بہار شریعت

منت کے متعلق مسائل

منت کے متعلق مسائل

اللہ تعالی فرماتا ہے :۔

وما انفقتم من نفقۃٍ اونذرتم من نذر فان اللہ یعلمہٗ وماللظمین من انصارٍ ۵

(جوکچھ تم خرچ کرویا منت مانو اللہ اس کوجانتا ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں )

اور فرماتا ہے :۔

یو فون بالنذر ویخافون یومًا کان شر ہٗ مستطیرًا ۵

( نیک لوگ وہ ہیں جو اپنی منت پوری کرتے ہیں اور اس دن سے ڈرتے ہیں جس کی برائی پھیلی ہوئی ہے)

حدیث۱: امام بخاری و امام احمد و حاکم ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے راوی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو یہ منت مانے کہ اللہ کی اطاعت کریگا تو اس کی اطاعت کرے یعنی منت پوری کرے اورجو اس کی نافرمانی کرنے کی منت مانے تو اس کی نافرمانی نہ کرے یعنی اس منت کو پورانہ کرے۔

حدیث۲: صحیح مسلم شریف میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی کہ حضور ﷺنے فرمایا اس منت کو پورانہ کرے جو اللہ کی نافرمانی کے متعلق ہو اورنہ اس کو جس کابندہ مالک نہیں ۔

حدیث۳: ابودائود ثابت بن ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں منت مانی تھی کہ بوانہ میں ایک اونٹ کی قربانی کرے گا حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس نے دریافت کیا ارشاد فرمایا کیا وہاں جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت ہے جس کی پرستش کی جاتی ہے لوگوں نے عرض کی نہیں ۔ ارشاد فرمایا کیا وہاں جاہلیت کی عیدوں میں سے کوئی عید ہے لوگوں نے عرض کی نہیں ۔ارشاد فرمایا اپنی منت پوری کر اس لیے کہ معصیت کے متعلق جو منت ہے اس کو پور ا نہ کیا جائے اورنہ وہ منت جس کا انسان مالک نہیں ۔

حدیث۴: نسائی نے عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کی کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ منت دوقسم ہے جس نے طاعت کی منت مانی وہ اللہ کے لئے ہے اوراسے پوراکیا جائے اورجس نے گناہ کرنے کی منت مانی وہ شیطان کے سبب سے ہے اسے پورا نہ کیا جائے۔

حدیث۵: صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ حضور اقدس ﷺ خطبہ فرمارہے تھے کہ ایک شخص کو کھڑا ہوا دیکھا اس کے متعلق دریافت کیا لوگوں نے عرض کی یہ ابواسرائیل ہے اس نے منت مانی ہے کہ کھڑا رہے گا بیٹھے گا نہیں اور اپنے اوپر سایہ نہ کریگا اور روزہ رکھے گا۔ ارشاد فرمایا کہ اسے حکم کردو کہ کلام کرے اورسایہ میں جائے اور بیٹھے اوراپنے روزہ کو پورا کرے۔

حدیث۶: ابودائود وترمذی و نسائی ام المؤمنین صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ گناہ کی منت نہیں (یعنی اس کا پورا کرنا نہیں ) اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔

حدیث۷: ابودائود وابن ماجہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے راوی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے کوئی منت مانی اور اسے ذکرنہ کیا (یعنی فقط اتنا کہا کہ مجھ پر نذر ہے اور کسی چیز کو معین نہ کیا مثلاً یہ نہ کہا کہ اتنے روزے رکھونگا یااتنی نماز پڑھوں گا یا اتنے فقیر کھلائوں گا وغیرہ وغیرہ) تو اس کا کفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ اور جس نے گناہ کی منت مانی تواس کا کفارہ ہے۔ اور جس نے ایسی منت مانی جس کی طاقت نہیں رکھتا تو اسکاکفارہ قسم کا کفارہ ہے۔ اور جس نے ایسی منت مانی جس کی طاقت رکھتا ہے تو اسے پورا کرے۔

حدیث۸: صحاح ستہ میں ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالی نے نبی ﷺ سے فتوی پوچھا کہ ان کی ماں کے ذمہ منت تھی اور پوری کرنے سے پہلے ان کا انتقال ہوگیا حضور نے فتوی دیا کہ یہ اسے پورا کریں ۔

