بن مندہ الأصبہانی، ثنا زید بن ثابت بن أخرم، ثنا عبدالقاہر بن شعیب، عن ہشام بن حسان، عن سالم بن عبداللہ، عن کثیر بن المطلب، عن أبیہ، عن جدہ، ’’أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ خَرَجَ مِنَ
الْکَعْبَۃِ، فَقَامَ حِیَالَ الرُّکْنِ، فَصَلَّی رَکْعَتَیْنِ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ یَطُوْفُوْنَ بِالْبَیْتِ الرِّجَالُ وَ النِّسَائُ‘‘ (215)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے محمد بن یحییٰ بن مندہ اصبہانی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے زید بن ثابت بن أخرم نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عبدالقاہر بن شعیب نے ، وہ روایت کرتے ہیں ہشام بن حسان سے ، وہ سالم بن عبداللہ سے ، وہ کثیر بن المطلب سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے دادا سے کہ ’’نبی ا کعبہ معظمہ سے باہر تشریف لائے ، رُکنِ اسود کے سامنے کھڑے ہوئے پس دو رکعت نماز ادا فرمائی اور لوگ آپ کے سامنے طواف کرتے ہوئے گزر رہے تھے ، ان میں مرد بھی تھے اور عورتیں بھی‘‘۔ امام طبرانی سے روایت ہے :

حدثنا إبراہم بن نائلۃ الأصبہانی، ثنا أحمد بن حاتم بن عیسیٰ، ثنا حماد بن زید، ثنا عمرو بن دینار، عن عباد بن عبدالمطلب، عن المطلب بن أبی وَدَاعَۃَ : ’’ أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَانَ یُصَلِّیْ حِیَالَ الرُّکْنِ عِنْدَ السِّقَایَۃِ، وَ الرِّجَالُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘ (216)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے ابراہیم بن نائلہ اصبہانی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی حاتم بن عیسیٰ نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے حماد بن زید نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عمرو بن دینار نے ، وہ روایت کرتے ہیں عباد بن عبدالمطلب سے ، وہ مطلب بن ابی وَدَاعَہ سے کہ ’’نبی ا سقایہ کے پاس رُکنِ (اسود) کے سامنے نماز پڑھا کرتے اور مرد عورتیں آپ کے آگے سے گزرتے ‘‘۔ اور علامہ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بن احمد ابن شاہین بغدادی متوفی 385ھ روایت کرتے ہیں :

حدّثنا محمد بن محمود بن محمد السراج، قال : حدّثنا علیّ بن مسلم، قال : حدّثنا أبو عامر، قال : حدّثنا عبداللہ بن عطاء القرشی، قال : حدّثنا سفیان، عن عبدالرحمن بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ، عن أبیہ، عن جدّہ ’’أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الَّذِیْنَ یَطُوْفُوْنَ بِالْبَیْتِ سُتْرَۃٌ‘‘ (217)

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے محمد بن محمود بن محمد سراج نے ، انہوں نے فرمایا حدیث بیان کی ہم سے علی بن مسلم نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے ابو عامر نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ بن عطاء قرشی نے ، وہ فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہم سے سفیان (بن عیینہ) نے ، وہ روایت کرتے ہیں عبدالرحمن بن مطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے دادا سے کہ ’’انہوں نے نبی ا کو اس حال میں نماز پڑھتے دیکھا کہ آپ اور ان لوگوں کے مابین کوئی سترہ نہ تھا جو بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے ‘‘۔ اس روایت میں ایک راوی عبدالرحمن ہیں جو مطلب بن ابی وداعہ سہمی کے فرزند ہیں ، ابن حبان نے ’’الثقات‘ (218) میں ان کا ذکر کیا ہے اور ان کے حالات امام بخاری کی ’’التاریخ الکبیر‘‘ ( 219) میں امام محمد عبدالرحمن بن ابی حاتم رازی متوفی 327ھ کی کتاب ’’الجرح و التعدیل‘‘ (220) میں بھی ہیں او رمطلب کے بارے میں ابن اثیر کی کتاب ’أسد الغابۃ‘‘(أسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ، باب المیم والطاء، مطلب بن أبی وداعۃ،4/396۔397) اورحافظ ابن حجر عسقلانی’’الإصابۃ‘‘ کی کتابمیں ہے کہ وہ مطلب بن ابی وداعہ الحارث بن صُبَیرہ بن سعید بن سعد بن سہم بن عمرو بن ھصیص قرشی سہمی ہیں ، اور ان کی والدہ اَروی بنت الحارث بن عبدالمطلب ابن ہاشم ہیں اور یہ فتح مکہ کے روز اسلام لائے اور ان کے والد ابو وَدَاعَہ یوم بدر قید کئے گئے تو ان کے بیٹے نے اپنے باپ کے فدیہ میں چار ہزار درہم ادا کیا تو آپ پہلے قیدی تھے کہ جن کا فدیہ دیا گیا ، واقدی نے کہا کہ وہ مدینہ منورہ میں آئے اور وہاں ان کا گھر تھا اور نبی ا سے آپ نے حدیثیں روایت کیں ، اور ابو وداعہ سہمی حارث بن صبرہ جلیل القدر صحابی ہیں ، وہ اور ان کے بیٹے مطلب فتح مکہ میں مسلمان ہوئے ۔ (221) امام ابو بکر عبدالرزاق بن ہمام صنعانی متوفی 221ھ (222) او ران کی سند سے حافظ ابو القاسم سلیمان بن أحمد طبرانی متوفی 360ھ (223) روایت کرتے ہیں :

حدّثنا إسحاق بن إبراہیم الدبری، عن عبدالرزاق، عن عمرو بن قیس، أخبرنی کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ السہمیّ، عن أبیہ، عن جدہ، قال : ’’ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہ ﷺ یُصَلِّی فِیْ مَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَ النَّاسُ یَطُوْفُوْنَ بِالْبَیْتِ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الْقِبْلَۃِ، بَیْنَ یَدَیْہِ، لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَہُمْ سُتْرَۃٌ‘‘ ۔ واللفظ للطبرانی

یعنی، حدیث بیان کی ہم سے اسحاق بن ابراہیم دبری نے ، وہ روایت کرتے ہیں عبدالرزاق سے ، وہ عمرو بن قیس سے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی مجھے کثیر بن کثیر بن المطلب بن ابی وَدَاعَہ سہمی نے اپنے باپ سے ، انہوں نے ان کے دادا سے ، فرمایا : ’’میں نے رسول اللہ ا کو مسجد حرام میں نماز ادا فرماتے دیکھا اور لوگ آپ ا اور قبلہ کے درمیان آپ کے سامنے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے ، آپ ا اور ان کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ اور امام عبدالرزاق نے انہی کلماتِ حدیث کو دوسری سند سے بھی روایت کیا ہے چنانچہ وہ سند مندرجہ ذیل ہے : عبدالرزاق، عن ابن عیینۃ، عن کثیر بن کثیر ، عن أبیہ، عن جدہ، قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ الخ‘‘ (224) یعنی، امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں ابن عیینہ سے ، وہ کثیر بن کثیر سے ، وہ اپنے باپ سے ، وہ ان کے دادا سے ، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے نبی ا کو دیکھا الخ‘‘۔ امام ابو بکر احمد حسین بیہقی متوفی 458ھ روایت کرتے ہیں :

أخبرنا أبو الحسین علی بن محمد بن عبداللہ بن بشران ببغداد ، أنبأنا أبو جعفر محمد بن عمرو الرزاز، ثنا سعدان بن نصر، ثنا سفیان بن عیینۃ، عن کثیر بن کثیر بن المطلب بن أبی وَدَاعَۃ السَّہمیِّ، عن بعض أہلہ أنہ سمع جدہ المطلب بن أبی وَدَاعَۃ یقول : ’’ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ مِمَّا یَلِیَ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطُّوَّافِ سُتْرَۃٌ‘‘ (225)

