الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مکہ مکرمہ افضل ہے یا مدینہ منورہ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے اس بات کو جاننا چاہیے کہ علماء امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ تمام شہروں میں سے زیادہ فضیلت والے شہر مکہ معظمہ اور مدینہ طیبہ ہیں ۔ چنانچہ علامہ تقی الدین محمد بن احمد بن علی فاسی مکی مالکی متوفی832ھ لکھتے ہیں : ولا ریب فی ان مکۃ والمدینۃ افضل من سائر البلاد، لاجماع الناس علی ذلک، کما ذکرہ القاضی عیاض، کما ان بیت المقدس افضل من سائرہا بعد مکۃ والمدینۃ للاجماع۔(170) یعنی ،اس بات میں شک نہیں کہ بے شک تمام شہروں سے افضل اس پرلوگوں کے اجماع کی وجہ سے مکہ اور مدینہ ہیں جیسا کہ اسے قاضی عیاض نے ذکر فرمایاجیسے بیت المقدس اجماع کی وجہ سے مکہ اور مدینہ کے بعد تمام شہروں سے افضل ہے ۔ اورعلامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ لکھتے ہیں : اجمعوا علی ان افضل البلاد مکۃ والمدینۃ زادہما اللہ تعالی شرفًا وتعظیمًا۔(171) یعنی،علماء کا اس پر اجماع ہوا ہے کہ شہروں میں سے زیادہ فضیلت والے شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ ہیں اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شرافت اور عظمت کوزائد فرمائے ۔ اورشیخ محقق عبد الحق محدث دہلوی حنفی متوفی1052ھ لکھتے ہیں : اجماع امت واتفاق علماست کہ افضل بقاع واکرم بلاد مکہ مکرمہ ومدینہ مشرفہ است زادھما اللہ تکریما وتشریفا ۔(172) یعنی،امت کا اجماع اور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ افضل مقامات وبزرگی والے شہروں میں مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ ہیں اللہ تعالیٰ ان دونوں کی شرافت اور عزت کوزائد فرمائے ۔ لیکن اکابر علماء دین کا اس میں اختلاف ہے کہ ان دونوں میں کون سا شہر افضل ہے ؟ چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں : واختلفوا ایہما افضل؟(173) یعنی،علماء کا اس میں اختلاف ہوا ہے کہ مکہ اور مدینہ میں کون سا شہر افضل ہے ؟ یاد رہے کہ اس حوالے سے تین قول ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔ (1)مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے افضل ہے ۔ (2)مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے افضل ہے ۔ (3)ان دونوں کے درمیان (فضیلت میں )برابری ہے ۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی اور ملاعلی قاری حنفی لکھتے ہیں : (فقیل : مکۃ افضل من المدینۃ) وہو مذہب الائمۃ الثلاثۃ والمروی عن بعض الصحابۃ، (وقیل المدینۃ افضل من مکۃ) وہو قول بعض المالکیۃ والشافعیۃ ومن تبعھم من الشافعیۃ ، قیل : وہو المروی عن بعض الصحابۃ. ولعل ہذا مخصوص بحیاتہ صلی اللہ علیہ وسلم او بالنسبۃ الی المہاجرین من مکۃ، (وقیل بالتسویۃ بینہما). ھذا قول مجہول لا منقول ولا معقول۔(174) یعنی،پس کہا گیا کہ مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے افضل ہے اور یہی ائمہ ثلاثہ (امام ابو حنیفہ ،امام شافعی اور امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہم)کا مذہب ہے اور یہی بعض صحابہ سے مروی ہے اور کہا گیا کہ مدینہ منورہ مکہ مکرمہ سے افضل ہے اور یہی بعض مالکیہ اور شافعیہ کا قول ہے اورشوافع میں سے جوان سے (اس قول) میں تابع ہوئے اورکہا گیا کہ یہی بعض صحابہ سے مروی ہے اور شاید یہ حضور نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری حیات کے ساتھ مخصوص ہے یامکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والوں کی طرف نسبت کرتے ہوئے ہے اور کہا گیا کہ ان دونوں کے درمیان (فضیلت میں )برابری ہے یہ قول نامعلوم ،غیر منقول اور عقل میں انے والا نہیں ۔ اورشیخ محقق شیخ عبد الحق محدث دہلوی حنفی متوفی1052ھ لکھتے ہیں : وبالجملہ بعد از استشار موضع قبر شریف در تفضیل مکہ بر مدینہ باعکس اختلاف ست مذہب امیر المومنین عمرو عبد اللہ بن عمر وطائفہ دیگر از صحابہ رضی اللہ عنہم ومذہب امام مالک واکثر علماء مدینہ تفضیل مدینہ است بر مکہ وبعضی دیگراز علمادر تفضیل مدینہ بر مکہ موافق ایشان رفتہ ولیکن کعبہ شریفہ را ازان میان استثنا نمودہ گفتہ کہ مدینہ افضل است از مکہ الا خانہ کعبہ پس محصل کلام چناں اید کہ قبر شریف حضرت سید کائنات علیہ افضل الصلواۃ واکمل التحیات افضل واکرم بود علی الاطلاق والعموم چہ بر بلدہ مکرمہ مکہ وچہ بر خانہ کعبہ مشرفہ وخانہ کعبہ افضل بودار بلدہ مکرمہ مطیبہ مدینہ غیر بقعہ شریفہ قبر نبوی ﷺ وباقی مدینہ افضل از باقی مکہ یا علی العکس در اینجا اختلاف ست۔(175) یعنی،خلاصہ کلام یہ کہ موضع قبر شریف کے علاوہ مکہ کو مدینہ پر اورمدینہ کو مکہ پر فضیلت دینے میں علماء کا اختلاف ہے مذہب امیر المومنین عمر ،عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما نیز دیگر صحابہ کی جماعت رضی اللہ عنھم،امام مالک ،اکثر مدینہ کے علماء اور بعض دیگر علماء بھی مدینہ کو مکہ پر فضیلت دیتے ہیں لیکن یہ بھی کعبہ شریف کا استثناء کرتے ہیں کیونکہ وہ خانہ کعبہ کے سواء مدینہ منورہ کو مکہ مکرمہ پر فضیلت دیتے ہیں پس حاصل کلام یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف مطلقا اور بالعموم افضل ومکرم ہے اور خانہ کعبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کے علاوہ مدینہ منورہ سے افضل ہے اور باقی مدینہ منورہ افضل ہے باقی مکہ مکرمہ سے یا باقی مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے افضل ہے اس میں اختلاف ہے ۔ واضح رہے کہ راجح قول کے مطابق مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے افضل ہے سوائے اس کے کہ جو زمین کاحصہ نبی علیہ الصلوۃ و السلام کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مبار ک اعضاء کو مس کئے ہوئے ہے ۔ چنانچہ علامہ محمد بن علی بن محمد بن علی بن عبد الرحمن حنفی حصکفی متوفی1088ھ لکھتے ہیں : ومکۃ افضل منہا علی الراجح الا ما ضم اعضاء ہ علیہ الصلاۃ والسلام فانہ افضل مطلقًا حتی من الکعبۃ والعرش والکرسی۔(176) یعنی،مکہ مکرمہ راجح قول کے مطابق مدینہ طیبہ سے افضل ہے سوائے اس کے کہ جو زمین کاحصہ حضورعلیہ السلام کے اعضاء مبارکہ کو ملا ہوا ہے پس بے شک یہ مطلقا افضل ہے یہاں تک کہ کعبہ ،عرش اور کرسی سے بھی۔ اس عبارت کے تحت علامہ سید احمد طحطاوی حنفی متوفی 1231ھ لکھتے ہیں : وھو قول علمائنا والشافعی واحمد خلافا لمالکٍ۔(177) یعنی،یہی ہمارے علماء(احناف)،امام شافعی اور امام احمد کاقول ہے بخلاف امام مالک کے ۔ اسی کی مثل امام برھان الدین ابو الصفا شیخ ابراہیم بن مصطفی بن ابراہیم حلبی حنفی متوفی 1190ھ نے ’’تحفۃ الاخیار علی الدر المختار‘‘(178)میں لکھا ہے ۔ اورعلامہ محمد عابد بن احمدسندھی انصاری حنفی متوفی1257ھ/1841م لکھتے ہیں : ای من المدینۃ الشریفۃ علی الراجح لحدیث ان مکۃ خیر بلاد اللہ۔(179) یعنی،’’مکہ مکرمہ ‘‘مدینہ منورہ سے راجح قول کے مطابق افضل ہے (اس کاافضل ہونا ) حدیث کی وجہ سے ہے کہ بے شک مکہ اللہ عزوجل کے شہروں میں سے زیادہ بہتر ہے ۔ اورجمہور حنفیہ کابھی یہی مسلک ہے کہ مکہ مکرمہ مدینہ منورہ سے افضل ہے ۔ چنانچہ’’ملفوظات اعلی حضرت‘‘ میں سے کچھ حصہ درج ذیل ہے : عرض : حضور!مدینہ طیبہ میں ایک نماز پچاس ہزار کا ثواب رکھتی ہے اور مکہ معظمہ میں ایک لاکھ کا ،اس سے مکہ معظمہ کا افضل ہونا سمجھا جاتا ہے ؟ ارشاد : جمہور حنفیہ کایہی مسلک ہے اورا مام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک مدینہ افضل اور یہی مذہب امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہے ۔(180) لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ امام اہلسنت امام احمد رضا حنفی متوفی 1340ھ کا موقف جمہور حنفیہ کے موافق نہیں بلکہ مذہب امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موافق ہے ۔ چنانچہ امام اہلسنت امام احمد رضا حنفی متوفی1340ھ خود ہی لکھتے ہیں : تربت اطہر یعنی وہ زمین کہ جسم انور سے متصل ہے کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہیصرح بہ عقیل الحنبلی وتلقاہ العلماء بالقبول(اس پر ابو عقیل حنبلی نے تصریح کی اور تمام علماء نے اسے قبول کیا)باقی مزار شریف کا بالائی حصہ اس میں داخل نہیں ، کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے ، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مدینہ طیبہ سوائے موضع تربت اطہر اور مکہ معظمہ سوائے کعبہ مکرمہ ان دونوں میں کون افضل ہے ، اکثر جانب ثانی ہیں اور اپنا مسلک اول اور یہی مذہب فاروق اعظم ٖرضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے ۔(181) اور اپ نے اپنے ایک شعر میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا ہے چنانچہ فرماتے ہیں : طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑا زاہد ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے (182) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الاثنین،10شوال المکرم،1439ھ۔25،جون،2018م FU-13
حوالہ جات
(170) شفاء الغرام باخبار البلد الحرام،الباب الخامس : ذکر الاحادیث الدالۃ علی ان مکۃ افضل من غیرھامن البلاد۔۔۔۔۔الخ، 1/127
(171) لباب المناسک وعباب المسالک،باب زیارۃ سید المرسلین ﷺ ،فصل فی التفضیل بین مکۃ والمدینۃ والمجاورۃ فیھما،ص328
(172) جذب القلوب الی دیار المحبوب ﷺ،باب دوم،دربیان فضائل مدینہ اینمعنی،ص16
(173) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،باب زیارۃ سید المرسلین ﷺ ،فصل فی التفضیل بین مکۃ والمدینۃ،تحت قولہ : اجمعوا علی ان افضل البلاد مکۃ والمدینۃ زادہما اللہ تعالی شرفًا وتعظیمًا۔۔۔۔۔الخ،ص : 746
(174) المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط علی لباب المناسک،باب زیارۃ سید المرسلین ﷺ ،فصل فی التفضیل بین مکۃ والمدینۃ،ص : 746۔747
(175) جذب القلوب الی دیار المحبوب ﷺ،باب دوم،دربیان فضائل مدینہ،ص17
(176) (الدر المختار ،کتاب الحج،باب الھدی،تحت قولہ : ثم یجامع ،وھو اولی من التحلیل بجماع، ص175)
(177) حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار ،کتاب الحج،باب الھدی،تحت قولہ : علی الراجح،1/561
(178) تحفۃ الاخیار علی الدر المختار،کتاب الحج،باب الھدی،تحت قولہ : علی الراجح، ص164، مخطوط مصور
(179) طوالع الانوارشرح الدر المختار،کتاب الحج،باب الھدی،تحت قولہ : ومکۃ افضل منہا،4، الجزء الثالث/ق437؍الف،مخطوط،مصور
(180) ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم،ص237
(181) الفتاوی الرضویہ،کتاب الحج،شرائط حج،10/711
(182) حدائق بخشش،ص193