معاد و حشر کا بیان
(۱) بیشک زمین و آسمان اور و انس و ملک سب ایک دن فنا ہونے والے ہیں صرف ایک اللہ ہی کے لئے ہمیشگی و بقا ہے دنیا کے فنا ہونے سے پہلے چند نشانیاں ظاہر ہوں گی تین خسف ہوں یعنی آدمی زمین میں دھنس جائیں گے ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں تیسرا جزیرئہ عرب میں (مسلم جلد ۲ص۳۹۳۔)
(,۲) علم اٹھ جائے گا یعنی علماء اٹھالئے جائیں گے یہ مطلب نہیں کہ علماء تو باقی رہیں اور ان کے دلوں سے علم محو کردیا جائے گا۔ (بخاری شریف ص۲۰ مسلم ص۳۹۰ مشکوٰۃ ص۴۶۹)
(۳) جہل کی کثرت ہوگی۔
(۴) زنا کی زیادتی ہوگی اور اس بے حیائی کے ساتھ زنا ہوگا جیسے گدھے جفتی کرتے ہیں بڑے چھوٹے کسی کا لحاظ پاس نہ ہوگا (بخاری و مسلم عن انس)
(۵) مرد کم ہوں گے اور عورتیں زیادہ یہاں تک کہ ایک مرد کی سرپرستی میں پچاس عورتیں ہوں گی۔
(۶) علاوہ اس بڑے دجال کے اور تیس دجال ہوں گے کہ وہ سب دعویٰ نبوت کریں گے حالانکہ نبوت ختم ہوچکی (مسلم ص۳۹۷)
(۷) مال کی کثرت ہوگی نہر فرات اپنے خزانے کول دے گی کہ وہ سونے کے پہاڑ ہوں گے (مشکوٰۃ ص۴۶۹)
(۸) ملک عرب میں کھیتی اور باغ اور نہریں جاری ہوجائیں گی۔
(۹) دین پر قائم رہنا اتنا دشوار ہوگا جیسے مٹھی میں انگارا لینا یہاں تک کہ آدمی قبرستان میں جاکر تمنا کرے گا کہ کاش میں اس میں ہوتا (مشکوٰۃ ص۴۶۹)
(۱۰) وقت میں برکت نہ ہوگی یہاں تک کہ سال مثل مہینے کے اور مہینہ مثل ہفتہ کے اور ہفتہ مثل دن کے اور دن ایسا ہوجائے گا جیسے کسی چیز کو آگ لگی اور جلد بھڑک کر ختم ہوگئی۔ یعنی بہت جلد جلد وقت گزرے گا۔
(۱۱) زکوٰۃ دینا لوگوں پر گراں ہوگا کہ اس کو تاوان سمجھیں گے۔
(۱۲) علم دین پڑھیں گے مگر دین کے لئے نہیں۔
(۱۳) مرد اپنی عورت کا مطیع ہوگا ۔
(۱۴) ماں باپ کی نافرمانی کرے گا۔
(۱۵) اپنے احباب سے میل جول رکھے گا اور باپ سے جدائی۔
(۱۶) مسجد میں لوگ چلائیں گے۔
(۱۷) گانے باجے کی کثرت ہوگی۔
(۱۸) اگلوں پر لوگ لعنت کریں گے ان کو برا کہیں گے (مسلم ج۲ ص۳۹۴)
(۱۹) درندے جانور آدمی سے کلام کریں گے۔ کوڑے کی پھنچی جوتے کا تسمہ کلام کرے گا۔ اس کے بازار جانے کے بعد جو کچھ گھر میں ہوا بتائے گا بلکہ خود انسان کی ران اسے خبر کردے گی۔ (مشکوٰۃ ص۴۷۱ بردایت ترمذی )
(۲۰) ذلیل لوگ کو تن کا کپڑا پائوں کی جوتیاں نصیب نہ تھیں بڑے بڑے محلوں میں فخر کریں گے (مسلم ص۲۹؍۲۷)
(۲۱) دجاّل کا ظاہر ہونا کہ چالیس دن میں حرمین طیبین کے سوا تمام روئے زمین کا گشت کرے گا۔ چالیس دن میں پہلا دن سال بھر کے برابر ہوگا اور دوسرا دن مہینے بھر کے برابر اور تیسرا ہفتہ کے برابر اور باقی دن چوبیس گھنٹے کے ہوں گے اور وہ بہت تیزی کے ساتھ سیر کرے گا جیسے بادل جس کو ہوا اڑاتی ہو اس کا فتنہ بہت شدید ہوگا ایک باغ اور ایک آگ اس کے ہمراہ ہوں گی کا نام ت و دوزخ رکھے گا جہاں جائے گا یہ بھی جائے گی مگر وہ جو دیکھنے میں ت معلوم ہوگی وہ حقیقیۃً آگ ہوگی اور جو جہنم دکھائی دے گا وہ آرام کی جگہ ہوگی اور وہ خدائی کا دعویٰ کرے گا جو اس پر ایمان لائے گا اسے اپنی ت میں ڈالے گا اور جو انکار کرے گا اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ (مشکوٰۃ ص۷۴۳ و مسلم ج ۲ ص۴۰۱؍۴۰۳)