یعنی، خبر دی ہمیں ابو الحسین علی بن محمد بن عبداللہ بن بشران نے بغداد میں ، خبر دی ہمیں ابو جعفر محمد بن عَمرو رزاز نے ، حدیث بیان کی ہم سے سعدان بن نصر نے ، حدیث بیان کی ہم سے سفیان بن عیینہ نے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر بن المطلب بن ابی وَدَاعَہ سہمی سے ، وہ اپنے بعض اہل سے ، انہوں نے سُنا ان کے دادا مطلب بن ابی وَدَاعَہ سے ، وہ فرماتے ہیں کہ ’’میں نے نبی ا کو بابِ بنی سہم کے پاس نماز پڑھتے دیکھا اور لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے (اس حال میں کہ) آپ او رطواف کرنے والوں کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ ا مام بیہقی نے حدیث مطلب کے انہی الفاظ کو مندرجہ ذیل سند سے بھی روایت کیا ہے :

أخبرنا أبو عبداللہ و أبو زکریا و أبو بکر قالوا : حدّثنا أبو العباس، قال أخبرنا الربیع، قال : أخبرنا الشافعی، قال : أخبرنا سفیان الخ (226)

یعنی، خبر دیتے ہیں ہمیں ابو عبداللہ او رابو زکریا اور ابو بکر فرماتے ہیں حدیث بیان کی ہمیں ابو العباس نے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی ہمیں ربیع نے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی ہمیں امام شافعی نے ، وہ فرماتے ہیں خبر دی ہمیں سفیان نے الخ۔ امام بیہقی سے ہی روایت ہے :

أخبرنا أبو عبداللہ الحافظ، أخبرنی أبو الحسن بن عبدوس، قال سمعتُ عثمان بن سعید یقول سمعتُ علیًّا یعنی ابن المدینی، یقول فی ہذا الحدیث : قال سفیان : سمعتُ ابن جریج، یقول : أخبرنی کثیر بن کثیر، عن أبیہ، عن جدّہ قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ وَ النَّاسُ
یَمُرُّوْنَ‘‘ (227)

یعنی، خبر دی ہمیں ابو عبداللہ حافظ نے ، خبر دی ابو الحسن عبدوس نے ، فرماتے ہیں کہ میں نے عثمان بن سعید کو سُنا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے علی ابن المدینی کو سُنا کہ وہ اس حدیث میں فرماتے ہیں کہ سفیان نے فرمایا کہ میں نے ابن جریج کویہ کہتے سُنا کہ خبر دی مجھے کثیر بن کثیر نے اپنے باپ سے ، انہوں نے اُن کے دادا سے کہ ’’میں نے نبی ا کو نماز پڑھتے دیکھا او رلوگ گزر رہے تھے ‘‘۔ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی متوفی 852ھ نقل کرتے ہیں :

ثم أخرج عن بن جریج، عن کثیر بن کثیر بن المطلب عن أبیہ، عن جدّہ ، قال : ’’ رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ فِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَہُمْ، أی النّاس۔ سُتْرَۃٌ‘‘ (228)

یعنی، پھر حدیث کی تخریج فرمائی ابن جریج کی روایت سے ، وہ روایت کرتے ہیں کثیر بن کثیر بن المطلب سے ، وہ اپنے باپ (کثیر بن المطلب) سے ، وہ ان کے دادا (مطلب بن ابی وَدَاعہ) سے ، فرمایا کہ ’’میں نے نبی ا کو دیکھا کہ آپ مسجد حرام میں نماز ادا فرما رہے ہیں ، آپ او رلوگوں کے درمیان سُترہ نہیں ہے ‘‘۔ حافظ ابن حجر اس کے بعد لکھتے ہیں :

و أخرجہ من ہذا الوجہ أیضاً أصحاب السنن، و رجالہ موثقون إلا أنہ معلول

یعنی، اس حدیث کی اس وجہ پر اصحابِ سُنن نے بھی تخریج فرمائی اور اس کے رجال ثقہ ہیں مگر یہ کہ یہ معلول ہے ۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے اپنے آگے سے گزرنے والے کو نہیں روکا چنانچہ امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں :

عن ابن جریج، قال : أخبرنی أبی، عن أبی عامر، قال : رأیتُ ابن الزبیر یصلی فی المسجد، فترید المرأۃ أن تجیز أمامہ و ہو یرید السجود، حتی أجازت سجد فی موضع قدمیہا (229)

یعنی، ابن جریج سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ خبر دی مجھے میرے باپ نے ، وہ روایت کرتے ہیں ابو عامر سے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن الزبیر رضی اللہ عنہما کو مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا اور ایک عورت نے آپ کے سامنے گزرنا چاہا جب کہ آپ سجدہ کرنا چاہتے تھے ، یہاں تک کہ وہ گزری تو آپ نے اس کے پاؤں کی جگہ سجدہ کیا (کیونکہ وہ آپ کے موضع سجود سے گزری تھی)۔ اور باب کے عنوان سے ظاہر ہے کہ حضرت ابن الزبیر رضی اللہ عنہما مکہ مکرمہ کی کسی مسجد میں نماز ادا فرما رہے تھے غالب یہی ہے کہ آپ مسجد حرام میں تھے ۔ اسی طرح حضرت محمد بن الحنفیہ اور ابن جریج سے مروی ہے ، چنانچہ امام ابو بکر عبدالرزاق صنعانی متوفی 221ھ روایت کرتے ہیں :

عن ابن عیینۃ، عن عمرو بن دینار ، قال : رأیتُ محمد بن الحنفیۃ یصلّی فی مسجد منی، و الناس یمرّون بین یدیہ، فجاء فتی من أہلہ فجلس بین یدیہ، قال عبدالرزاق : و رأیتُ أنا ابن جریج یصلّی فی مسجد منی علی یسار المنارۃ، ولیس بین یدیہ سُترۃ، فجاء غلام فجلس بین یدیہ (230)

یعنی، ابن عیینہ سے روایت ہے ، وہ روایت کرتے ہیں عمرو بن دینار سے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ کو منی کی مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا اور لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے تو آپ کے اہل سے ایک نوجوان آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا، امام عبدالرزاق فرماتے ہیں کہ میں نے ابن جریج کو منی کی مسجد میں منارہ کے بائیں جانب نماز پڑھتے دیکھا اور آپ کے آگے کوئی سُترہ نہ تھا تو ایک لڑکا آیا اور آپ کے سامنے بیٹھ گیا۔ لہٰذا ایک طرف تو وہ احادیث نبویہ علیہ التحیۃ و الثناء ہیں کہ جن میں مطلقاً نماز کے آگے گزرنے کے ممانعت مذکور ہے ، اور دوسری طرف حدیث مطلب بن ابی وداعہ کہ جس سے رخصت ظاہر ہے ،اس بنا پر بعض نے ممانعت والی احادیث کو منسوخ اور رخصت والی حدیث کو ان کے لئے ناسخ قرار دیا ہے جیسا کہ علامہ ابو حفص عمر بن احمد بن عثمان بن احمد المعروف بابن شاہین بغدادی متوفی 385ھ نے حدیثِ رخصت کو حدیثِ ممانعت کے لئے ناسخ قرار دیا ہے ۔ (231) جب کہ بعض دیگر نے فرمایا ممانعت والی احادیث میں ان لوگوں کا حکم ہے جو کعبہ سے غائب ہیں اور رخصت والی حدیث ان لوگوں کے بارے میں ہے کہ کعبہ کے پاس نماز پڑھتے ہیں چنانچہ ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی متوفی 321ھ نے حدیث مطلب بن ابی وداعہ کو چار مختلف اسناد سے روایت کرنے سے بعد لکھا ہے کہ

ففی ہذا الحدیث إطلاق رسول اللہ ﷺ للطائفین بالبیت المرورّ بین یدیہ وہو یصلّی، فقال قائل : فکیف تقبلون ہذا و أنتم تروون عنہ ﷺ؟ (232)

