منفرد کا فرضوں کی جماعت پانا
حدیث ۱،۲: امام مالک و نسائی روایت کرتے ہیں کہ ایک صحابی محجن نامی رضی اللہ تعالی عنہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ ایک مجلس میں حاضر تھے اذان ہوئی حضور کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی وہ بیٹھے رہ گئے ارشاد فرمایا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے کیا چیز مانع ہوئی کیا تم مسلمان نہیں ۔ عرض کی یا رسول اللہ ہوں تو مگر میں نے گھر پڑھ لی تھی ارشاد فرمایا جب نماز پڑھ کر مسجد میں آئو اور نماز قائم کی جائے تو لوگوں کے ساتھ پڑھ لو اگرچہ پڑھ چکے ہو اسی کے مثل یزید بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کا واقعہ ہے جو ابودائود میں مروی ہے۔
حدیث ۳: امام مالک نے روایت کی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما فرماتے ہیں جو مغرب یا صبح کی نماز پڑھ چکا ہے پھر جب امام کے ساتھ پائے اعادہ نہ کرے۔
مسئلہ ۱: تنہا فرض نماز شروع ہی کی تھی یعنی ابھی پہلی رکعت کا سجدہ نہ کیا تھا کہ جماعت قائم ہوئی تو توڑکر جماعت میں شامل ہو جائے۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۶۷،۶۶۶،۶۶۵)
مسئلہ ۲: فجر یا مغرب کی نماز ایک رکعت پڑھ چکا تھا کہ جماعت قائم ہوئی تو فوراً نماز توڑ کر جماعت میں شامل ہو جائے اگرچہ دوسری رکعت پڑھ رہا ہو البتہ دوسری رکعت کا سجدہ کر لیا تو اب ان دو نمازوں میں توڑنے کی اجازت نہیں اور نماز پوری کرنے کے بعد بہ نیت نفل بھی ان میں شریک نہیں ہو سکتا کہ فجر کے بعد نفل جائز نہیں اور مغرب میں اس وجہ سے کہ تین رکعتیں نفل کی نہیں اور مغرب میں اگر شامل ہو گیا تو برا کیا امام کے سلام پھیرنے کے بعد ایک رکعت اور ملا کر چار کرے اور اگرامام کے ساتھ سلام پھیر دیا تو نماز فاسد ہو گئی چار رکعت قضا کرے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۹)
مسئلہ ۳: مغرب پڑھنے والے کے پیچھے نفل کی نیت سے شامل ہو گیا۔ امام نے چوتھی رکعت کو تیسری گمان کیا اور کھڑا ہو جس مقتدی نے اس کا اتباع کیا اس کی نماز فاسد ہو گئی تیسری پر امام نے قعدہ کیا ہو یا نہیں ۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۹)
مسئلہ ۴: چار رکعت والی نماز شروع کر کے ایک رکعت پڑھ لی یعنی پہلی رکعت کا سجدہ کر لیا تو واجب ہے کہ ایک اور پڑھ لے اور توڑ دے کہ یہ دو رکعتیں نفل ہو جائیں اور دو پڑھ لی ہیں تو ابھی توڑ دے یعنی تشہد پڑھ کر سلام پھیر دے اور تین پڑھ لی ہیں تو واجب ہے کہ نہ توڑے۔ توڑے گا تو گناہگار ہو گا بلکہ حکم یہ ہے کہ پوری کر کے نفل کی نیت سے جماعت میں شامل ہو۔ جماعت کا ثواب پالے گا مگر عصر میں شامل نہیں ہو سکتا کہ عصر کے بعد نفل جائز نہیں ۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۸،۶۶۷)
مسئلہ ۵: جماعت قائم ہونے سے مؤذن کا تکبیر کہنا مراد نہیں بلکہ جماعت شروع ہو جانا مراد ہے۔ مؤذن کے تکبیر کہنے سے قطع نہ کرے گا اگرچہ پہلی رکعت کا ہنوز سجدہ نہ کیا ہو۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۶)