حدیث۹: ابودائود و دارمی جابربن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے فتح مکہ کے دن حضور اقدس ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یارسول اللہ ﷺ میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالی آپ کے لئے مکہ فتح کرے گا تو میں بیت المقدس میں دورکعت نماز پڑھوں گا انھوں نے ارشاد فرمایا کہ یہیں پڑھ لو۔ دوبارہ پھر اس نے وہی سوال کیا فرمایا کہ یہیں پڑھ لو۔ پھرسوال کا اعادہ کیا حضور ﷺنے جواب دیا اب تم جو چاہو کرو۔

حدیث ۱۰: ابودائود ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما روایت کرتے ہیں کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کی بہن نے منت مانی تھی کہ پیدل حج کرے گی اوراس میں اس کی طاقت نہ تھی حضور نے ارشاد فرمایا کہ تیری بہن کی تکلیف سے اللہ کو کیا فائدہ ہے وہ سواری پر حج کرے اور قسم کاکفارہ دیدے

حدیث ۱۱: رزین نے محمد بن منتشر سے روایت کی کہ ایک شخص نے یہ منت مانی تھی کہ اگر خدا نے دشمن سے نجات دی تو میں اپنے کو قربانی کردوں گا یہ سوال حضرت عبداللہ بن عباس کے پاس پیش ہوا انھوں نے فرمایا کہ مسروق سے پوچھو مسروق سے دریافت کیا تو یہ جواب دیا کہ اپنے کو ذبح نہ کر اس لئے کہ اگر تو مومن ہے تو مومن کو قتل کرنا لازم آئیگا اور اگر تو کافر ہے تو جہنم کو جانے میں جلدی کیوں کرتا ہے ایک مینڈھا خرید کر ذبح کرکے مساکین کو دیدے۔

مسائل فقہیہ

چونکہ منت کی بعض صورتوں میں بھی کفارہ ہوتا ہے اس لئے اسکو یہاں ذکر کیا جاتا ہے اس کے بعد قسم کی باقی صورتیں بیان کیجائیں گی اور اس بیان میں جہاں کفارہ کہا جائیگا اس سے وہی کفارہ مراد ہے جو قسم توڑنے میں ہوتا ہے ۔ روزہ کے بیان میں ہم نے منت کی شرطیں لکھ دی ہیں ان شرطوں کو وہاں سے معلوم کرلیں ۔

مسئلہ۱: منت کی (۲) دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اس کے کرنے کو کسی چیز کے ہونے پر موقوف رکھے مثلاً میرا فلاں کام ہو جائے تو میں روزہ رکھوں گا یا خیرات کروں گا، دوم یہ کہ ایسا نہ ہو مثلاًمجھ پر اللہ کے لئے اتنے روزے رکھنے ہیں یا میں نے اتنے روزوں کی منت مانی۔ پہلی صورت یعنی جس میں کسی شے کے ہونے پر اس کام کو معلق کیا ہواس کی دوصورتیں ہیں ۔ اگر ایسی چیز پر معلق کیا کہ اس کے ہونے کی خواہش ہے مثلاً اگر میرا لڑکا تندرست ہوجائے یا پردیس سے آجائے یا میں روزگار سے لگ جائوں تو اتنے روزے رکھوں گا یا اتنا خیرات کروں گا ایسی صورت میں جب شرط پائی گئی یعنی بیمار اچھا ہوگیا یا لڑکا پردیس سے آگیا یا روزگار لگ گیا تو اتنے روزے رکھنا یا خیرات کرنا ضرور ہے یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کام نہ کرے اوراس کے عوض میں کفارہ دیدے۔ اوراگر ایسی شرط پر معلق کیا جس کا ہونا نہیں چاہتا مثلاً اگر میں تم سے بات کروں یا تمھارے گھرآؤں تو مجھ پر اتنے روزے ہیں کہ اس کا مقصد یہ ہے کہ میں تمھارے یہاں نہیں آؤں گا تم سے بات نہیں کروں گا ایسی صورت میں اگر شرط پائی گئی یعنی اس کے یہاں گیا یا اس سے بات کی تو اختیار ہے کہ جتنے روزے کہے تھے وہ رکھ لے یاکفارہ دے (درمختار)

مسئلہ۲: منت میں ایسی شرط ذکر کی جس کا کرنا گناہ ہے اور وہ شخص بدکار ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا قصد اس گناہ کے کرنے کا ہے اور پھر اس گناہ کو کرلیا تومنت کو پورا کرنا ضرور ہے اور وہ شخص نیک بخت ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ منت اس گناہ سے بچنے کے لئے ہے مگر وہ گناہ اس سے ہوگیا تو اختیار ہے کہ منت پوری کرے یا کفارہ دے( ردالمحتار)