یعنی، ان احادیث میں نبی ا کا بیت اللہ کا طواف کرنے والوں کو اپنے آگے گزرنے دینا ہے جب کہ آپ نماز ادا فرما رہے تھے ۔ پس کہنے والے نے کہا تم یہ بات (کہ آپ ا نے حالتِ نماز میں صرف طواف کرنے والوں کو اپنے آگے سے گزرنے دیا) کیسے قبول کرو گے تم تو نبی ا کی حدیث روایت کر رہے ہو۔ پھر امام طحاوی نے ممانعت کی حدیث دو مختلف اسناد سے روایت کرنے کے بعد لکھا :

فقال ہذا القائل : ففی ہذا منعہ ﷺ من المرور بین یدی المصلّی و من إطلاق المصلّی لغیرہ المرور بین یدیہ، فہذا ضدُّ ما روتیموہ عن المطلب عنہ ﷺ (233)

یعنی، پس اس قائل نے کہا اس حدیث میں نبی ا کا نمازی کے آگے سے گزرنے سے اور نمازی کے لئے اپنے غیر کو اپنے آگے سے گزرنے دینے سے منع فرمانا ہے ، اور یہ اس کی ضد ہے جو تم نے مطلب کی روایت سے آپ ا سے روایت کیا۔ پھر اس کے تحت بطور جواب لکھتے ہیں :

فکان جوابنا لہ فی ذلک بتوفیق اللہ عزّ وجلّ و عونہ : أن ہذا مما لا تضادَّ فیہ، لأن ما رویناہ عن المطلب مما ذکر علی حُکم الصلاۃ إلی الکعبۃ بمعاینتہا، و الآثار الأخر علی الصلاۃ بتحری الکعبۃ و بالغیبۃ عنہا (234)

یعنی، تو اللہ عز و جل کی توفیق اور اس کی مدد سے اس قائل کو جواب یہ ہے کہ یہ ان احادیث میں سے ہیں کہ جن میں کوئی تضاد نہیں ہے ، کیونکہ ہم نے مطلب سے روایت کیا، اس میں مُشاہدِ کعبہ کے کعبہ کی طرف نماز کے حکم کا ذکر ہے اور دوسری احادیث میں کعبہ سے غائب تحرّی سے نماز پڑھنے والے (کی نماز کے حکم کا ذکر ہے )

و قد وجدنا الصلاۃ إلی الکعبۃ بالمُعاینۃ لہا یُصلّی الناسُ من جوانبہا، فیستقبل بعضہم وجوہ بعض، فیکون طلقاً لہم، غیر مکروہ، و رأینا الصلاۃ بخلاف ذلک المکان مما لا مُعَایَنَۃَ فیہ للکعبۃ، بخلاف ذلک فی کراہۃ استقبال وجوہ الرجال بَعضِہِم بعضاً، و فی الزجرِ عن ذلک، و المنع منہ (235)

یعنی، پس ہم نے کعبہ کے مُعایِن کی نماز کو پایا کہ لوگ کعبہ کے اطراف میں نماز پڑھتے ہیں تو بعض کا رُخ بعض کی طرف ہوتا ہے تو ان کے لئے بلا کراہت چھوٹ ہو گئی، اور ہم نے اس کے بر خلاف دوسری جگہ نماز کو دیکھا جہاں کعبہ کا معاینہ نہیں ہوتا کہ بعض کے بعض کی طرف منہ کرنے کی کراہت میں حکم اس (پہلی صورت کے ) خلاف ہے (یعنی، یہاں ایسا کرنا مکروہ ہے جب کہ وہاں مکروہ نہ تھا)

فَعَقَلْنَا بذلک أن الکعبۃ مخصوصۃ بہا بہذا الحکم فی الصلاۃ إلیہا، و الإطلاق للنّاس استقبال وجوہ المصلّین معہم إلیہا، و الإستقبال لحدودہم فی صلاتہم إلیہم و إن کان ذلک کذالک فی صلاتہم إلیہ، اتّسع لہم بذلک مُرورہم بین أیدیہم فی صلاتہم إلیہا، و استقبالہم إیاہم فی ذلک بوجوہہم و بحدودہم، و عقلنا أن الصلاۃ فی الغَیْبَۃِ عنہا بخلاف ذلک، و أنہ لما کان استقبال النّاس بعضہم بعضاً بوجوہہم و بحدودہم فیہا ممنوعاً، ضاق علیہم مرورُہم بہم فیہا، و ضاق علی المصلّین إطلاق ذلک فیہا (236)

یعنی، پس ہم نے اس سے یہ سمجھا کہ کعبہ کی طرف نماز میں ، اور لوگوں کو چھوڑنے میں کہ وہ اپنے ساتھ کعبہ کی طرف نماز پڑھنے والوں کے چہروں کی طرف رُخ کریں اور اپنی نمازوں میں ان کی طرف اپنی حُدود کے استقبال میں کعبہ کے اس حکم کے ساتھ خاص ہے ، او راگر اس کی طرف ان کی نماز میں وہ اسی طرح ہے تو ان کے لئے اس کی گنجائش ہے کہ وہ ان کی کعبہ کی طرف نماز میں اُن کے آگے سے گزریں اور اس کی بھی گنجائش ہے کہ وہ لوگوں کی طرف اپنے چہروں اور حُدود کے ساتھ استقبال کریں (یعنی ان کی طرف چہرہ کریں ) اور ہم نے سمجھا کہ کعبہ سے غائب نماز اس کے بر خلاف ہے ۔وہ یہ کہ لوگوں کے بعض کی طرف اپنے چہروں اور حُدود کے ساتھ استقبال اس میں ممنوع ہے (کہ انہیں نماز میں ایک دوسرے کی طرف چہرہ کرنا ممنوع ہے ) تو اس میں ان کا گزرنا ان پر تنگ ہے (یعنی نمازی کے آگے سے گزرنا مشکل ہے ) اور نمازیوں پر اس میں اُسے اس کی اجازت دینا بھی تنگ ہے ۔ (یعنی نمازیوں پر بھی انہیں اپنے آگے سے گزرنے دینا مشکل ہے )

فبان بحمد اللہ و نعمتہ أن لا تضادَّ فی شیٔ مما ذکرناہ فی ہذا الباب ، و أن کل واحدٍ من المعنیین اللذین ذکرناہما فیہ بائن بحکمہ من المعنی الآخر منہما، و اللہ نسألہ التوفیق (237)

یعنی، پس اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی نُصرت سے ظاہر ہو گیا کہ اس بات میں جو ہم نے اس باب میں ذکر کیا (یعنی بظاہر متضاد احادیث بیان کیں ) ان میں کسی قسم کا کوئی تضاد نہیں ہے ، اور دو معانی جنہیں ہم نے ذکر کیا ان میں سے ہر ایک کا حکم دوسرے معنی سے جُدا ہے اور اللہ تعالیٰ سے توفیق کا سوال ہے ۔ اسی طرح امام حافظ علاء الدین مغلطائی ابن قلیج بن عبداللہ حنفی متوفی 762ھ لکھتے ہیں :

و أما حدیث المطلب بن أبی وَدَاعَۃ قال : ’’رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ مِمَّا یَلِیْ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ، وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطُّوَّافِ سُتْرَۃٌ‘‘، فلیس مخالفاً لما روی من النہی عن المروی بین یدی المصلّی، لأنہ إنما ہو فی الصلاۃ إلی الکعبۃ و معاینہا، و النہی عن المرور بین یدی المصلّی إنما ہو فیمن یتحرّی الصلاۃ فی الکعبۃ إذا غاب عنہا، و زعم ابن شاہین أنہ ناسخ لحدیث النّہی (238)

