الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ اگر کسی حاجی کو منی میں غلطی سے خون نکل ائے توکیاحکم ہوگا؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : صورت مسؤلہ میں حاجی پرکچھ لازم نہیں ائے گاکیونکہ کفارہ لازم ہونے کی کوئی وجہ نہیں ،البتہ اگرخون بہہ کر جسم کے اس حصے کی طرف ایا کہ جس کادھونا وضویاغسل میں فرض ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے : عن عمر بن عبد العزیز عن تمیم الداری ، قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الوضوء من کل دمٍ
سائلٍ.رواھما الدارقطنی وقال : عمر بن عبد العزیز لم یسمع من تمیمٍ الداری ولا راہ و یزید بن خالد ویزید بن محمد مجہولان۔( ) یعنی،حضرت عمر بن عبدالعزیزحضرت تمیم داری سے روایت کرتے ہیں : انہوں نے کہاکہ رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا ہے : ہر بہنے والے خون سے وضو لازم اتاہے ،ان دونوں کوامام دارقطنی نے روایت کیاہے ،اورکہا کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزنے تمیم داری سے نہ سناہے اورنہ ہی انہیں دیکھاہے اور یزید بن خالد اور یزید بن محمددونوں مجہول راوی ہیں ۔ اس کے تحت ملاعلی بن سلطان قاری حنفی متوفی١٠١٤ھ لکھتے ہیں : ای : الی ما یجب تطہیرہ کما ہو مذہب ابی حنیفۃ۔( ) یعنی،مرادیہ ہے کہ بہنے والاخون اس جگہ کی طرف اجائے کہ جس کا پاک کرنا واجب ہے جیساکہ امام اعظم ابو حنیفہ کا مذہب ہے ۔ اورشیخ محقق عبدالحق محدث دہلوی حنفی متوفی1052ھ لکھتے ہیں : وضوواجب ست ازہرخون روان ایں حکم نیزمخصوص بمذہب حنفی ست ونزدائمہ ثلاثہ ناقض ہماں ست کہ بیرون ایدازیکے دو راہ بول وغائط معتادباشدیاغیرمعتادوحجت مااین حدیث ست وروایت کردہ است انراابن عدی درکامل اززیدبن ثابت ودارقطنی درروے سخن کردہ چنانکہ گفت. رواہما الدارقطنی وقال عمربن عبدالعزیز لم یسمع من تمیم الداری ولاراہ،روایت کرداین حدیث راوحدیث سابق رادارقطنی وگفت عمربن
عبدالعزیزاموی خلیفہ مشہورنشنیدہ است حدیث ازتمیم داری کہ ازصحا بہ است وندیدہ است اورازیراکہ وفات تمیم داری در زمان خلافت امیرالمؤمنین علی[رضی اللہ تعالیٰ عنہ]ست وولادت عمربن عبدالعزیزدرسنۃ سبع
وخمسین،ویزیدبن خالدویزیدبن محمدمجہولان،ویزیدبن خالد و یزید بن محمد کہ ازرواۃ این حدیث اندمجہول اندو جواب ان ست کہ حدیث مرسل نزدمامقبول ست و در جہالت ایں دوراوی مذکوراختلاف ست واللہ اعلم( ) یعنی، ہر بہنے والے خون سے وضو لازم اتاہے ،یہ حکم حنفی مذہب ہی کے ساتھ مخصوص ہے اورائمہ ثلاثہ کے نزدیک اس چیزسے وضوٹوٹتاہے کہ جوپیشاب یاپاخانے کے مقام سے خارج ہوخواہ نکلنے والی چیزعادۃً ہویا غیرعادۃً اورہماری دلیل یہ حدیث ہے اوراس حدیث کوابن عدی نے "‘کامل”( ) میں (حضرت زیدبن ثابت )سے روایت کیا ہے اور امام دارقطنی نے اس میں کلام فرمایاہے جیساکہ مؤلف نے گفتگوکی ہے کہ ان دونوں کوامام دارقطنی نے روایت کیاہے اورفرمایاکہ عمربن
عبدالعزیز() نے حضرت تمیم داری سے نہ سماعت کی ہے اورنہ ہی ان کی زیارت کی ہے اس حدیث اورپچھلی حدیث کوامام دارقطنی نے روایت کیاہے
اورگفتگوفرمائی ہے کہ حضرت سیدناعمربن عبدالعزیز اموی مشہور خلیفہ ہیں ،انہوں نے یہ حدیث صحابی رسول حضرت تمیم داری سے نہ سماعت کی ہے اورنہ ہی ان کی زیارت کی ہے کیونکہ حضرت تمیم داری توحضرت علی کے زمانہ خلافت ہی میں وفات پاچکے تھے ،جبکہ حضرت سیدنا عمربن عبد العزیز کی ولادت سن57ھ میں ہوئی ہے ( ) اس حدیث کے راویوں میں یزیدبن خالد اوریزیدبن محمدمجہول ہیں ،اس کاجواب یہ ہے کہ’’مرسل‘‘ حدیث عندالاحناف مقبول ہے ،نیزان دونوں راویوں کی جہالت میں بھی اختلاف مذکورہے واللہ اعلم۔ اورمفتی احمدیارخان نعیمی متوفی١٣٩١ھ/١٩٧١م لکھتے ہیں : یعنی جو خون بہہ کرجسم کے اس حصہ کی طرف اجائے جس کادھونا غسل میں فرض ہے وہ ناقض وضوہے ۔یہ حدیث امام اعظم کی دلیل ہے کہ خون وضو توڑتا ہے ۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کے خلاف ہیں ۔مصنف نے اس حدیث پر دواعتراض کئے ایک یہ کہ یہ حدیث مرسل ہے کہ بیچ میں ایک راوی چھوٹ گیا ہے دوسرے یہ کہ اس کی اسناد میں دوراوی مجہول ہیں مگرخیال رہے کہ حنفیوں کے نزدیک حدیث مرسل قابل عمل ہے ۔نیز حنفیوں کے اس مسئلے کا مدار صرف اس حدیث پر نہیں ،بلکہ بخاری،ابن ماجہ، ترمذی، طبرانی، موطا امام
مالک،ابوداؤدوغیرہم کی بہت سی احادیث پرہے چنانچہ بخاری میں ہے کہ حضور(ﷺ)نے فاطمہ بنت ابی حبیش سے فرمایاکہ جب تمہارے حیض کازمانہ نکل جائے تواستحاضہ کے زمانہ میں ہر نمازکیلئے نیاوضو کرواگرخون وضو نہیں توڑتاتواستحاضہ والی عورت معذورکیوں قراردی گئی نیز ابوداؤد،ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور(ﷺ)فرماتے ہیں اگرنماز میں کسی کی نکسیر پھوٹ جائے تونماز چھوڑ کر وضو کرے ، پھر نماز پوری کرے اس کی پوری تحقیق ہماری کتاب ”جاء الحق”حصہ دوم میں دیکھو، خیال رہے کہ بہتاخون بحکم قران نجاست ہے اورنجاست کانکلناوضو توڑتا ہے ۔ایسی صحیح مرفوع حدیث فقیر کی نظر سے نہ گزری جس میں ہوکہ خون ناقض وضو نہیں ۔( ) واللہ تعالیٰ اعلم یوم السبت ،١٥ذوالحجۃ١٤٤٠ھ۔١٧،اغسطس٢٠١٩م