استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ پیدل اور سواری پر سوار ہو کر منیٰ عرفات و مزدلفہ و مکہ مناسکِ حج کی ادائیگی کے لئے جانے میں کیا فرق ہے ؟ کیا اس کے بارے میں کسی حدیث میں اس کا ذکر ہے ؟
(السائل : ابو بکر بن عبدالستار، لبیک حج گروپ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : طاقت ہو تو پیدل حج کرنا چاہئے کہ افضل ہے چنانچہ علامہ نور الدین ہیثمی متوفی 807ھ نقل کرتے ہیں کہ
عن ابن عباس أنہ قال : یَابُنَیَّ اخْرُجُوْا مِنْ مکّۃَ حَاجِّیْنَ مُشَاۃً حَتّٰی تَرْجِعُوْا إِلٰی مَکَّۃَ مُشَاۃً فَإِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَقُوْلُ : ’’إِنَّ الْحَاجَّ الرَّاکِبَ لہ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ تَخْطُوْہَا رَاحِلَتُہٗ سَبْعُوْنَ حَسَنَۃً، وَ إِنَّ الْحَاجَّ الْمَاشیْ لَہٗ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ یَخْطُوْہَا سَبْعُمِائَۃِ حَسَنَۃً مِنْ حَسَنَاتِ الْحَرَمِ‘‘ ، قِیْلَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا حَسَنَاتُ الْحَرَمِ؟ قَالَ : ’’الْحَسَنَۃُ بِمِائَۃِ أَلْفٍ حَسَنَۃٍ‘‘ (103)
یعنی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں اے میرے بیٹو! مکہ مکرمہ سے حج کے لئے پیدل نکلو یہاں تک کہ تم (حج کے افعال ادا کر کے ) پیدل مکہ لوٹو بے شک میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ نے فرمایا : ’’بے شک سوار حاجی کے لئے اس کی سواری کے ہر قدم کے بدلے جو وہ اُٹھاتی ہے ستر نیکیاں ہیں اور پیدل چلنے والے حاجی کے لئے ہر قدم کے بدلے جو وہ اٹھاتا ہے حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں ہیں ‘‘، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! حرم کی نیکیاں کیا ہیں ؟ فرمایا کہ’’ہر نیکی کے بدلے ایک لاکھ نیکیاں ‘‘۔ (104) جب کہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252ھ نے اِن الفاظ کے ساتھ نقل کیا کہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
’’مَنْ حَجَّ مَاشِیًا کَتَبَ اللّٰہُ لَہٗ بِکُلِّ خُطْوَۃٍ حَسَنَۃً مِنْ حَسَنَاتِ الْحَرَمِ‘‘، قِیْلَ : وَ مَا حَسَنَاتُ الْحَرَمِ؟ قَالَ : ’’کُلُّ حَسَنَۃٍ بِسَبْعِمِائَۃٍ‘‘ (105)
یعنی، ’’جس نے پیدل حج کیا اللہ تعالیٰ اُس کے لئے ہر قدم پر حرم کی نیکیوں میں سے نیکی تحریر فرمائے گا‘‘، عرض کیا گیا کہ حرم کی نیکیاں کیا ہیں ؟ فرمایا کہ ’’ہر نیکی کے بدلے سات سو‘‘۔ اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : پیدل حج کی طاقت ہو پیدل حج کرنا افضل ہے ، حدیث میں ہے ’’جو پیدل حج کرے اس کے لئے ہر قدم پر سات سو نیکیاں ہیں ‘‘۔ (106) لیکن بوڑھے ، کمزور اور بیمار حضرات جن کے لئے پیدل چلنا مشکل ہے ان کے لئے بہتر ہے کہ وہ پیدل چلنے پر سواری کو ترجیح دیں کیونکہ ایسے لوگ عبادت او رنیکیوں کے حصول کے لئے پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہیں پھر نہیں چل پاتے اور اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کی اذیت کا بھی سبب بنتے ہیں ۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ حج میں وہ اپنے دوبیٹوں کے سہارے چل رہا تھا، بتایا گیا کہ اس نے منّت مانی ہے کہ یہ پیدل چلے گا تو نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’یہ اپنے آپ کو تکلیف دے رہا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بے نیاز ہے ،اوراُسے حکم فرمایا کہ سوار ہو ‘‘۔ (107) مطلب یہ ہے کہ اس میں پیدل چلنے کی طاقت نہ تھی تو نبی ﷺ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا حالانکہ پیدل چلنے میں زیادہ ثواب ہے تو معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو پیدل سفر کی طاقت نہیں رکھتے وہ سواری کو ترجیح دیں کیونکہ طاقت نہ ہویا تھکاوٹ زیادہ ہو تو پیدل چلنا حاجی کو حج کے ارکان، واجبات اور سُنَن کی ادائیگی سے روکنے کا یا کم از کم اُن کی ادائیگی میں یکسوئی، خشوع و خضوع کے زوال کا سبب بنے گا اس لئے ایسے لوگوں کے حق میں افضل یہی ہو گا کہ وہ سواری پر سفر کریں ، چنانچہ علامہ سراج الدین علی بن عثمان اوسی حنفی متوفی 569ھ لکھتے ہیں :
الحجّ راکباً أفضل و علیہ الفتوی (108)
یعنی، سوار ہو کر حج افضل ہے اور اسی پر فتویٰ ہے ۔ امام ابو منصور محمد بن مکرم کرمانی حنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں (109) اور اُن سے مفتی و قاضیٔ مکہ امام ابو البقاء محمد بن احمد ابن الضیاء مکی حنفی متوفی 857ھ (110) نقل کرتے ہیں :
و مَن کان بِہ ضُعْف مِن أہلِ مکَّۃَ لا یَقدِرُ علی المَشی فالرُّکُوبُ لہُ أفضلُ
یعنی، اہلِ مکہ میں سے جسے کمزوری ہو وہ چلنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو سوار ہونا اُس کے لئے افضل ہے ۔ اس لئے فقہاء عظام نے پیدل حج کے افضل ہونے کو طاقت کے ساتھ مقید کیا ہے لہٰذا پیدل حج مطلقاً افضل نہیں بلکہ پیدل چلنے کی طاقت ہو تو افضل ہے کہ اس میں ہر قدم پر حرم کی نیکیوں میں سے سات سو نیکیاں ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں گزرا۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
یوم الأحد، 25 ذو القعدہ 1429ھ، 23نوفمبر 2008 م 478-F
حوالہ جات
103۔ کشفُ الأستار، کتاب الحجّ، باب المشی فی الحجّ، برقم : 1120، 2/25
أیضاً مجمع الزّوائد، کتاب الحجّ، باب فیمن یحجّ ماشیاً، برقم : 5278، 3/360
104۔ علامہ ہیثمی فرماتے ہیں کہ اسے بزار نے روایت کیا اور طبرانی نے ’’المعجم الأوسط‘‘ اور ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اس کی مثل روایت کیا ہے اور بزار کے ہاں اس کی دو اسناد ہیں ، ایک میں ایک راوی کذّاب ہے ، دوسرے میں اسماعیل بن ابراہیم ہیں جو سعید بن جبیر سے روایت کرتے ہیں اور اسے میں نہیں جانتا اور اس کے بقیہ رجال ثقات ہیں ۔
105۔ ردّ المحتار علی الدُّرِّ المحتار، کتاب الحجّ، مطلب : فِیْمَن حَجَّ بِمَالِ الحرامِ، تحت قولہ : بہ یُفتی، 3/526، 527
106۔ بہار شریعت، حج کا بیان، حج واجب ہونے کی شرائط، 1/1042
107۔ سنن أبی داود، کتاب الایمان والنذور، باب من رَأَی علیہ کفارۃ اذا کان فی معصیۃ، رقم الحدیث : 3301
108۔ الفتاوی السّراجیۃ، کتاب الحجّ، باب المتفرقات، ص36
109۔ المسالک فی المناسک، القسم الثّانی فی بیان نسک الحجّ إلخ، فصلٌ بعد فصلٍ فی کیفیۃ الزّاد و الرّاحلۃ، 1/267، 268
110۔ البحر العمیق، الباب الأول فی الفضائل، فصل فی حجّ الماشی و الرّاکب، 1/110