یعنی، مگر مطلب بن ابی وداعہ کی حدیث کہ انہوں نے فرمایا : ’’میں نے نبی ا کو بابِ بنی سہم کے قریب (نماز پڑھتے ) دیکھا اور لوگ آپ کے آگے سے گزر رہے تھے اور آ پ ا اور طواف کرنے والوں کے درمیان کوئی سُترہ نہیں تھا‘‘ تو یہ حدیث اُس حدیث کے مخالف نہیں ہے کہ جس میں نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکا گیا ہے ، کیونکہ وہ (یعنی حدیثِ مطلب) کعبہ کی طرف نماز (پڑھنے والے ) او رمُشاہِد کعبہ کے حق میں ہے ، اور نمازی کے آگے سے گزرنے کی ممانعت (والی حدیث) صرف اس کے بارے میں ہے جو کعبہ کی طرف نماز کی تحرّی (غور و فکر) کرتا ہے (کہ جہتِ کعبہ کدھر ہے ) جب کہ وہ کعبہ سے غائب ہو، اور (مُحدِّث) ابن شاہین نے گمان کیا کہ یہ (حدیثِ مطلب) حدیثِ نہی (یعنی ممانعت والی حدیث) کے لئے ناسخ ہے ۔ حدیثِ مطلب سے استدلال : اس حدیث کی بنا پر بعض نے فرمایا کہ مکہ مکرمہ میں سُترہ کے بغیر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں چنانچہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

و لا بأس أن یصلّی بمکۃ إلی غیر سترۃ و روی ذلک عن ابن الزبیر، و عطاء، مجاہد، قال الأثرم : قیل لأحمد : الرجل یصلّی بمکۃ و لا یستتر بشیٔ، فقال : قد روی عن النبی ﷺ : ’’ أَنَّہُ صَلَّی، وَ ثَمَّ لَیْسَ بَیْنَہُ وَ بَیْنَ الطَّوَّافِ سُتْرَۃٌ‘‘۔

قال أحمد : لأن مکۃ لیست کغیرھا، کأن مکۃ مخصوصۃ، و ذلک لما روی کثیر بن کثیر بن المطلب، عن أبیہ، عن جدہ المطلب، قال : ’’ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ یُصَلِّیْ حِیَالَ الْحَجَرِ، وَ النَّاسُ
یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ‘‘۔ رواہ الخلال بإسنادہ (239)

یعنی، مکہ میں بغیر سُترہ کے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، او ریہ حضرت ابن الزبیر رضی اللہ عنہما، عطاء اور مجاہد سے مروی ہے ، اثرم نے فرمایا : امام احمد سے کہا گیا کہ کوئی شخص مکہ میں نماز پڑھتا ہے او رکسی شیٔ کو سُترہ نہیں بناتا تو فرمایا : ’’نبی ا سے مروی ہے کہ آپ نے نماز ادا فرمائی اور وہاں آپ ا اور طواف کے درمیان کوئی سُترہ نہ تھا‘‘۔ امام احمد نے فرمایا : کیونکہ مکہ اس کے غیر کی مثل نہیں ہے گویا مکہ مخصوصہ ہے اور وہ اس لئے کہ کثیر بن کثیر بن المطلب نے اپنے باپ سے روایت کیا، انہوں نے ان کے دادا مطلب سے روایت کیا ہے کہ ’’میں نے رسول اللہ ا کو حجرِ اسود کے مقابل نماز پڑھتے دیکھا، اور لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے ‘‘۔ حدیثِ مطلب کے تحت محشی صحاح سِتّہ علامہ سندھی لکھتے ہیں :

ظاہرہ أنہ لا حاجۃ إلی السترۃ فی مکۃ (240)

یعنی، اس کا ظاہر ہے مکہ مکرمہ میں سُترہ کی حاجت نہیں ۔ اور حدیثِ مطلب کو بعض نے صرف طواف کرنے والوں پر محمول کیا ہے ، چنا نچہ حدیثِ مطلب کے تحت علامہ محمد بن عبدالھادی سندھی متوفی 1139ھ لکھتے ہیں :

ظاہرہ أنہ لا حاجۃ إلی السترۃ فی مکۃ، و بہ قیل، و من لا یقول بہ یحملہ علی أن الطائفین کانوا یمرّون وراء السجود أو وراء ما یقع فیہ نظر الخاشع (241)

یعنی، اس سے ظاہر یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں سُترہ کی کوئی حاجت نہیں ہے اور یہی کہا گیا کہ جو یہ بات نہیں کہتا وہ اسے طواف کرنے والوں پر محمول کرتا ہے کہ لوگ موضعِ سجود یا خشوع سے نماز پڑھنے والے کی نظر پڑنے کی جگہ کے آگے سے گزر رہے تھے ۔ او ریہی شیخ شمس الحق عظیم آبادی ’’عون المعبود‘‘ (242) میں نقل کیا ہے ۔ اور حدیثِ مطلب کے تحت حافظ ابن حجر عسقلانی (243) اور ابن حجر کے حوالے سے شیخ محمد شمس الحق عظیم آبادی (244) نے نقل کیا :

و اغتفر بعض الفقہاء ذلک للطائفین دون غیرہم للضرورۃ، و عن بعض الحنابلۃ جواز ذلک فی جمیع مکۃ

یعنی، بعض فقہا نے وہ (یعنی، نمازی کے آگے سے گزرنا) طواف کرنے والوں کے لئے ضرورت کی وجہ معاف قرار دیا ہے سوائے ان کے غیر کے ، اور بعض حنابلہ سے پورے مکہ میں اس کا جواز منقول ہے ۔ اور امام ابو العباس شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی شافعی متوفی 923ھ لکھتے ہیں :

نعم اغتفر بعضہم ذلک للطائفین دون غیرہم للضرورۃ (245)

یعنی، ان کے بعض نے اسے ضرورت کی وجہ سے طواف کرنے والوں کے لئے معاف قرار دیا سوائے ان کے غیر کے ۔ ائمہ مجتہدین : امام مالک ، شافعی اور احمد بن حنبل علیہم الرحمہ کے نزدیک مسجد حرام میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ۔احناف میں سے امام طحاوی علیہ الرحمہ سے کعبہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزرنے کا جواز منقول ہے ۔ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی نے لکھا جسے مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174ھ نے ان کلمات کے ساتھ نقل کیا ہے :

شیخ رحمت اللہ سندی در ’’منسک کبیر‘‘ خود گفتہ کہ مرور پیش مصلی در مسجد حرام جائز است نزد علماء ثلاثہ اعنی مالک و شافعی و احمد و امام در مذہب حنفیہ نیافتہ ام من مر اَصحابِ خود را کلامے در وے نہ منع و نہ اباحت الاّ آنکہ ذکر کردہ است طحاوی رحمۃ اللہ علیہ در شرح آثار چیزے را کہ ظاہر است در دلالت بر جواز مرور پیش مصلی در حضرت کعبہ 1ھ (246)

یعنی، شیخ رحمت اللہ (بن عبداللہ) سندھی(حنفی) نے اپنی ’’منسک کبیر‘‘ میں فرمایا مسجد حرام میں نمازی کے آگے سے گزرنا علماء ثلاثہ کے نزدیک جائز ہے میری مراد امام مالک، شافعی اور احمد رحمہم اللہ ہیں ، مگر مذہب حنفیہ تو میں نے خاص طور پر اپنے اصحاب سے اس بارے میں کوئی کلام نہیں پایا، نہ منع کرنے کے بارے میں اور نہ اباحت کے بارے میں ، مگر یہ کہ امام طحاوی علیہ الرحمہ نے ’’شرح آثار ‘‘میں ایک چیز ذکر کی ہے جو کعبہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزرے کہ جواز پر دلالت کرنے میں ظاہر ہے ۔ اور اس کے تحت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :

مخفی نماند کہ مرور در پیش مصلی در صحراء یا در مسجد کبیر اگر دُور تر از مقدار سجود است ممنوع نباشد بقول صاحب ہدایہ و بسیارے از کتب حنفیہ، و اختیار صاحب البحر الرائق، و عام است حکم جواز وے بر قول مذکور در جمیع مساجد کبار علی الخصوص حرم مکہ کہ محل ابتلاء عام و کثرت مرور انام است، پس آنچہ مولانا رحمت اللہ گفتہ نیافیہ ام من اصحاب خود را کلامے دروے ظاہر آن ست کہ مراد داشتہ است مرور را کمتر از مقدار سجود، و لیکن عبارت طحاوی رحمۃ اللہ علیہ در شرح آثار افادہ نمی کند مرور را کمتر از مقدار سجود بلکہ افادہ میکند مرور را پیش مصلّی، و ظاہر آنست کہ مراد او دُور تر از محل سجود باشد واللہ تعالیٰ اعلم (247)