مسئلہ ۶: جماعت قائم ہونے سے نماز قطع کرنا اس وقت ہے کہ جس مقام پر یہ نماز پڑھتا ہو وہیں جماعت قائم ہو اگر یہ گھر میں نماز پڑھتا ہے اور مسجد میں جماعت قائم ہوئی یا ایک مسجد میں یہ پڑھتا ہے دوسری مسجد میں جماعت قائم ہوئی تو توڑنے کا حکم نہیں اگرچہ پہلی کا سجدہ کیا ہو ۔(ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۶)
مسئلہ ۷: نفل شروع کئے تھے اور جماعت قائم ہوئی تو قطع نہ کرے بلکہ دو رکعت پوری کر لے اگرچہ پہلی کا سجدہ بھی نہ کیا ہو اور تیسری پڑھتا ہو تو چار پوری کرے۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۸)
مسئلہ ۸: جمعہ اور ظہر کی سنتیں پڑھنے میں خطبہ یا جماعت شروع ہوئی تو چار پوری کرلے۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۶۸)
مسئلہ ۹: سنت یا قضا نماز شروع کی اور جماعت قائم ہوئی تو پوری کرکے شامل ہو ہاں قضا شروع کی اگر بعینہٖ اسی قضا کے لئے جماعت قائم ہوئی تو توڑ کر شامل ہو جائے۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۵)
مسئلہ ۱۰: نماز توڑنا بغیر عذر ہو تو حرام ہے اور مال کے تلف کا اندیشہ ہو تو مباح اور کامل کرنے کے لئے ہو تو مستحب ہے اور جان بچانے کے لئے ہو تو واجب۔ (ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۶)
مسئلہ ۱۱: نماز توڑنے کے لئے بیٹھنے کی حاجت نہیں کھڑا کھڑا ایک طرف سلام پھیر کر توڑ دے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۱۹)
مسئلہ ۱۲: جس شخص نے نماز نہ پڑھی ہو اسے مسجد سے اذان کے بعد نکلنا مکروہ تحریمی ہے ابن ماجہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہ حضور ﷺ نے فرمایا اذان کے بعد جو مسجد سے چلا گیا اور کسی حاجت کے لئے نہیں گیا اور نہ واپس ہونے کا ارادہ ہے وہ منافق ہے امام بخاری کے علاوہ جماعت محدثین نے روایت کی کہ ابوالشعشا کہتے ہیں ہم ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ مسجد میں تھے جب مؤذن نے عصر کی اذان کہی اس وقت ایک شخص چلا گیا اس پر فرمایا کہ اس نے ابوالقاسم ﷺ کی نافرمانی کی۔ (درمختار ، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۹،۶۶۸)
مسئلہ ۱۳: اذان سے مراد وقت نماز ہو جانا ہے خواہ ابھی اذان ہو یا نہیں ۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۶۹)
مسئلہ ۱۴: جو شخص کسی دوسری مسجد کی جماعت کا منتظم ہو مثلاً امام یا مؤذن ہو کہ اس کے ہونے سے لوگ ہوتے ہیں ورنہ متفرق ہو جاتے ہیں ایسے شخص کو اجازت ہے کہ یہاں سے اپنی مسجد میں چلا جائے اگرچہ یہاں اقامت بھی شروع ہو گئی مگر جس مسجد کا منتطم ہے اگر وہاں اذان ہو چکی تو اب یہاں سے جانے کی اجازت ہے جب کہ ظن غالب ہو کہ جماعت سے پہلے واپس آجائیگا۔ (درمختار، ردالمحتار ج ۱ ص ۶۶۹)
مسئلہ ۱۵: جس نے ظہر یا عشاء کی نماز تنہا پڑھ لی ہو اسے مسجد سے چلے جانے کی اجازت کی ممانعت اس وقت ہے کہ اقامت شروع ہو گئی اقامت سے پہلے جا سکتا ہے اور جب اقامت شروع ہو گئی تو حکم ہے کہ جماعت میں بہ نیت نفل شریک ہو جائے اور مغرب و فجر و عصر میں اسے حکم ہے کہ مسجد سے باہر چلا جائے جب کہ پڑھ لی ہو۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۶۹،۶۷۰)