مردے جلائے گا زمین کو حکم دے گا وہ سبزے اگائے گی آسمان سے پانی برسائے گا اور ان کے لوگوں کے جانور لمبے چوڑے خوب تیار اور دودھ والے ہوجائیں گے اور ویرانے میں جائے گا تو وہاں کے دفینے شہد کی مکھیوں کی طرح دَل کے دَل اس کے ہمراہ ہوجائیں گے۔ اسی قسم کے بہت سے شعبدے دکھائے گا اور حقیقت میں یہ سب جادو کے کرشمے ہوں گے اور شیاطین کے تماشے کو واقعیت سے کچھ تعلق نہیں اسی لئے اس کے وہاں سے جاتے ہی لوگوں کے پاس کچھ نہ رہے گا حرمین شریفین میں جب جانا چاہے گا ملائکہ اس کا منہ پھیردیں گے (مشکوٰۃ ص۴۷۵) البتہ مدینہ طیبہ میں تین زلزلے آئیں گے (مسلم ص۲۰۵؍ج۲) کہ وہاں جو لوگ بظاہر مسلمان بنے ہوں گے اور دل میں کافر ہوں گے اور وہ خود علم الٰہی میں دجال پر ایمان لاکر کافر ہونے والے ہیں ان زلزلوں کے خوف سے شہر سے باہر بھاگیں گے اور اس کے فتنہ میں مبتلا ہوں گے دجال کے ساتھ یہود کی فوجیں ہوں گی اس کی پیشانی پر لکھا ہو گا ک ف ر یعنی کافر( مشکوٰۃ ص۴۷۵) جس کو ہر مسلمان پڑھے گا اور کافر کو نظر نہ آئے گا جب وہ ساری دنیا میں پھر پھر ا کر ملک شام کو جائے گا اس وقت حضرت مسیح علیہ السَّسلام آسمان سے جامع مسجد دمشق کے شرقی مینارہ پر نزول فرمائیں گے صبح کا وقت ہو گا نماز فجر کے لئے اقامت ہو چکی ہو گی حضرت امام مہدی کو کہ اس جماعت میں موجود ہو گے امامت کا حکم دیں گے ۔ حضرت امام مہدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھائیں گے۔ وہ لعین دجّال حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کی سانس کی خوشبو سے پگھلنا شروع ہو گا جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے اور ان کی سانس کی خوشبو حدّ ِ بصر تک پہنچے گی وہ بھاگے گا یہ تعاقب فرمائیں گے اور اس کی پیٹھ میں نیزہ ماریں گے اس سے وہ جہنم واصل ہوگا۔ (مشکوٰۃ ص ۴۷۳ و ابن ماجہ ص ۲۹۸، ۲۹۹)
(۲۲) حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کا آسمان سے نرول فرمانا اسمختصر کیفیت اوپر معلوم ہو چکی آپ کے زمانہ میں مال کی کثرت ہو گی یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو مال دے گا تو وہ قبول نہ کرے گا نیز اس زمانہ میں عساوت و بغض و حسد آپس میںبالکل نہ ہو گا اور عیسیٰ علیہ الصلاۃ واالسلام صلیب توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کریں گے تمام اہلِ کتاب جو قتل سے بچیں گے سب ان پر ایمان لائیں گے ( مشکوٰۃ ص ۴۷۹) تمام جہان میں ایک دین اسلام ہو گا اور ایک مذہب اہلِ سنّت۔ ایک بچے ساپب سے کھیلیں گے اور شیر اور بکری ایک ساتھ چریں گے چالیس پرس تک اقامت فرمائیں گے نکاح کریں گے اولاد بھی ہو گی بعد وفات ظاہر ہونا اس کا اجماکی واقعہ ہے کہ دنیا میں جب سب فگہ کفر کا تسلط ہو گا اس وقت تمام ابدال بلکہ تمام اولیاء سب جگہ سے سمٹ کر حرمین شریف کو ہجرت کر جائیں گے صرف وہیں اسلام رہے گا اور ساری زمین کفرستان ہو جائے گی رمضان شریف کا مہینہ ہو گا ابدال طواف میں مصروف ہوں گے اور حضرت امام مہدی بھی وہاں ہوں گے اولیاء انہیں پہچانیں گے ان سے درخواست بیعت کریں گے وہ انکار کریں گے دفعتہ غیب سے ایک آواز آئے گی :
ھٰذَا خَلِیْفَتُہ اللّٰہِ المَھْدِیُّ فاسْمَعُوْ لَہ‘ وَاطِیْعُو وْہ
یہ اللہ کا خلیفہ مہدی ہے اس کی بات سُنو اور اس کا حکم مانو
تمام لوگ ان کے دستِ مبارک پر بیعت کریں گے (مشکوٰۃ ص ۴۷۱) وہاں سے سب کو اپنے ہمراہ لے کر ملک شام کو تشریف لے جائیں گے بعد قتلِ دجّال حضرت عیسیٰ ولیہ السلام کو حکمِ الہیٰ ہو گا کہ مسلمانوں کو کوہِ طور پر لے جاؤ اس لئے کہ کچھ ایسے لوگ ظاہر کئے جائیں گے سے لڑنے کی کسی کوطاقت نہیں (مسلم ج ۲ ص ۲۴) ۔
(۲۴) یاجُوج و ماجُوج کا خروج مسلمانوں کے کوہِ طور پر جانے کے بعد یاجُوج ماجُوج ظاہر ہوں گے یہ اس قدر کثیر ہوں کے کہ ان کی پہلی جماعت بیحرہ طبریہ پر (جس کا طول دس میل ہو گا) جب گزرے کع اس کا پانی پی کر اس طرح سو کھاوے گی کہ دوسری جماعت بعد والی جب آئے گی تو کہے گی کہ یہاں پانی نہ تھا فساد و قتل و غارت سے جب فرصت پائیں گے تو کہیں گے کہ زمیںن والوں کو تو قتل کر لیا آؤ اب آسمان والوں کو قتل کیں یہ کہہ کر اپنے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے خدا کی قدرت کہ ان دے تیر اوپر سے خون آلودہ کریں گے ( مسلم ج ص ۴۰۲، ترمذی ص ۳۲۵) یہ اپنی انہی حرکتوں میں مشغول ہوں گے اور وہاں پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع اپنے ساتھیں کے محصور ہوں گے یہاں تک کہ ان کے نزدیک گائے کے سر کی وہ وقعت ہو گی جو آج تمہارے نردیک سو اشرفیوں کی نہیں اس وقت حضرت عیسیٰ ولیہ السلام مع اپنے ہمراہیوں کے دُعا فرمائیں گے اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک قسم کے کیڑے پیدا کر دے گا کہ ایک دم میںہو سب کے سب مر جائیں گے ۔ ان کے مرنے کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام پہاڑ سے اتریں گے دیکھیں گے کہ تمام زمین ان کی لاشوں اور بدبُو سے بھری پڑی ہے ایک بالشت بھی زمین خالی نہیں اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام مع اپنے ہمراہیوں کے پھر دُعا کریں گے اللہ تعالیٰ ایک قسم کے پرند بھیجے گا کہ وہ انکی لاشوں کو جہاں اللہ چائے گا پھینک آئیں گے اور ان کے تیر و کمان و ترکش کو مسلمان سات برس تک جلائیں گے پھر اس کے بعد بارش ہو گی کہ زمین کو ہموار کر چھوڑے گی اور زمین کو حکم ہو گا کہ اپنے پھلوں کو اُگا اور اپنی برکتیں اگل دے اور آسمان کو حکم ہو گا کہ اپنی برکتیں انڈیل دے تو یہ حالت ہو گی کہ ایک انا کو ایک جماعت کھائے گی اور اس کے چھلکے کے سایہ میں دس آدمی بیٹھیں گے اوردودھ میں یہ برکت ہو گی کہ ایک اونٹنی کا دودھ جماعت کو کافی ہو گا اور ایک گائے کا دودھ قبیلہ بھر کو اور ایک بکری کا خاندان بھر کو کفایت کرے گا ( مسلم ج ۲ ص ۴۰۳، ترمذی ص ۳۲۵)۔
(۲۵) دھواں ظاہر ہو گا جس سے زمین سے آسمان تک اندھیرا ہو جائے گا (ترمذی دخان ص ۳۱۸)۔
(۲۶) دابتہُ الارض کا نکلنا یہ ایک جانور ہے اس کے ہاتھ میں عصائے موسیٰ اور انگشتری سلیمان علیہ السلام ہو گی۔ عصا سیھ ہر مسلما ن کی پیشانی پر ایک نورانی نشان بنائے گا اور انگشتری سے ہر کافر کی پیشانی پر ایک سخت سیاہ دھبا اس وقت تمام مسلم و کافر علانیہ ظاہر ہوں گے یہ علامت کبھی نہ بدلے گی جو کافر ہے ہر گز ایمان نہ لائے گا اور جو مسلمان ہے ہمیشہ ایمان پر قائم رہے گا ( ابن ماجہ ص ۲۹۵)۔
(۲۷) آفتاب کا مغرب سے طلو ع ہونا۔ اس نشانی کے ظاہر ہوتے ہی توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا اس وقت کا اسلام معتبر نہیں (مسلم ج ۲ ص ۴۰۴، مشکوٰۃ ص ۴۶۵)۔
(۲۸) وفات سیّدنا عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ایک زمانہ کے بعد جب قیام قیامت کو صرف چالیس برس رہ جائیں گے (مسلم ج ۲ ص ۴۰۲) ایک خوشبو دار ٹھنڈی ہوا چلے گی جو لوگوں کی بغلو ں کے نیچے سے گزرے گی جس کا اثر یہ ہو گا کہ مسلمان کی روح قبض ہو جائے گی اور کافر ہی کافر رہ جائیں گے اور انہیں پر قیامت قائم ہو گی۔ یہ چند نشانیاں بیان کی گئیں ان میں بعض واقع وہ چکیں اور کبچھ باقی ہیں جب نشانیاں پوری ہو لیں گی اور مسلمانوں کی بغلوں لے نیچے سے وہ خوشبودار ہوا گزرے گی جس سے تمام مسلمانوں کی وفات ہو جائے گی (مشکوٰۃ ص ۴۸۱ بروایت مسلم، مشکوٰۃ ص ۴۸۴ و مسلم ج ۲ ص ۴۰۲) اس کے بعد چالیس برس کا زمانہ ایسا گزرے گا کہ اس میں کسی کے اولاد نہ ہو گی یعنی چالیس برس سے کم عُمر کا کو ئی نہ رہے گا اور دنیا میں کافر ہی کافر ہوں گے۔ اللہ کہنے والا کوئی نہ ہو گا کوئی اپنی دیوار لیستا ہو گا کہ کوئی کھانا کھاتا ہو گا غرض لوگ اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہوں گے کہ دفعتہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھونکنے کا حکم ہو گا۔ شروع شروع میں اس کی آواز بہت باریک ہو گی اور رفتہ رفتہ بہت بلند ہو جائے گی لوگ کان لگا کر اس کی آواز سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گِر پڑیں گے اور مر جائیں گے (مشکوٰۃ ص ۴۸۰انس) آسمان زمین پہاڑ یہاں تک کہ صور اور اسرافیل اور تمام ملائکہ فنا ہو جائیں گے اس وقت اس واحد حقیقی کیھ کوئی نہ ہو گا وہ فرمائے گا :
