سوال:
مکان گروی دینے میں اسلام کے کیا قوانین ہیں؟ کچھ لوگ مکان گروی لے لیتے ہیں دو سال کے لیے اور کرایا نہیں دیتے۔ اگر کوئی مکان گروی لیتا ہے اور ایک نارمل سا کرایا یعنی جو مارکیٹ میں ہے اس سے بہت کم مثال کے طور پر کسی چھوٹے سے پورشن کا پانچ ہزار کرایا ہے تو گروی دو لاکھ دے کر اس کا ہزار روپیہ بھی کرایہ دیتا ہے، اس کو جائز کرنے کے لیے اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرمائیں؟
جواب:
اس مسئلے کے جاننے سے پہلے ضروری اصطلاحات کا مفہوم سمجھ لیں :
1۔ جو چیز کسی کے پاس رہن (گروی) رکھی جائے اسے مرہون کہتے ہیں۔
2۔ رہن رکھنے والے کو راہن کہتے ہیں۔
3۔ جس کے پاس وہ شے رکھوائی جا رہی ہے اسے مرتہن کہتے ہیں۔
صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی لکھتے ہیں:
رہن کے شرائط حسب ذیل ہیں:
1۔ راہن و مرتہن عاقل ہوں یعنی نا سمجھ بچہ اور مجنون کا رہن رکھنا صحیح نہیں ۔ بلوغ اس کے لیے شرط نہیں، نا بالغ بچہ جو عاقل ہو اس کا رہن رکھنا صحیح ہے ۔
2۔ رہن کسی شرط پر معلق نہ ہو ، نہ اس کی اضافت وقت کی طرف ہو۔
3 ۔ جس چیز کو رہن رکھا وہ قابل بیع ہو یعنی وقت عقد موجود ہو ، شی مرہون مال متقوم ( شرعا قابل قیمت ہو)، مملوک ( ملکیت میں ہونا )، معلوم ہو ، مقدور التسلیم یعنی راہن اس کے سپرد کرنے پر قادر ہو ۔
رہن کی تعریف: اصطلاح شریعت میں رہن اس مال کو کہتے ہیں جو مدیون (مقروض) اپنے راہن ( قرض خواہ) کے پاس بطور ضمانت جمع کراتا ہے تاکہ دائن کو قرض کی ادائیگی کا یقین ہو جائے۔
شریعت مطہرہ میں عقد رہن کو صرف اس لیے مشروع کیا گیا ہے کہ قرض دہندہ کو اپنی رقم کی واپسی کے بارے میں اطمینان ہو جائے اور رقم ڈوبنے کا خدشہ نہ رہے ۔مال مرہون کا ایک حق مرتہن کے متعلق ہو جاتا ہے کہ مرتہن کو اس شے کی حفاظت اور اپنے پاس بطور ضمانت روکے رکھنے کے علاوہ کا حق حاصل نہیں ہوتا ۔ کیونکہ وہ شے اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ اس نے اپنے پاس اس طرح روکی ہوئی ہے کہ مالک اس سے نفع نہیں اٹھا سکتا۔ اگر عقد کے وقت مال رہن سے مرتہن نے صراحتا عدم استفادے کی شرط لگائی ہو تو عقد رہن جائز ہوگا ،استفادے کی شرط کی صورت میں جائز نہیں۔
فتاوی رضویہ کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ اصولا مرتہن کے لیے مال مرہون سے نفع اٹھانا جائز نہیں ہے بلکہ جب چیز کسی کے پاس گروی رکھی جائے تو صراحت کر دی جائے کہ مرتہن اس سے نفع نہیں اٹھائے گا، محض سکوت کافی نہیں ہے، خاص طور پر جب کہ اس علاقے میں رہن سے استفادے کا رواج بھی ہو اور یہ امر معروف ہو اور نہ ہی مرتہن نفع اٹھانے کا مطالبہ کرے ۔ ہاں نفع نہ اٹھانے کی شرط کے ساتھ کوئی چیز کسی کے پاس رہن رکھی ، بعد میں راہن نے خوش دلی سے مرتہن کو اجازت دے دی کہ آپ اس سے نفع اٹھاتے رہیں، تو اس صورت میں مرتہن کے لیے نفع اٹھانا جائز ہے ، لیکن اس پر لازم ہے کہ جس مرحلے پر بھی راہن نفع اٹھانے سے منع کرے فورا کسی تردد کے بغیر رک جائے ۔ شے مرہون سے استفادے کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ منفعت نہ مشروط ہو اور نہ معہود یعنی عقد رہن ہو جانے کے بعد راہن نے خوش دلی سے اجازت دی ہو ،تو یہ جائز ہے۔
شرعی لحاظ سے حرمت سے بچنے اور اپنی ضرورت پوری کرنے کی بہتر اور محتاط صورت یہ ہے کہ فریقین عقد رہن نہ کریں بلکہ عقد اجارہ کریں اور راہن قرض کی بجائے مرتہن سے سیکیورٹی ڈپازٹ کے طور پر مطلوبہ رقم پیشگی لے لے اور فریقین باہمی رضا مندی سے کرایہ کی مقدار مقرر کریں خواہ اس کی مقدار کم ہو یا زیادہ ،اور عقد اجارہ ختم ہونے پر کرائے دار مکان یا فلیٹ خالی کر دے اور ڈپازٹ اور مکان یا فلیٹ کا مالک اپنا مکان یا فلیٹ خالی کرا کے واپس لے لے۔
(تفہیم المسائل، جلد 10، صفحہ 447، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور)