استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اِس مسئلہ میں کہ حِل کا رہنے والا حج کے ارادے سے حِل سے آیا اور اُس نے آ کر حرم سے حج کا احرام باندھا تو کیا اُس پر دم لازم آئے گا یا نہیں ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : حِل (یعنی میقات اور حُدودِ حرم کے درمیان) کا رہنے والا جب حج یا عمرہ کی نیّت سے آئے تو اُسے حِل سے احرام باندھنا لازم ہو گا ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم بن عبدالغفور حارثی ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
بدانکہ کسے کہ در نفس میقاتے از مواقیت متقدمہ یا در ما بین مواقیت و حرم سکونت داشتہ باشد، مکان احرام درحق اُو جمیع ارضِ حِل ست اعنی ما بین مواقیت و حرم، برابر ست کہ احرام حج بندد یا احرام عمرہ (222)
یعنی،جاننا چاہئے کہ جو شخض مواقیت میں سے کسی میقات پر یا مواقیت اورحرم کے مابین رہتا ہو ، اُس کے حق میں احرام کا مقام جمیع حِل ہے ،(حِل سے ) میری مراد ہے کہ مواقیت او رحرم کا مابین ہے ، چاہے حج کا احرام باندھے یا عمرہ کا۔ اُن لوگوں کے حق میں جوحِل میں رہتے ہیں افضل یہ ہے کہ وہ اپنے گھروں سے ہی احرام باندھیں ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
افصل در حق ایشان آنست کہ از دروازۂ خانہ خود احرام بندد (223)
یعنی ،اُن کے لئے افضل یہ ہے کہ اپنے گھر کے دروازہ سے احرام باندھیں ۔ اور حِل کے رہنے والے کے حق میں احرام کے واجبات سے ہے کہ وہ حِل سے احرام باندھے ، چنانچہ مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
و اما واجباتِ اِحرام، پس آن نیز دو چیز اند یکے آنکہ احرام بندد از میقات اعنی از مکانے کے معین کردہ شدہ است آن برائے احرام (224)
یعنی، پس احرام کے واجبات دو چیزیں ہیں ، اُن میں سے ایک احرام کا میقات سے باندھنا ہے یعنی وہ مکان کہ جسے احرام کے لئے معین کیا گیا ہے ۔(225) اور حِل کا رہنے والا اگر حج کا ارادہ رکھتا ہو اور وہ حِل سے احرام نہ باندھے مکہ مکرمہ پہنچ جائے تووہ گنہگار ہو گا اور اُس پر لازم ہے کہ وہ واپس حِل جا کر احرام باندھے اگر وہ ایسا نہ کرے اور حرم سے ہی حج کا احرام باندھ لے اور حج کر لے تو اس پر دم لازم آئے گا، چنانچہ علامہ رحمت اللہ بن عبداللہ سندھی حنفی (226)اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ (227)لکھتے ہیں :
فعلیہم العود إلی وقتٍ أی میقات شرعی لہم لارتفاع الحرمۃ، و سقوط الکفارۃ وإن لم یعودوا فعلیھم الدم و الإثم لازم لہم
یعنی، تواُن پر میقات کی طرف لوٹنا لازم ہے یعنی ارتفاعِ حُرمت اور سقوطِ کفّارہ کے لئے انہیں اُن کی شرعی میقات کی (لوٹنا لازم ہے ) پس اگر نہ لوٹے تو اُن پر دَم اور گناہ لازم ہے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی لکھتے ہیں :
امّا چوں ارادہ داشتہ باشد آنہا را واجب ست احرام بر ایشان برائے دخول حرم، پس اگر ترک کردند آثم گردند لاز م باشد بر ایشان کہ عود نمایند بسوی حِل و احرام بندند از انجا، و اگر عود نکردند واجب گردد دم بر ایشان (228)
یعنی، مگر جب وہ اِن(یعنی حج یاعمرہ) کا ارادہ رکھتے ہوں تو اُن پر حرم میں داخل ہونے کے لئے احرام واجب ہے ، پس اگر تر ک کر دیں تو گنہگار ہوں گے ، اُن پر لازم ہو گا کہ حِل واپس جا کر وہاں سے احرام باندھیں ، اگر وہ نہ لوٹے تو اُن پر دم واجب ہو گا ۔ جب اُن میں سے حج یا عمرہ کے ارادہ سے حرم میں آنے والوں کو احرام باندھ کر آنا لازم ہے اور ترک کی صورت میں اُن پر دو چیزیں لازم ہوئیں ایک گناہ دوسرا دَم اور دَم تو حلّ کو واپس جا کر احرام باندھنے سے ساقط ہو جاتا ہے مگر گناہ تو اُس کے لئے سچی توبہ کرنا ضروری ہے ۔ یاد رہے اِس صورت میں اُس شخص سے دو واجب ترک ہوئے ، ایک (حج یا عمرہ کے ارادے سے ) بلا احرام حرم میں داخل ہوا اور دوسرا یہ کہ اِس حالت میں اُس پر حِل لوٹنا واجب ہوااُس نے وہ بھی ترک کیا ،یعنی حرم کے اندر سے احرام باندھ لیا، اِس طرح اُس نے دو واجب تر ک کئے تو دو دم لازم ہونے چائیں کہ ایک دم بلا احرام دخولِ حرم کی وجہ سے اور دوسرا ترکِ عود کی وجہ سے مگر دو دم لازم نہ ہوں گے ایک ہی دم دینا ہو گا، چنانچہ ملا علی قاری حنفی متوفی 1014ھ لکھتے ہیں :
إلاّ أنہ لا یجبُ علیہ دم آخر بترک ہذا الواجب (229)
یعنی ، مگر یہ کہ اُس پر اِس واجب کے ترک پر دوسرا دم واجب نہ ہو گا۔ لہٰذا صورت مسؤلہ میں حِل کونہ لوٹے تو دَم دینا ہو گا اور اگر حلّ کو لوٹ کر احرام وہاں باندھ لیتا ہے تو دَم ساقط ہو جائے گا اور دونوں صورتوں میں توبہ کرنی ہو گی۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم السبت،26شوال المکرم 1427 ھ، 19نوفمبر 2006 م (253-F)
حوالہ جات
222۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، دربیان احرام، در بیان مواقیت الحرام حج وغیرہ، ص60
223۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب اول، دربیان احرام، در بیان مواقیت الحرام حج وغیرہ، ص60
224۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب أول در بیان احرام، فصل اول دربیان فرائض احرام حج و عمرہ الخ، ص51۔52
225۔ اورحِل کے رہنے والے کے لئے احرام باندھنے کے واسطے جو جگہ معین ہے وہ حِل ہی ہے یہی اُن کے حق میں شرعی میقات ہے ۔
226۔ لباب المناسک، باب فرائض الحج، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ص81
227۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب فرائض الحج، فصل فی مجاوزۃ المیقات بغیر احرام، ص119
228۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب أول، فصل دویم، دربیان مواقیت احرام حج وغیرہ، بیان مکان احرام درحق میقاتی، ص60
229۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب المواقیت، فصل : فی میقات أھل الحرم، تحت قولہ : العود الیہ، ص118
Leave a Reply