دیدار باری تعالی

معراج کی رات دیدار باری تعالی کے وقوع کے متعلق نظریہ

اکثر صحابہ اور جمہور اہل سنت کا موقف یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو معراج کی رات اللہ تعالی کا دیدار ہوا، یہی قول صحیح ہے بلکہ بعض حفاظ نے اس پر اجماع تک نقل فرمایا ہے  ۔

معراج کی رات دیدار باری تعالی کے وقوع کے متعلق نظریہ:

قرآن پاک کی کئی آیات اور کثیر احادیث طیبات اس بات  پر شاہد ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  معراج کی رات سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار کیا ؛ لیکن  چونکہ یہ تمام نصوص ظنی اور محتمل ہیں لہذا اس کے متعلق صحابہ کرام اور فقہا و متکلمین  کی  درج ذیل تین   آراء ہیں۔

  1. بعض علما نے اس بارے میں توقف اختیار فرمایا ہے۔
  2. ایک موقف یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معراج کی رات سر کی آنکھوں سے اللہ تعالی کا دیدار نہیں کیا۔ یہ موقف بھی کئی صحابہ و فقہا و محدثین کا ہے حتی کہ بعض نے مبالغۃً اس  قول کو جمہور صحابہ کی طرف بھی  منسوب کیا ہے۔
  3. اکثر صحابہ اور جمہور اہل سنت   کا موقف یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو معراج کی رات اللہ تعالی کا دیدار ہوا، یہی قول صحیح ہے بلکہ بعض حفاظ نے اس پر اجماع تک نقل فرمایا ہے  ۔ یہی حضرت ابن عباس، حضرت انس، حضرت ابن مسعود کا ایک قول،  حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو ذر، حضرت عکرمہ، امام احمد بن حنبل، ابو الحسن الاشعری رضی اللہ تعالی عنہم  اجمعین وغیرہ کا قول ہے اور اسی قول کو اکثر مشائخ صوفیا نے اختیار فرمایا ہے۔

اس عقیدے کے منکر کا حکم:

شریعت مطہرہ کے بعض عقائد و مسائل  ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ثبوت کے لئے قطعی (یقینی) دلائل کی حاجت نہیں ہوتی بلکہ ایسے ظنی دلائل بھی کافی ہوتے ہیں جن میں   احتمال کے باعث اختلاف کی گنجائش بھی ہوتی ہے   ۔ ان کو  ”ظنیات محتملہ“ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے منکر کا حکم  یہ  ہوتا ہے کہ اسے خاطی تو کہا جائے گا لیکن وہ اس کے انکار سے گناہ گار نہیں ہو گا۔ ”حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معراج کی رات سر کی آنکھوں سے دیدار الہی سے مشرف ہونے“  کا مسئلہ بھی ”ظنیات محتملہ“ کے قبیل سے ہے کہ اس کا ثبوت ظنی دلائل سے ہے اور محتمل ہونے کی وجہ سے اس میں کئی اکابر کا  اختلاف بھی ہے؛  لہذا اس عقیدے  کا انکار کرنے والے کو چاہیے کہ  جمہور  صحابہ کرام و ائمہ دین کے موقف کو اپنائے، لیکن اس  کا انکار کرنے سے اسے  گناہ گار نہیں کہا جائے گا  ۔

معراج کی رات دیدار باری تعالی کے دلائل کا ظنی ہونا:

الشفاء شریف   اور اس کی شرح نسیم الریاض میں ہے:” أما وجوبه لنبينا صلى الله عليه وسلم والقول بأنه رآه بعينه فليس فيه قاطع(ای کما ان المنع لم یقم لمدعیہ دلیل قطعی) أيضا ولا نص (ای دلیل صریح فیہ من الکتاب و السنۃ) إذ المعول فيه على آيتي النجم والتنازع فيهما مأثور والاحتمال لهما ممكن ولا أثر قاطع متواتر عن النبي صلى الله عليه وسلم بذلك  وحديث ابن عباس خبر عن اعتقاده لم يسنده إلى النبي صلى الله عليه و سلم  فيجب العمل باعتقاد مضمنه (یعنی ان الرؤیۃ العینیۃ لیس فیھا نص قرآنی ولا حدیث قطعی حتی یجب اعتقادہ ، ویکفر منکرہ )  ولا مانع قطعی یردہ (و ھو لا ینافی ان الاصح الراجح انہ رای ربہ بعین راسہ حین اسری بہ کما ذھب الیہ اکثر الصحابہ الا انہ لما ورد و نقل خلافہ ایضا ذھب الی انہ امر غیر قطعی )    ملتقطا“ ترجمہ: جہاں تک ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے  دیدار الہی ہونے کا معاملہ ہے اور یہ کہنا  کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر کی آنکھوں سے اللہ عزوجل کے دیدار مشرف ہوئے   ؛ اس پر کوئی قطعی دلیل یا  کتاب اللہ یا سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی صریح نص نہیں ہے، جیسے کہ دیدار الہی نہ ہونے کا دعوی کرنے والے کے پاس بھی  کوئی قطعی دلیل نہیں ہے۔ اس میں اعتماد سورت نجم کی دو آیتوں پر ہے اور ان میں اختلاف بیان کیا گیا ہے اور ان دونوں میں احتمال بھی ممکن ہے اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بارے میں کوئی متواتر قطعی حدیث منقول ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت  میں ان کے اپنے عقیدے کی خبر ہے ، انہوں نے اس کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف نہیں فرمائی     کہ اس پر اعتقاد رکھنا لازمی ہو یعنی جاگتی آنکھوں سے رؤیت پر نہ تو کوئی نص قرآنی ہے اور نہ حدیث قطعی ہے کہ اس پر اعتقاد واجب ہو اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہو اور نہ ہی کوئی ایسی قطعی دلیل ہے کہ اس واقعے کو رد کر دے۔ اور یہ اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصح اور راجح  یہی موقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معراج کی رات اپنے سر کی آنکھوں سے اپنے رب عزوجل کا دیدار فرمایا، جیسا کہ اکثر صحابہ کرام  کا یہی موقف رہا۔ ہاں ! یہ ہے کہ جب دو طرفہ آراء موجود ہیں تو معلوم ہوا کہ یہ معاملہ غیر قطعی ہے۔([1])

امام تقی الدین سبکی رحمہ اللہ (وفات: 756ھ) شفاء شریف کی مندرجہ بالا عبارت کی شرح میں فرماتے ہیں: ” قلت: وليس من شرطه أن يكون قاطعًا أو متواترًا، بل متى كان حديث صحيح ولو ظاهرًا وهو من رواية الآحاد جاز أن يعتمد عليه في  ذلك، لأن ذلك ليس من مسائل الاعتقاد التي يشترط فيها القطع “ ترجمہ: میں کہتا ہوں: اس عقیدے کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ یہ متواتر یا قطعی ہو بلکہ جب ایک حدیث صحیح موجود ہے، اگرچہ ظاہری طور پر اور وہ روایت احاد میں سے ہے تو اس معاملے میں اس پر اعتماد کرنا جائز ہے  کیونکہ یہ ان اعتقادی مسائل میں سے نہیں ہے جن میں قطعی دلیل ہونا شرط ہوتی ہے۔([2])

معراج کی رات دیدار باری تعالی کے متعلق مختلف مواقف:

المعتقد المنتقد میں ہے: ”قال صاحب الکنز : قد صح وقوعھا  لہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، وھذا قول  الجمہور اھل السنۃ ، وھو  الصحیح ، وھو مذھب ابن عباس، و انس، و احد القولین ابن مسعود، و ابی ھریرۃ، و ابی ذر، و عکرمہ، و احمد بن حنبل، و ابی الحسن الاشعری، و غیرھم  ونفتھا عائشۃ، و ابن مسعود فی اشھر قولیہ ، و ابو ھریرۃ، و علیہ جماعۃ من المحدثین من الفقھاء و المتکلمین، وقال معمر: ما عائشۃ عندنا باعلم من ابن عباس، وتوقف بعضھم کسعید بن جبیر، واحمد بن حنبل فی احد قولیۃ بعض اکابر مالکیۃ، وتبعھم القاضی عیاض“ ترجمہ:  صاحب کنز فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دیدار باری تعالی کا وقوع ہوا تھا ، یہی جمہور اہل سنت کا موقف ہے ، یہی صحیح ہے اور یہی حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت انس، حضرت عبد اللہ بن مسعود کا ایک قول، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ابوذر، حضرت عکرمہ، امام احمد بن حنبل، امام ابو الحسن اشعری وغیرہ  رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کا مذہب ہے۔ حضرت عائشہ ، مشہور قول کے مطابق حضرت عبد اللہ بن مسعود اور  حضرت ابو ہریرہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین نے رؤیت باری تعالی کے وقوع کی نفی فرمائی اور یہی متکلمین اور فقہا کی ایک جماعت کا موقف ہے۔ حضرت معمر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ہمارے نزدیک حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اعلم نہیں تھیں۔ بعض افراد مثلاً حضرت سعید بن جبیر   رضی اللہ عنہ نے اس مسئلہ میں توقف اختیار فرمایا ہے ۔ بعض اکابر مالکیہ کے مطابق امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کا ایک قول یہی ہے   اور قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ نے بھی انہی کی اتباع فرمائی ہے۔([3])