یعنی، مخفی نہ رہے صحراء یا مسجد کبیر میں نمازی کے آگے سے گزرنا اگر مقدار سجود سے دُور تر ہے تو صاحبِ ہدایہ او ربے شمار کُتُب حنفیہ کے قول کے مطابق او رصاحبِ بحر الرائق کے مختار کے مطابق ممنوع نہیں ہے ، اور مذکور قول کی بناء پر جواز کا حکم تمام مساجد کبیر خصوصاً حرم مکہ کو عام ہے کہ وہ ابتلائِ عام اور لوگوں کے کثرت سے گزرنے کا محل ہے ، پس جو علامہ رحمت اللہ (بن عبداللہ سندھی حنفی ) نے فرمایا کہ ’’میں نے اپنے اصحاب سے (اس بارے میں ) کوئی کلام نہیں پایا‘‘ ظاہر ہے کہ انہوں نے مقدار سجود سے کمتر گزارنا مراد لیا ہے ، لیکن امام طحاوی (حنفی متوفی 321ھ) علیہ الرحمہ ’’شرح آثار‘‘ میں سجود سے کمتر مقدار سے گزرنے کا افادہ نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے نمازی کے آگے سے گزرنے کا افادہ کیا ہے ، اس کا ظاہر یہ ہے کہ اس کا گزرنا محل سجود سے دُور تر ہو ۔ واللہ تعالیٰ اعلم علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ نقل کرتے ہیں :

تنبیہ : ذکر فی ’’حاشیۃ المدنی‘‘ لا یمنع المارّ داخل الکعبۃ و خلف المقام و حاشیۃ المطاف لما روی أحمد و أبو داؤد عن المطلب بن أبی وداعۃ : ’’أَنَّہُ رَأَی النَّبِیَّ ﷺ یُصَلِّیْ مِمَّا یَلِیْ بَابَ بَنِیْ سَہْمٍ وَ النَّاسُ یَمُرُّوْنَ بَیْنَ یَدَیْہِ وَ لَیْسَ بَیْنَہُمَا سُتْرَۃٌ‘‘ و ہو محمول علی الطائفین فیما یظہر، لأن الطواف صلاۃ، فصار کمن بین یدیہ صفوف من الصلّین انتہی، و مثلہ فی ’’البحر العمیق‘‘ ، و حکاہ عز الدین بن جماعۃ عن ’’مشکلات الآثار للطحاوی‘‘ و نقلہ الملا رحمۃ اللہ فی ’’منسکہ الکبیر‘‘ و نقلہ سنان آفندی أیضاً فی ’’منسکہ‘‘ و سیأتی إن شاء اللہ تعالٰی تأیید ذلک فی باب الإحرام من کتاب الحج (2/501، 502) (248)

یعنی، ’’حاشیۃ المدنی‘‘ میں ہے کہ کعبہ کے اندر اور مقام ابراہیم کے پیچھے اور حاشیۂ مطاف میں (نمازی کے آگے سے ) گزرنے والے کو نہ روکا جائے ، اس لئے کہ امام احمد اور امام ابو داؤد نے مطلب بن ابی وداعہ سے روایت کیا کہ ’’انہوں نے نبی ا کو بابِ بنی سہم (یعنی بابُ العُمرہ) کے پاس نماز ادا فرما رہے تھے اور لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے حالانکہ ان کے مابین کوئی سُترہ نہ تھا‘‘ او ریہ حدیث بظاہر طواف کرنے والوں پر محمول ہے ، کیونکہ طواف نماز ہے تو ایسے ہو گیا جیسے اس کے آگے نمازیوں کی صفیں ہوں او راسی کی مثل ’’البحر العمیق‘‘ میں ہے ، اور اسے امام طحاوی کی ’’مشکلات الآثار‘ ‘ کے حوالے سے امام عز الدین بن جماعہ (الکنانی متوفی 767ھ) نے حکایت کیا ہے ، اور اسے ملا رحمت اللہ (بن عبداللہ سندھی حنفی جنہیں موصوف نے ’’منحۃ الخٓالق‘‘ (249) میں ابن ہمام کا شاگرد لکھا ہے ) نے ’’منسک کبیر‘‘ میں نقل کیااور سنان آفندی نے بھی اسے اپنی ’’منسک‘‘ میں نقل کیا۔ اور ان شاء اللہ تعالیٰ عنقریب اس کی تائید (اسی کتاب کے ) کتاب الحج کے باب الاحرام میں آئے گی۔ اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی نے کتاب الحج کے باب الاحرام میں ایک عنوان قائم کیا کہ ’’مطلب : فی عدم منع المارّ بین یدی المصلّی عند الکعبۃ‘‘ (یعنی، کعبہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو منع نہ کرنے کے بیان میں ) اور اس عنوان کے تحت لکھتے ہیں :

تنبیہ : قال العلامۃ قطب الدین فی ’’منسکہ‘‘ : رأیت بخط بعض تلامذۃ الکمال بن الہمام فی ’’حاشیۃ الفتح‘‘ : إذا صلّی فی المسجد الحرام ینبغی أن یمنع المارّ لہٰذا الحدیث، و ہو محمول علی الطائفین لأن الطواف صلاۃ فصار کمن بین یدیہ صفوف من الصلّین 1ھ و قال رأیت فی ’’البحر العمیق‘‘ حکی عز الدین بن جماعۃ عن ’’ مشکلات الآثار للطحاوی‘‘ أن المرور بین یدی المصلّی بحضرۃ الکعبۃ یجوز 1ھ۔ (250)

یعنی، تنبیہ : علامہ قطب الدین (حنفی متوفی 988ھ) نے اپنے ’’مناسک‘‘ میں فرمایا کہ میں نے ’’فتح القدیر‘‘ کے حاشیہ میں کمال بن ہمام (یعنی امام کمال الدین محمد بن عبدالواحد متوفی 861ھ ) کے بعض شاگردوں کے خط سے دیکھا کہ جب مسجد حرام میں نماز پڑھے تو اس حدیث (یعنی مطلب بن وَدَاعَہ سے مروی حدیث) کی بنا پر (سامنے سے ) گزرنے والے کو نہ روکے ، او روہ (روایت) طواف کرنے والوں پر محمول ہے ، کیونکہ طواف نماز ہے ، پس ایسے ہو گیا جیسے اس کے آگے نمازیوں کی صفیں ہوں 1ھ، او رفرمایا کہ پھر میں نے ’’البحر العمیق‘‘ میں دیکھا کہ امام عز الدین بن جماعہ (کنانی متوفی 767ھ) نے امام (ابو جعفر احمد بن محمد ) طحاوی (حنفی متوفی 321ھ) کی ’’مشکلات الآثار‘‘ سے حکایت کیا کہ کعبہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے 1ھ۔ علامہ حسین بن محمد سعید عبدالغنی مکی حنفی لکھتے ہیں :

أقول : قال العلامۃ الشیخ قطب الدین الحنفی فی ’’منسکہ‘‘ : فرع غریب رأیت بخط تلامذۃ الکمال ابن الہمام فی حاشیۃ ’’ فتح القدیر‘‘ : إذا صلّی فی المسجد الحرام ینبغی أن لا یمنع المارّ، لما روی أحمد و أبو داؤد عن المطلب بن أبی وَدَاعۃ، أنہ رأی النبی ﷺ یصلّی مما یلی باب بنی سہم والناس یمرّون بین یدیہ و لیس بینہما سترۃ، و ہو محمول علی الطائفین فیما یظہر، لأن الطواف صلاۃ فصار کمن بین یدیہ صفوف من المصلّین، ثم رأیت فی ’’البحر العمیق‘‘ حکی ابن جماعۃ عن ’’مشکلات الآثار للطحاوی‘‘ : أن المرور بین یدی المصلّین بحضرۃ الکعبۃ یجوز أفادہ الحباب، و فی ’’رد المحتار‘‘ تنبیہ ذکر فی ’’حاشیۃ المدنی‘‘ لا یمنع المارّ داخل الکعبۃ و خلف المقام و حاشیۃ المطاف 1ھ کذا فی ’’تقریر الشیخ عبدالحق‘‘ (251)

