زید اور بکر کے درمیان زبانی معاملہ طے ہوا جس میں سکول کے لیے ایک زیر تعمیر عمارت کرائے پر لینے کی بات ہوئی۔ مکان کا کرایہ 90 ہزار روپے ماہانہ اور 6 ماہ کا ایڈوانس یعنی پانچ لاکھ 40 ہزار روپے طے ہوا۔ زید نے بکر کو فروری میں تین لاکھ روپے بطور ٹوکن ادا کر دئیے۔ 26 فروری کے بعد حکومتی سطح پر لاک ڈاؤن کا اعلان ہوا تمام اسکول بند کر دئیے گئے۔ بکر کی طرف سے مارچ کے مہینے میں بقایا ایڈوانس کا تقاضا ہوا ،جس پر زید نے موجودہ حالات کی وجہ سے بقایا ایڈوانس دینے سے معذرت کر لی ۔ زبانی طور پر یہ طے ہوا کر تعمیراتی کام اپریل تک مکمل کر کے یکم مئی کو حوالے کر دیا جائے گا اور کرایہ مئی سے چارج کیا جائے گا جبکہ مارچ اور اپریل کا کرایہ نہیں دیا جائے گا ۔ ایک سال کا ایگریمنٹ کیا جائے گا لیکن ایگریمنٹ ہونے کی نوبت نہ آ سکی اور اس طرح مارچ اپریل اور مئی گزر گیا، 24 اپریل تا24 مئی رمضان المبارک تھا ، اس دوران کسی قسم کا کوئی رابطہ نہیں رہا۔ یکم جون کو زید نے بکر کو بذریعہ واٹس اپ اطلاع کر دی کہ وہ مکان نہیں لے سکتا، لہذا آپ اپنا مکان کسی اور کو کرایہ پر دے دیں ۔ جون ، جولائی اور اگست گزرنے کے بعد زید نے بکر سے ایڈوانس کی مد میں دی گئی تین لاکھ روپے کی رقم واپس دینے کا مطالبہ کیا تو بکر نے کہا: میرا مکان چھ ماہ سے خالی ہے ، لہذا آپ کا دیا ہوا ایڈوانس ختم ہو چکا ہے اور اگر میں آپ کے ساتھ بہت نرمی کا معاملہ کروں تو دو لاکھ 25 ہزار کاٹ کر بقایا پچھتر ہزار تھوڑے تھوڑے کر کے واپس کر دوں گا ۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ زید اپنی کل ایڈوانس کی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
نوٹ : عمارت کا قبضہ بالکل نہیں دیا گیا تھا۔
جواب:
یہ عقد اجارہ ہے محض نفس عقد سے اجرت کا مستحق نہیں ہو گا۔ عقد اجارہ کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ کرایہ دار کو وہ چیز سپرد کر دینا جبکہ اس کے منافع پر اجارہ ہوا ہو ۔ منفعت حاصل کرنے پر قادر ہونے سے اجرت واجب ہو جاتی ہے، اگر چہ منفعت حاصل نہ کی ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً مکان کرایہ دار کو سپرد کر دیا جائے اس طرح کہ مالک مکان کے متاع و سامان سے خالی ہو اور اس میں رہنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو نہ اس کی جانب سے نہ کسی اور کی جانب سے ، اس صورت میں اگر وہ نہ ر ہے اور بیکار مکان کو خالی چھوڑ دے تو اجرت واجب ہو گی ۔ لہذا اگر مکان سپر دہی نہ کیا یا سپرد کیا مگر اس میں خود مالک مکان کا سامان و اسباب ہے یا مدت کے گزر جانے کے بعد سپرد کیا یا مدت ہی میں سپرد کیا مگر اسے کوئی عذر ہے یا اس کو عذر بھی نہیں مگر حکومت کی جانب سے رہنے سے ممانعت ہے یا غاصب نے اسے غصب کر لیا یا وہ اجارہ ہی فاسد ہے ۔ان سب صورتوں میں مالک مکان اجرت کا مستحق نہیں ۔
پس دریافت کردہ صورت میں چونکہ عمارت مستاجر ( کرائے دار ) کے سپرد ہی نہیں کی گئی ، تو مالک مکان کرائے کا حق دار نہیں ہو گا، کیونکہ اولاً تو عمارت زیر تعمیر ہونے کی وجہ سے قابل انتفاع ہی نہیں تھی ، پھر حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے احکامات مالک مکان کے علاوہ ( تیسرے فریق حکومت یعنی) اجنبی کا رکاوٹ بننا ہے جو انتفاع میں رکاوٹ ہے، اس لیے مالک مکان ایڈوانس ادا کر دہ رقم میں سے کچھ بھی منہا کرنے کا حق دار نہیں ہے، یہ سراسر حق تلفی ہے ، اور یہ رقم اس پر قرض ہے اور اسے ادا کرنی چاہیے۔
(تفہیم المسائل، جلد12، صفحہ354،ضیا القران پبلی کیشنز، لاہور)
Leave a Reply