سوال:
مسلمان کلمہ گو سیندہی یعنی تاڑی ( جو ایک منشی شے بمنزلہ شراب کے ہوتی ہے) بچنے کا سرکار سے اجارہ لینا اور خود بذات فروخت کرنا یا ملازمان سے فروخت کروانا اور فائدہ حاصل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
ایک عالم نے اس کی فروخت کی بابت فتوی دے دیا ہے اور فرماتے ہیں کہ گنے کا رس پینا اور اس سے فائدہ اٹھانا عوام کا طریقہ ہے۔ اسی طرح درخت سیندہی یعنی کھجور کا رس المعروف تاڑی کے بیچنے میں بھی کسی قسم کا حرج نہیں۔ کیوں کہ جس زمین میں یہ درخت ہوتے ہیں وہ زمین تو رکی رہتی ہے اور اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا اور سرکاری محصول دینا پڑ تا ہے ۔ اس لئے اس کا بدلہ اس طریق سے حاصل ہو سکتا ہے۔ لہذا اس عالم کا کہنا صحیح ہے یا غلط؟ اور اگر غلط ہے تو ایسا فتوی دینے والے اور اس پر عمل کرنے والے کی بابت شریعت میں کیا حکم ہے؟
جواب:
سنا جا تا ہے کہ علی الصباح جب جاڑوں میں برتن تاڑی کا درخت سے کھولا جا تا ہے اس میں نشہ نہیں ہوتا اور کچھ دیر بعد اس میں نشہ آ تا ہے لہذا جس شخص کو بیچی جائے اگر وہ کافر ہے اور تاڑی میں ابھی نشہ ہی نہیں آیا ہے مگر یہ معلوم ہے کہ یہ نشہ کے واسطے خریدتا ہے تو بعض کے نزدیک اس سے بیچ کر قیمت لینا جائز ہے اور بعض کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے اور مسلمان سے بیع کی جائے اور یہ علم ہو کہ نشہ کی غرض سے خریدتا ہے باتفاق مکروہ تحریمی بلکہ امام محمد رحمہ اللہ کے نزدیک تو حرام ہے۔
مکروہ جب مطلقاً بولا جائے تو مراد مکروہ تحریمی ہوتا ہے یہ قید اس وقت ہے جب یہ لفظ باب الحظر و الاباحت میں ہو۔
(فتاوی دیداریہ، صفحہ263، مکتبہ العصر، گجرات)