استفتاء : کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مناسک حج کی کتاب میں قربانی کے بارے میں ہے :
فلا تجب علی المسافرین و لا علی الحاج اذا کان محرما و ان کان من اھل مکۃ اھـ (123)
یعنی، عید الاضحی کی قربانی نہ مسافروں پر واجب ہے اور نہ حاجی پر جب کہ محرم ہو اگرچہ اہل مکہ میں سے ہو۔ مندرجہ بالا عبارت میں ’’نہ مسافر پر اور نہ حاجی‘‘ پرہے ۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسافر کا ذکر فرمایا اور خاص طور پر حاجی کو علیحدہ ذکر فرمایا اور جہاں مقیم پر قربانی کا ذکر ہے ، وہاں ہر مقام پر اہل مکہ کا ذکر ہے جس سے حاجی کا استثناء معلوم ہوتا ہے ۔ دوسرے اسی عبارت میں نماز عید کی رخصت کا ذکر ہے کہ فرمایا :
کما سقط عنہم صلاۃ العید اجماعا
یعنی، جیسا کہ ان پر سے بالاجماع عید کی نماز ساقط ہے ۔ اور پھر حاشیہ ’’ارشاد الساری ‘‘میں ہے :
و الاضحیۃ انما تجب … اذا کان محرما من اہل مکۃ،
اس سے بھی ظاہر ہے کہ حاجی مقیم ہو یا مسافر اس پر قربانی واجب نہیں ہے ۔
(السائل : محمد اقبال ضیائی، مدینہ منورہ)
جواب
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب : فقہاء کرام کی عبارت ’’فلا تجب علی المسافرین و لا علی الحاج اذا کان محرما‘‘ میں حاجی سے مراد مسافر حاجی ہیں جیسا کہ شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی حنفی متوفی 490ھ لکھتے ہیں :
و اراد بالحاج المسافرین ۔ ملخصا (124)
یعنی، انہوں نے حجاج سے مراد مسافر لئے ہیں ۔ اسی طرح علامہ علاؤ الدین ابو بکر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی 587 ھ(الف-129) اور ان سے علامہ حسن بن عمار شرنبلالی حنفی متوفی 1069ھ (ب-129)اور علامہ سید محمد ابو السعود حنفی لکھتے ہیں :
و اراد بالحاج المسافر
یعنی، امام محمد نے حاجی سے مراد مسافر کو لیا ہے ۔ اور علامہ علاو الدین حصکفی حنفی متوفی 1088ھ نے صراحت کر دی کہ
فلا تجب علی حاج مسافرٍ (125)
یعنی، پس قربانی حاجی مسافرپر واجب نہیں ۔ لہٰذا حاجی اگر مسافر ہو گا تو اس پر قربانی واجب نہیں ہو گی اور اگر مقیم ہو گا تو وجوب کی دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں اس پر قربانی واجب ہو گی، چنانچہ سید ثابت ابو المعالی حنفی اور علامہ محمد حسن شاہ حنفی لکھتے ہیں :
و اما الاضحیۃ : فان کان مسافرا فلا تجب علیہ، الا کالمکی فتجب کما فی ’’البحر‘‘ (126)
یعنی، مگر قربانی پس اگر مسافر ہے تو اس پر واجب نہیں ورنہ (یعنی حاجی اگر مسافر نہیں ہے بلکہ مقیم ہے تو وہ وجوب قربانی میں ) مکی کی مثل ہے جیسا کہ ’’بحر الرائق‘‘ میں ہے ۔ دوسرا یہ کہ سوال میں نماز عید کے بارے میں پیش کردہ عبارت ’’فیسقط عنہم دم الاضحیۃ تخفیفا علیہم کما سقطت عنہم صلاۃ العید اجماعا‘‘ ہے ۔ اس عبارت سے قبل یہ ہے کہ