لِمَنِ الْمُلکُ الْیَوْمَ
آج کس کی بادشاہت ہے کہاں ہیں جبّارین کہاں ہیں متکبرین مگر ہے جون جو جواب دے ۔ مگر پھر خود ہی فرمائے گا۔
لِلّٰہِ الْوَاحِدُ القھَّارُ
صرف اللہ واحد قہار کی سلطنت ہے
پھر جب اللہ تعالیٰ چاہے گا اسرافیل کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کرکے دوبارہ پھونکھنے کا حکم دے گا۔ صور پھونکھتے ہی تمام اولین و آخرین ملائکہ انس و و حیوانات موجود ہو جائیں گے سب سے پہلے حضور انور ﷺ قبر مبارک سے ہوں برآمد ہونگے کہ داہنے ہاگھ میں صدیق اکبر کا ہاتھ، بائیں ہاتھ میں فاروقِ اعظم کا ہاتھ رضی اللہ تعالیٰ عنہما پھر مکہ معظمہ و مدینہ طیبہ کے مقابر میں جتنے مسلمان دفن ہیں سب کو اپنے ہمراہ لے فر میدانِ حشر میں تشریف لے جائیں گے۔
عقیدہ ۱ : قیامت بیشک قائم ہو گی اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔
عقیدہ ۲ : حشر صرف رُوح کا نہیں بلکہ روح و جسم دونوں کا ہے جو کہے صرف روحیں اٹھیں گی جسم زندہ نہ ہوں گے وہ بھی کافر ہے۔
عقیدہ ۳ : دنیا میں جو رُوح جس جسم کے ساتھ متعلق تھی اس رُوح کا حشر اسی جسم میں ہو گا یہ نہیں کہ کوئی نیا جسم پیدا کر کے اس کے ساتھ روح متعلق کر دی جائے۔
عقیدہ ۴ : جسم کے اجزاء اگرچہ مرنے کے بعد متفرق ہو گئے اور مختلف جانوروں کی غذا ہو گئے ہوںمگر اللہ تعالیٰ ان سب اجزاء کو جمع فرماکر قیامت کے دن اٹھائے گا قیامت کت دن لوگ اپنی اپنی قبروں سے ننگے بدن ننگے پاؤں ناختنہ شدہ اٹھیں گے کوئی پیدل کوئی سوار اور ان میں بعض تنہا سوار ہوں گے اور کسی سواری پر دو کسی پر تین کسی پر چار کسی پر دس ہوں گے۔ (مشکوٰۃ ص ۴۸۳ ابو ہریرہ ابن عباس) کافر منہ کے بل چلتا ہوا میدانِ حشر کو جائے گا کسی کو ملائکہ گھسیٹ کر لے جائیں گے۔ کسی کو آگ جمع کرے گی یہ میدانِ حشر ملک شام کی زمین پر قائم ہو گا۔ زمین ایسی ہموار ہو گی کہ اس کنارہ پر رائی کا دانہ گر جائے تہ دوسرے کنارے سے دکھائی دے اس دن زمین تانبے کی ہو گی (مشکوٰۃ ص ۴۸۳ بروایت مسلم) آفتاب ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا ، راوی حدیث نے فرمایا ، معلوم نہیں میل سے مراد سرمہ کی سلائی ہے یا میں مسافت اگر میل مسافت بھی ہو تو کیا بہت فاصلہ ہے کہ اب چار ہزار برس کی راہ کے فاصلہ پر ہے اور اس طرف آفتاب کی پھیٹھ ہے پھر بھی جب سر کے مقابل آجاتا ہے گھر سے باہر نکلنا دشوار ہو جاتا ہے اس وقت کہ ایک میل کے فاصلہ پر ہو گا اور اس کا منہ اس طرف ہو گا اس ی تپش کون بیان کر سکے۔ اللہ پناہ میں رکھے، بھیجے کھولتے ہوں گے اور اس کثرت سے پسینہ نکلے گا کہ ستّر گز زمین میں جذب ہو جائے گا پھر جو پسینہ زمین نہ پی سکے گی وہ اوپر چڑھے گا کسی کے ٹخنوں تک ہو گا کسی کے گھٹنوں تک کسی کے کمر ، کسی کے سینے، کسی کے گلے تک اور کافر کے تو منہ تک چڑھ کر مثل لگام کے جکڑ جائے گا جس میں وہ ڈبکیاں کھائے گا اس میں گرمی کی حالت میں پیاس کی جو کیفیت ہو گی محتاجِ بیان نہیں ، زبانیں سوکھ کر کانٹا ہو جائیں گی بعضوں کی زبانیں منہ سے باہر نکل کر آئیں گی ، دل اُبل کت گلے کو آجائیں گے، ہر مُبتلا بقدرِ گناہ تکلیف میں مبتلا کیا جائے گا (مشکوٰۃ ص ۴۸۳) جس نے چاندی سونے کی زکوٰۃ نہ دی ہو گی اس مال کو خوب گرم کرکے اس کی کروٹ اور پیشانی اور پیٹھ پر داغ کریں گے جس نے جانوروں کی زکوٰۃ نہ دی وہ گی اس کے جانور قیامت کے دن خوب تیار ہو کر آئیں گے اور اس شخص کو وہاں لٹائیں گے اور وہ جانور اپنے سینگھوںسے مارتے اور پاؤں سے روندرے اس پر گزریں گے جب سب اسی طرح گزر جائیں گے پھر اُسھر سے واپس آکر ہوہیں اس پر گزریں گے اسی طرح کرتے رہیں گے یہاں تک کہ لوگوں کا حساب ختم ہو (مسلم ج ۱ ص ۱۱۷ بروایت ابی سعید الحذری) وعلی ہذا القیاس پھر باوجود ان مصیبتوں کے کوئی کسی کا پرسانِ حال نہ ہو گا۔ بھائی سے بھائی بھاگے گا ماں باپ اولاد سے پیچھا چھڑائیں گے بی بی بچے الگ جان چڑائیں گے (قرآن کریم عبس پ ۳۰ آیت ۳۴،۳۵،۳۶) ہر ایک اپنی اپنی مصیبت میں گرفتار کون کس کا مدد گار ہو گا۔ حضرت آدم علیہ السلام کو حکم ہو تا اے آدم دوزخیوں کی جماعت الگ کر۔ عر ض کرینگے کتنے میں سے کتنے ۔ ارشاد ہو گا ہر ہزار سے نو سو ننانوے یہ وقت ہو ہو گا کہ بچے مارے غم کے بُوڑھے ہو جائیں گے۔ حمل والی کا حمل ساقط ہو جائے گا۔ لوگ ایسے دکھائی دیں گے کہ نشہ میں ہیں حالانکہ نشہ میں نہ ہوں گے و لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے (مشکوٰۃ ص ۴۸۳) غرض کہ کس مصیبت کا بیان کیا جائے ایک ہو، دو ہوں، سو ہوں، ہزار ہوں تو کوئی بیان بھی کرے ہزار یا مصائب وہ بھی ایسے شدید کہ الاماں الاماں اور یہ سب تکلیفیں دو چار گھنٹے دو چار دن دو چار ماہ کی نہیں بلکہ قیامت کا دن کہ پچاس ہزار برس کا ایک دن ہو گا۔ (بخاری ص ۶۴۲۔ ۹۷۱ حدیث شفاعت) قریب آدھے کے گزر چکا ہے اور ابھی تک اہلِ محشر اسی حالت میں ہیں (بخاری ص ۱۱۰۱، ۱۱۰۷ بروایت انس و مشکوٰۃ ص ۴۸۸) یہ اب آپس میں مشورہ کریں گے کہ کوئی اپنا سفارشی ڈھونڈنا چاہیے کہ ہم کو ان مصیبتوں سے رہائی دلائے ابھی تک تو یہی پتہ چلتا تھا کہ آخر کدھر کو جانا ہے یہ بات مشورے سے قرار پائے کی کہ حضرت آدم علیہ السلام ہم سب کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور ت میں رہنے کو جگہ دی اور مرتبہ نبوت سے سرفراز فرمایا انکی خدمت میں حاضر ہونا چاہیے وہ ہم کو اس مصیبت سے نجات دلائیں گے غرض اُفتاں و خیزاں کس کس مشکل سے ان سے پاس حاضر ہو ں گے۔ (بخاری ص ۶۸۴ برادیہ ابوہریرہ ) اور عرض کریں گے اس آدم آپ ابو البشر ہیں اللہ عزوجل نے آپ کع اپنے دستِ قدرت سے بنایا اور اپنی چنی ہوئی روح اس میں ڈالی اور ملائکہ سے آپ کو سجدہ کرایا اور ت میں آپ کو رکھا تمام چیزوں کے نام آپ کو سکھائے آپ کو صفی کیا آپ دیکھتے نہیں کہ یم کس حالت میں ہیں آپ ہماری شفاعت کیجیے اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس سے نجات دے فرمائیں گے میرا یہ مر تبہ نہیں مجھے آج اپنی جان کی فکر ہے آج ربّ عزوجل نے ایسا غضب فرمایا ہے کہ نہ پہلے کبھی ایسا غضب فرمایا نہ آئندہ فرمائے تم کسی اور کے پاس جاؤ لوگ عرض کریں گے آخر کس کے پاس ہم جائیں۔ فرمائیں گے نُوح کے پاس جاؤ کہ وہ پہلے رسول ہیں کہ زمین پر ہدایت کے لئے بھیجے گئے لوگ اسی حالت میں حضرت نُوح علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور ان کے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے کہ آپ اپنے ربّ کے حضور ہماری شفاعت کیجے کہ وہ ہمارا فیصلہ کر دے یہاں سے بھی وہی جواب ملے گا کہ میں اس لائق نہیں مجھے اپنی پڑی ہے تم کسی اور کے پاس جاؤ عرض کریں گے کہ آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں فرمائیں گے تم ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جاؤ۔ کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے مرتبہ خلُت سے سرفراز فرمایا ہے لوگ یہاںحاضر ہو ں گے وہ بھی یہی جواب دیں گے کہ میں اس کے قابل نہیں مجھے اپنا اندیشہ ہے مختصر یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃو السلام کے پاس بھیجیں گے وہ بھی یہی فرمائیں گے کہ میرے کرنے کا یہ کام نہیں ۔ آج میرے رب نے وہ غضب فرمایا ہے کہ ایسا مہ کبھی فرمایا نہ فرمائے مجھے اپنی جان کا ڈر ہے تم کسی دوسرے کے پاس جاؤ ۔ لوگ عرض کریں گے آپ ہمیں کس کے پاس بھیجتے ہیں فرمائیں گے تم ان کے حضور حاضر ہو کے ہاتھ پر فتح رکھی گئی جو آج بے خوف ہیں اور وہ تمام اولادِ آدم لے سردار ہیں۔ تم محمد ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو وہ خاتم النبین ہیں وہ آج تمہاری شفاعت فرمائیں گے۔ انہیں کے حضور حاضر ہو وہ یہاں تشریف فرماہیں۔ اب لوگ پھرتے پھراتے ٹھوکریں کھاتے رو تے چلاتے دُہائی دیتے حاضر دربار بے کس پناہ ہو کر عرض کریں گے اے محمد ﷺ اے اللہ کے نبی حضور کے ہاتھ اللہ عزوجل نے گعح باب رکھا ہے آج مطمئن ہیں ان کے علاوہ اور بہت سے فضائل بیان کرکے عرض کریں گے حضور ملاحضہ تو فرمائیں ہم کس مصیبت میں ہیں اور کس حال کو پہنچے حضور بارگاہ خداوندی میں ہماری شفاعت فرمائیں اور یم کو اس آفت سے نبات دلوائیں جاب میں ارشاد فرمائیں گے اَنَا لَھَا میں اسی کام کے لئے ہوں اَنَا صَاحِبُکُمْ میں ہی وہ ہوں جسے تم تمام جگہ ڈھونڈ آئے یہ فرماکر بارگاہِ عزت میں حاضر ہوں گے اور سجدہ کریں گے ارشاد ہوگا:
مُحَمَّدُ اِرْفَعْ رَاسَکَ وَ قُلْ تُسْمَعْ وَ سَلْ تُعْظَہ وَا شْفَعْ تُشَفَّعْ
(اے محمد ﷺ سر اٹھاؤ اور کہو تمہاری بات سنی جائے گی اور جو کچھ مانگو گے ملے گا اور شفاعت کرو تمہاری شفاعت قبول ہے)۔
دوسری روایات میں ہے :
وَقُلْ تُطَعْ
(فرماؤ تمہاری اطاعت کی جائے)
تو شفاعت کا سلسہ شروع ہو جائے گا یہاں تک کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ سے کم سے کم بھی ایمان ہو گا اس کے لئے شفاعت فراکر اسے جہنم سے نکالیں گے یہاں تک کہ جو سچے دل سے مسلمان ہ اگرچہ اس کے پاس کوئی کعک عمل نہیں ہے اسے بھی دوزخ سے نکالیں گے۔ اب تمام انبیاء اپنی امت کی شفاعت فرمائیں گے۔ اولیائے کرام، شہدا، علماء، حفّاظ حجاج بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت ہو اپنے اپنے متعلقین کی شفاعت کرے گا نابالغ بچے جو مر گئے ہیں اپنے مان باپ کی شفاعت کریں گے یہاں تک کہ علماء کے پاس کچھ لوگ آکر عرض کریں گے ہم نے آپ کے وضو کے لئے فلاں وقت پانی بھر دیا تھا کوئی کہے گا کہ میں نے آپ کو استنجے کے لئے ڈھیلا دیاتھا علماء ان تک کی شفاعت کریں گے (بخاری ص ۱۱۰۷، ۱۱۰۸ ، ابی سعید خدری مشکوٰۃ ص ۴۸۹ بروایتہ ابو ہریرہ متفق علیہ ، بخاری ۴۷۰ بروایت ابی ہریرہ و مسلم ج اوّل ص ۱۱۱، ۱۱۲ مشکوٰۃ ص ۴۹۴ مع حاشیہ ۸ بروایتہ انس و ابن ماجہ ص ۳۲۰)۔
عقیدہ ۱ : حساب حق ہے اعمال کا حساب ہونے والا ہے۔
عقیدہ ۲ : حساب کا منکر کافر ہے کسی سے تو اس طرح حساب لیا جائے گا کہ خفیتہً اس سے پوچھا جائے گا تو نے یہ کیا اوریہ کیا عرض کرے گا ہاں اے رب یہاں تک کہ گمام گناہوں کا اقرار لے لے گا اب یہ اپنے دل میں سمجھے گا کہ اب گئے۔ فرمائے گا کہ ہم نے دنیا میں تیرے عیب چھپائے اور اب بخشتے ہیں اور کسی سے سختی کے ساتھ ایک ایک بات کی باز پرس ہو گی جس سے یوں سوال ہوا کہ وہ ہلاک ہوا۔ کسی سے فرمائے گا اے فلاں کیا میں نے تجھے عزت نہ دی تجھے سردار نہ بنایا اور تیرے لئے گھوڑے اور اونٹ وغیرہ کو مسخّر نہ کیا ان کے علاسہ تعمتیں یاد دلائے گا عر ض کرے گا ہاں تو نے سب کچھ دیا تھا پھر فرمائے گا تو کیا تیراخیال تھا کہ مجھ سے ملنا ہے عرض کرے گا کہ نہیں فرمائے گا تو جیسے تو نے ہمیں یاد نہ کیا ہم بھی تجھے عذاب میں چھوڑتے ہیں (مشکوٰۃ ص ۴۸۵) بعض کافر ایسے بھی ہوں گے کہ جب نعمتیں یاد دلا کر فرمائے گا کہ تو نے کیا کیا عرض کرے گا تجھ پر اور تیری کتاب پر اور تیرے رسولوں پر ایمان لایا نماز پڑھی روزے رکھے صدقہ دیا او ر ان کے علاوہ جہاں تک ہو سکے گا نیک کاموں کا ذکر کر جائے گا ارشاد ہو گا تو اچھا تو ٹھر جا تجھ پر گواہ پیش کئے جائیں گے یہ اپنے جی میں سوچے گا مجھ پر کون گواہی دیگا اس وقت اس کے منہ پرمہرکر دی جائے گیااور اعضا کو حکم ہو گا بو ل چلو اس وقت اس کی ران اور ہاتھ پاؤں گوشت ہڈیاں سب گواہی دیں گے کہ یہ تو ایسا تھا ایسا تھا وہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا (مشکوٰ ۃ ص ۴۸۶ بروایتہ احمد و رترمذی و ابن ماجہ) نبی ﷺ نے فرمایا میری اُمت سے ستر ہزار بے حساب جبت میں داخل ہوں گے اور ان کے طفیل میں ہر ایک کے ساتھ ہزار اور رب عزوجل ان کے ساتھ تین جماعتیں اور دے گا معلوم نہیں ہر جماعت میں کتنے ہوں گے اس کا شما وہی جانے تہجد پڑھنے والے بلا حساب ت میں جائیں گے اس امت میں وہ شخص بھی ہو گا جس کے ننانوے دفتر گناہوں کے ہوں گے ارر ہر دفتر اتنا ہو گا جہاں تک نگاہ پہنسچے وہ سب کھولے جائیں گے رب عزوجل فرمائے گا ان میں سے کسی امر کا تجھے انکار تو نہیں ہے میرے فرشتوں کراماً تاتبین نیھ تجھ پر ظلم تو نہیں کیا کیا عرض کرے گا نہیں اے رب پھر فرمائے گا تیرے پاس کوئی عذر ہے عرض کرے گا نہیں اے رب۔ فرمائے گا تیری ایک نیکی ہمارے حضور ہیں ہے اور تجھ پر آج ظلم نہ ہو گا اس وقت ایک پرچہ جس میں اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلَہَ اِلاَّ الّٰلہُ وَاشْھَدُ اَنْ مُحَمَّدًا عَبْدُہ‘ وَ رَسُوْلَہ‘ ہو گا نکالا جائے گا اور حکم ہو تا جا تُلوا عرض کرے گا اے ابّ یہ پرچہ ان دفتروں کے سامنے کیا ہے ؟ فرمائے گا تجھ پر ظلم نہ ہو گا پھر ایک پلّے پر یہ سب دفتر رکھے جائیں گے اور ایک میں وہ ۔ وہ پرچہ ان دفتروں سے بھاری ہو جائے گا (مشکوٰۃ ص ۴۸۶) بالجملہ اس کی رحمت کی کوئی انتہا نہیں ۔ جس پر رحم فرمائے تھوڑی چیز بھی بہت کثیر ہے۔ (عن عبداللہ بن عمر)۔
عقیدہ ۳ : قیامت کے دن ہر شخص کو اس کانامہ اعمال دیا جائے گا نیکوں کے دہنے ہاتھ میں اور بدوں کے بائیں ہاتھ میں۔ کافر کو سینہ توڑ کر اُس کا بایاں ہاتھ اس سے پسِ پشت نکال کر پیٹھ کے پیچھے دیا جائے گا۔ (مشکوٰۃ ص ۴۸۶ عن عائشہ) ۔
عقیدہ ۴ : حوضِ کوثر کہ نبی ﷺ کو مرحمت ہوا حق ہے اس حوض کی مسافت ایک مہینہ کی راہ ہے اس کے کناروں پر موتی کے قبّے میں چاروں گوشے برابر زاویہ قائمہ ہیں اس کی مٹی نہایت خوشبودار مشک کی ہے اس کا پانی دُودھ سے زیادہ سفید شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ پاکیزہ اور اس پر برتن ستاروں سے بھی گنتی میں زیادہ جو اس کا پانی پئے گا کبھی پیاسا نہ ہو گا ام میں ت سے دو پر نالے ہر وقت گرتے ہیں ایک سونے کا دوسرا چاندی کا (مشکوٰۃ ص ۵۸۷)۔
عقیدہ ۵ : میزاں حق ہے اس پر لوگوں کے اعمال نیک ہ بک تولے جائیں تے نیکی کا پلّہ بھاری ہونے کہ یہ معنی ہیں کہ اوپر اُٹھنے دینا کا سا معاملہ نہیں کو جو بھاری ہوتا ہے نیچے کو جھکتا ہے۔
عقیدہ ۶ : حضور علیہ السلام کو اللہ عزوجل مقامِ محمود عطا فرمائے گا کہ تمام اوّلین و آخرین حضور کی حمد و ستائش کریں گے۔
عقیدہ ۷ : حضورِ اقدسﷺ کو ایک جھنڈا مرحمت ہو گا جس کو لواء الحمد کہتے ہیں تمام مومنین حضرت آدم علیہ السلام سے آخر تک سب اسی کے نیچے ہوں گے (مشکوٰۃ ص ۴۹۰ متفق علیہ)۔
عقیدہ ۸ : صراط حق ہے یہ ایک پُل ہے کہ پشت جہنم پر نصب کیا جائے گا پال سے زیادہ باریک اور تلوار سے زیادہ تیز ہو گا ۔ ت میں جانے کا یہی راستہ ہے سب سے پہلے نبی ﷺ گزر فرمائیں گے پھر اور انبیاء و مرسسلین پھر یہ امت پھر اور امتیں گزریں گی اور حسبِ اختلاف اعمال پُل صراط پر لوگ مختلف طرح سے گزریں گے بعض تو ایسے تیزی کے ساتھ گزریں گے جیسے بجلی کا کوندا کہ ابھی چمکا اور ابھی غائب ہو گیا اور بعض تیز ہوا کی طرح کوئی ایلے جیسے پرند اڑتا ہے اور بعض جیسے گھوڑا دوڑتا ہے اور بعض جیسے آدمی دوڑتا ہے یہاں تک کہ بعض شخص سُرین پر گھسٹتے ہوئے اور کوئی چیونٹی کی چال جائے گا اور پُل صراط کے دونوں جانب بڑے بڑے آنکڑے ( اللہ ہی جانے کہ وہ کتنے بڑے ہونگے) لٹکتے ہوں گے جس شخص کے بارے میں حکم ہو گا اُسے پکڑلیں گے مگر بعض تو زخمی ہو کرنجات پا جائیں گے اور بعض کو جہنم میں گرا دیں گے اور یہ ہلاک ہوا ۔ یہ تمام اہلِ محشر تہ پُل پر سے گزرنے میں مشغول مگر وہ بے گناہ گناہگاروں کا شفیع پُل کے کنارے کھڑا نہ کمال گریہ و زاری اپنی امّت عاصی کی نجات کی فکر میں اپنے رب سے دُعا کر رہا ہے ۔ رَبَّ سَلِّمْ سَلِّمْ الہیٰ ان گناہگاروں کو بچالے بچالے اور ایک اسی جگہ کیا حضور اس دن تمام مواطن میں دورہ فرماتے رہیں گے کبھی میزان تشریف لے جائیں گے اور فوراً ہی دیکھو تو حوضِ کوثر پر جلوہ فرما ہیں (مشکوٰۃ ص ۴۹۳ بروائتہ ترمذی) پیاسوں کو سیراب فرمارہے ہیں اور وہاں سے پُل پر رونق افروز ہوئے اور گرتوں کو بچایا غرض ہر جگہ انہیں کی دوہائی ہر شخص انہیں کو پکارتا انہیں سے فریا دکرتا ہے اور ان کے سوا کسی کوپکارے کہ ہر ایک تو اپنی فکر میں ہے دوسروں کو کیا پُوچھے صرف ایک یہی ہیں ہیں اپنی کچھ فکر نہیں اور تمام عالم کا بار ان کے ذمّے صَلی الّٰلہ تعالیٰ وَعلیٰ آلِہِ و۔اَصْحَابِہِ وَ بارک وَسَلّم اَلَّلھُمَّ نَجَِّنَا مَنْ اَھْوَالِ الْمَحْشَرِ بَجَاہِ ھٰذَا النَّبِی الْکَرِیْمِ عَلَیْہِ وَعَلٰیٰ اَلِہِ وَ اَ صْحَابِہِ اَفْضَلْ الصَّلاَۃِ وَالتَّسْلَیْمِ اٰمِیْنَ یہ قیامت کا دن کہ حقیقتہً قیامت کا دن ہے جو پچاس ہزار برس کا دن ہو گا جس کے مصائب بے شما ہوں گے مولیٰ عزوجل کے جو خاص بندے ہیں ان کے لئے اتنا ہلکا کر دیا جائے گا کہ معلوم ہوگا اس میں اتنا وقت صرف ہوا جتنا ایک وقت کی نماز فرض میں صرف ہوتا ہے بلکہ اس سے بھی کم یہاں تک کہ بعضوں کے لئے تو پلک جھپکنے میں سارا دن طے ہو جائے گا وَمَا اَمْرُ السَّاعَتِہ اِلاَّ کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْھُوَ اَقْرَبُ قیامت کا معاملہ نہیں مگر جیسے پلک جھپکنا بلکہ اس سے بھی کم سب سے اعظم و اعلیٰ جو مسلمانوں کہ اس روزِ نعمت ملے گی وہ اللہ عزوجل کا دیدار ہے (مشکوٰۃ ص ۴۹۰ ترمذی) کہ اس نعمت کے برابر کوئی نعمت نہیں جسے ایک باس دیدار میسر ہو گا ہمیشہ ہمیشہ اس کے ذوق میں مستغرق رہے گا کبھی نہ بھولے گا اور سب سے پہلے دیدار حضور اقدس ﷺ کو ہو گا یہاں تک تو حشرکے اہوال و احوال مختصراً بیان کئے گئے ان تمام مرحلوں کے بعد اب اسے ہمیشگی کے گھر میں جانا ہے کسی کو آرام کا گھر ملے گا جس کی آسائش کو کوئی انتہا نہیں اس کو ت کہتے ہیں یا تکلیف کے گھر جانا پڑے جس کی تکلیف کی کوئی حد نہیں اسے جہنم کہتے ہیں۔
عقیدہ ۹ : ت دوزخ کو بنے ہوئے ہزار سال ہوئے اور وہ اب موجود ہیں یہ نہیں کہ اس وقت تک مخلوق نہ ہوئیں قیامت کے دن بنائی جائیں گی ۔
عقیدہ ۱۰ : ت دوزخ حق ہیں۔ ان کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ (قرآن کریم و احادیث)۔
عقیدہ ۱۱ : قیامت و بعث و حشر و حساب و ثواب و عذاب و ت و دوزخ سب کے وہی معنی ہیں جو مسلمانوں میں مشہور ہیں جو شخص ان چیزوں کو تو حق کہے مگر ان کے نئے معنہ گھڑے ( مثلاً ثواب کے معنی اپنے حسنات کو دیکھ کر خوش ہونا اور عذاب اپنے بُرے اعمال کا دیکھ کر غم گین ہونا یا حشرفقط روحوں کا ہونا وہ حقیقتہً ان چیزوں کا منکر ہے اور ایسا شخص کافر ہے)۔ اب ت دوزخ کی مختصر کیفیت بیان کی جاتی ہے۔