ملا علی القاری رحمہ اللہ شرح شفاء میں علامہ حلبی کے حوالے سے  فرماتے ہیں: ” وهي مسألة خلاف بين السلف والخلف وإن كان جمهور الصحابة بل كلهم مع عائشة كما حكاه عثمان ابن سعيد الدارمي إجماعا للصحابة “ ترجمہ:   اس  مسئلے میں متقدمین و متاخرین میں اختلاف رہا ، اگرچہ جمہور صحابہ بلکہ تمام کے تمام حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کے موقف کے حامی رہے  جیسا کہ عثمان بن سعید دارمی رحمہ اللہ نے اس پر صحابہ کا اجماع نقل فرمایا ہے۔([4])

اکثر صحابہ اور جمہور اہل سنت کا مختار موقف:

شرح صحیح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ (وفات: 676ھ)   لکھتے ہیں:  ” و الراجح عند اکثر العلماء   انہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رای ربہ سبحانہ بعینی راسہ  لحدیث ابن عباس  وغیرہ ، وھذا لا یوخذ الا بالسماع منہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، فلا ینبغی ان یتشکک فیہ  “ ترجمہ: اکثر علما کے نزدیک راجح یہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے رب سبحانہ و تعالی کا اپنے سر کی آنکھوں سے دیدار فرمایا، اس پر حدیث ابن عباس وغیرہ شاہد ہیں اور یہ بات نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنے بغیر نہیں کی جا سکتی، لہذا اس معاملے میں شک میں پڑنا مناسب نہیں۔([5])

علامہ علی بن ابراہیم حلبی رحمہ اللہ (وفات: 1044) فرماتے ہیں: ”ذھب الی الرؤیۃ : ای المذکورۃ اکثر الصحابۃ و کثیر من  المحدثین  و المتکلمین ، بل حکی بعض الحفاظ علی وقوع الرؤیۃ لہ بعین راسہ الاجماع“ ترجمہ:  اکثر صحابہ ، کثیر محدثین اور متکلمین  آنکھوں سے دیدار باری تعالی کی طرف گئے ہیں  بلکہ بعض حفاظ نے آنکھ سے دیدار پر اجماع حکایت کیا ہے۔([6])

اکثر مشائخ صوفیا کا مختار موقف:

محقق علی الاطلاق شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”و مختار اکثر مشائخ صوفیہ نیز ثبوت رؤیت ست و بحقیقت آنحضرت را کمالے ست ورای افہام خلق و عقول ایشاں خصوصا در شب معراج کہ اتم و اکمل و اعلی  و ارفع مقام قرب او ست“ ترجمہ: اکثر مشائخ صوفیا کا مختار یہ ہے کہ آپ نے اپنے رب عزوجل کو دیکھا ہے اور حقیقت میں  نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ کمال حاصل ہوا جو مخلوق کی عقلوں سے ماوراء ہے اور معراج کی شب آپ کو جو کمال و مقام قرب حاصل ہوا وہ تمام کمالات سے بڑھ کر تھا۔([7])

ظنیات محتملہ کے منکر  کا حکم:

