سوال:
ضلع بھروچ گجرات میں ہر جگہ امام کے نماز پڑھانے پر کوئی تنخواہ مقرر نہیں بلکہ اہل دیہات نے یہ مقرر کیا ہوا ہے کہ شادی ،غمی مثلا ختم خوانی یا نکاح خوانی کے وقت کوئی رقم مقرر کی ہوئی ہے۔اگر مقرر رقم نہ کی جائے تو بعض خود غرض ایک پائی بھی نہ دیں ۔بعض جگہ علاوہ مقررہ رقم کے قدرے زمین بھی دی ہوئی ہے جو گزر کے لیے کافی ہے ۔چندہ کر کے امام کی تنخواہ دینابھی مشکل ہے۔اب یہ رقم اہل دیہات کا مقرر کرنا جائز یا ناجائز اور کیا مسجد کی رقم سے امام کو تنخواہ دینا جائز ہے یا نہیں؟ملخصاً
جواب:
مسجد کی آمدنی سے امام کو تنخواہ دی جاسکتی ہے کہ حسب فتوی متاخرین جب امام کو نوکر رکھنا جائز ہے اور اب اسی پر عمل ہے تو آمدنی مسجد کو اس کام میں صرف کیا جا سکتا ہے کہ امام کو رکھنا بھی ضروریات مسجد سے ہے یونہی امام کو نکاح خوانی کی اجرت بھی دی جاسکتی ہے ۔تلاوت قرآن پر اجرت لینا دینا ناجائز ہے ہاں اگر بطور احسان اس کو کچھ دیا جائے نہ بطور اجرت تو حرج نہیں۔
(فتاوی امجدیہ، کتاب الاجارۃ ،جلد3،صفحہ 278،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)