ARTICLESشرعی سوالات

منیٰ روانگی سے قبل حج کی سعی کرنا جائز ہے

استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کل آپ سے تربیت حج کے بیان میں ہم نے سُنا ہے کہ احرام کے بعد منی روانہ ہونے سے قبل اگر کوئی شخص نفلی طواف کے بعد سعی کر لے تو طوافِ زیارت کے بعد سعی کی ضرورت نہیں ، صرف طوافِ زیارت کر لینا کافی ہے ، میں نے یہ مسئلہ اپنے بہنوئی سے اور والدہ وغیرہ سے بیان کیا تو بہنوئی کہنے لگے کہ یہ ان لوگوں نے خود بنا لیا ہے ، برائے مہربانی اس پر کچھ روشنی ڈالئے تاکہ اس کے لئے جواب ہو جائے ۔

(السائل : ایک حاجی از لبیک حج گروپ، مکہ مکرمہ)

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : مسئلہ وہی ہے جو میں نے بیان کیا اس وقت چند کُتُب کے سوا میرے پاس کوئی کتاب موجود نہیں ہے جو موجود ہیں ان کی مدد سے اس مسئلہ کو واضح کر دیتا ہوں ، چنانچہ فقہائِ احناف میں سے مناسکِ حج کے ماہر فقیہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان حنفی متوفی 597ھ مناسکِ حج پر اپنی کتاب میں لکھتے ہیں :

و إذا أراد المحرم بالحج من مکۃ أن یطوف و یسعی قبل أن یأتی منی، و یقدم السعی علی طواف الإفاضۃ بعد طواف تطوّع جاز ذلک

یعنی، اور مکہ سے حج کا احرام باندھنے والا چاہے کہ وہ منی جانے سے قبل طواف و سعی کر لے اور طواف زیارت کی سعی (طواف زیارت سے پہلے ) نفلی طواف کے بعد کر لے تو جائز ہے ۔ منی روانگی سے قبل جوازِ سعی کے تو امام شافعی بھی قائل ہیں چنانچہ علامہ کرمانی لکھتے ہیں :

و عند الشافعی رحمہ اللہ أیضاً یجوز ذلک (16)

یعنی، امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک بھی وہ جائز ہے ۔ علّامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی 993ھ اور ملا علی قاری حنفی متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :

(ثم إن أراد) أی المکی و من بمعناہ (تقدیم السعی علی طواف الزیارۃ) أی مع أن الأصل فی السعی أن یکون عقیبہ، لمناسبۃ تأخیر الواجب عن الرکن، إلا أنہ رخص تقدیمہ فی الجملۃ بعلّۃ الزحمۃ فحینئذ (یتنفل بطواف) لأنہ لیس للمکی و من فی حکمہ طواف القدوم الذی ہو سنّۃ للآفاقی، فیأتی المکی بطواف نفل (بعد الإحرام بالحج) لیصح سعیہ الخ (17)

یعنی، پھر اگر مکی اور وہ جو مکی کے حکم میں ہے طوافِ زیارت سے قبل سعی کرنا چاہے یعنی باوجود اس کے کہ واجب کے رُکن سے مؤخّر ہونے کی مناسبت سے اصل یہ ہے کہ وہ طواف کے بعد ہو، مگر علِّت ازدحام کے سبب فی الجملہ سعی کو مقدم کرنے کی رخصت دی گئی، تو اس وقت وہ نفلی طواف کرے گا کیونکہ مکی اور جو مکی کے حکم میں ہے اس کے لئے طواف قدوم نہیں ہے جو کہ آفاقی کے لئے سنّت ہے ، پس مکی احرام باندھنے کے بعد نفلی طواف کرے تاکہ اس کی سعی درست ہو جائے ۔ اور مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی حنفی متوفی 1174ھ مناسک حج پر لکھی ہوئی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں :

و لہٰذا گفتہ اند کہ اگر مکی احرام حج بستہ است و می خواہد کہ تقدیم کند سعی را قبل از طوافِ زیارت بواسطہ خوف ازدحام خلق در وقت طوافِ زیارت پس باید کہ او طوافے کند بطریق نفل تا صحیح افتد سعی بعد از وی زیر انکہ در حق مکی قدوم نیست پس تقدیم کند طواف نفل را بر سعی و سنّت باشد کہ رمل کند و اصطباع کند درین طواف پس شروع نماید در سعی (18)

یعنی، اس لئے فرمایا ہے کہ اگر مکی (اور جو مکی کے حکم میں ہے یعنی متمتع) حج کا احرام باندھ کر وہ چاہتا ہے کہ طوافِ زیارت کی سعی پہلے کر لے اس لئے کہ طوافِ زیارت کے وقت لوگوں کے ازدحام کا خوف ہے تو اسے چاہئے کہ نفلی طواف کرے تاکہ اس کے بعد اس کی سعی صحیح ہو جائے کیونکہ مکی کے حق میں طوافِ قدوم نہیں ہے ، اس لئے وہ پہلے نفلی طواف کرے اس کے بعد سعی اور سنّت یہ ہے کہ اس طواف میں رمل اور اضطباع کرے ، پھر سعی کرے ۔ اور امام اہلسنّت امام احمد رضا متوفی 1340ھ لکھتے ہیں :

مفرد و قارن تو حج کی رمل و سعی سے طواف قدوم میں فارغ ہولئے ، مگر متمتع نے جو طواف و سعی کئے وہ عمرے کے لئے ، حج کے رمل و سعی اس سے ادا نہ ہوئے ، اس (یعنی متمتع)پر طوافِ قدوم ہے نہیں کہ قارن کی طرح اس میں یہ امور کر کے فراغت پا لے ۔ لہٰذا اگر وہ بھی پہلے سے فارغ ہو لینا چاہے تو جب حج کا احرام باندھے گا، اس کے بعد ایک نفل طواف میں رمل و سعی کے کرے ، اب اُسے طوافِ زیارت میں ان کی حاجت نہ ہو گی۔(19)

واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب

یوم الأربعاء ،14 ذوالحجۃ 1427ھ، 3 ینایر 2007 م (341-F)

حوالہ جات

16۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی فی بیان نسک الحج الخ، فصل ،1/482

17۔ الباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المسنک المتوسط،باب الخطبۃ یوم السابع وخروج …الخ، فصل فی إحرام الحاج من مکۃ المشرفۃ، ص207

18۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب چہارم دربیان سعی بین الصفا و المروۃ، فصل اول در بیا ن شرائط صحت سعی، ص157

19۔ فتاویٰ رضویۃ،انوار البشارۃ (احکامِ حج)، 10/744

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button