موزوں پر مسح کا بیان
حدیث ۱ : امام احمد و ابو داؤد نے مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کیا میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ حضور بھول گئے فرمایا بلکہ تُو بھولا میرے رب عزوجل نے اسی کا حکم دیا۔
حدیث ۲ : دارقطنی نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی رسول اللہ ﷺ نے مسافر کو تین دن تین راتیں اور مقیم کو ایک دن رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی جب کہ طہارت کے ساتھ پہنے ہوں۔
حدیث ۳ : ترمذی و نسائی صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راوی جب ہم مسافر ہوتے رسول اللہ ﷺ حکم فرماتے کہ تین دن رات ہم موزے نہ اتاریں گے مگر بوجہ جنابت کے لیکن پاخانہ اور پیشاب اور سوتے کے بعد نہیں۔
حدیث ۴ : ابو داؤد نے روایت کی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر دین اپنی رائے سے ہوتا تو موزے کا تلابہ نسبت اوپر کے مسح میں بہتر ہوتا۔
حدیث ۵ : ابوداؤد و ترمذی راوی کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ کو دیکھا موزوں کی پُشت پر مسح فرماتے۔
موزوں پر مسح کرنے کے مسائل
جو شخص موزہ پہنے ہوئے ہو وہ اگر وضو میں بجائے دھونے کے مسح کرے جائز ہے اور بہتر پاؤں دھونا ہے بشرطیکہ مسح جائز سمجھے اور اس کے جواز میں بکثرت حدیثیں آئی ہیں جو قریب قریب تواتر کے ہیں اسی لئے امام کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو اسے جائز نہ جانے اس کے کافر ہو جانے کا اندیشہ ہے۔ امام شیخ الاسلام فرماتے ہیں جو اسے جائز نہ مانے گمراہ ہے۔ ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اہلسنت و جماعت کی علامت دریافت کی گئی فرمایا:۔ تَفْصِیْلُ الشَّیْخَیْنِ وَحُبُّ الْخَتْنَیْنِ وَمَسَحُ الْخُفَّیْنِ (یعنی حضرت امیر المومنین ابوبکر صدیق و امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہما کو تمام صحابہ سے بزرگ جاننا اور امیر المومنین عثمان غنی اور امیر المومنین علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے محبت رکھنا اور موزوں پر مسح کرنا)۔ اور ان تینوں باتوں کی تخصیص اس لئے فرمائی کہ حضرت کوفہ میں تشریف فرما تھے اور وہاں رافضیوں ہی کی کثرت تھی تو وہی علامات ارشاد فرمائیں جو ان کا رد ہیں۔ اس روایت کے یہ معنی نہیں کہ صرف ان تین باتوں کا پایا جانا سُنّی ہونے کے لئے کافی ہے۔ علامت شے میں پائی جاتی ہے، شے لازم علامت نہیں ہوتی جیسے حدیث بخاری شریف میں وہابیہ کی علامت فرمائی:۔ سِیْمَا ھُمُ التَّحْلِیْقُ (ان کی علامت سر منڈانا ہے) اس کے یہ معنی نہیں کہ سر منڈانا ہی وہابی ہونے کے لئے کافی ہے اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں اس کے جواز پر کچھ خدشہ نہیں کہ اس میں چالیس صحابہ سے مجھ کو حدیثیں پہنچیں۔
مسئلہ ۱ : جس پر غسل فرض ہے وہ موزوں پر مسح نہیں کر سکتا۔
مسئلہ ۲ : عورتیں بھی مسح کر سکتی ہیں مسح کرنے کے لئے چند شرطیں یہ ہیں:۔ (۱) موزے ایسے ہوں کہ ٹخنے چھپ جائیں اس سے زیادہ ہونے کی ضرورت نہیں اورا گر وُہ ایک اُنگل کم ہو جب بھی مسح درست ہے ایڑی نہ کھلی ہو۔
(۲) پاؤں سے چپٹا ہو کہ اس کو پہن کر آسانی کے ساتھ خوب چل پھر سکیں۔
(۳) چمڑے کا ہو یا صرف تلا چمڑے کا اور باقی کسی اور دبیز چیز کا جیسے کرمچ وغیرہ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۲)۔