مسئلہ۳: جس منت میں شرط ہو اس کا حکم تو معلوم ہوچکا کہ ایک صورت میں منت پوری کرنا ہے اور ایک صورت میں اختیار ہے کہ منت پوری کرے یا کفارہ دے اوراگر شرط کا ذکرنہ ہو تو منت کا پورا کرنا ضروری ہے حج یا عمرہ یا روزہ یا نماز یا خیرات یا اعتکاف جس کی منت مانی ہو وہ کرے (عالمگیری)

مسئلہ۴: منت میں اگر کسی چیز کو معین نہ کیا مثلاً کہا اگر میرا یہ کام ہوجائے تو مجھ پر منت ہے یہ نہیں کہا کہ نماز یا روزہ یا حج وغیرہا تو اگر دل میں کسی چیز کو معین کیا ہو تو جو نیت کی وہ کرے اور اگر دلمیں بھی کچھ مقرر نہ کیا تو کفارہ دے۔(بحر)

مسئلہ۵: منت مانی اورزبان سے منت کو معین نہ کیا مگر دل میں روزہ کا ارادہ ہے تو جتنے روزوں کا ارادہ ہے اتنے رکھ لے۔ اور اگر روزہ کا ارادہ ہے مگر مقرر نہیں کیا کہ کتنے روزے تو تین روزے رکھے۔ اوراگرصدقہ کی نیت کی اور مقرر نہ کیا تو دس مسکین کو بقدر صدقہ فطر کے دے۔ یونہی اگر فقیر کے کھلانے کی منت مانی تو جتنے فقیر کھلانے کی نیت تھی اتنوں کو کھلائے اورتعداد اس وقت دل میں بھی نہ ہو تو دس فقیر کھلائے اور دونوں وقت کھلانے کی نیت تھی تو دونوں وقت کھلائے اور ایک وقت کا ارادہ ہے تو ایک وقت کھلائے او ر اگر کچھ ارادہ نہ ہوتو دونوں وقت کھلائے یا صدقہ فطر کی مقدار ان کو دے۔ اور فقیر کھلانے کی منت مانی تو ایک فقیر کو کھلائے یا صدقہ فطر کی مقدار دیدے (بحر ، عالمگیری ، وغیرہما)

مسئلہ۶: یہ منت مانی کہ اگر بیمار اچھا ہوجائے تو میں ان لوگوں کو کھانا کھلاؤں گا اور وہ لوگ مالدار ہوں تو منت صحیح نہیں یعنی اسکا پوراکرنا اس پر ضرور نہیں (بحر)

مسئلہ۷: نماز پڑھنے کی منت مانی اور رکعتوں کو معین نہ کیا تو دورکعت پڑھنی ضروری ہے اور ایک یا آدھی رکعت کی منت مانی جب بھی دو پڑھنی ضرور ہے اورتین رکعت کی منت ہے تو چار اور پانچ کی تو چھ پڑھے (عالمگیری)

مسئلہ۸: آٹھ رکعت ظہر کی منت مانی تو آٹھ واجب نہ ہونگی بلکہ چارہی پڑھنی پڑیں گی اوراگر یہ کہا کہ مجھے اللہ تعالی دو سو روپے دیدے تو مجھ پر انکے دس روپے زکوۃ ہے تو دس روپے زکوۃ کے فرض نہ ہونگے بلکہ وہی پانچ ہی فرض رہیں گے(عالمگیری)

مسئلہ۹: سو روپے خیرات کرنے کی منت مانی اوراس کے پاس اس وقت اتنے نہیں ہیں تو جتنے ہیں اتنے ہی کی خیرات واجب ہے ہاں اگر اسکے پاس اسباب ہے کہ بیچے تو سو روپے ہوجائینگے تو سو کی خیرات ضرور ہے اور اسباب بیچنے پر بھی سو نہ ہونگے تو کچھ نقد ہے وہ اور تمام سامان کی جو کچھ قیمت ہو وہ سب خیرات کردے منت پوری ہوگئی اوراگر اسکے پاس کچھ نہ ہو تو کچھ واجب نہیں (عالمگیری)