فتاوی رضویہ  میں ہے :” مانی ہوئی باتیں چار (4) قسم ہوتی ہیں:(1)ضروریات دین: ان کا ثبوت قرآن عظیم یا حدیث متواتر یا اجماع  قطعیات الدلالات واضحۃ الافادات سے ہوتا ہے جن میں نہ شبہے کی گنجائش نہ تاویل کو راہ۔۔۔(2)ضروریات مذہب اہلسنت: ان کا ثبوت بھی دلیل قطعی سے ہوتا ہے۔ مگر ان کے قطعی الثبوت ہونے میں ایک نوعِ شبہہ اور تاویل کا احتمال ہوتا ہے ۔ ۔۔(3) ثابتات محکمہ :ان کے ثبوت کو دلیل ظنی کافی، جب کہ اس کا مفاد اکبر رائے ہو کہ جانب خلاف کو مطروح و مضمحل اور التفاتِ خاص کے ناقابل بنا دے ۔۔۔  (4) ظنّیات  محتملہ: ان کے ثبوت کے لیے ایسی دلیل ظنّی بھی کافی، جس نے جانبِ خلاف کے لیے بھی گنجائش رکھی ہو، ان کے منکر کو صرف مخطی و قصور وارکہا جائے گا نہ گنہگار ، چہ جائیکہ گمراہ ، چہ جائیکہ کافر۔ ان میں سے ہر بات اپنے ہی مرتبے کی دلیل چاہتی ہے جو فرقِ مراتب نہ کرے اور ایک مرتبے کی بات کو اس سے اعلٰی درجے کی دلیل مانگے وہ جاہل بے وقوف ہے یا مکار فیلسوف۔ “([8])

امام اہلسنت رحمہ اللہ ایک مختلف فیہ مسئلہ کے متعلق فرماتے ہیں: ” یہ مسئلہ پہلے سے علمائے امت میں مختلف رہا ہے اکثر ظاہرین جانبِ انکار رہے اور اولیائے عظام اور ان کے غلام علمائے کرام جانب اثبات واقرار رہے ،  ایسے مسئلے میں کسی طرف تکفیر چہ معنی! تضلیل کیسی! تفسیق بھی نہیں ہوسکتی ۔“([9])        

المعتمد فی المعتقد میں علامہ توربشتی رحمہ اللہ (وفات: 661ھ) فرماتے ہیں: ”بلی تضلیل نافی روا نمیداریم زیرا کہ مفضی شود بہ تضلیل صحابی و ایں روا نیست و نیز مسئلہ اجتھادیست ۔۔ و در ہیچ یک ازیں دو طائفہ طعن روا نیست “ ترجمہ: ہاں منکر رؤیت کی تضلیل ہمیں پسند نہیں  کہ اس سے صحابی کی تضلیل لازم آتی ہے جو بالکل جائز نہیں ، پھر یہ مسئلہ بھی اجتہادی ہے۔ لہذا منکرین (انکار کرنے والے) اور مثبتین (درست سمجھنے والے) دونوں میں سے کسی پر طعن کرنا درست نہیں۔([10])

حوالہ جات:

[1]…۔ نسیم الریاض  فی شرح شفاء القاضی العیاض، جلد 3، صفحۃ 142-144، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[2]…۔ السیف المسلول علی من سب الرسول، صفحہ495- 496، دار الفتح، بیروت

[3]…۔ المعتقد المنتقد، صفحہ 136-138، دار اھل سنۃ، کراچی

[4]…۔ شرح شفاء لملا علی القاری، جلد1، صفحہ 424،  دار الکتب العلمیہ، بیروت

[5]…۔ شرح صحیح مسلم للنووی، جلد3، صفحۃ 5، دار احیاء التراث العربی، بیروت

[6]…۔ سیرت حلبیہ، جلد1، صفحہ 574، دار الکتب العلمیہ، بیروت

[7]…۔ اشعۃ اللمعات، جلد4، صفحہ 455، مطبع تیج کمار، لکھنو

[8]…۔ فتاوی رضویہ،جلد29،صفحہ385، رضا فاؤنڈیشن، لاہور

[9]…۔ فتاوی رضویہ، جلد29،صفحہ413، رضا فاونڈیشن، لاہور

[10]…۔ المعتمد فی المعتقد، صفحہ 44، مکتبہ الحقیقیۃ، ترکی

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button