استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ حج اور عمرہ میں نمازِ طواف واجب ہے تو اُس کے ترک کرنے پر کیا لازم آتا ہے اور اگر کچھ بھی لازم نہیں آتا تو اِس کی وجہ کیا ہے ؟
(السائل : محمد سہیل قادری، لبیک حج گروپ،مکہ مکرمہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : نمازِ طواف اگرچہ واجب ہے مگر اُس کے ترک پر دم لازم نہیں ہوتا، کیونکہ یہ حج یا عمرہ کے واجبات سے نہیں ہے بلکہ طواف کے واجبات سے ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ نماز اُس طواف کرنے والے پر بھی واجب ہے جو حج یا عمرہ کے طواف کے علاوہ او رکوئی طواف کرے ، اس کے علاوہ فقہاء کرام نے اور وُجوہ بھی بیان کی ہیں چنانچہ مخدوم محمد ہاشم بن عبدالغفور ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
اما عدم وجوب دم در ترک دو رکعت طواف پس بواسطہ آن کہ دو رکعت واجب طواف اند نہ واجب حج و عمرہ، لہذا واجب باشد ادائے آنہا بر کسی کہ طواف کند بکعبہ بغیر احرام حج و عمرہ یا بواسطہ آنکہ وجوب آن دو رکعت مختلف فیہ ست یا بجہت آنکہ جمیع عمر وقت آنہا ست پس متصوّر نگردد ترک آنہا تا مدّتِ حیات (338)
یعنی، دو رکعت (نمازِ) طواف ترک کرنے پر دم لازم نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دو رکعت پڑھنا طواف کے واجبات سے ہے نہ کہ حج و عمرہ کے واجبات سے ۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کا پڑھنا اس شخض پر بھی واجب ہے جو حج اور عمرہ کے علاوہ کوئی اور طواف کرے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ان رکعات کا وجوب مختلف فیہ ۔ یا اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی ادائیگی کا وقت تمام عمر ہے اس لئے جب تک زندگی ہے اُن کا ترک متصوّر نہ ہو گا۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ ’’عالمگیری‘‘(339) کے حوالے سے لکھتے ہیں : اگر بھیڑ کی وجہ سے مقامِ ابراہیم میں نماز نہ پڑھ سکے تو مسجد شریف میں کسی اور جگہ پڑھے ، اور مسجد الحرام کے علاوہ کہیں اور پڑھی جب بھی ہو جائے گی۔ نیز ’’لباب‘‘(340) کے حوالے سے لکھتے ہیں : پھرحرم مکہ کے اندر جہاں بھی ہو۔ (341)
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الجمعۃ، 16ذوالحجۃ 1427ھ، 5ینایر 2007 م (348-F)
حوالہ جات
338۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، مقدمۃ الرّسالہ، فصل سیوم، تعلیل در واجبات، اربعہ اُولی از واجبات عشرہ، ص46
339۔ الفتاویٰ الھندیۃ، کتاب المناسک، الباب الخامس فی کیفیۃ أداء الحج، 1/226
340۔ لباب المناسک، باب أنواع الطوافۃ، فصل : فی رکعتی الطواف، ص115
341۔ بہارِ شریعت، حج کابیان، نمازِ طواف، 1/110
Leave a Reply