مسئلہ ۳ : ہندوستان میں جو عموماً سوتی یا اونی موزے پہنے جاتے ہیں اُن پر مسح جائز نہیں ان کو اتار کر پاؤں دھونا فرض ہے۔
(۴) وضو کرکے پہنا ہو یعنی پہننے کے بعد اور حدث سے پہلے ایک ایسا وقت ہو کہ اس وقت میں وہ شخص با وضو ہو خواہ پورا وضو کرکے پہنے یا صرف پاؤں دھو کر پہنے بعد میں وضو پورا کر لیا۔
مسئلہ ۴ : اگر پاؤں دھو کر موزے پہن لئے اور حدث سے پہلے منہ ہاتھ دھو لئے اور سر کا مسح کر لیا تو بھی مسح جائز ہے اور اگر صرف پاؤں دھو کر پہنے اور بعد پہننے کے وضو پورا نہ کیا اور حدث ہو گیا تو اب وضو کرتے وقت مسح جائز نہیں۔
مسئلہ ۵ : بے وضو موزہ پہن کر پانی میں چلا کہ پاؤں دُھل گئے اب اگر حدث سے پیشتر باقی اعضاء دھو لئے اور سر کا مسح کر لیا تو مسح جائز ہے ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۳)۔
مسئلہ ۶ : وضو کرکے ایک ہی پاؤں میں موزہ پہنا یہاں تک کہ حدث ہوا تو اس ایک پر بھی مسح جائز نہیں دونوں پاؤں کا دھونا فرض ہے۔
مسئلہ ۷ : تیمم کرکے موزے پہنے گئے تو مسح جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۳)۔
مسئلہ ۸ : معذور کو صرف اس ایک وقت کے اندر مسح جائز ہے جس وقت میںپہنا ہو۔ ہاں اگر پہننے کے بعد اور حدث سے پہلے عذر جاتا رہا تو اس کے لئے وہ مدت ہے جو تندرست کے لئے ہے۔ (۵) نہ حالتِ جنابت میں پہنا نہ بعد پہننے کے جنب ہوا ہو۔
مسئلہ ۹ : جنب نے جنابت کا تیمم اور وضو کرکے موزہ پہنا تو مسح کر سکتا ہے مگر جب جنابت کا تیمم جاتا رہا تو اب مسح جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۳)۔
مسئلہ ۱۰: جنب نے غسل کیا مگر تھوڑا سا بدن خشک رہ گیا اور موزے پہن لئے اور قبل حدث کے اس جگہ کو دھوڈالا تو مسح جائز ہے اور اگر وہ جگہ اعضائے وضو میں دھونے سے رہ گئی تھی اور قبل دھونے کے حدث ہوا تو مسح جائز نہیں۔ (۶) مدّت کے اندر ہو اور اس کی مدت مقیم کے لئے ایک دن رات اور مسافر کے واسطے تین دن اور تین راتیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۳)۔
مسئلہ ۱۱: موزہ پہننے کے بعد پہلی مرتبہ جو حدث ہوا اس وقت اسے اس کا شمار ہے مثلاً صبح کے وقت موزہ پہنا اور ظہر کے وقت پہلی بار حدث ہوا تو مقیم دوسرے دن کی ظہر تک مسح کرے اور مسافر چوتھے دن کی ظہر تک۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۳)۔
مسئلہ ۱۲: مقیم کو ایک دن رات پورا نہ ہوا تھا کہ سفر کیا تو اب ابتدائے حدث سے تین دن تین راتوں تک مسح کر سکتا ہے اور مسافر نے اقامت کی نیت کرلی تو اگر ایک دن رات پورا کر چکا ہے مسح جاتا رہا اور پاؤں دھونا فرض ہو گیا۔ اور نماز میں تھا تو نماز جاتی رہی اور اگر چوبیس گھنٹے پورے نہ ہوئے تو جتنا باقی ہے پورا کر لے۔ (۷) کوئی موزہ پاؤں کی چھوٹی تین انگلیوں کے برابر پھٹا نہ ہو یعنی چلتے میں تین اُنگل بدن ظاہر نہ ہوتا ہو اور اگر تین انگلی پھٹا ہوا اور بدن تین اُنگل سے کم دکھائی دیتا ہے تو بھی مسح جائز ہے اور اگر دونوں تین تین اُنگل سے کم پھٹے ہوں اور مجموعہ تین اُنگل یا زیادہ ہے تو بھی مسح کر سکتا ہے۔ سلائی کھل جائے جب بھی یہی حکم ہے کہ ہر ایک میں تین انگلی سے کم ہے تو جائز ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسئلہ ۱۳: موزہ پھٹ گیا یا سیون کھل گئی اور ویسے پہنے رہنے کی حالت میں تین انگل پاؤں ظاہر نہیں ہوتا مگر چلنے میں تین انگل دکھائی دے تو اس پر مسح جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسئلہ ۱۴: ایسی جگہ پھٹی یا سیون کھلی کہ انگلیاں خود دکھائی دیں تو چھوٹی بڑی کا اعتبار نہیں بلکہ تین انگلیاں ظاہر ہوں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسئلہ۱۵: ایک موزہ چند جگہ سے کم از کم اتنا پھٹ گیا ہو کہ اس میں سو تالی جا سکے اور ان سب کا مجموعہ تین انگل سے کم ہے تو مسح جائز ہے ورنہ نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۵)۔