مسئلہ۱۰: یہ منت مانی کہ جمعہ کے دن اتنے روپے فلاں فقیر کو خیرات دونگا اور جمعرات ہی کو خیرات کردیے یا اس کے سوا کسی دوسرے فقیر کو دیدئیے منت پوری ہوگئی یعنی خاص اسی فقیر کو دینا ضرور نہیں نہ جمعہ کے دن دینا ضرور یونہی اگر مکہ معظمہ یامدینہ طیبہ کے فقراء پر خیرات کرنے کی منت مانی تو وہیں کے فقراء کو دینا ضروری نہی بلکہ یہاں خیرات کردینے سے بھی منت پوری ہوجائیگی۔ یونہی اگرمنت میں کہا کہ یہ روپے فقیروں پر خیرات کرونگا تو خاص انھیں روپوں کا خیرات کرنا ضرور نہیں اتنے ہی دوسرے روپے دیدئیے منت پوری ہوگئی (درمختار)

مسئلہ۱۱: جمعہ کے دن نماز پڑھنے کو منت مانی اور جمعرات کو پڑھ لی منت پوری ہوگئی یعنی جس منت میں شرطنہ ہو اس میں وقت کے تعین کا اعتبار نہیں یعنی جووقت مقرر کیا ہے اس سے پہلے بھی ادا کرسکتا ہے اور جس میں شرط ہے اس میں ضرور ہے کہ شرط پائی جائے بغیر شرط پائی جانیکے ادا کیا تو منت پوری نہ ہوئی شرط پائی جانے پر پھر کرنا پڑیگا مثلاً کہا اگر بیمار اچھا ہوجائے تو دس روپے خیرات کرونگا اور اچھا ہونے سے پہلے ہی خیرات کردیے تو منت پوری نہ ہوئی اچھے ہونے کے بعد پھر کرنا پڑیگا۔ باقی جگہ اورروپے اور فقیروں کی تخصیص دونوں میں بیکار ہے خواہ شرط ہو یانہ ہو(درمختار، ردالمحتار)

مسئلہ۱۲: اگر میرا یہ کام ہوجائے تو دس روپے کی روٹی خیرات کرونگا تو روٹیوں کا خیرات کرنا لازم نہیں یعنی کوئی دوسری چیز غلہ وغیرہ دس روپے کا خیرات کرسکتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دس روپے نقد دیدے (درمختار)

مسئلہ۱۳: دس روپے دس مسکین پر خیرات کرنے کی منت مانی اورایک ہی فقیر کو دسوں روپے دیدئیے منت پوری ہوگئی(عالمگیری)

مسئلہ۱۴: یہ کہا کہ مجھ پر اللہ کے لئے دس مسکین کا کھانا ہے تو اگر دس مسکین کو دینے کی نیت نہ ہو تو اتنا کھانا جو دس کے لئے کافی ہو ایک مسکین کو دینے سے منت پوری ہوجائیگی(عالمگیری)

مسئلہ۱۵: اونٹ یا گائے ذبح کرکے اسکے گوشت کو خیرات کرنے کی منت مانی اوراسکی جگہ سات بکریاں ذبح کرکے گوشت خیرات کردیا منت پوری ہوگئی اور یہ گوشت مالداروں کو نہیں دے سکتا دیگا تو اتنا خیرات کرنا پڑے گا ورنہ منت پوری نہ ہوگی۔(عالمگیری)

مسئلہ۱۶: اپنی اولاد کو ذبح کرنے کی منت مانی تو ایک بکری ذبح کردے منت پوری ہوجائیگی اوراگر بیٹے کو مارڈالنے کی منت مانی تو منت صحیح نہ ہوئی اور اگر خود اپنے کو یا اپنے باپ ماں دادا دادی یاغلام کو ذبح کرنے کی منت مانی تو یہ منت صحیح نہ ہوئی اسکے ذمہ کچھ لازم نہیں ۔(درمختار، عالمگیری)

