الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں مفتیانِ شرع متین کہ مکۃ المکرمہ میں مسجد عائشہ اور جعرانہ سے عمرہ کی نیت کرنے سے کیا عمرہ ادا ہوجائے گا۔ اور بڑا یا چھوٹا عمرہ کی کوئی حیثیت ہے کہ نہیں ؟ برائے مہربانی احادیث اور ائمہ اربعہ کے اقوال کی روشنی میں تفصیلاً جواب عنایت فرمائیں ۔ آج کل لوگوں سے سُنا ہے کہ اس طرح عمرہ ادا نہیں ہوتا عمرہ کے لئے 35 کلومیٹر سے دُور جانا ہوگا۔ اور اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے جو یہ کہے کہ مسجدِ عائشہ اورجعرانہ سے عمرہ کے احرام کی نیت کرنے کو دل نہیں مانتا ہے ۔(السائل : محمد فاروق ناگوری، موسیٰ لین ، کراچی)
جواب
باسمہ سبحانہ تعالی و تقدس الجواب : ہر وہ شخص جو مکہ مکرمہ میں ہو اور وہ عمرہ کا احرام باندھنا چاہے اُس پر لازم ہے کہ وہ حُدودِ حرم سے باہر جاکر احرام باندھے اور مقام تنعیم اور مقام جعرانہ دونوں حُدودِ حرم سے باہر ہیں (39)۔ لہٰذا ان مقامات سے احرام باندھنا شرعاً درست ہے ۔ اور اِن مقامات کا حُدودِ حرم سے خارج ہونا اور اِن مقامات سے احرام باندھنا احادیثِ نبویہ علیہ التحیۃ والثناء سے ثابت ہے ۔ مقام تنعیم کے حِل ہونے اور حُدودِ حرم سے خارج ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اُمّ المؤمنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حجۃ الوداع میں نبی کریم اکے حکم سے مقام تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ چنانچہ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں : نبی کریم اکی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے آپ فرماتی ہیں کہ ہم نبی کریم اکے ہمراہ حجۃ الوداع میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے ہم عمرہ کا احرام باندھا پھر نبی کریم انے فرمایا جن کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج کے ساتھ عمرہ کا بھی احرام باندھیں اُس وقت تک احرام نہ کھولیں جب تک دونوں سے فارغ نہ ہوجائیں پھر جب میں مکہ مکرمہ پہنچی تو حائضہ ہوگئی (یعنی ماہواری کا خون آیا) تو میں نے نہ بیت اللہ کا طواف کیا نہ صفا مروہ کی سعی کی۔ اور میں نے بارگاہِ نبوی ا میں شکایت کی۔ آپ نے فرمایا سر کھول دو، کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ رہنے دو، میں نے ایسا ہی کیا۔ جب ہم حج پورا کرچکے تو حضور ا نے (میرے بھائی) عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے ہمراہ تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے روانہ کردیا پس میں نے عمرہ کیا۔ (40) اور امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی 261ھ کی ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ا نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے فرمایا : ’’اخْرُجْ بِأُخْتِکَ مِنَ الْحَرَمِ فَلْتُھِلَّ بِعُمْرَۃٍ‘‘ (41)
یعنی، اپنی بہن (اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) کو حرم سے لے کر جاؤ تاکہ وہ عمرہ کا احرام باندھ لے ۔ اور مقام جعرانہ کے حِل ہونے اور وہاں سے عمرہ کا احرام جائز ہونے کی دلیل یہ ہے کہ خود سرور کائنات انے اس مقام سے عمرہ کا احرام باندھا ہے ۔ چنانچہ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256ھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت قتادہ تابعی نے صحابیٔ رسول ا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا نبی انے کتنے عمرے کئے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا چار۔ ایک تو حدیبیہ والا عمرہ ذوالقعد کے مہینے میں جہاں پر مشرکوں نے آپ کو روک دیا تھا اور دوسرا آئندہ سال اُس عمرہ کی قضاماہ ذوالقعد میں جب اُن سے صلح کی۔ تیسرا جعرانہ کا عمرہ جب غزوۂ حُنَین کا مالِ غنیمت آپ نے تقسیم کیا (چوتھا حج کے ساتھ) حضرت قتادہ کہتے ہیں میں نے پوچھا حج کتنے کئے ؟ انہوں نے فرمایا ایک۔ (42) اور جعرانہ طائف اور مکہ مکرمہ کے درمیان واقع ہے مکہ مکرمہ سے تنعیم زیادہ قریب ہے اور تنعیم کی بنسبت جعرانہ کعبۃ اللہ سے کچھ دُور ہے اِسی لئے لوگ جعرانہ سے عمرہ کو بڑا عمرہ اور تنعیم سے عمرہ کو چھوٹا عمرہ کا نام دیتے ہیں ۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ یہ دونوں مقامات حُدودِ حرم سے باہر ہیں اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھنا جائز ہے اور پینتیس (35) کلومیٹر کا کوئی اعتبار نہیں ، اعتبار صرف حُدودِ حرم کا ہے اور حُدودِ حرم کسی طرف سے دُور اور کسی طرف سے نزدیک ہیں ۔ اور جو شخص یہ کہے کہ تنعیم اور جعرانہ سے احرام کے جواز کو میرا دل نہیں مانتا اُسے چاہئے کہ اپنے دل کا علاج کرے کیونکہ احکام شرع دل کے ماننے یا نہ ماننے پر موقوف نہیں بلکہ قرآن و حدیث پر موقوف ہیں اور پھر اِن مقامات کا حُدودِ حرم سے خارج ہونا اور اِن سے احرام عمرہ کے جواز پر نبی ا کا قول و فعل صحیح احادیث کے ذریعہ مروی ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
الخمیس، 22 ؍محرم الحرام 1423ھ، 4 اپریل 2002م (236_JIA)
حوالہ جات
39۔ تنعیم حرم کی قریبی حد ہے اور تنعیم کے بارے میں بے علم لوگ زیادہ باتیں کرتے ہیں حالانکہ اس مقام سے احرام باندھنے کاحکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے جو احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہے ۔اس لئے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ’’والتّنعیمُ اسمُ موضعٍ خارج الحرم‘‘ یعنی، تنعیم حدودِ حرم سے باہر ایک جگہ کانام ہے اور لکھا کہ ’’المُحرمُ من التّنعیم یقع إحرامہ من الحِلّ‘‘(غایۃ البیان ، کتاب الحج ، المواقیت ، ق197/أ) یعنی ، تنعیم سے احرام باندھنے والے کااحرام حِل سے واقع ہوتاہے ۔
40۔ صحیح البخاری، کتاب المناسک، باب کیف تھلّ الحائض و النّفساء، الحدیث : 1556، 1/384
41۔ صحیح مسلم، کتاب الحجّ، باب بیان وُجوہ الإحرام إلخ، برقم : 2893/123۔(1211)، 2/875
42۔ صحیح البخاری،کتاب العمرۃ، باب کم اعتمر النبی ﷺ،برقم : 1778، 1/436