مسئلہ ۱۶: ٹخنے سے اوپر کتنا ہی پھٹا ہو اس کا اعتبار نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسح کا طریقہ:
یہ ہے کہ داہنے ہاتھ کی تین انگلیاں داہنے پاؤں کے سرے پر اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں بائیں پاؤں کی پشت پر رکھ کر پنڈلی کی طرف کم سے کم بقدر تین انگل کے کھینچ لی جائے اور سنّت یہ ہے کہ پنڈلی تک پہنچائے۔ (عالمگیری )
مسئلہ ۱۷: انگلیوں کا تر ہونا ضروری ہے ہاتھ دھونے کے بعد جو تری باقی رہ گئی اس سے مسح جائز ہے اور سر کا مسح کیا اور ہنوز ہاتھ میں تری موجود ہے تو یہ کافی نہیں بلکہ پھر نئے پانی سے ہاتھ تر کرے کچھ حصہ ہتھیلی کا بھی شامل ہو تو حرج نہیں۔
مسح کے فرائض:
مسئلہ ۱۸: مسح میں فرض د و ہیں:۔
(۱) ہر موزہ کا مسح ہاتھ کی چھوٹی تین انگلیوں کے برابر ہونا ہے۔
(۲) موزے کی پیٹھ پر ہونا۔
مسئلہ ۱۹: ایک پاؤں کا مسح بقدر دو انگلیوں کے کیا اور دوسرے کا چار انگل تو مسح نہ ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۲)۔
مسئلہ ۲۰: موزے کے تلے یا کروٹوں یا ٹخنے یا پنڈلی یا ایڑی پر مسح کیا تو مسح نہ ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۲)۔
مسئلہ ۲۱: پوری تین انگلیوں کے پیٹ سے مسح کرنا اور پنڈلی تک کھینچنا اور مسح کرتے وقت انگلیاں کھلی رکھنا سنت ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۲)۔
مسئلہ ۲۲: اگر ایک ہی انگلی سے تین بار نئے پانی سے ہر مرتبہ تر کرکے تین جگہ مسح کیا جب بھی ہو گیا مگر سنت ادا نہ ہوئی اور اگر ایک ہی جگہ مسح ہر بار کیا یا ہر بار تر نہ کیا تو مسح نہ ہوا۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۳)۔
مسئلہ ۲۳: انگلیوں کی نوک سے مسح کیا تو اگر ان میں اتنا پانی تھا کہ تین انگل تک برابر ٹپکتا رہا تو مسح ہوا ورنہ نہیں۔
مسئلہ ۲۴: موزے کی نوک کے پاس کچھ جگہ کہ وہاں پاؤں کا کوئی حصہ نہیں اس خالی جگہ کا مسح کیا تو مسح نہ ہوا اور اگر بہ تکلف وہاں تک انگلیاں پہنچا دیں اور اب مسح کیا تو ہو گیا مگر جب وہاں سے پاؤں ہٹے گا تو فوراً مسح جاتا رہے گا۔
مسئلہ ۲۵: مسح میں نہ نیت ضروری ہے نہ تین بار کرنا سنت ، ایک بار کر لینا کافی ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۶)۔
مسئلہ ۲۶: موزے پر پائتا بہ پہنا اور اس پائتا بہ پر مسح کیا گیا تو اگر موزے تک تری پہنچ گئی مسح ہو گیا ورنہ نہیں۔
مسئلہ ۲۷: موزے پہن کر شبنم میں چلایا اس پر پانی گر گیا یا مینہ کی بوندیں پڑیں اور جس جگہ مسح کیا جاتا ہے بقدر تین انگل کے تر ہو گیا تو مسح ہو گیا ہاتھ پھیرنے کی بھی حاجت نہیں۔
مسئلہ ۲۸: انگریزی بوٹ جوتے پر مسح جائز ہے اگر ٹخنے اس سے چھپے ہوں۔ عمامہ اور برقعہ اور نقاب اور دستانوں پر مسح جائز نہیں۔
مسح کن چیزوں سے ٹوٹتا ہے
مسئلہ ۱: (۱) جن چیزوں سے وضو ٹوٹتا ہے ان سے مسح بھی جاتا رہتا ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسئلہ ۲: (۲) مدت پوری ہوجانے سے مسح جاتا رہتا ہے اوراس صورت میں صرف پاؤں دھولینا کافی ہے پھر سے پورا وضو کرنے کی حاجت نہیں اور بہتریہ ہے کہ پورا وضو کرے۔