یعنی، میں کہتا ہوں کہ علامہ شیخ قطب الدین حنفی (متوفی 988ھ) نے اپنی ’’منسک‘‘ میں فرمایا کہ میں نے امام کمال الدین (محمد بن عبدالواحد) ابن ہمام (حنفی متوفی 861ھ) کے شاگردوں کے خط سے ’’فتح القدیر‘‘ کے حاشیہ میں فرع غریب دیکھی کہ جب مسجد حرام میں نماز پڑھے تو اُسے چاہئے کہ (آگے سے ) گزرنے والے کو نہ روکے ، اس لئے کہ امام احمد اور امام ابو داؤد نے مطلب بن ابی وداعہ سے روایت کیا کہ انہوں نے نبی ا کو دیکھا کہ ’’آپ بابِ بنی سہم سے متصل نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے سامنے سے گزر رہے تھے اور آپ ا اور لوگوں کے درمیان کوئی سُترہ نہ تھا‘‘ او ریہ بظاہر طواف کرنے والوں پر محمول ہے کیونکہ طواف نماز ہے پس ایسے ہو گیا جیسے اس کے آگے نمازیوں کی صفیں ہوں ، پھر میں نے ’’البحر العمیق‘‘ میں دیکھا کہ ابن جماعہ نے (امام ابو جعفر احمد بن محمد) طحاوی (حنفی متوفی 321ھ) کی ’’مشکلات الآثار‘‘ سے حکایت کیا کہ کعبہ کے پاس نمازیوں کے آگے سے گزرنا جائز ہے ۔ حباب نے اس کا افادہ کیا اور ’’در محتار‘‘ میں ہے : تنبیہ : ’’حاشیۃ المدنی‘‘ میں ذکر کیا گیا کہ کعبہ کے اندر، مقامِ ابراہیم کے پیچھے اور حاشیۂ مطاف میں (نمازی کے آگے ) گزرنے والے کو نہ روکا جائے 1ھ اسی طرح ’’تقریرات شیخ عبدالحق‘‘ میں ہے ۔ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی کے فرزند علامہ علاؤ الدین ابن عابدین شامی متوفی 1306ھ لکھتے ہیں :

و لا یُمنع المارُّ من الطائفین بین یدی المصلّی، و کذا لا یمنع مطلّق مارٍّ بین یدی المصلّی بحضرۃ الکعبۃ، و یجوز المرور بین یدی المصلّی بحضرۃ الکعبۃ (252)

یعنی، طواف کرنے والوں میں سے نمازی کے آگے سے گزرنے والے کو نہ روکا جائے ، اور اسی طرح کعبہ کے پاس مطلق گزرنے والے کو نمازی کے آگے سے گزرنے سے نہیں روکا جائے گا، اور کعبہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ۔ اور شیخ عبدالحمید محمود طہماز نے ’’صحیح ابن حبان‘‘ میں مذکور حدیث (برقم : 2358) نقل کر کے اس کے تحت لکھتے ہیں :

و ہذا من خصوصیات المسجد الحرام ، فلا یمنع المارّ من الطائفین بین یدی المصلّی، و یجوز المرور بین یدی المصلّی بحضرۃ الکعبۃ (253)

یعنی، یہ مسجد حرام کی خصوصیات سے ہے ، پس طواف کرنے والوں میں سے نمازی کے آگے سے گزرنے والوں کو نہیں روکا جائے گا، اور کعبہ معظمہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزر نا جائز ہے (اور مؤلِّف نے اسے ’’ہدیۃ العلائیہ‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے ) اور شیخ السعید محمد سعید الصاخرجی حدیثِ مطلب کو امام احمد، ابن حبان اور ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

ینبغی ألا یمنع المارّ و ہو الطائف، لأن الطواف صلاۃ، فصار کمن بین یدیہ صفوف من المصلّین، و قد نقل عن الطحاوی : أن المرور بین یدی المصلّی بحضرۃ الکعبۃ یجوز (254)

یعنی، چاہئے کہ گزرنے والے کو منع نہ کیا جائے اور وہ طواف کرنے والا ہو کیونکہ طواف نماز ہے پس ایسے ہو گیا جیسے اس (نمازی) کے آگے نمازیوں کی صفیں ہوں ، اور امام طحاوی سے منقول ہے کہ کعبہ مکرمہ کے پاس نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ۔ علامہ مولانا محمد سلیمان اشرف نقل کرتے ہیں کہ علامہ ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ لکھتے ہیں :

أن المرور بین یدی المصلیّ بحضرۃ الکعبۃ یجوز ۔ رد المحتار (255)

یعنی، یہ مسئلہ کہ نمازیوں کے سامنے سے گزرنا گناہ نہیں ہے بلکہ جائز ہے صرف حرم بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہے ۔ اور مسعی کو علماء کرام نے مسجد سے خارج شمار کیا ہے ، چنانچہ امام محمد بن اسحاق خوارزمی حنفی متوفی 827ھ لکھتے ہیں :

و الصفا خارج المسجد من الجنانب الشرقی (256)