و لعل وجہہ انہ یجب علی الحاج دم قرانٍ او متعۃٍ، و یستحب لہم دم افراد (127)
جس کا معنی ہے کہ (حاجی پر قربانی واجب نہیں جب کہ وہ محرم ہو اگرچہ اہل مکہ میں سے ہو) شاید اس کی وجہ سے کہ حاجی پر دم قران یا دم تمتع واجب ہے اور ان کے لئے دم افراد مستحب ہے ۔ اس میں ملا علی قاری حنفی نے شاید سے جواب دیا ہے جس سے ظاہر ہے کہ انہیں خود اس پر جزم نہ تھا۔ پھر حاشیہ کے حوالے سے جو عبارت ہے کہ ’’انما تجب … اذا کان محرما من اہل مکۃ‘‘ مناسک ’’ملا علی قاری‘‘میں اسی صفحہ پر ہے :
قال الحدادی : و اما اہل مکۃ فتجب علیہم و ان کان حجوا کذا فی الکرخی (128)
یعنی، حدادی نے فرمایا مگر اہل مکہ تو ان پر قربانی واجب ہے اگرچہ وہ (اس سال) حج کریں ، اسی طرح ’’کرخی‘‘ میں ہے ۔ اور سوال میں ذکر کردہ حاشیہ کی عبارت کے بعد والے حاشیے میں ہے :
(فقد قال الحدادی) : یویدہ قول الاتقانی فی ’’غایۃ البیان‘‘ : قال القدوری فی ’’شرح مختصر الکرخی‘‘ : قال فی ’’الاصل‘‘ : و لا تجب الاضحیۃ علی الحاج المسافر، فاما اہل مکۃ فتجب علیہم و ان حجوا کذا ذکرہ فی ’’شرحہ‘‘ (129)
یعنی، شارح ’’ہدایہ‘‘ علامہ اتقانی کا ’’غایۃ البیان‘‘ میں قول اس کی تائید کرتا ہے ، فرماتے ہیں امام قدوری نے ’’شرح مختصر کرخی‘‘ میں فرمایا کہ ’’الاصل‘‘ (یعنی مبسوط) میں فرمایا حاجی مسافر پر قربانی واجب نہیں ، مگر اہل مکہ تو ان پر قربانی واجب ہے اگرچہ وہ حج کریں ، اسی طرح اس کی ’’شرح‘‘ میں ذکر کیا۔ اور امام اعظم امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مذہب کو نقل کرنے والے اپ کے جلیل القدر شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی ہیں انہوں نے امام اعظم کے مذہب کو نقل کرتے ہوئے لکھا کہ حاجی پر قربانی واجب نہیں اور ان کی حاجی سے کیا مراد ہے ؟ اس کے لئے شمس الائمہ سرخسی متوفی 490ھ کی تشریح اور اس پر علامہ علاؤ الدین کاسانی متوفی 587ھ کی تائید اور علامہ حسن بن عمار شرنبلالی متوفی 1069ھ اور علامہ محمد ابو السعود حنفی کی نقل اور علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی 970ھ کا فیصلہ اور ’’فتح الرحمانی‘‘ اور ’’غنیۃ الناسک‘‘ میں اس کی نقل اس بات کی بہت بڑی شہادت ہے کہ امام محمد علیہ الرحمہ کی حاجی سے مراد مسافر حاجی ہے ورنہ وہ مکی کی مثل ہے ۔ اور امام ابو الحسین قدوری متوفی 428ھ کا امام محمد کی ’’الاصل‘‘ سے عبارت اس طرح نقل فرمانا کہ قربانی مسافر پر واجب نہیں اور اسے شارح ’’ہدایہ ‘‘علامہ اتقانی کا ’’غایۃ البیان‘‘ میں نقل کرنا اس کی بین دلیل ہے کہ امام محمد کی حاجی سے مراد مسافر حاجی ہے ۔ اس باب میں فقہاء کرام کی عبارات کا اختلاف امام محمد علیہ الرحمہ کی عبارت کو سمجھنے میں اختلاف کا نتیجہ ہے اور اس اختلاف کا حل یہی ہے کہ امام محمد علیہ الرحمہ کی عبارت کے حل کرنے میں معتمد فقہاء اور مستند کتب پر بھروسہ کیا جائے ، اعتماد میں شمس الائمہ سرخسی اور امام قدوری اور علامہ کاسانی سے بڑھ کر کون ہے اور ’’مبسوط سرخسی‘‘، ’’بدائع الصنائع‘‘، ’’غایۃ البیان ‘‘اور ’’در مختار‘‘ یقینا متداول اور قابل اعتماد کتب میں سے ہیں ۔ اس حقیر نے اس باب میں ذو القعدہ 1428ھ کو لکھے جانے والے ا یک فتوی میں عبارٰت کے اختلاف کو بیان کیا تھا اس میں ثابت کیا تھا کہ قربانی کے وجوب اور عدم وجوب کا مدار اقامت اور سفر پر ہے ۔ اسی لئے خاتمۃ المحققین امام اہلسنت امام احمد رضا حنفی نے عید الاضحی کی قربانی کے بارے میں لکھا کہ ’’وہ تو مسافر پر اصلا نہیں مقیم مالدار پر واجب ہے اگرچہ حج میں ہو۔ (130) امام اہلسنت کی مندرجہ بالا عبارت اس میں صریح ہے کہ حاجی اگر مسافر ہو تو اس پر عید الاضحیٰ کی قربانی واجب نہیں اور اگر مقیم ہو تو واجب ہے ، پھر اپ کے یہ کلمات کہ اگرچہ حج کرے جس کا مطلب قربانی کا تعلق حاجی یا غیر حاجی کے ساتھ نہیں بلکہ اس کا تعلق دیگر شرائط کے پائے جانے کے بعد مسافر اور غیر مسافر کے ساتھ ہے ، اپ نے اعتبار حج و غیر حج، احرام و غیر احرام کا نہیں کیا ، صرف اور صرف سفر اور اقامت کا کیا ہے ۔
واللٰہ تعالی اعلم بالصواب
ذو الحجۃ 1436ھـ، ستمبر 2015 م 988-F
حوالہ جات
124۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب فی جزاء الجنایات و کفاراتہا، فصل فی احکام الدماء و شرائط جوازہا، شرط الخامس عشر، ص558، 559
125۔ المبسوط للسرخسی، کتاب الذبائح، باب الاضحیۃ، 6/12/17
(الف-129)۔ بدائع الصنائع، کتاب التضحیۃ، فصل فی شرائط الوجوب، 6/282
(ب-129)۔ غنیۃ ذوی الاحکام فی بغیۃ درر الحکام، کتاب الاضحیۃ، تحت قولہ : و شرائطہا الاسلام و الاقامۃ، 1/265
فتح المعین علی شرح الکنز لملا مسکین، کتاب الاضحیۃ، تحت قولہ : مقیم، ص277
126۔ الدر المختار، کتاب الاضحیۃ، تحت قولہ : فی العقبی، ص645
127۔ فتح الرحمانی فی فتاوی السید ثابت ابی المعالی، کتاب الحن، 1/226۔ غنیۃ الناسک، باب کیفیۃ اداء التمتع المسنون، ص114
128۔ المسلک المتقسط فی المنسک المتوسط، باب الجنایات و کفاراتہا، فصل فی احکام الدماء و شرائط جوازہا، شرط الخامس عشر، تحت قولہ : یتصدق بہا، ص559
129۔ ارشاد الساری الی مناسک الملا علی القاری ، باب الجنایات و کفاراتہا، فصل فی احکام الدعاء و شرائط جوازہا، شرط الخامس عشر، تحت قولہ : یتصدق بہا، ص559
130۔ فتاوی رضویہ، کتاب الحج، جنایات، رسالہ انوار البشارۃ فی مسائل الحج، 10/752