مندروں اور گر جوں کی تعمیر کے لیے مسلمانوں کا غیر مسلموں کو ماربل وغیرہ سپلائی کرنا
بت بنانا یا اسے فروخت کرنا ناجائز ہے
جس چیز سے ان کے کفر و شرک میں براہ راست تعاون نہیں اس کی بیع جائز ہے
سوال:
اجمیر شریف (انڈیا) کے قرب و جوار میں مکرانہ نام کا ایک مشہور علاقہ ہے وہاں کے اکثر مسلمانوں کا آباء و اجداد سے پیشہ سنگ مرمر کا ہے۔ وہاں کے لوگ (یعنی مسلمان) مساجد، مزارات، مند ر اور گر جے وغیرہ اور عمارات میں ماربل سپلائی اور فٹنگ کا کام کرتے ہیں ۔ان مسلمانوں کا فقط یہی ذریعہ معاش ہے علاوہ ازیں اور کوئی روزی کمانے کا ذریعہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان ٹھیکیدار کو ایک مندر بنانے کا ٹھیکہ ملا ہے جس میں تمام کام سنگ مرمر کا ہے اس میں قسم قسم کے نقش و نگار پھول پتیاں اور مورتی وغیرہ بنانا ہے۔ نقش و نگار وغیرہ میں ہندوؤں کے دیوتاؤں کے نام وغیرہ اور مورتی وغیرہ بنانا شامل ہے۔ مسلمان ٹھیکیدار مورتی وہاں کے ہند و کاریگروں سے بناتے ہیں نام وغیرہ بھی وہ خود ہی تحریر کرتے ہیں مسلمان کاریگر عمارت (یعنی مندر) کی وہ جگہ خالی چھوڑ دیتے ہیں جہاں مورتی نصب کی جاتی ہے وہاں ہندو ہی مورتی لگاتے ہیں، مسلمان فقط ماربل لگاتے ہیں۔
اب در یافت طلب امور یہ ہیں کہ:
- کیا مسلمان ہند و کاریگر سے مورتی بنوا کر فروخت کر سکتا ہے؟
یادر ہے کہ مسلمانوں کے ذریعہ معاش کا انحصار اسی پر ہی ہے۔
جواب:
بنیادی طور پر یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ گناہ کے کام پر کسی کے ساتھ تعاون کرنا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: ” ولا تعاونوا على الاثم والعدوان ‘‘(المائدہ:۲) گناہ اور سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو۔ اس آیت مبارکہ کی روشنی میں فقہاء اسلام نے متعدد ایسے مسائل بیان کئے ہیں جن میں گناہ پر معاونت کی وجہ سے ناجائز ہو نے کا حکم ہے ۔ ( تفصیل کتب فقہ میں کتاب الاجارہ وغیرہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے)
مورتی بنانا یا اسے فروخت کرنا بھی اسی بناء پر جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں گناہ پر معاونت واضح ہے۔ البتہ مندروں میں مسلمانوں کا نقش و نگاری کرنا یا ہندوؤں کو ماربل وغیرہ سپلائی کرنا اس میں شرعا حرج نہیں ہے۔ کیونکہ یہ ان کے کفر و شرک میں براہ راست تعاون نہیں ہے۔ براہ راست تعاون اس صورت میں لازم آتا ہے جب ہندوؤں کی پوجا پاٹ ہندوؤں کی نقش و نگاری پر موقوف ہو یا ماربل صرف مندروں اور گر جوں میں لگائے جاتے ہوں اور ماربل کے لگنے پران کی مشرکانہ رسوم کا دار و مدار ہو جب کہ فی الواقع ایسا نہیں ہے۔
(انوار الفتاوی، صفحہ430،فرید بک سٹال لاہور)