مسئلہ ۱۶: مقتدی نے دو سجدے کئے اور امام ابھی پہلے ہی میں تھا تو دوسرا سجدہ نہ ہوا۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۷۶)
مسئلہ ۱۷: چار رکعت والی نماز میں جسے ایک رکعت امام کے ساتھ ملی تو اس نے جماعت نہ پائی۔ اس کو جماعت کا ثواب ملے گا اگرچہ قعدۂ اخیرہ میں شامل ہوا ہو بلکہ جسے تین رکعتیں ملیں اس نے بھی جماعت نہ پائی جماعت کا ثواب ملے گا مگر جس کی کوئی رکعت جاتی رہی اسے اتنا ثواب نہ ملے گا جتنا اول سے شریک ہونے والے کو ہے اس مسئلہ کا محصل یہ ہے کہ کسی نے قسم کھائی فلاں نماز جماعت سے پڑھے گا اور کوئی رکعت جاتی رہی تو قسم ٹوٹ گئی کفارہ دینا ہو گا تین اور دو رکعت والی نماز میں بھی ایک رکعت نہ ملی تو جماعت نہ ملی اور لاحق کا حکم پوری جماعت پانے والے کا ہے۔ (درمختار، رالمحتار ج ۱ ص ۶۷۴،۶۷۳)
مسئلہ ۱۸: امام رکوع میں تھا کسی نے اس کی اقتداء کی اور کھڑا رہا یہاں تک کہ امام نے سر اٹھالیا تو وہ رکعت نہیں ملی لہذا امام کے فارغ ہونے کے بعد اس رکعت کو پڑھ لے اور اگر امام کو قیام میں پایا اور اس کے ساتھ ہو لیا پھر امام کے فارغ ہونے کے بعد رکوع کیا تو بھی ہو جائے گی مگر بوجہ ترک واجب گناہگار ہوا۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۷۵)
مسئلہ ۱۹: اس کے رکوع کرنے سے پیشتر امام نے سر اٹھالیا کے اسے رکعت نہ ملی تو اس صورت میں نماز توڑ دینا جائز نہیں جیسا بعض جاہل کرتے ہیں بلکہ اس پر واجب ہے کہ سجدہ میں امام کی متابعت کرے اگرچہ سجدے رکعت میں شمار نہ ہوں گے۔ یونہی اگر سجدہ میں ملا جب بھی ساتھ دے پھر بھی اگر سجدے نہ کئے تو نماز فاسد نہ ہو گی یہاں تک کہ اگر امام کے سلام کے بعد اس نے اپنی رکعت پڑھ لی نماز ہو گئی مگر ترک واجب کا گناہ ہوا۔ (درمختار ج ۱ ص ۶۷۶)
مسئلہ ۲۰: امام سے پہلے رکوع کیا مگر اس کے سر اٹھانے سے پہلے امام نے بھی رکوع کیا تو رکوع ہو گیا بشرطیکہ اس نے اس وقت رکوع کیا ہو کہ امام بقدر فرض قرأت کر چکا ہو ورنہ رکوع نہ ہوا اور اس صورت میں امام کے ساتھ یا بعد اگر دوبارہ رکوع کر لے گا ہو جائے گی ورنہ نماز جاتی رہی اور امام سے پہلے رکوع خواہ کوئی رکن ادا کرنے میں گناہگار بہرحال ہو گا۔ (درمختار، ردادلمحتار ج ۱ ص ۶۷۵،۶۷۶)
مسئلہ ۲۱: امام رکوع میں تھا اور یہ تکبیر کہہ کر جھکا تھا کہ امام کھڑا ہو گیا تو اگر حد رکوع میں مشارکت ہو گئی اگرچہ قلیل تو رکعت مل گئی۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۰)
مسئلہ ۲۲: مقتدی نے تمام رکعتوں میں رکوع و سجود امام سے پہلے کیا تو سلام کے بعد ضروری ہے کہ ایک رکعت بغیر قرات پڑھے نہ پڑھی تو نماز نہ ہوئی اور اگر امام کے بعد رکوع و سجود کیا تو نماز ہو گئی اور اگر رکوع پہلے کیا اور سجدہ ساتھ تو چاروں رکعتیں بغیر قرأت پڑھے اور اگر رکوع ساتھ کیا اور سجدہ پہلے تو دو رکعت بعد میں پڑھے۔ (عالمگیری ج ۱ ص ۱۳۱،۱۳۰)
یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