مسئلہ ۳: مسح کی مدت پوری ہو گئی اور قوی اندیشہ ہے کہ موزے اتارنے میں سردی کے سبب پاؤں جاتے رہیں گے تو نہ اتارے اور ٹخنوں تک پورے موزے کا (نیچے اوپر اغل بغل اور ایڑیوں پر) مسح کرے کہ کچھ نہ رہ جائے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسئلہ ۴: (۳) موزے اتار دینے سے مسح ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ ایک ہی اتارا ہو یونہی اگر ایک پاؤں آدھے سے زیادہ موزے سے باہر ہو جائے تو جاتا رہا۔ موزہ اتارنے یا پاؤں کا اکثر حصہ باہر ہونے میں پائوں کا وُہ حصہ معتبر ہے جو گٹوں سے پنجوں تک ہے پنڈلی کا اعتبار نہیں ان دونوں صورتوں میں پائوں کا دھونا فرض ہے۔
مسئلہ ۵: موزہ ڈھیلا ہے کہ چلنے میں موزے سے ایڑی نکل جاتی ہے تو مسح نہ گیا۔ ہاں،
(۵) اگر اتارنے کی نیتسے باہر کی تو پھر ٹوٹ جائے گا ۔(عالمگیری ج ۱ ص ۳۴)۔
مسئلہ ۲: موزے پہن کر پانی میں چلا کہ ایک پاؤں کا آدھے سے زیادہ حصہ دھل گیا یا اور کسی طرح سے موزے میں پانی چلا گیا اور آدھے سے زیادہ پاؤں دھل گیا تو مسح جاتا رہا۔
مسئلہ ۷: پائتا بوں پر اسی طرح مسح کیا کہ مسح کی تری موزوں تک پہنچی تو پائتا بوں کے اتارنے سے مسح نہ جائے گا۔
مسئلہ ۸: اعضائے وضو اگر پھٹ گئے ہوں یا ان میں پھوڑا یا اور کوئی بیماری ہو اور ان پر پانی بہانا ضرر کرتا ہو تو یا تکلیف شدید ہو تو بھیگا ہاتھ پھیر لینا کافی ہے اور اگر یہ بھی نقصان کرتا ہو تو اس پر کپڑا ڈال کر کپڑے پر مسح کرے اور جو یہ بھی مضر ہو تو معاف ہے اور اگر اس میں کوئی دوا بھر لی تو اس کا نکالنا ضروری نہیں اس پر سے پانی بہادینا کافی ہے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۵)۔
مسئلہ ۹: کسی پھوڑے یا زخم یا فصد کی جگہ پر پٹی باندھی ہو کہ اس کو کھول کر پانی بہانے سے یا اس جگہ مسح کرنے سے یا کھولنے سے ضرر ہو یا کھولنے والا باندھنے والا نہ ہو تو اس پٹی پر مسح کر لے اور اگر پٹی کھول کر پانی بہانے میں ضرر نہ ہو تو دھونا ضروری ہے یا خود عضو پر مسح کر سکتے ہوں تو پٹی کرنا جائز نہیں اور زخم کے گرد اگرد پانی بہانا ضرر نہ کرتا ہو تو دھونا ضروری ہے ورنہ اس پر مسح کر لیں اور اگر اس پر بھی مسح نہ کر سکتے ہوں تو پٹی پر مسح کر لیں اور پوری پٹی پر مسح کر لیں تو بہتر ہے اور اکثر حصہ پر ضروری ہے اور ایک بار مسح کافی ہے تکرار کی حاجت نہیں اور اگر پٹی پر بھی مسح نہ کر سکتے ہوں تو خالی چھوڑ دیں جب اتنا آرام ہو جائے کہ پٹی پر مسح کرنا ضرر نہ کرے تو فوراً مسح کر لیں پھر جب اتنا آرام ہو جائے کہ پٹی پر سے پانی بہانے میں نقصان نہ ہو تو پانی بہائیں پھر جب اتنا آرام ہو جائے خاص عضو پر مسح کر سکتا ہو تو فوراً مسح کرلے پھر جب اتنی صحت ہو جائے کہ عضو پر پانی بہا سکتا ہو تو بہائے غرض اعلیٰ پر جب قدرت حاصل ہو اور جتنی حاصل ہوتی جائے ادنیٰ پر اکتفا جائز نہیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۵)۔
مسئلہ ۱۰: ہڈی کے ٹوٹ جانے سے تختی باندھی گئی ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
مسئلہ ۱۱: تختی یا پٹی کھل جائے اورہنوز باندھنے کی حاجت ہو تو پھر دوبارہ مسح نہیں کیا جائے گا وہی پہلا مسح کافی ہے اور جو پھر باندھنے کی ضرورت نہ ہو تو مسح ٹوٹ گیا اور اب اس جگہ کو دھو سکیں تو دھو لیں ورنہ مسح کر لیں۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۳۶)۔