یعنی، صفا مشرق کی جانب مسجد الحرام سے خارج ہے ۔ نمازی کے آگے سے گزرنے کے جواز کے بارے میں فقہائِ احناف کی جو عبارات مذکور ہیں وہ یہ ہیں کعبہ کے پاس، مطاف میں ، حاشیہ مطاف میں ، حرم بیت اللہ میں اور مسجد حرام ، اور امام قسطلانی نے نقل کیا کہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک مسجدِ حرام میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی نے تینوں ائمہ امام مالک، شافعی اور احمد سے مسجدِ حرام میں نمازیوں کے آگے سے گزرنے کا جواز ذکر کیا ہے ۔ جب کہ محشی صحاح ستّہ علامہ عبدالہادی سندھی نے پورے مکہ میں نمازی کو سُترہ کی حاجت نہ ہونے کا ذکر کیا ہے اور علامہ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے مذکور ہے کہ بعض فقہاء کے نزدیک نمازی کے آگے سے گزرنا ضرورت کی بنا پر معاف ہے اور انہی سے منقول ہے کہ بعض حنابلہ کے نزدیک پورے مکہ میں نمازی کے آگے سے گزرنا جائز ہے ۔ اور ابن قدامہ حنبلی نے بھی پورے مکہ میں بلا سُترہ نماز کے جواز کا قول کیا ہے اور امام احمد کا قول نقل کیا ہے کہ مکہ غیر مکہ کی طرح نہیں ہے ۔ فقہاء کرام نے ضرورت کی بنا پر حدیثِ مطلب بن ابی وَدَاعہ سے استدلال کرتے ہوئے جواز کا قول کیا اور حدیث مطلب کے الفاظ میں بھی اختلاف ہے جیسا کہ یہ بات سابقہ صفحات میں مذکور حدیث کے الفاظ کو دیکھنے سے واضح ہو جاتی ہے ۔ مگر فقہاء کرام نے ضرورت کی بنا پر جواز کو بیان کیا۔ پھر جس نے سمجھا کہ ضرورت صرف کعبہ کے پاس ہے اس نے کعبہ کے پاس جواز کا قول نقل کیا اور جس نے پورے مطاف میں ضرورت کو جانا اس نے مطاف کا ذکر کیا، جس کے نزدیک پوری مسجد حرام میں ضرورت دیکھی اس نے مسجد حرام کا ذکر کیا اور جس کے نزدیک ضرورت پورے مکہ شہر میں تھی اس نے مکہ کا ذکر کیا۔ پھر جس زمانے میں ان فقہاء کرام نے جواز کا ذکر کیا اور جواز کو حدود کے ساتھ مقید کیا اس زمانے میں لوگوں کی حرم مکہ آمد اس قدر نہ تھی جتنی آج ہے اور لوگوں کا اتنا ازدحام نہیں ہوتا تھا جتنا آج ہوتا ہے لیکن مسعی میں اس قدر حاجت پیش نہیں آتی جس قدر مطاف میں پیش آتی ہے مسعیٰ میں لوگ صرف پنجگانہ نماز کی جماعت کے وقت نماز پڑھتے نظر آتے ہیں ، عام اوقات میں نہیں ، جب کہ مطاف میں اوقات جماعت کے علاوہ بھی لوگ کثرت سے نماز پڑھتے ہیں ۔ اور پھر ہمارے آئمہ ثلاثہ سے اس بارے میں کوئی تصریح نہیں ہے سوائے اس کے کہ امام طحاوی نے کعبہ کے پاس جواز کو بیان کیا اور دیگر احناف نے بھی مطاف اور کعبہ کا ذکر کیا مگر علامہ عبدالہادی سندھی حنفی محشی صحاح ستّہ نے جو دو اقوال ذکر کئے ہیں ان میں پہلا قول پورے مکہ میں سُترہ کی عدم ضرورت کے بارے میں ہے ، اور علمائِ احناف نے کُتُبِ فقہ میں اور خصوصاً کُتُبِ مناسک میں مطاف میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا جواز ذکر کیا ہے ۔ تو ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نتیجہ یہ نکلا کہ مطاف میں کعبہ کے نزدیک حاجت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ضرورت پیش آنے پر نمازی کے آگے سے طواف نہ کرنے والا بھی گزر جائے اور مطاف کے کناروں سے دیکھ لے اگر نمازی کے آگے سے گزرے بغیر گزرنے کی سبیل ہے تو نمازی کے آگے سے نہ گزرے بلکہ دوسری راہ اختیار کرے اور پھر مسجد حرام میں ضرور ت اور کم ہو جاتی ہے لہٰذا وہاں نمازی کے آگے سے نہ گزرے اور اگر کوئی سبیل نہ ہو تو مجبوراً گزر جائے کہ ہمارے علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ گزرنے کا جواز حرم بیت اللہ کے ساتھ مخصوص ہے اور حرم بیت اللہ کا اطلاق مسجد حرام پر اسی طرح کیا جاتا ہے جس طرح مطاف پر، لیکن بچنے کی کوشش کرے کہ یہاں ایسی حاجت نہیں جیسی کہ مطاف میں ، اس لئے کہ یہاں ستون موجود ہیں اور وہاں نہیں اور مسعیٰ میں جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ضرورت صرف جماعت کے وقت ہوتی ہے اور اس وقت سعی بھی بتدریج رُک جاتی ہے اور وہاں اس زمانے میں یہ حاجت پیش نہیں آئی تھی اس لئے فقہائِ احناف نے صرف مطاف و مسجد حرام کا ذکر کیا اور فی زمانہ بھی ہم دیکھتے ہیں تو یہ یہی حاجت مسعیٰ میں پیش نہیں آتی تو وہاں بھی گزرنا جائز ہو۔ یہ ایک اہم اور ضروری مسئلہ تھا کہ جس کی طرف برادرم مولانا محمد عرفان ضیائی دامت برکاتہم العالیہ نے استفتاء کے ذریعے احقر کی توجہ دلائی، اور اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ توفیق سے جس قدر کُتُبِ فقہ میسر آئیں ان کی طرف مراجعت کر کے جو تحقیق اس مسئلہ میں ہو سکی میں نے کی، اگر یہ حق ہے تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے ورنہ وہ میری جانب سے ہے ۔ حضرات علماء کرام میں سے جسے اس سے اختلاف ہو دلائل سے اس کا رد کر دے تو احقر اپنی تحریر سے رجوع کرنے میں تأمل نہیں کرے گا۔ و الحق أحق أن یتبع

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الجمعۃ، 8 جمادی الأولٰی1428ھ، 25مایو2007 م (389-F)

حوالہ جات

182۔ صحیح البخاری، کتاب (59)بدء الخلق، باب صفۃ أبلیس وجنودہ، برقم : 3274، 2/349

183۔ کتاب ناسخ الحدیث و منسوخہ، کتاب الصلاۃ، باب فی سترۃ المصلّی، ص312

184۔ المسند لأحمد : 6/399

185۔ المسند الحمیدی، حدیث المطلب بن وَدَاعَۃ رضی اللہ عنہ،الحدیث : 578،1/263

186۔ نخب الأفکار، کتاب الصلاۃ، باب : المروز بین یدی المصلی ھل یقطع…إلخ، 7/132

187۔ سنن أبی داؤد، کتاب (5) المناسک، باب (89) فی مکۃ، 2/354۔355، الحدیث : 2016

188۔ المسند الحمیدی، کتاب الصلاۃ، مرور الطائف بین یدی المصلی، برقم : 578، 1/263

189۔ ہدایۃ السالک، إلی مذاہب الأربعۃ فی المناسک، الباب الأول فی الفضائل، ذکر مواضع صلی فیھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم حول الکعبۃ المشرفۃ، 1/74

190۔ ہدایۃ السالک، إلی مذاہب الأربعۃ فی المناسک، الباب الأول فی الفضائل، ذکر مواضع صلی فیھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم حول الکعبۃ المشرفۃ، 1/74

191۔ شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین یدی المصلّی إلخ، برقم : 2652، 1/461

أیضاً تحفۃ الأخیار بترتیب شرح مشکل الآثار، کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما رُوی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور…إلخ، برقم : 949،2/305

أیضاً الحاوی فی بیان آثار الطحاوی، کتاب الصلاۃ، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین یدی المصلی…إلخ، 2/571

192۔ نخب الأفکار فی تنقیح مبانی الأخبار، کتاب الصلاۃ، باب المرور إلخ، 7/131

193۔ شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین یدی المصلّی إلخ، برقم : 2652، 1/461

أیضاً تحفۃ الأخیار بترتیب شرح مشکل الآثار، کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما رُوی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور…إلخ، برقم : 949،2/305

أیضاً الحاوی فی بیان آثار الطحاوی، کتاب الصلاۃ، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین یدی المصلی…إلخ، 2/571

194۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الصلاۃ، باب من صلی إلی غیر سترۃ، برقم : 3482، 2/388

195۔ سنن النسائی،کتاب القبلۃ، باب (9) الرخصۃ فی ذلک، برقم : 754، 2/73

أیضاً سنن الکبریٰ للنسائی، أبواب السترۃ، باب الرخصۃ فی ذلک، برقم : 834، 1/273

196۔ سنن النسائی، کتاب مناسک الحج، باب (162) أین یصلّی رکعتی الطواف، برقم : 2956، 5/242

أیضاًسنن الکبریٰ للنسائی،کتاب الحج، باب (162) أین یصلّی رکعتی الطواف، 2/408۔409، الحدیث : 3953/2

197۔ سنن ابن ماجۃ،کتاب المناسک، باب (33) الرکعتین بعد الطواف، برقم : 2958، 3/445

198۔ المسند لأحمد : 6/339

199۔ ہدایۃ السالک إلی المذاہب الأربعۃ فی المناسک، الباب الأول فی الفضائل، ذکر مواضع صلّی فیہ النبی ﷺ حول الکعبۃ الشریفۃ، 1/74

200۔ المسند لأحمد : 6/399

201۔ شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین یدی المصلی….إلخ، برقم : 2651، 1/461

أیضاً تحفۃ الأخیار، کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم فی المرور….إلخ، برقم : 948،2/305

أیضاً الحاوی فی بیان آثار الطحاوی،کتاب الصلاۃ، باب المرور بین إلخ ، 2/571

202۔ شرح معانی الآثار، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین یدی المصلی…إلخ، برقم : 2653، 1/461

