استفتاء : ۔ کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسجد الحرام کے اندر سے آبِ زم زم بھر کر باہر لانا شرعاً کیسا ہے ؟ نیز مسجد نبوی شریف سے آبِ زم زم بھرنا شرعاً کیسا ہے ؟
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : آبِ زم زم اپنے وطن لانا مستحب ہے ، چنانچہ علامہ رحمت اللہ سندھی (267) اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252ھ (268) لکھتے ہیں :
و یُستحبُّ حملُہ إلی البلاد
یعنی، آب زم زم کا اپنے شہروں کی طرف لے جانا مستحب ہے ۔ اور علامہ ابو منصور محمد بن مکرم بن شعبان الکرمانی الحنفی متوفی 597ھ لکھتے ہیں :
فإنہ یجوز إخراجہ من مکۃ (269)
یعنی، آب زمزم کو مکہ سے لے جانا جائز ہے ۔ اور ظاہر ہے کہ چشمۂ زم زم مسجد الحرام کے اندر ہے اور حضور ا کے ظاہری زمانۂ مبارکہ میں بھی اندر ہی تھا، مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی متوفی 1174ھ لکھتے ہیں :
مسجد در آن زمان ہمیں قدر بود کہ معروف است الآن بمطاف فقط (270)
یعنی، مسجد اس زمانے میں اسی قدر تھی جو اَب (یعنی مخدوم علیہ الرحمہ کہ زمانے میں ) مطاف کے نام سے معروف ہے ۔ اور اس وقت آب ِ زم زم وہاں سے پیا جاتا اور باہر بھی لے جایا جاتا تھا، چنانچہ امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی 279ھ روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
’’ أَنَّہَا کَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَائِ زَمْزَمَ وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ کَانَ یَحْمِلُہٗ‘‘ و قال أبو عیسیٰ : ہذا حدیث حسنٌ غریبٌ (271)
یعنی، آپ رضی اللہ عنہا آبِ زم زم لے جاتی تھیں اور بتاتی تھیں کہ رسول اللہ ا آبِ زمزم لے جایا کرتے تھے ۔اور امام ابوعیسیٰ نے فرمایا یہ حدیث شریف ’’حسن غریب‘‘ہے ۔ اور دوسری حدیث میں ہے :
’’ أَنَّہٗ کَانَ یَحْمِلُہٗ، وَ کَانَ یصُبُّہُ عَلَی الْمَرْضٰی وَ یَسْتَقِیْہِمْ، (وَ أَنَّہُ حَنَّکَ بِہٖ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ رضی اللہ عنہما‘‘) رواہ البیہیقی فی ’’السنن الکبریٰ‘‘، 5/202، کتاب الحج، باب الرخصۃ فی الخروج بماء زمزم)، و البخاری فی ’’التاریخ الکبیر‘‘ (3/189)، و لیس فیہما ’’أَنَّہُ حَنَّکَ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ رضی اللہ عنہما، و نقلہ علی القاری فی ’’شرح اللباب‘‘ (ص545) والشامی فی ’’حاشیتہ علی الدر‘‘ (ص4/61)
یعنی، آپ ا آبِ زمزم لے جاتے تھے اور مریضوں پر ڈالا کرتے اور انہیں پلایا کرتے تھے اور آپ انے اسی کو اپنے دہن اقدس میں لے کر حضرت حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کو گھٹی دی۔ اور ایک روایت ہے کہ
أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ کَتَبَ إِلٰی سُہَیْلِ بْنِ عَمْرٍو بِمَکَّۃَ أَنْ یَحْمِلَ إِلَی الْمَدِیْنَۃِ رَاوِیَۃً مِنْ مَائِ زَمْزَمَ (272)
یعنی ، نبی انے حضرت سہیل بن عمر کو مکہ خط لکھا کہ وہ وہاں سے ایک بڑا مٹکا آبِ زم زم کا مدینہ طیبہ لے کر آئیں ۔ لہذا اس سے معلوم ہوا کہ مسجد الحرام سے آبِ زم زم بھر کے لانا جائز ہے مگر اب چونکہ باہر بھی حکومت کی طرف سے آبِ زم زم بھرنے کا انتظام ہے اور گورنمنٹ کی طرف سے مسجد الحرام کے اندر سے آبِ زم زم بھرنے پر پابندی ہے او رحکومتی کارندوں کا دروازوں پر آنے اور جانے والوں کے پاس خالی یا بھری ہوئی بوتلیں دیکھ کر انہیں ضبط کر لینا اور انہیں جھڑکنا، ڈانٹ ڈپٹ کرنا اس کی دلیل ہے کہ مسجد الحرام سے آبِ زم زم بھرنا قانونی طور پر ممنوع ہے اس لئے مسجد کے اندرسے پانی نہیں بھرنا چاہئے اور مسجد نبوی شریف میں آبِ زم زم ان لوگوں کے لئے رکھا گیا ہے جو مسجد میں آتے ہیں اور قانونی طور پر وہاں پینے کی اجازت ہے بھر کے لے جانے کی اجازت نہیں ہے ، مسجد سے باہر( باب 7 )باب سعود کی سیدھ میں آگے بڑے نلکے لگائے گئے ہیں جہاں گھر لے جانے والوں کے آبِ زم زم بھرنے کی سہولت موجود ہے ، لہٰذا وہاں سے بھرا جائے نہ کہ مسجد کے اندر سے کیونکہ وہ صرف زائرین اور نمازیوں کے لئے ہے ۔
واللّٰہ تعالی أعلم بالصواب
(246-F)
حوالہ جات
267۔ لُباب المناسک، باب المتفرقات، فصل : فی أحکام ماء زمزم، ص293
268۔ رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الحج، باب الھدی، مطلب : فی کراھیۃ الاستنجاء بماء زمزم، تحت قولہ : یکرہ الإستنجاء بماء زمزم، 4/61
269۔ المسالک فی المناسک : 2/871
270۔ حیاۃ القلوب فی زیارۃ المحبوب، باب سیوم دربیان طواف، فصل دربیان شرائط صحت طواف، ص116
271۔ سُنَن الترمذی، کتاب(7) الحج، باب (115)، برقم : 963، 2/97
272۔ المسالک فی المناسک، القسم الثانی : فی بیان نسک الحج…إلخ، فصل فی تراب الحرم و حجارتہ، 2/871