ARTICLES

مسجد ہی میں اسپرے اوراب زمزم سے وضو کرنا کیسا؟

الاستفتاء : کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں حرم شریف میں وضو خانہ بہت دوربنا ہوا ہے تو تربیت کرنے والے کہتے ہیں کہ حرم میں اسپرے یا وہاں پر اب زمزم سے وضو کرلیں تو کیا اس کی اجازت ہے ؟

جواب

باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : ۔صورت مسؤلہ میں جو جگہ مخصوص ہے وہیں جاکروضو کرناچاہیے خواہ مسجد حرام ہو یاکوئی اورمسجد، کیونکہ اس سے فرش مسجد کے الودہ ہونے کا قوی امکان ہے اوریہ یاد رہے کہ مسجد کے فرش پر وضو کے پانی کے قطرے گرانا مکروہ تحریمی ہے ۔ چنانچہ صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی 1367ھ لکھتے ہیں : ہر عضو دھو کر اس پر ہاتھ پھیردینا چاہیے کہ بو ندیں بدن یا کپڑے پر نہ ٹپکیں ، خصوصا جب مسجد میں جانا ہو کہ قطروں کا مسجد میں ٹپکنا مکروہ تحریمی ہے ۔(183) لیکن اگر کسی نے مسجد ہی میں اسپرے سے وضو کرلیا تو اس کا وضو ہوجائے گابشرطیکہ چوتھائی سر کا مسح ہوجائے اوراعضاء ثلاثہ دھل جائیں اوراصح قول کے مطابق دھلنا اسی وقت شمار ہوگا جب کسی عضو پردو دو قطرے بہ جائیں ۔ چنانچہ علامہ محمد بن عبد اللہ بن غزی تمرتاشی حنفی متوفی 1004ھ اورعلامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی : 1088ھ لکھتے ہیں : (غسل الوجہ)ای اسالۃ الماء مع التقاطر ولو قطرۃ۔وفی الفیض : اقلہ قطرتان فی الاصح۔(184) یعنی،چہرے کا دھونا فرض ہے دھونے سے مراد پانی کا بہانا ہے اگر چہ ایک ہی قطرہ ہواور’’ فیض‘‘ میں ہے کہ اس کی کم از کم مقداراصح قول کے مطابق دوقطرے ہے ۔ اوراگر کسی نے اب زم زم سے وضو کیاتواس کاوضو تو ہوجائے گالیکن بہتر یہی ہے کہ اس سے بطور تبرک وضوکیا جائے کیونکہ اب زمزم کو حقیقی اور حکمی نجاست دور کرنے کے لئے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے ۔ چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی حنفی متوفی993 ھ اورملاعلی بن سلطان محمدقاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں : (ویجوز الاغتسال والتوضو بماء زمزم)ولا یکرہ عند الثلاثۃ خلافا لاحمد (علی وجہ التبرک)ای لا باس بما ذکر ،الا انہ ینبغی ان یستعملہ علی قصد التبرک بالمسح،او الغسل او التجدید فی الوضوء(ولا یستعمل الا علی شیء طاھر )فلا ینبغی ان یغسل بہ ثوب نجس ولا ان یغتسل بہ جنب ولا محدث ولا فی مکان نجس۔(185) یعنی،ماء زمزم سے تبرک کے طور پرغسل اور وضو کرناجائز ہے اور ائمہ ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک مکروہ نہیں ہے بخلاف امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے (ملا علی بن سلطان قاری حنفی فرماتے ہیں )یعنی ،جو ذکرکیا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ اسے مسح کرنے ،دھونے ،یا تجدید وضو کے لئے بطور تبرک استعمال کیا جائے ، اوراسے پاک چیز پر استعمال کیا جائے پس اس سے ناپاک کپڑے کونہیں دھونا چاہیے اور اس سے ’’ جنبی‘‘ کوغسل اور’’ محدث ‘‘کووضونہیں کرناچاہیے اور نہ ہی ناپاک جگہ میں ۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب یوم الخمیس،15 ربیع الاخر1440ھ۔ 21 دسمبر2018م FU-68

حوالہ جات

(183) بہار شریعت،طہارت کا بیان،وضوکابیان،مسئلہ50،1/298

(184) تنویر الابصار مع شرحہ الدرالمختار،کتاب الطھارۃ،ارکان الوضوء اربعۃ،ص19

(185) لباب المناسک وشرحہ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط،باب المتفرقات،فی احکام ماء زمزم، ص699

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button