أیضاً تحفۃ الأخیار، کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ فی المرور، برقم : 950، 2/306

أیضاًالحاوی، کتاب الصلاۃ، باب المرور بین…إلخ،2/571

203۔ کتاب التاریخ الکبیر للبخاری، باب مطلب، برقم : 11279/1941، 7/ 315۔316

204۔ التاریخ الکبیر،باب المیم، باب مطلب، برقم : 1128/1942، 7/316

205۔ الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الصلاۃ، باب ما یکرہ للمصلّی و ما لا یکرہ، ذکر إباحۃ المرور قدام المصلّی إذا صلّی إلی غیر سُترۃٍ، برقم : 2358، 4/45۔46

206۔ الإحسان بترتیب صحیح ابن حبان،ذکر البیان بأن ہذہ الصلاۃ لم تکن الطوافین و بین المصطفی ﷺ سترۃٌ، 4/45۔46، الحدیث : 2358

207۔ الآحاد و المثانی، من ذکر (157) المطلب بن أبی وَدَاعَۃ السہمی رضی اللہ عنہ، ص155

208۔ مسند أبی یعلٰی، حدیث (166) المطلب بن أبی وَدَاعَۃَ، 5/236، الحدیث : 6869

209۔ أسد الغابۃ، مطلب (4946) بن أبی وَدَاعَۃ، 4/397

210۔ أخبار مکۃ للأرزقی، الصلاۃ فی المسجد الحرام إلخ، 2/67۔68

211۔ المعجم الکبیر للطبرانی، مطلب بن أبی وداعۃ السھمی،برقم : 687،20/290۔291

212۔ المعجم الکبیر للطبرانی، مطلب بن أبی وداعۃ السھمی، برقم : 682، 20/289

213۔ المعجم الکبیر للطبرانی،مطلب بن أبی وداعۃ السھمی، برقم : 683، 20/289ا۔290

214۔ المعجم الکبیر للطبرانی، مطلب بن أبی وداعۃ السھمی، برقم : 684، 20/290

215۔ المعجم الکبیر للطبرانی، مطلب بن أبی وداعۃ السھمی، برقم : 685، 20/290

216۔ المعجم الکبیر للطبرانی، مطلب بن أبی وداعۃ السھمی، برقم : 686، 20/290

217۔ کتاب ناسخ الحدیث و منسوخہ، کتاب الصلاۃ، باب فی سُترۃ المصلّی، ص312۔313

218۔ کتاب الثقات لابن حبان، باب العین،5/81

219۔ کتاب التاریخ الکبیر للبخاری، باب العین، 7180/1109،5/215

220۔ الجرح و التعدیل، باب العین، برقم : 8683/1348، 5/344

221۔ الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ، حرف المیم، المطلب بن أبی وداعۃ بن الحارث…إلخ، 5/151

222۔ المعجم الکبیر للطبرانی، مطلب بن أبی وَدَاعۃ، برقم : 680، 20/288

223۔ المصنّف لعبد الرزاق،کتاب الصلاۃ، باب (121) لا یقطع الصلاۃ شیئٍ بمکۃ، برقم : (632) 2390، 2/21

224۔ المصنّف لعبد الرزاق، کتاب الصلاۃ، باب لا یقطع الصلاۃ شیئٌ بمکۃ، برقم : 2391، 2/21

225۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الصلاۃ، باب من صلّی إلی غیر سترۃ، 2/387، الحدیث : 3482

226۔ معرفۃ السنن و الآثار،کتباب الصلاۃ، باب (171)، الصلاۃ إلی غیر سترۃ ،2/120، الحدیث : 1053

227۔ السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الصلاۃ، باب من صلی إلی غیر سترۃ، برقم : 3482، : 2/387۔388

228۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب السترۃ بمکۃ وغیرھا، تحت الحدیث 501، 2/758

229۔ المصنّف لعبد الرزاق،کتاب الصلاۃ، باب لا یقطع الصلاۃ شیٔ بمکۃ، برقم : 2389،2/21

230۔ المصنّف لعبد الرزاق، کتاب الصلاۃ، باب لا یقطع الصلاۃ شیٔ بمکۃ،برقم : 2393،2/21

231۔ کتاب ناسخ الحدیث و منسوخہ، کتاب الصلاۃ، باب سترۃ المصلی، ص312۔313

232۔ تحفۃ الأخیار بترتیب مشکل الآثار،کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور….إلخ،2/307

233۔ تحفۃ الأخیار بترتیب مشکل الآثار،کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور….إلخ،2/309۔310

234۔ تحفۃ الأخیار بترتیب مشکل الآثار،کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور….إلخ،2/310

235۔ تحفۃ الأخیار بترتیب مشکل الآثار،کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور….إلخ،2/310

236۔ تحفۃ الأخیار بترتیب مشکل الآثار،کتاب الصلاۃ، باب بیان مشکل ما روی عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی المرور….إلخ،2/310

237۔ تحفۃ الأخیار بترتیب شرح مشکل الآثار،کتاب الصلاۃ، باب (135)، بیان مشکل ما رُوی عن رسول اللّٰہ ﷺ فی المرور بین یدی المصلّی فی البیت الحرام و فی الغیبَۃ عنہ، 2/310

238۔ شرح سنن ابن ماجۃ،کتاب الصلاۃ، باب ما یقطع الصلاۃ ، 5/1599۔ 1600

239۔ المغنی،کتاب الصلاۃ،باب الامامۃ وصلاۃ الجماعۃ، فصل : لابأس أن یصلی بمکۃ إلی غیر سترۃ، 2/179

240۔ حاشیۃ السندی علی السنن للنسائی، کتاب مناسک الحج، باب أین یصلی رکعتی الطواف، تحت قولہ : ولیس بینہ ….إلخ، 5/242

241۔ حاشیۃ السندی علی السنن للنسائی، کتاب مناسک الحج، باب أین یصلی رکعتی الطواف، تحت قولہ : ولیس بینہ ….إلخ، 5/242

242۔ عون المبعود شرح سنن أبی داؤد، کتاب المناسک، باب (89) فی مکۃ، الحدیث : 2014، 5/345

243۔ فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب السترۃ بمکۃ و غیرہا، تحت الحدیث : 501، 2/758

244۔ عون المعبود، کتاب المناسک، باب (90) تحریم مکۃ، الحدیث : 2014، 5/346

245۔ إرشاد الساری شرح صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب السترۃ بمکۃ و غیرہا، 1/467

246۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیزدہم در بعضے مسائل متفرقہ، فصل دو ازدہم، ص295

247۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیزدہم در بعضے مسائل متفرقہ، فصل دو ازدہم، ص295

248۔ رد المحتار علی الدر المختار،کتاب الصلاۃ، باب ما یفسد الصلاۃ و ما یکرہ فیہا، تحت قولہ : وإن أثم المار، 2/482

249۔ منحۃ الخالق علی البحر الرائق، کتاب الحج، باب الإحرام، تحت قولہ : وطف مضطبعاً، 2/573

250۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الإحرام، مطلب : فی عدم منع المار إلخ،3/589

251۔ إرشاد الساری إلی مناسک الملا علی القاری، باب أنواع الأطوفہ واحکامھا، فصل فی رکعتی الطواف وأحکامھا، ص220

252۔ الہدیۃ العلائیۃ، أحکام الحج، أفعال الحج المفرد إلخ، ص201

253۔ الفقہ الحنفی فی ثوبہ الجدید، کتاب الحج، وصف أفعال الحج المُفرِد، 1/484

254۔ التیسیر فی الفقہ الحنفی من شرح تنویر الأبصار و رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، السعی بیان الصفا و المروۃ، ص649

255۔ الحج، طواف کاطریقہ، بعد طواف مقام ابراہیم پر دو رکعت واجب ، ص95

256۔ إثارۃ الترغیب و التشویق إلی المساجد الثلاثۃ و البیت العتیق، القسم الأول، الفصل الخامس و الخمسون فی ذکر ما جاء فی بناء المسجد الحرام، ص302

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button