اسللامی کتببیع عینہ

مسائل کی علت سمجھنے کی اہمیت و افادیت

ایک ماہر فقیہ وہی ہوتا ہے جو ہر صورت و مسئلے کے مدار و مناط تک پہنچتا ہے اور حکم کی علت کو سمجھ  کر آگے بڑھتا ہے اور اس کی برکت سے وہ پھر سینکڑوں نئی پیش آنے والی صورتوں کا حکم بتانے میں خطا سے بچ جاتا ہے

شریعت اسلامیہ میں مسائل کی علت سمجھنے کی اہمیت و افادیت سے کسی زی شعور کو انکار نہیں ہو سکتا۔  بارہا ایسا ہوتا ہے کہ  ظاہری طور پر دیکھنے سے دو طریقے اور صورتیں بالکل ایک دوسرے سے ملتی جلتی نظر آتی ہیں لیکن گہرے غور و خوض و تامل سے دونوں کے درمیان دقیق فرق سامنے آ جاتا ہے اور بعض اوقات یہی فرق ان دونوں صورتوں کے حکم میں فرق کا باعث بن جاتا ہے۔ مسائل فقہیہ کی گہرائی میں غوطہ لگانے والے تیراک  کا آئے دن  ایسے مسائل سے واسطہ پڑتا  رہتا ہے ۔

مثال کے طور پر ہماری شریعت مطہرہ میں جس طرح سود حرام ہے اسی طرح وہ معاملات جس میں سود کا واقعی شبہہ ہو وہ بھی حرام ہے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا تھا:دعوا الربا والريبة  یعنی ربا (سود) اور شبہہ  ربا دونوں کو چھوڑ دو۔[1]

دوسری طرف بیع کو ہماری شریعت نے حلال قرار دیا ہے۔ اب بیع یعنی خرید و فروخت کے ہی بعض ایسے طریقے بھی ہیں جن کے ذریعے وہی نتائج و ثمرات حاصل ہو جاتے ہیں جو قرض دے کر نفع لینے میں حاصل ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے قرض پر نفع تو سود ہونے کی وجہ سے حرام ہوتا ہے لیکن بیع کے ذریعے  مطلوب نفع و ثمرات حاصل کرنا ممنوع نہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بعض طریقوں میں شبہہ ربا کا اندیشہ ہوتا ہے یا بعض بیوع سے شریعت نے خاص طور پر منع فرمادیا ہوتا ہے تو اس وجہ سے وہ ممنوع ہو جاتی ہیں البتہ شبہہ ربا ہے یا نہیں ہے ، اور کس خاص صورت سے متعلق شریعت نے منع کیا ہے ، یہ چیزیں ضرور غور و فکر و توجہ کی  محتاج ہوتی  ہیں۔

مسائل کی علت سمجھنے کی اہمیت و افادیت:

لہذا ایک ماہر فقیہ وہی ہوتا ہے جو ہر صورت و مسئلے کے مدار و مناط تک پہنچتا ہے اور مسائل کی علت کو سمجھ  کر آگے بڑھتا ہے اور اس کی برکت سے وہ پھر سینکڑوں نئی پیش آنے والی  صورتوں کا حکم بتانے میں خطا سے بچ جاتا ہے جبکہ دوسری طرف وہ شخص جوفقہی مہارت نہیں رکھتا وہ مسئلے کا مناط و علت سمجھے بغیر محض ظاہری حکم کو یاد کر لیتا ہے لیکن پھر جب کوئی نئی صورت تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ پیش آتی ہے تو اس کا حکم نکالنے میں وہ اکثر خطا کر جاتا ہے ۔ صاحب بحر الرائق علامہ محقق ابن نجیم رحمۃ اللہ تعالی علیہ فتح القدیر کے حوالے سے نقل کرتے ہیں : ” ومن لم يدق نظره في مناط الأحكام وحكمها كثر خطؤه “یعنی جو شخص احکام  کے مناط (دارو مدار / علت ) کے حوالے سے دقت نظر سے کام نہیں لیتا اس کی خطائیں زیادہ ہوتی ہے۔[2]

[1]:  سنن ابن ماجہ،جلد 3، صفحہ 380، حدیث: 2276،  دار الرسالہ العالميہ، بيروت

[2]:  البحر الرائق،جلد  3، صفحہ 246، دار الکتاب الاسلامی، بیروت

حوالہ جات:
[1]:  سنن ابن ماجہ،جلد 3، صفحہ 380، حدیث: 2276،  دار الرسالہ العالميہ، بيروت [2]:  البحر الرائق،جلد  3، صفحہ 246، دار الکتاب الاسلامی، بیروت

متعلقہ مضامین

Leave a Reply

Back to top button