مسئلہ۱۷: مسجد میں چراغ جلانے یا طاق بھرنے یا فلاں بزرگ کے مزار پر چادر چڑھانے یا گیارھویں کی نیاز دلانے یا غوث اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کا توشہ یا شاہ عبدالحق رضی اللہ تعالی عنہ کا توشہ کرنے یا حضرت جلال بخاری کا کونڈا کرنے یا محرم کی نیاز یا شربت یا سبیل لگانے یا میلاد شریف کرنے کی منت مانی تویہ شرعی منت نہیں مگر یہ کام منع نہیں ہیں کرے تو اچھا ہے۔ ہاں البتہ اس کا خیا ل رہے کہ کوئی بات خلاف شرع اسکے ساتھ نہ ملائے مثلاً طاق بھرنے میں رت جگا ہوتا ہے جس میں کنبہ اور رشتہ کی عورتیں اکھٹا ہو کر گاتی بجاتی ہیں کہ یہ حرام ہے یا چادر چڑھانے کے لئے لوگ تاشے باجے کے ساتھ جاتے ہیں یہ ناجائز ہے یا مسجد میں چراغ جلانے میں بعض لوگ آٹے کا چراغ جلاتے ہیں یہ خواہ مخواہ مال ضائع کرناہے اورناجائز ہے مٹی کا چراغ کافی ہے ۔ اور گھی کی بھی ضرورت نہیں مقصود روشنی ہے وہ تیل سے حاصل ہے۔ رہا یہ کہ میلاد شریف میں فرش و روشنی کا اچھا انتظام کرنا اور مٹھائی تقسیم کرنا یا لوگوں کو بلاوا دینا اور اس کے لئے تاریخ مقرر کرنا اور پڑھنے والوں کا خوش الحانی سے پڑھنا یہ سب باتیں جائز ہیں البتہ غلط اور جھوٹی روایتوں کا پڑھنا منع ہے پڑھنے والے اور سننے والے دونوں گنہگار ہونگے۔

مسئلہ۱۸: علم اور تعزیہ بنانے اور پیک بننے اور محرم میں بچوں کو فقیر بنانے اور بدھی پہنانے اور مرثیہ کی مجلس کرنے اور تعزیوں پر نیاز دلوانے وغیرہ خرافات جو روافض اور تعزیہ دار لوگ کرتے ہیں ان کی منت سخت جہالت ہے ایسی منت ماننی نہ چائییے اور مانی ہو تو پوری نہ کرے اور ان سب سے بدتر شیخ سدو کامرغا اور کڑاہی ہے۔

مسئلہ۱۹: بعض جاہل عورتیں لڑکوں کے کان ناک چھدوانے اور بچوں کی چوٹیا رکھنے کی منت مانتی ہیں یا اور طرح طرح کی ایسی منتیں مانتی ہیں جن کا جواز کسی طرح ثابت نہیں اولاً ایسی واہیات منتوں سے بچیں اور مانی ہوتوپوری نہ کریں اور شریعت کے معاملہ میں اپنے لغو خیالات کو دخل نہ دیں نہ یہ کہ ہمارے بڑے بوڑھے یونہی کرتے چلے آئے ہیں اور یہ کہ پوری نہ کرینگے تو بچہ مرجائیگا بچہ مرنے والا ہوگا تو یہ ناجائز منتیں بچا نہ لیں گی۔ منت مانا کرو تو نیک کام نماز ، روزہ، خیرات، درودشریف کلمہ شریف قرآن مجیدپڑھنے فقیروں کو کھانا دینے کپڑا پہنانے وغیرہ کی منت مانو اور اپنے یہاں کے کسی سنی عالم سے دریافت بھی کرلو کہ یہ منت ٹھیک ہے یا نہیں ، وہابی سے نہ پوچھنا کہ وہ گمراہ بے دین ہے وہ صحیح مسئلہ نہ بتائے گا بلکہ ایچ پیچ سے جائز امر کو ناجائز کہہ دیگا۔

مسئلہ۲۰: منت یا قسم میں انشاء اللہ کہا تواس کا پورا کرنا واجب نہیں بشرطیکہ انشاء اللہ کا لفظ اس کلام سے متصل ہو اور اگر فاصلہ ہوگیا مثلاً قسم کھا کر چپ ہوگیا یا درمیان میں کچھ اور بات کی پھر انشاء اللہ کہا تو قسم باطل نہ ہوئی۔ یونہی ہر وہ کام جوکلام کرنے سے ہوتا ہے مثلاً طلاق اقرار وغیرہما یہ سب انشاء اللہ کہدینے سے باطل ہوجاتے ہیں ۔ ہاں اگر یوں کہا میری فلاں چیز اگر خدا چاہے تو بیچ دو تو یہاں اس کو بیچنے کا اختیار رہیگا اور وکالت صحیح ہے یا یوں کہا کہ میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال انشاء اللہ خیرات کردینا تو وصیت صحیح ہے اور جو کام دل سے متعلق ہیں باطل نہیں ہوتے مثلاً نیت کی کہ کل انشاء اللہ روزہ رکھو نگا تو یہ نیت درست ہے (درمختار)

یہ مسائل کتاب بہار شریعت سے ماخوذ ہیں۔ مزید تفصیل کے لئے اصل کتاب کی طرف رجوع کریں۔

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button